• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صلہ رحمی ،قطع رحمی اور درمیان کی چیز

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
صلہ رحمی :
أنس بن مالک أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من أحب أن يبسط له في رزقه وينسأ له في أثره فليصل رحمه
سیدناانس رضی اللہ عنہ روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی روزی میں فراخی اور اس کی عمر میں تاخیر (یعنی اضافہ) کیا جائے تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 944 ادب کا بیان : صلہ رحمی کی وجہ سے رزق میں کشادگی کا بیان
فوائد (از حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ):
صلہ رحمی کے اخروی اجر و ثواب کے علاوہ یہ دو بڑے فائدے ہیں جو انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔ رزق میں اضافے سے مراد فی الواقع مقدار میں زیادتی ہے جو اللہ کی طرف سے کر دی جاتی ہے ،یاپھرمراد اس کے رزق میں برکت ہے،اسی طرح عمر کی زیادت کا مسئلہ ہے،یا تو یہ حقیقی طور پر زائد کر دی جاتی ہے یا مراد اس سے بھی اس کی عمر میں برکت ہے۔یعنی اس کی زندگی بہر پہلو فوائد سے لبریز ہوجاتی ہے۔
(درمیان کی چیز)احسان کا بدلہ احسان :

عن النبي صلی الله عليه وسلم قال ليس الواصل بالمکافئ ولکن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھماسے روایت ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ شخص صلہ رحمہ کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتہ دار کے ساتھ) احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے،بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے،جب اس سے قطع رحمی (بد سلوکی وغیرہ)کی جائے تو صلہ رحمی (حسن سلوک)کرے۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 949
ادب کا بیان : (249)
بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والانہیں ہے
فوائد (از حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ):
اس حدیث سے صلہ رحمی کے حقیقی تقاضے واضح ہوتے ہیں۔جو رشتے دار ادب و احترام سے پیش آئیں اورآپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں،ظاہر بات ہے،آپ بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کریں گے۔ لیکن یہ صلہ رحمی نہیں ہے۔ احسان کے بدلے احسان ہے۔اس کے برعکس آپ کا ایک قریبی رشتہ دار بد اخلاق ہے،آپ سے بدسلوکی کرتا ہے اور آپ سے تعلق توڑنے پر تُلا رہتا ہے(جیسا کہ جہالت کہ یہ مظاہرے ہمارے معاشرے میں عام ہیں )لیکن آپ صبر و تحمل اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں،بد سلوکی کا جواب حسن سلوک سے دیتے ہیں ،ترک تعلق کی کوششوں کے مقابلے میں تعلق بر قرار رکھتے ہیں۔ یہ ہے اصل صلہ رحمی،جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ انا اور وقار کا مسئلہ ہے۔اس جھوٹی انا کو شریعت کے تقاضوں پر قربان کردینا بہت دل گردے کا کام ہے۔ لیکن کمال ایمان بھی یہی ہے کہ ایسا کیا جائے ،ورنہ باہم مسکراہٹوں کے تبادلے میں تو کوئی کمال نہیں۔
قطع رحمی :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب پیدا کرنے سے فارغ ہوچکا تو رشتہ داری نے عرض کیا کہ یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحم سے تیری پناہ مانگے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس سے (تعلق)جوڑوں جو تجھ سے جوڑے اور اور اس سے قطع( تعلق )کروں جو تجھ سے قطع کرے(توڑے)، رشتہ داری نے عرض کیا کیوں نہیں (ایسا ہی ہونا چاہئے)! اللہ تعالیٰ نے فرمایا بس تجھے حاصل ہے(یعنی ایسا ہی ہوگا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْ ا اَرْحَامَكُمْ 47۔ محمد : 22)( اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو (22)) صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 945 ادب کا بیان : جو شخص صلہ رحمی کرتا ہے اللہ اسے ملاتا ہے
فوائد (از حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ) :
اس سے بھی صلہ رحمی کی تائید واضح ہے کہ یہ عمل اللہ سے خصوصی ربط و تعلق کا ذریعہ ہےاور قطع رحمی،یعنی رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی سے انکار اور ان سے تعلق بر قرار رکھنے سے اعراض،اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کا باعث ہے۔
ایک جگہ حافظ صاحب لکھتے ہیں :
رحم (رشتہ داری)کا اس طرح بولنا اور اللہ تعالٰی سے مکالمہ کرنا(جیسا کہ اس سے پہلے ایک حدیث میں گزرا)اللہ تعالٰی کے لیے کوئی مشکل نہیں۔وہ ہر ایک میں ادارک و شعور اور گویائی کی قوت پیدا کرنے پر قادر ہے۔
 
Top