• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صلح اور باہمی تعلقات کی اصلاح کا بیان

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
صلح کرانے اور باہمی تعلقات کی اصلاح کا بیان
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚوَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿١٠﴾

(یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (10)
(1)
ألا أخبركم بأفضل من درجة الصيام والصلاة والصدقة ؟ قالوا : بلى ، قال : إصلاح ذات البين ، وفساد ذات البين الحالقة

الراوي: أبو الدرداء المحدث: أبو داود - المصدر: سنن أبي داود - الصفحة أو الرقم: 4919
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' کیا میں تمہیں روزے،نمازاور صدقے سے بڑھ کر افضل درجات کے اعمال نہ بتاؤں؟ '' صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے کہا : کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''آپس کے میل جول اور روابط کو بہتر بنانا ۔ (اور اس کے برعکس) آپس کے میل جول اور روابط میں پھوٹ ڈالنا (دین کو) مونڈ دینے والی خصلت ہے ۔ ''
فوائد و مسائل (فضیلة الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ :
1 ۔ فاضل محقق اس روایت کی تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے ۔ البتہ یہی متن سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے قول کے حوالے سے مؤطا امام مالک میں مروی ہے اور یہ سنداً صحیح ہے ،جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ مذکورہ روایت ہی کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔
2 ۔ حقوق اللہ میں بنیادی اہم فرائض کے فضائل و درجات کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان معاشرتی زندگی میں پسندیدہ مسلمان ہو ۔ اگر کوئی شخص حقوق اللہ کی ادائیگی میں سرگرم ہو مگر حقوق العباد میں ناکام ہو تو محض حقوق اللہ کی ادائیگی سے کما حقہ مطلوبہ فضائل و درجات حاصل نہیں ہوں گے ۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہ حسنات بھی ضائع نہ ہوجائیں ۔
(2)
صحیح بخاری < کتاب الصلح
حدیث نمبر 2578
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بنی عمرو بن عوف کے چند لوگوں کے درمیان کوئی جھگڑا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے نماز کا وقت آ گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور انہوں نے اذان دی پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے توسیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے ہیں اور نماز کا وقت آ گیا ہے کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی امامت کریں گے؟ انہوں نے کہا ہاں! اگر تمہاری خواہش ہو چنانچہ تکبیر کہی گئی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کو چیرتے ہوئے داخل ہو گئے یہاں تک کہ پہلی صف میں پہنچ گئے لوگوں نے تالی بجانی شروع کردی یہاں تک کہ ان لوگوں نے زیادتی کی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز میں کسی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے جب نگاہ پھیری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پیچھے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ سے ان کی طرف اشارہ کیا اور حکم دیا کہ نماز پڑھائیں جس طرح پڑھا رہے ہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا ہاتھ اٹھایا اللہ کی حمد بیان کیا پھر الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے یہاں تک کہ صف میں داخل ہو گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور لوگوں کو نماز پڑھائی جب فارغ ہوئے تو فرمایا اے لوگو! جب تم کو نماز میں کوئی بات پیش آجاتی ہے تو تالی بجانا شروع کردیتے ہو حالانکہ تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے نماز میں اگر کوئی بات پیش آ جائے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے اس لیے کہ جو شخص اس کو سنے گا وہ متوجہ ہوجائے گا اور اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہیں کس بات نے اس سے روکا کہ لوگوں کو نماز پڑھاؤ جب کہ میں نے اشارہ کردیا تھا سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ ابن ابی قحافہ (رضی اللہ تعالیٰ عنھما) کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔
(3)
صحیح بخاری < کتاب الصلح
حدیث نمبر 2581
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قبا کے لوگ لڑ پڑے یہاں تک کہ ایک دوسرے پر پتھر پھینکنے لگے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی
تو فرمایا ہمارے ساتھ چلو کہ صلح کرا دیں۔
(4)
صحیح بخاری < کتاب الصلح
حدیث نمبر 2591
سیدہ عمرہ بنت عبدالرحمن ، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا قول نقل کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو جھگڑے والوں کی آوازیں دروازے پر سنیں جو بلند ہو رہی تھیں
ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ مہربانی کر کے کچھ قرض معاف کردے
اور دوسرا کہہ رہا تھا کہ و اللہ میں نہیں کروں گا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا کہ کہاں ہے وہ شخص جو اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا تھا کہ میں نیکی نہیں کروں گا؟
اس نے عرض کیا میں ہوں یا رسول اللہ اور میرا ساتھی جو چاہے میں اسے معاف کر دیتا ہوں۔
(5)
صحیح بخاری < کتاب الصلح
حدیث نمبر 2580
سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو جھوٹی بات صلح کرانے کے لیے کہہ دے بشرطیکہ نیت اچھی ہو۔
تشریح (مولانا داؤد راز رحمہ اللہ) :
''مثلاًدو آدمیوں میں رنج ہو اور یہ ملاپ کرانے کی نیت سے کہے کہ وہ تو آپ کے خیر خواہ ہیں یا آپ کی تعریف کرتے ہیں ۔ قسطلانی نے کہا کہ ایسے جھوٹ کی رخصت ہے جس میں بہت فائدے کی امید ہو ۔ امام مسلم رحمہ اللہ کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تین جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت ہے ایک تو لڑائی میں ،دوسرے مسلمانوں میں آپس میں میل جول کرانے میں ، تیسرے اپنی بیوی سے ، بعضوں نے اور مقاموں کو بھی جہاں کوئی مصلحت ہو ، انہی پر قیاس کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں جھوٹ بولنا جب منع ہے جب اس سے نقصان پیدا ہو یا اس میں کوئی مصلحت نہ ہو ، بعضوں نے کہا جھوٹ ہر حال میں منع ہے اور ایسے مقاموں پر توریہ کرنا پہتر ہے ۔ مثلاً کوئی ظالم سے یوں کہے کہ میں تو آپ کے لیے دعا کیا کرتا ہوں اور مطلب یہ رکھے '' الھم اغفر للمسلمین '' کہا کرتا ہوں ، اور ضرورت کے وقت تو جھوٹ بولنا بالاتفاق جائز ہے ۔ ضرورت سے مذکورہ صلح صفائی کی ضرورت مراد ہے ، یا کسی ظالم کے ظلم سے بچنے یا کسی کو بچانے کے لیے جھوٹ بولنا ، حدیث ( انما الاعمال بالنیات) کا یہ بھی مطلب ہے ۔ ''
(6)
تین دن سے زیادہ مسلمانوں کی آپس میں بول چال بند رکھنے کے حرام ہونے کا بیان :
سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہر سوموار اور جمعرات کو (بارگاہ الہٰی میں) اعمال پیش کیے جاتے ہیں ،پس اللہ تعالٰی ہر اس شخص کے (صغیرہ) گناہ معاف فرما دیتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراتا ہو ۔ سوائے اس شخص کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان دشمنی اور کینہ ہو ۔ تو اللہ تعالٰی فرماتا ہے ، ان دونوں کو چھوڑ دو ،یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں ۔

صحیح مسلم کتاب البر والصلة ، باب النھی عن الشحناء و التھاجر


فوائد (حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ) :
''بغیر کسی سبب شرعی کے ،آپس میں دشمنی رکھنا ، مغفرت الہٰی سے محرومی کا باعث ہے ۔ اعاذنا اللہ منه ''
آخری بات :
قال الأوزاعي : ما خطوة أحب إلى الله عز وجل من خطوة من إصلاح ذات البين

امام اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں : اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ وہ قدم پسند ہیں جو مسلمانوں میں صلح اور باہمی تعلقات کی اصلاح کے لیے اٹھیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اگر کوئی شخص حقوق اللہ کی ادائیگی میں سرگرم ہو مگر حقوق العباد میں ناکام ہو تو محض حقوق اللہ کی ادائیگی سے کما حقہ مطلوبہ فضائل و درجات حاصل نہیں ہوں گے ۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہ حسنات بھی ضائع نہ ہوجائیں ۔
جزاک اللہ خیرا اخی
 
Top