• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صوفیاء کی برصغیر میں آمد از عبد الرحمن کیلانی

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
اسلام تو برصغیر میں زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی داخل ہوچکا تھا چھٹی صدی عیسوی کے اختتام اور ساتویں صدی کے ابتداء میں ’’کیرالا‘‘کے راجہ چیرامن پیرومل اسلامی نام ’’تاج الدین ‘‘نے عرب تاجر ’’شیخ سیقوالدین‘‘ کی اسلامی طرز زندگی اور ان کی تعلیمات سے متاءثر ہوکر اسلام قبول کیاتھا۔انہی راجا چیرامن کے نام پرکیرالا میں ایک مسجد ہے جس کوحضرت مالک بن دینارؓ نے سن ’’ 629 عیسوی‘‘ ’’مطابق 8 ہجری‘‘نے قائم فرمایا تھا۔
سوال یہ نہیں کہ اسلام برصغیر میں کب پھیلا اور کس نے پھیلا یا بہرحال جس بھی نے پھیلا یا ، وہ ہی اسلام پھیلا یا جس اسلام کے پیروکار ہم اور آپ ہیں اور یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ صوفیا ءنے جو اسلام برصغیر میں پھیلایا وہ نہ دیوبندی تھا نہ بریلوی اور نہ غیر مقلد ۔ بلکہ وہ وہ ہی اسلام تھا جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیکر مبعوث ہوئے تھے۔ مذکورہ صوفیاء کرام اگر خرافاتی ہوتے تو آج مسلمانوں اور اسلام کی شکل کچھ اور ہی ہوتی معلوم یہ ہوا یہ ہوا اس دور میں یہ حضرات خرافاتی نہیں تھے بلکہ خالص موحد اور سنت کے پابند تھے اور ان حضرات نے دین اسلام کی بہت خدمات انجام دی ہیں جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فقط واللہ اعلم با لصواب
 

محمد شعبان

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 03، 2011
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
19
دراصل اسلام کے برصغیر میں داخل ہونے کی بات ہی نہیں چل رہی بات تو یہ ہو رہی ہے کہ آیا کسی بزرگ، ولی یا صوفی نے برصغیر میں فروغ اسلام کے لیے کچھ کام کیا یا نہیں۔
تو میرا جواب بہر صورت اثبات میں ہوگا۔ کیونکہ جتنے بھی تاریخ نویس ہو گزرے ہیں جنہوں نے برصغیر کی تاریخ لکھی، بعضوں نے ملفوظات کو مرتب کیا ان میں اس بات کاتذکرہ ملتا ہے کہ صوفیا نے اسلام کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔
ممکن ہے بعض لوگوں نے مبالغہ سے کام لیا ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان بزرگوں نے اسلام پھیلانے میں محنت و کوشش کی۔ اگر ایسا ہوتا تو متقدمین تاریخ نویس ضرور بزرگوں کی سعی و کوشش کا انکار کرتے۔ لیکن کچھ عرصہ قبل متاخرین کی طرف سے ان بزرگان پر مختلف اعتراضات وارد کیے جا رہے ہیں جس کی اہم وجہ موجودہ دور کے نام نہاد صوفی ہیں۔ جن کو ولی یا صوفی کہنا بھی اس لفظ کی توہین ہے۔ لہذا گذارش یہ ہے کہ متقدمین صوفیا کی طرف سے کی گئی کوشش و سعی کو موجودہ دور کے کاروباری صوفیوں کے اعمال کو دیکھ کر ہرگز نہ پہچانا جائے۔
والسلام
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
دراصل اسلام کے برصغیر میں داخل ہونے کی بات ہی نہیں چل رہی بات تو یہ ہو رہی ہے کہ آیا کسی بزرگ، ولی یا صوفی نے برصغیر میں فروغ اسلام کے لیے کچھ کام کیا یا نہیں۔
تو میرا جواب بہر صورت اثبات میں ہوگا۔ کیونکہ جتنے بھی تاریخ نویس ہو گزرے ہیں جنہوں نے برصغیر کی تاریخ لکھی، بعضوں نے ملفوظات کو مرتب کیا ان میں اس بات کاتذکرہ ملتا ہے کہ صوفیا نے اسلام کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔
ممکن ہے بعض لوگوں نے مبالغہ سے کام لیا ہو لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان بزرگوں نے اسلام پھیلانے میں محنت و کوشش کی۔ اگر ایسا ہوتا تو متقدمین تاریخ نویس ضرور بزرگوں کی سعی و کوشش کا انکار کرتے۔ لیکن کچھ عرصہ قبل متاخرین کی طرف سے ان بزرگان پر مختلف اعتراضات وارد کیے جا رہے ہیں جس کی اہم وجہ موجودہ دور کے نام نہاد صوفی ہیں۔ جن کو ولی یا صوفی کہنا بھی اس لفظ کی توہین ہے۔ لہذا گذارش یہ ہے کہ متقدمین صوفیا کی طرف سے کی گئی کوشش و سعی کو موجودہ دور کے کاروباری صوفیوں کے اعمال کو دیکھ کر ہرگز نہ پہچانا جائے۔
والسلام
اس کی وجہ جہاں نام نہاد صوفیا ء ہیں وہاں متاخرین خود بھی اس فن سے نا اآشنا ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ہر جاہل کہتا ہے کہ برصغیر میں اسلام صوفیوں نے پھیلایا.... لیکن میں ڈنکے کی چوٹ کہہ رہا ہوں ان صوفیوں نے اسلام نہیں کفر پھیلایا ہے شرک پھیلایا ہے قرآن کی جگہ قوالی اور مساجد کی جگہ خانقاہوں اور آستانوں کو رواج دیا ہے عوام کو جاہل رہنے دیا گیا تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے ۔ یاد رکھیئے : " تاریخ اسلام مجاہدوں کے لہو سے عبارت ہےصوفیوں کے چلوں سے نہیں". کہا، میدان بدر میں فرشتے نظر آئے، کن کو نظر آئے فرشتے؟ صوفیوں کو یا مجاہدوں کو،یہ صحابہ صوفی ہوتے تو بدر کون لڑتا، احد میں کون شہید ہوتا، مجھے یاد آیا وہ پیارا صحابی عین جنگ کےوقت اسلام قبول کیا اور میدان جہاد میں کود پڑا، لڑتے لڑتے شہید ہو گیا، کوئی چلہ نہیں کاٹا کسی قبر کا مجاور نہیں بنا شہید ہو گیا،نبی کو علم ہوا تو نبوت کے ہونٹوں نے حرکت کی کہ عمل تھوڑا کیا ہے مگر اجر زیادہ پا گیا ہے،. مجھے یاد آ رہا ہے حنظلہ کون حنظلہ غسیل الملائکہ حنظلہ، نئی نئی شادی ہوئی نبی کا اعلان کان میں پڑا جہاد کے لیے نکلو، اسی وقت اٹھا نیزہ اٹھایا نکل پڑا مڑ کر بیوی کو بھی نہ دیکھا کہ نبی کا اعلان کان میں پڑ گیا ہے اب کسی اور طرف دیکھنا گوارا نہیں، میدان جہاد میں لڑتا لڑتا شہید ہو گیا،بیوی کو علم ہوا رسول پاک کے پاس آئی عرض کی اللہ کے رسول! آپ شہیدوں کو غسل نہیں دیتے مگر حنظلہ کو غسل دے دیجیے گا اس نے جنابت کا غسل نہیں کیا تھا آپ کا اعلان سنتے ہی جہاد کے لیے نکل بھاگا،نبی حنظلہ کی لاش کے پاس پہنچے اور رک گئے فرمایا حنظلہ کو آسمان سے رب کے فرشتے اتر کر غسل دے رہے ہیں،یہ حنظلہ صوفی نہیں تھا،. مجھے سعد یاد آ گیا، نبی پاک نے فرمایا،سعد کی موت پر رب کا عرش بھی کانپ گیا ہے، ستر ہزار فرشتہ سعد کا جنازہ پڑھنے کے لیے اترا اور نبی پاک جنازے میںایڑیاں اٹھا اٹھا کر چلتے کہ کسی فرشتے کے پاؤں پر میرا پاؤں نہ آ جائے،یہ سعد صوفی نہیں تھا مجاہد تھا، اور ایسا مجاہد تھا کہ جنگ احد میں نبی سعد کو تیر پکڑاتے جاتے اور کہتے جاتے، سعد تیر چلاؤ تجھ پر محمد کی ماں بھی قربان محمد کا باپ بھی قربان،ہائے، ساری کائنات کے ماں باپ نبی محمد پر قربان اور نبی کے ماں باپ سعد پر قربان،. حسین نکلا اپنے خانوادہ کو لے کر نکلا کہ دیکھ لو محمد کے خانوادہ میں کوئی راہب نہیں، کوئی گوشہ نشین نہیں، کوئی قبر کا مجاور نہیں، کوئی چلہ کاٹنے نہیں گیا سب نکلے ہیں دیکھ لو،سب کٹ گئے میدان کربلا میں بچے سے لے کر بوڑھے تک، میں کہتا ہوں حسین نبی پاک کی قبر پر مزار بنا کر گدی نشین نہیں بن سکتا تھا کیا؟کیوں نکلا کٹ جانے کو، صوفی تیرے جیسا ہوتا تو قبر پکڑ کر بیٹھا رہتا،صحابہ صوفی ہوتے ہر صحابی کسی نہ کسینبی کی قبر پکڑ کر بیٹھ جاتا، پھر چلے کاٹے جاتے، چادریں چڑھائی جاتی، نذرانے بٹورے جاتے، مزار بنائے جاتے،مجھے دکھاؤ کسی صحابی نے کسی قبرپر چلہ کاٹا ہو، تو چشتی اجمیری علی ہجویری کی قبر پر چلہ کیوں کاٹتا رہا،بتاؤ کسی صحابی نے قبروں سے فیض لیا ہو، ارے ان کے پاس تو وہ قبر تھی جس قبر جیسی کائنات میں کوئی قبر نہیں،لیکن بارش کی ضرورت پڑتی ہے تو صحابہ نبی کی قبر پر نہیں آتے بلکہ نبی پاک کے چچا عباس کے پاس آتے ہیں،. پھر کہا، برصغیر میں اسلام صوفیاء کی وجہ سے آیا،برصغیر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں صحابہ کرام آئے، پھر محمد بن قاسم آیا قطع نظر اس کے کہ وہ کیوں آیا لیکن آیا،یہ کون تھا یہ مجاہد تھا یا صوفی تھا، اس وقت تو یہ صوفی ایجاد بھی نہیں ہوئے تھے، یہ مجاہد تھا جس نے برصغیر کی سرزمین پر اسلام کا پرچم لہرایا، ہاں صوفی لے کر آئے برصغیر میں، قبروں کی پوجا لے کر آئے، قبروں کے چلے لے کر آئے، قبروں کی مجاوری لے کر آئے، عیسائیوں کی رہبانیت لے کر آئے، ہندؤں کا تیاگ لے کر آئے، رقص و سماع کی محفلیں لے کر آئے، مسجدوں کے مقابلے اپنے رباط لے کر آئے، جہاد کی جگہ گوشہ نشینی لےکر آئے، اسلام کی جگہ تصوف لے کر آئے، شریعت کی جگہ طریقت لے کر آئے،جو فلموں کے جہاں کے کنجر اور کنجریاں ان صوفیوں کے مزاروں پر چڑھاوے چڑھانے پہنچے ہوتے ہیں، یہ ہندو صوفیوںکی قبر پر کیوں جاتے ہیں، کبھی ان فلمی کنجروں کو صلاح الدین ایوبی کی قبر پر جاتانہیں دیکھیں گے آپ، کبھی محمود غزنوی کی قبر پر جاتا نہیں دیکھے گے آپ، ٹیپو سلطان کی قبر پر جاتا نہیں دیکھیں گے آپ، کسی مجاہد کی قبر پر جاتا نہیں دیکھیں گے،ان کنجروں کو دیکھیں گے تو صوفیوں کے مزاروں پر، کیوں؟کیونکہ وہ مجاہد بت شکن تھے یہ صوفی بت پرست تھے،صوفی قبروں کے پجاری ہندو بتوں کے پجاری،ان کے مزاروں اور ان کے مندروں میں ہونے والی خرافات میں کیا فرق ہے،وہاں بجھن یہاں قوالی، وہاں پرساد یہاں تبرک، وہاں چڑھاوے یہاں بھی چڑھاوے، وہاں ناچ یہاں بھی ملنگ گھنگھرو باندھ کر ناچنے والے، وہاں بھگت یہاں مرید، وہاں سوامی یہاں صوفی، وہاں مورتیوں کو غسل یہاں مزاروں کو غسل،الغرض کوئی ایسا کام نہیں جو ہندو مندروں میں اور یہ مزاروں میں نہیں کرتے،یہ ہے وہ قبوری اسلام جو صوفی لے کر آئے برصغیر میں...... رہے نام اللہ کا۔
(منقول)​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
برصغیر میں اسلام صوفیوں نے پھیلایا۔
نہیں بلکہ صوفیوں نے تو لادینیت پھیلائی۔
یہ دونوں موقف غلط ہیں. برصغیر میں اسلام مسلمانوں نے پھیلایا، جن میں صوفی غیر صوفی سب تھے، محدثین بھی تھے، مجاہدین بھی۔
غلط بیانیے متعارف کروانے والے ناسمجھ لوگ ہوتے ہیں، رائے کا تعصب اور مسلکی تنفر اس قسم کی باتوں بر مجبور کرتا ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ خیر القرون میں تمام عالم اسلام میں براہ راست اتباع کتاب وسنت والا موقف رائج رہا، پھر آہستہ آہستہ دیگر مناہج و مکاتب فکر غالب آگئے، اور اب کچھ عرصہ سے دوبارہ پھر اہل حدیث یا سلفیت کو اللہ تعالی نے عزت و شوکت عطا فرمائی ہے۔
ہم اپںے موقف اور مسلک کو درست سمجھتے ہوئے، دیگر مسالک و مذاہب کو اسلام کا حصہ اور ان کے خدمتگاروں کو اسلام کے خدمتگار سمجھتے ہیں۔
جاہل بیانیے پہلے بھی بہت رہے ہوں گے، اب بھی ہیں، نہ پہلوں کا کوئی نشان ہے، نہ اب والوں کا کوئی رہے گا۔​
 
Top