• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صلوۃ التوبۃ

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
صلاۃ التوبہ
تحریر : شیخ الحدیث، علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
انسان خطا کا پتلا ہے،بھولنا اس کی فطرت اور ودیعت میں شامل ہے،مگر مومن کا شیوہ ہے کہ غلطی پر نادم ہو کر اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے، کافر و ظالم کا وطیرہ ہے کہ وہ گناہوں پر مصر رہتا ہے،اللہ تعالیٰ کا یہ لطف و کرم ہے کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو مغفرت اور معافی کی طرف بلاتا ہے،جو اس کے دَر پر حاضر ہو جائے وہ نہ صرف اسے غفور بلکہ رحیم پاتا ہے،ہمارے اسلاف کی سنت رہی ہے کہ جب ان سے بھول ہوئی، فوراًرجوع الی اللہ کرتے۔
جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
مَا مِنْ عَبْدٍ یُّذْنِبُ ذَنْبًا فَیُحْسِنُ الطُّہُورَ ثُمَّ یَقُومُ فَیُصَلِّي رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ یَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ إِلَّا غَفَرَ لَہ، ثُمَّ قَرَأَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ : (وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِہِمْ)(آل عمران :135 )الْآیَۃَ .
'' بندہ گناہ کر بیٹھے، پھر اچھی طرح وضو کر کے کھڑا ہو جائے، دورکعت ادا کرے، اللہ سے معافی کا سوال کرے تو اللہ اسے معاف کردیتا ہے، آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وہ لوگ جب برائی یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔''
(مسند الإمام أحمد : 10/1، سنن أبي داو،د : 1521، سنن الترمذي : 604، 3006، السنن الکبریٰ للنسائي:11078، عمل الیوم واللیلۃ للنسائي:417، سنن ابن ماجۃ:1395، شعب الایمان للبیہقي : 7079، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (623)نے ''صحیح'' کہا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ''حسن'' کہا ہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَہٰذَا الْحَدِیثُ طَرِیقُہ، حَسَنٌ وَّأَرْجُو أَنْ یَّکُونَ صَحِیحًا .
''اس حدیث کی سند حسن ہے اور امید ہے یہ صحیح ہو گی۔''
(الکامل في ضعفاء الرجال : 431/1)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ حدیث ''جید الاسناد'' ہے۔
(تہذیب التہذیب : 235/1)
حافظ علائی رحمہ اللہ کہتے ہیں:'حَدِیْثٌ ثَابِتٌ' ''یہ حدیث ثابت ہے۔''
(جامع التحصیل في أحکام المراسیل، ص:57)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:'اِسْنَادُہ، حَسَنٌ' ''اس کی سند حسن ہے۔ ''
(تذکرۃ الحفاظ : 11/1)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (تفسیر ابن کثیر: 1/407)نے اس کو ''حسن'' کہا ہے۔
اسماء بن حکم جمہور کے نزدیک ''حسن الحدیث'' ہے۔
 
Top