• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضعیف احادیث پر عمل کرنا جائز ہے۔ تبلیغی جماعت کا موقف

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و برکاتہ،
حال ہی میں تبلیغی جماعت سے گفتگو میں ان کی جانب سے اقرار کیا گیا کہ "فضائل اعمال" کی احادیث ضعیف اور من گھڑت ہیں۔مگر اس پر ان کا موقف تھا کہ ایسی احادیث جو اعمال کی طرف رغبت دلائیں اور ان سے اصلاح ممکن ہو تو ان پر عمل کرنا جائز ہے۔۔۔۔۔۔اب سوال یہ بنتا ہے کہ جب ضعیف حدیث سے نبی کریمﷺ کا عمل ہی ثابت نہیں ہے تو کیا اس عمل سے حاصل ہونے والا ثواب شمار کیا جائے گا ؟جب کہ تبلیغی جماعت والے عمل کو ہی ترجیح دے رہیں ہیں۔
اس پر کوئی وضاحت کریں کہ تاکہ تبلیغی جماعت والے اپنی اصلاح کریں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، بعض علماء اس پر عمل كرنے كو كچھ شروط كے ساتھ جائز قرار ديتے ہيں، اور بعض علماء اس پر عمل كرنے سے منع كرتے ہيں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ضعيف حديث پر عمل كرنے كى شروط كا خلاصہ بيان كيا ہے جو درج ذيل ہے:
1 - ضعيف زيادہ شديد نہ ہو، اس ليے كسى ايسى حديث پر عمل نہيں كيا جائيگا جسے كسى ايك كذاب يا متہم بالكذب يا فحش غلط راوى نے انفرادى طور پر بيان كيا ہو.
2 - وہ حديث معمول بہ اصول كے تحت مندرج ہو.
3 - اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اس كے ثابت ہونے كا اعتقاد نہ ركھا جائے، بلكہ احتياط كا اعتقاد ہو.
ضعيف حديث پر عمل كرنے كا معنى يہ نہيں كہ كسى ضعيف حديث ميں آنے كى بنا پر ہم اس عبادت كو مستحب قرار ديں، كيونكہ كسى بھى عالم دين نے ايسا نہيں كہا ـ جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ كے كلام ميں آگے آئيگا ـ بلكہ اس كا معنى يہ ہے كہ جب كسى شرعى دليل سے كوئى معين عبادت كا استحباب ثابت ہو مثلا قيام الليل اور پھر قيام الليل كى فضيلت ميں كوئى ضعيف حديث آ جائے تو اس ضعيف حديث پر عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
اس پر عمل كا معنى يہ ہے كہ لوگوں اس عبادت كى ترغيب دلانے كے ليے يہ حديث روايت كى جائے، اور اميد ركھى جائے كہ ضعيف حديث ميں وارد شدہ ثواب عمل كرنے والے كو ملےگا كيونكہ اس حالت ميں ضعيف حديث پر عمل كرنے سے اس پر كوئى شرعى ممانعت مرتب نہيں ہوتى، مثلا كسى ايسى عبادت كو مستحب كہنا جو شريعت ميں ثابت نہيں، بلكہ اگر اسے يہ اجروثواب حاصل ہو جائے تو ٹھيك وگرنہ اسے كوئى نقصان و ضرر نہيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شريعت ميں ان ضعيف احاديث پر جو نہ تو صحيح اور نہ ہى حسن ہوں اعتماد كرنا جائز نہيں، ليكن احمد بن حنبل وغيرہ دوسرے علماء نے فضائل اعمال ميں حديث روايت كرنا جائز قرار ديا ہے جبكہ اس كے متعلق يہ معلوم ہے كہ وہ جھوٹ نہيں، يہ اس ليے كہ جب عمل كے متعلق يہ معلوم ہو كہ وہ شرعى دليل كے ساتھ مشروع ہے، اور ايسى حديث روايت كى جس كے متعلق اسے علم نہ ہو كہ وہ جھوٹ ہے تو ثواب كا حق ہونا جائز ہے.
آئمہ ميں سے كسى نے بھى يہ نہيں كہا كہ كسى ضعيف حديث كى بنا پر كوئى چيز واجب يا مستحب قرار دى جائے، جو بھى ايسا كہتا ہے اس نے اجماع كى مخالفت كى... جس كے متعلق اسے علم ہو كہ يہ جھوٹ نہيں اسے ترغيب و ترھيب ميں روايت كرنا جائز ہے، ليكن اس ميں جس كے متعلق اس مجھول الحال كے علاوہ كسى اور دليل كى بنا پر علم ہو كہ اللہ تعالى نے اس ميں رغبت دلائى ہے، يا اس سے ڈرايا ہو. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 1 / 250 ).
اور ابو بكر بن العربى نے ضعيف حديث پر مطلقا عدم جواز كا كہا ہے، نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں اس پر عمل ہو سكتا ہے.
ديكھيں: تدريب الراوى ( 1 / 252 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
ديكھيں: مقدمہ كتاب: صحيح الترغيب و الترھيب ( 1 / 47 - 67 ).
فضائل اعمال وغيرہ ميں جو احاديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہيں ان پر عمل كر كے ضعيف حديث سے استغناء ہے.
اس ليے مسلمان كو چاہيے كہ وہ ضعيف اور صحيح حديث كو پہچانے، اور صرف صحيح حديث پر ہى عمل كرے.
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
میں اپنے آپ کو اس کے جواب کا اہل نہیں پاتا۔ محدث فورم میں جید علماء کرام اس پر متفقہ فیصلہ دے سکتے ہیں۔ اور ہمیں ان پر اعتبار کرنا ہو گا۔
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
علماء میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے
احکام شرع اور شرعی دلیل میں ضعیف احادیث کا استعمال مناسب نہیں لیکن فضائل میں چند شرائط پر عمل جائز ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا حکم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم و ر حمتہ اللہ و برکاتہ،
حال ہی میں تبلیغی جماعت سے گفتگو میں ان کی جانب سے اقرار کیا گیا کہ "فضائل اعمال" کی احادیث ضعیف اور من گھڑت ہیں۔مگر اس پر ان کا موقف تھا کہ ایسی احادیث جو اعمال کی طرف رغبت دلائیں اور ان سے اصلاح ممکن ہو تو ان پر عمل کرنا جائز ہے۔۔۔۔۔۔اب سوال یہ بنتا ہے کہ جب ضعیف حدیث سے نبی کریمﷺ کا عمل ہی ثابت نہیں ہے تو کیا اس عمل سے حاصل ہونے والا ثواب شمار کیا جائے گا ؟جب کہ تبلیغی جماعت والے عمل کو ہی ترجیح دے رہیں ہیں۔
اس پر کوئی وضاحت کریں کہ تاکہ تبلیغی جماعت والے اپنی اصلاح کریں۔
السلام و علیکم -

میرا موقف :-
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت کو دین کا علم حاصل کرنا واجب ہے - اگر کوئی لا علمی کی بنیاد پر ضعیف حدیث پر عمل کر بیٹھتا ہے تو الله سی امید ہے کہ الله اس سے درگزر فرماے گا- قرآن میں الله کا فرمان ہے

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا سوره البقرہ ٢٨٦
الله کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا-

لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر یہ جانتے ہوے کہ فلاں حدیث ضعیف ہے اور اس پر مجتہدین آئمہ کرام کا اجماع ہے - تو اس پر عمل کرنے والا گناہ گار ہو گا - جب تبلیغی جماعت کو خود اس بات کا اقرار ہے کہ فضائل اعمال کی اکثر احادیث ضعیف موزوع ہیں تو ان کا یہ جواز پیش کرنا کہ ان ضعیف احدیث پر اس بنا پر عمل جائز ہے کہ کہ اس لوگوں میں رغبت پیدا ہو گی ایک انتہائی لغو بیان ہے -

جب نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے اپنی ذات پر جھوٹ بندھنے والے کو جہنمی قرار دیا تو پھر جان بوجھ کر ان پر عمل کرنے والے کے متعلق ہم کیا سمجھیں - کیا ایسا شخص بھی جہنمی نہیں ہو گا -؟؟

اور ویسے بھی ضعیف احدیث پر عمل انسان کو بدعات میں ملوث ہونے کا با عث بنتا ہے اس لئے ان سے احتیاط بہت ضروری ہے -

سعودی علماء اسی بنا پر تبلیغی جماعت کے ساتھ موافقت اور خروج کو حرام کہتے اور سمجھتے ہیں -

الله ہم سب کو ہدایت سے نوازے (آ مین)
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
پتا نہیں ہم بس فرقہ بندی یہ غلط وہ غلط، قبر میں ان سب چیزوں کا کسی نے نہیں پوچھنا۔ہوسکے ان بحثوں کی بجائے قبر کے سوالوں کی تیاری کریں، تاکہ ہم وہاں سرخروہو سکیں۔ جزاک اللہ
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
میں اپنے آپ کو اس کے جواب کا اہل نہیں پاتا۔ محدث فورم میں جید علماء کرام اس پر متفقہ فیصلہ دے سکتے ہیں۔ اور ہمیں ان پر اعتبار کرنا ہو گا۔
آصف صاحب بات تھوڑی موضوع سے ہٹ کر ہے ،مسلئہ تصوف کا ہو تو سید نذیر حسین دہلوی ؒ سے لیکر متاخرین اہلحدیث تک کسی کی بات منظور نہیں ،بلکہ کہتے ہیں یہ کہا جاتا ہے یہ تو علما کی رائے ہے ،ا دھر سلف و حلف کے فیصلے منظور نہیں اور ادھر محدث فورم کے علما کے فیصلے حرف آ خر ہیں ،اور تقلید والی بات میں آپ کو نہیں کہوں گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
جب موضوع سے ہٹ کر ہے تو مناسب زمرے میں جائیں اور وہاں بات کریں۔

ویسے میں بھی آپ کو کچھ نہیں کہوں گا سوائے اس کہ آپ کی نوازشات کا جواب آپ ہی کے شروع کردہ تھریڈ تصوف کیا ہے میں دے دیا ہے وہاں پڑھ لے

یہاں اس بحث سے مکمل پرہیز کریں تاکہ آپ کو تصوف کے بخار سے تھوڑا سکون مل سکے۔

انتظامیہ سے درخواست ہے کہ اگر یہ صاحب غیر متعلقہ تھریڈز میں کچھ پوسٹ کریں تو ضروری کاروائی فرمائی جائے۔
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
پتا نہیں ہم بس فرقہ بندی یہ غلط وہ غلط، قبر میں ان سب چیزوں کا کسی نے نہیں پوچھنا۔ہوسکے ان بحثوں کی بجائے قبر کے سوالوں کی تیاری کریں، تاکہ ہم وہاں سرخروہو سکیں۔ جزاک اللہ
حسن شبیر بھائی مجھے تو اس میں فرقہ بندی والی کوئی بات نظر نہیں آئی ۔بہن نے ایک بہت ہی اہم سوال کیا ہے جس کا علم سب کو ہونا چاہئے۔اگر آپ کو کوئی بات فرقہ بندی والی لگی ہے تو اس کو نشان دہی کریں۔
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
شاہد بھائی میرا کہنے کا مقصد ہے ان فضول بحثوں سے دور ہی رہا جائے تو بہتر ہے، کیونکہ نہ تو آپ نے ان کی بات ماننی ہے اور نہ انہوں نے، تو پھر فائدہ ایسی بحث یا ایسے سوالات کرنے کا؟
تبلیغی جماعت والوں نے ہر حال میں فضائل اعمال پر ہی عمل کرنا ہے کوئی تبلیغی بھائی کسی صورت نہیں چھوڑتا فضائل اعمال کو، بہتر یہی ہے کہ ان سے فیس ٹو فیس بات کی جائے۔
 
Top