• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صلوا كما رايتموني اصلي صحیح نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

شمولیت
اپریل 13، 2019
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
41
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ أَشْرَفِ الْأَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِیْنَ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم{ قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ} (ابراہیم:31)
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!)میرے ایماندار بندوں سے کہہ دیں کہ وہ نماز قائم کریں۔‘‘
الصّلوۃ (نماز )کا معنی:
الصّلٰوۃ:…یہ صَلّٰی یُصَلِّیْ صَلٰوۃً سے اسم مصدر ہے جس کا مطلب ہے
(1) نمازپڑھنا(2) دعاکرنا (3) تسبیح کرنا (4) کسی چیز پر متوجہ ہونا(5) برکت دینا (6) رحمت ، چنانچہ الصَّلٰوۃُ نمازکو کہتے ہیں جو کہ دعا اور تسبیح کا نام ہے جس کوانسان جب قلب وقالب کی توجہ کے ساتھ ادا کرتا ہے تودنیاوی زندگی میں برکت (راحت وسکون) اورآخرت میں رحمتوںکا مستحق ٹھہرتا ہے۔
نماز کی فرضیت اور اہمیت و فضیلت :
نماز دین ِاسلام کا بنیادی ستون ہے اور اس کی حیثیت اسلام میںایسے ہی ہے جیساکہ کسی خیمہ کا ستون ہو اوراس کا ستون گرنے سے خیمہ ہی گر جاتا ہے۔ اسی طرح نماز چھوڑ دینے سے اسلام بھی چھوٹ جاتاہے جیساکہ سیّدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(1)…(( رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ وَعَمُوْدُہُ الصَّلٰوۃُ۔))
’’دین کی بنیاد اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے ۔‘‘
(2) اور سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( بُنِیَ الْإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَہَادَۃِ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہٗ وَإِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ وَحَجِّ الْبَیْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ۔))
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودبرحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور (1) نماز قائم کرنااور (2) زکوٰۃ دینا اور (3) بیت اللہ کا حج کرنا اور (4) رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘
(3) اور سیّدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( خَمْسُ صَلَوَاتٍ کَتَبہُنَّ اللّٰہُ عَلَی الْعِبَادِ فَمَنْ جَآئَ ِبہِنَّ لَمْ یُضَیِّعْ مِنْہُنَّ شَیْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّہِنَّ کَانَ لَہُ عِنْدَاللّٰہِ عَہْدٌ أَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ وَمَنْ لَّمْ یَاْتِ بِہِنَّ فَلَیْسَ لَہُ عِنْدَ اللّٰہِ عَہْدٌ إِنْ شَآئَ عَذَّبَہُ وَإِنْ شَآئَ أَدْخَلَہُ الْجَنَّۃَ۔))
’’اللہ عزوجل نے بندوں پرپانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جو شخص ان کے حق کو ہلکا جانتے ہوئے ان میں سے کسی کو ضائع نہیں کرتا بلکہ انہیں اداکرتا ہے تو اللہ ربّ العزت کا اس کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اس کو جنت میں داخل کرے گا۔اور جو شخص انہیں ادا نہیں کرتا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں، چاہے اسے عذاب دے چاہے اسے جنت میں داخل کردے۔‘‘
4۔ حتی کہ سیّدنا عمروبن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلٰوۃِ وَہُمْ أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ أَبْنَائُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ۔))
’’اپنے بچوں کو نماز کاحکم دو جبکہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب دس سال کے ہوجائیں ان کو نمازنہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر الگ الگ کردو۔‘‘
چنانچہ نماز کاترک کرنا کافر اور مسلمان کے درمیان حد فاصل قرار دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ…
5۔ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(( إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ۔))
’’بے شک مسلمان اور کافر ومشرک کے درمیان صرف نماز کا فرق ہے۔‘‘
الغرض نماز کی اہمیت کے پیش نظر قیامت کے بھیانک دن میں سب سے پہلا سوال اسی نماز کے بارے میں ہوگا۔جیساکہ:
6۔ سیّدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہٖ صَلَاتُہُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ))
’’یقینا قیامت کے دن سب سے پہلے بندے کے اعمال میں سے اس کی نماز کاحساب ہوگا۔ اگر وہ درست نکلی تو کامیاب وکامران ہو گا اور اگر وہ خراب نکلی تونقصان اٹھائے گا اور خسارہ پائے گا۔‘‘
چنانچہ نمازی آدمی جہاں دنیا میں لذت وراحت اور سکون پاتا ہے وہاں قیامت کو تمام گناہوں سے پاک ہوکر سرخرو ہوگا۔جیساکہ:
7۔ سیّدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَرَأَیْتُمْ لَوْأَنَّ نَہْراً بِبَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ مِنْہُ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ ہَلْ یَبْقٰی مِنْ دَرَنِہٖ شَیْئٌ؟ قَالُوْا لَا یَبْقٰی مِنْ دَرَنِہٖ شَیْئٌ قَالَ فَذٰلِکَ مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ یَمْحُو اللّٰہُ بِہِنَّ الْخَطَایَا۔))
’’تمھارا کیا خیال ہے اگر کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ اسمیں ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرے، کیا اس کی کوئی میل کچیل باقی رہے گی؟ توصحابہ رضی اللہ عنھم کہنے لگے: اس کی میل کچیل باقی نہیں رہے گی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی طرح پانچ نمازیں ہیں کہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کردیتے ہیں۔‘‘
نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہماری نماز

جس طرح دیگر تمام نیک اعمال کے لیے دوسری شرائط کے ساتھ ساتھ ایک شرط سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کام کی مطابقت و موافقت بھی ہے، اسی طرح نماز کی قبولیت کے لیے بھی یہ شرط ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں صرف وہی نماز شرفِ قبولیت سے نوازی جائے گی، جو بعینہٖ اُس طرح ادا کی گئی ہو، جس طرح ادا کر کے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دکھلائی۔ اور اسی کا حکم بھی فرمایا، جیسا کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:(( صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ ))
’’تم بعینہٖ اسی طرح نماز پڑھو، جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘
(معلوم ہوا کہ نماز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرہر ادا کو بجالانا ضروری ہے)
اس ارشادِ گرامی سے معلوم ہوا کہ ہماری نماز کی قولی و فعلی ہیئت و حالت ہُو بہو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے نمونے کے مطابق ہونی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہماری نمازیں جتنی زیادہ مطابقت و مماثلت رکھیں گی، انھیں دربارِ الٰہی میں اتنا ہی زیادہ شرفِ قبولیت بھی ملے گا۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ہمیں تمام احکامِ قرآن کی تفسیر و تشریح اپنے قول و فعل یا عملِ مبارک اور ارشاداتِ گرامی کی شکل میں عطا فرمائی ہے، وہیں نماز کا حکمِ الٰہی بھی ہمیں قولی و عملی شکل میں بہم پہنچایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ [الحشر: ۷]
’’اور جو کچھ رسول تمھیں دیں وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دیں اس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرو! بے شک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘
اس آیتِ شریفہ میں مذکور حکمِ الٰہی کے مطابق ہم پر اللہ کی فرض کردہ نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے مسنون طریقے کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔
نیز ارشادِ ربانی ہے:
﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ ﴾ [النساء: ۸۰]
’’جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
اس ارشادِ گرامی کا مفہوم بھی یہی ہے کہ ’’حکمِ الٰہی کی تعمیل صرف اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت ہی میں ممکن ہے۔‘‘ جس طرح سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عمل میں لایا گیا کوئی نیک کام قابلِ قبول نہیں، اسی طرح نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے، سکھلائے ہوئے اور کر کے دکھلائے ہوئے طریقہ کے خلاف پڑھی جائے تو قبول نہیں ہوتی۔ اور حق تو یہ ہے کہ صرف نماز پر ہی کیا بس ہے، خلافِ پیغمبر چلنے والا کوئی شخص کبھی بھی منزلِ مقصود اور گوہر مطلوب کو نہیں پا سکتا۔ اسی نکتہ کو شیخ سعدی رحمہ اللہ نے کیا خوب انداز سے بیان کیا ہے، فرماتے ہیں : ؎
خلافِ پیمبر کسے راہ گزید کہ ہر گز بمنزل نخواہد رسید
محال است سعدی کہ راہِ صفا تواں رفت جز درپئے مصطفی ( صلی اللہ علیہ وسلم )
مگر اس کے برعکس ہماری نمازوں کا عالَم یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کبھی یہ زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کیا طریقہ بتایا ہے، وہ پڑھیں اور سیکھیں اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز سے متعلقہ ارشادات کا بچشمِ خود مطالعہ کر کے اپنی نمازوں کا ان سے موازنہ کریں۔ بلکہ ہمارا سارے کا سارا انحصار اپنے ماں باپ اور پھوپھی دادی کی نمازوں کی نقل اتارنے پر ہوتا ہے۔ جس طرح وہ نماز پڑھتے ہیں یا پڑھتے تھے، ویسے ہی ہم بھی مشینی سے انداز کے ساتھ نشست و برخاست پر مبنی چند حرکات و سکنات اور کچھ قراء ت و تلاوت اور ذکر و دعا کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اقامتِ صلاۃ یا ادائے نماز کا حق ادا کر دیا ہے۔اب آپ خود ہی فرمائیں کہ اسے کیا نام دیا جائے، نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا نمازِ آبائی، اور شاید دوسرا نام ہی ٹھیک بیٹھتا ہے، کیوں کہ ہم اپنے آبائی طریقۂ نماز کو اختیار کرتے ہیں۔ نماز کے بارے میں ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کر کے علیٰ وجہ البصیرت مسنونِ نماز نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اہتمام خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ اور ہوتا کیا ہے کہ اپنی ہی مرضی سے سنتوں کا خیال رکھے بغیر جھٹ پٹ وضو کیا، بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ اعضائے وضو کو گیلا کیا، کچھ اپنی طرف سے اضافے کیے جو ضعیف و ناقابلِ استدلال روایات کی بنیاد پر وضو کا حصہ بنا لیے گئے ہیں، پھر اللہ اکبر کہا، فر فر ثنا و الحمد للہ اور کتر کتر ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾ [الإخلاص: ۱] پڑھی اور رکوع میں چلے گئے۔ رکوع سے نجات پائی، پھر سر کو تھوڑا سا اوپر کی جانب جھٹکا دیا اور سجدے میں گر گئے۔ قومے کا پتا ہی نہیں کہ وہ بھی کوئی عمل ہے۔ پھر اس بے قرار سجدے سے سر کو تھوڑا سا اوپر کی جانب جھٹکا دیا اور کوشش کی کہ اوپر کو سر اٹھانے یا نیچے دوبارہ گرانے کے دوران ہی کسی نہ کسی طرح دونوں ہاتھ دونوں گھٹنوں کو چھو جائیں اور دوسرے سجدے کو جا لیا۔ دو سجدوں کے درمیان والے جلسے کا پتا ہی نہیں کہ وہ بھی کچھ ہے۔ اور اسی طرح دوسرے سجدے کے بارِ گراں سے بھی نجات حاصل کر لی۔ پھر دوسری رکعت کو بھی جا لیا اور جلسۂ استراحت سے ہم متعارف ہی نہیں۔آپ ہی کہیے کہ کیا کثیر مسلمانوں کی نماز واقعی ایسی نہیں ہوتی کہ ساری نماز بے چین، رکوع و سجود غیر مطمئن اور قومہ و جلسہ مضطرب، بلکہ بے نشان؟بے سرور نماز کا یہ انداز عوام الناس ہی پر بس نہیں، بلکہ ہمارے برصغیر کے کتنے ہی ائمہ مساجد ایسے ہیں کہ دورانِ امامت بھی ان کا قومہ و جلسہ مفقود اور رکوع و سجود بے حضور سے ہوتے ہیں۔ خصوصاً نمازِ تراویح کی دوڑ میں تو لوگ ان کا پیچھا کرنے سے عاجز آجاتے ہیں۔ رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ ہی نہیں، بلکہ ہم نے تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری نماز کا حسین سراپا ہی بگاڑ کر رکھا ہوا دیکھا ہے۔ ایسے ہی دلخراش مناظر کو دیکھ دیکھ کر علامہ اقبال بے ساختہ کہہ اٹھتے تھے: ؎
تیری نماز بے سرور، تیرا امام بے حضور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر!
بعض مسائل میں تو فقہی اختلافات کی آڑ لی جا سکتی ہے، مگر جو مسائل تمام ائمہ مجتہدین اور فقہا و محدّثین کے مابین متفق علیہ ہیں، ان کا بھی حلیہ بگاڑ دیا جاتا ہے۔ کسی وقت آپ مسنون نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قواعد و ضوابط کو پیش نظر رکھ کر نمازیوں کا سروے کر کے دیکھ لیں، اکیلے نمازی بھی اس سروے میں شامل کر لیں اور باجماعت بھی، طہارت و تکبیرِ اولیٰ سے لے کر صفوں کی درستی اور سلام پھیرنے تک آپ کو نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور نمازِ مسلم میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا اور پھر چار و ناچار آپ کو بھی علامہ اقبال کے ان عبقری خیالات کی داد دینا پڑے گی، جنھیں وہ یوں کہہ گئے ہیں : ؎
مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے!
اسلام کے نظامِ عبادات میں سے نماز ایک ایسا عمل ہے جس کو ادا کرنے سے مسلمانوں کو اپنے خالق و مالک سے سرگوشی کا موقع اور بارگاہِ لم یزل میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ قیامِ نماز، رکوع و سجود، قومہ و جلسہ اور قعدہ وغیرہ اپنے ربّ کے ساتھ سرگوشیوں کے مختلف انداز اور مکالمے ہیں۔ کبھی بندہ دست بستہ ہو کر اظہارِ مدعا کرتا ہے تو کبھی عبودیت جھک کر اقرارِ عجز کرتی ہے۔پھر انسان سروقد ہو کر ربوبیتِ الٰہی کی حمد و ستایش کا کلمہ پڑھتا ہے اور پھر اس کی جبینِ نیاز خاک و دھول پر سجدہ ریز ہو کر ربِّ اعلیٰ کا قرب چاہنے لگتی ہے۔ پھر غلام اپنے آقا و مالک کے سامنے دو زانو بیٹھ کر تحیاتِ سرمدی کی پاکیزہ التجاؤں سے اس کی رضا و خوشنودی کی تمنا کرتا ہے کہ شانِ کریمی اپنے در پر آئے سوالی کا دامن بھر دے اور اپنے فضل و رحمت کے عطا یاو ہدایا کے ساتھ رخصت کردے۔ ذیل میں ہم نمازِ پنج گانہ کی دو(فجر) ، تین(مغرب) اور چار (ظہر، عصر اور عشا کی) رکعتیں ادا کرنے کی مسنون کیفیت و طریقہ پیش کر رہے ہیں، جو صحیح اور کم از کم حسن درجے کی احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور اقوالِ تابعین و ائمۂ مجتہدین رحمہم اللہ کی روشنی میں بیان ہوگا۔ إن شآء اللّٰه۔
(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top