• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضمیمہ فتاویٰ علمائے عرب

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ضمیمہ فتاویٰ علمائے عرب

حافظ نعیم الرحمن ناصف
حافظ محمد مصطفی راسخ​
قراء ات نمبر دوم میں عالم عرب کے معروف اہل علم ومشائخ کے فتاویٰ جات پیش کیے گئے تھے، شمارہ ہذا میں ان کا ضمیمہ ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے۔ فاضل مرتب نے یہ تمام فتاویٰ جات انٹر نیٹ سے حاصل کیے ہیں، لہٰذا انہوں نے حوالہ جات کے طور پر تمام فتاویٰ کے لنک دے دیئے ہیں۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک حرف پر مصاحف کو جمع کیا جانا؟
سوال: کیا یہ بات درست ہے کہ امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان﷜ نے قرآن مجید کو ایک حرف پر جمع کیاتھا اور باقی حروف حذف کردیئے تھے؟ یا انہوں نے بعض قراء ات کو باقی رکھا تھا اور بعض کو حذف کردیا تھا؟
جواب: نبی کریمﷺ سے صحیح ثابت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرؤوا ما تیسر منہ‘‘(صحیح بخاری:۲۲۴۱،۴۶۵۳، صحیح مسلم:۱۳۵۴، جامع الترمذی:۲۸۶۷)
محققین اہل علم فرماتے ہیں :
یہ حروف مختلفہ فی الالفاظ اور متقارب فی المعنی ہیں۔ جب سیدنا عثمان بن عفان﷜ کو لوگوں کے اختلاف کی خبر ہوئی اور سیدنا حذیفہ بن یمان﷜ نے جنگ آرمینیہ سے واپس آکر سیدنا عثمان﷜سے کہا:
’’ أدرک الناس ‘‘ ’’لوگوں کو سنبھالئے‘‘
تو سیدنا عثمان﷜ نے اپنے زمانہ میں موجود صحابہ کرام﷢ جیسے سیدنا علی﷜، سیدنا طلحہ﷜ اور سیدنا زبیر﷜ وغیرہ کے ساتھ مشورہ کیا۔ تمام صحابہ کرام﷢ نے یہی مشورہ دیا کہ قرآن مجید کو ایک حرف پر جمع کردیا جائے تاکہ لوگ اختلاف میں نہ پڑیں۔ چنانچہ سیدنا عثمان﷜نے چار اَفراد پر مشتمل کمیٹی بنا دی جن کے نگران کاتب وحی سیدنا سید بن ثابت﷜ تھے۔ انہوں نے قرآن مجید کو ایک حرف پر جمع کردیا۔ سیدنا عثمان﷜نے ان مصاحف کو مختلف صوبوں میں روانہ کردیا۔ یہاں تک کہ لوگ ان سرکاری مصاحف پر اعتماد کرنے لگے اور ان کے درمیان نزاع ختم ہوگیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ سبعہ یا قراء اتِ عشرہ ، سیدنا عثمان﷜ کے جمع کردہ مصاحف کے اندر ہی موجود تھیں اور قراء ات کا سارا اختلاف اس ایک حرف کے اند رہی داخل تھا جس کوسیدنا عثمان﷜ نے جمع کیاتھا۔ اس جمع کا مقصد کلام اللہ کی حفاظت اور لوگوں کو اختلاف کرنے سے منع کرنا تھا جو انہیں نقصان دے رہا تھا اور ان کے درمیان فتنے کا سبب بن رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے احرف سبعہ پر قراء ت کرنا واجب قرار نہیں دیا بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’فَاقْرَؤُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ‘‘(المزمل:۲۰) ’’اس میں سے جو میسر ہوپڑھو‘‘
چنانچہ لوگ ایک حرف پر جمع ہوگئے،۔ اس کار خیر پر سیدنا عثمان﷜ اور صحابہ کرام﷢ کا شکریہ اَدا کرنا چاہئے جنہوں نے یہ عظیم الشان خدمت سرانجام دے کر اُمت کو اختلاف اور فتنہ سے بچالیا۔
(فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز﷫)
(موقع الإسلام سؤال وجواب - جمع عثمان رضي الله عنه المصحف على حرف واحد)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات عشرہ کا تعارف
سوال: مجھے قراء اتِ عشرہ کے بارے میں بتلائیں۔ یہ دس قراء ات کیوں ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سات حروف (سبعہ اَحرف) پرنازل فرمایاہے؟
جواب: علم قراء ات، اہل علم ا ور قراء ِکرام کے نزدیک معلوم ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے اور یہ حروف باہم متقارب ہیں۔ ان میں الفاظ اور معنی کا معمولی اختلاف ہوتا ہے۔ جب سیدنا عثمان﷜ کے دورِ خلافت میں لوگوں نے قراء ات ِقرآنیہ میں اختلاف کرنا شروع کردیا تو امیرالمؤمنین سیدنا عثمان بن عفان﷜ نے کبار صحابہ کرام﷢ کے مشورہ سے قرآن مجید کوایک حرف پرجمع کردیا تاکہ اختلاف ختم ہوجائے۔ قراء کرام جنہوں نے قراء ات ِسبعہ یا قراء اتِ عشرہ کا اختلاف کیاہے۔ ان میں غالباً معنی تبدیل نہیں ہوتا مگر بہت کم، قراء اتِ سبعہ و عشرہ کا اختلاف بہت معمولی اختلاف ہے اور یہ سارے کا سارا اختلاف ایک ہی حرف میں داخل ہے جس پر قرآن مجید نازل ہو۔
(فضیلۃ الشیخعبد العزیز بن عبد اللہ بن باز﷫)
(نبذة عن القراءات العشر | الموقع الرسمي لسماحة الشيخ عبدالعزيز بن باز)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ سبعہ کا مختصر تعارف
سوال: آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ ہمیں قراء اتِ سبعہ کا مختصر تعارف کروا دیں؟
جواب :قراء اتِ سبعہ اور قراء ات ِعشرہ اہل علم کے ہاں معروف ہیں اور قراء ِعشرہ بھی معروف ہیں۔ جن کی تفصیلات امام شاطبی﷫ کی کتاب ’حرز الامانی ووجہ التھانی‘ میں موجود ہیں۔ اس کتاب میں قراء ات کامعنی، قراء اتِ ثلاثہ کا تعارف وغیرہ تفصیلاً موجود ہے۔ یہ قراء ات، ادغام، اظہار، رفع، نصب، مد اور عدم مد وغیرہ میں مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن ان تمام قراء ات کا مرجع اس مصحف کا رسم ہے جسے امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان﷜ اور صحابہ کرام﷢ نے لکھا۔ اگرچہ بعض مقامات میں معمولی سا اختلاف بھی پایا جاتاہے۔ جیسے ’فَأَزَلَّھُمَا، فَأَزٰلَھُمَا‘ قراء کرام کا اختلاف اپنے مشائخ سے نقل کے اعتبار سے ہے۔ اور یہ اختلاف بھی انتہائی معمولی سا ہے۔ جس سے معنی میں خلل واقع نہیں ہوتا۔ لیکن قاری پرواجب ہے کہ وہ مصحف کے رسم کاالتزام کرے تاکہ اس کے ملک میں رہنے والے قراء کے درمیان اختلاف اور نزاع پیدا نہ ہو۔ اگر اس کے ملک میں روایت حفص متداول ہے تووہ روایت حفص میں ہی تلاوت کرے اور اگر اس کے ملک میں رِوایت حفص کے علاوہ کوئی دوسری روایت مثلاً روایت ورش وغیرہ متداول ہے تو وہ اسی روایت میں ہی تلاوت کرے جو اس کے علاقے میں رائج اور متداول ہے تاکہ ان کے درمیان اختلاف اور نزاع پیدا نہ ہو۔ کیونکہ شریعت اختلاف کے اَسباب سے منع کرتی ہے اور اتفاق و اتحاد اور اجتماعیت کے اَسباب کی ترغیب دیتی ہے۔
(فضیلۃ الشیخعبد العزیز بن عبد اللہ بن باز﷫)
(.:: شبــــــكة البيّنـــــة السلفــــــية ::.)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تلاوتِ قرآن مجید میں مصحف پر اِعتماد
سوال: میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ قرائاتِ سبعہ کی رو سے لفظ کو بدلنا جائز ہے۔ مثلاً
’’کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْشِ‘‘ (القارعۃ:۵) کو ’کالصوف المنفوش‘ اور ’’ فِیْ جِیْدِھَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ‘‘(المسد:۵) کو ’فی عنقھا حبل من مسد‘ پڑھنا جائز ہے ۔ کیا نبی کریم ﷺسے اس بارے میں کوئی حکم وارد ہے؟
جواب: مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ مصحف شریف اور سیدنا عثمان بن عفان﷜ کے عہدِ خلافت میں لکھے گئے رسم پر اِعتماد کریں اور اس کے خلاف نہ پڑھیں۔ کیونکہ اس میں تشویش، اختلاف اور تفرقہ بازی کا خدشہ ہے۔ نبی کریمﷺ کے اس فرمان:
’’إن القرآن نزل علی سبعۃ أحرف، فاقرؤوا ما تیسر منہ‘‘
اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں گنجائش اور وسعت رکھی ہے اور قرآن مجید کو سات حروف پرنازل فرمایا ہے۔ جن کے الفاظ مختلف اور معانی باہم متقارب ہیں۔ جیسے ’عھن‘ اور ’الصوف‘ کا معنی متقارب ہے۔ اسی طرح ’ فی جیدھا‘ اور ’فی عنقھا‘ کا معنی متقارب ہے۔ لیکن چونکہ سید نا عثمان بن عفان﷜نے صحابہ کرام﷢ کے مشورہ سے قرآن مجید کو ایک حرف پرجمع کردیاہے، تاکہ نزاع اور اختلاف پیدا نہ ہو، لہٰذا اب مسلمانوں پربھی واجب ہے کہ وہ بھی اس خدشے کے پیش نظر مصحف پر ہی اعتماد کریں اور اختلاف و نزاع سے بچیں لیکن تفسیر کے باب میں وضاحت معنی کے لیے قراء ات بیان کی جاسکتی ہیں۔ قراء ات توقیفی ہیں جن کو مصحف کے رسم کے خلاف نہیں پڑھا جاسکتا۔
(فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز﷫)
(موقع أهل الحديث والأثر - الإصدار الثاني)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نزولِ قرآن
سوال: محمود عمر نامی ایک شخص نے خط لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید لغت عرب پر نازل فرمایا ہے۔ لیکن ابھی مجھے معلوم ہوا ہے کہ قرآن مجید کو تلاوت کرنے کی متعدد قراء ات ہیں۔ ان قراء ات میں سے سب سے اَفضل کون سی قراء ت ہے؟ اسی طرح غنہ ، مد اور قلقلہ وغیرہ کے بغیر تلاوت کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جیسا کہ سائل نے ذکر کیا ہے، قرآن مجید لغت عرب میں ہی نازل ہواہے۔
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّا أَنْزَلْنٰہُ قُرْئَاناً عَرَبِیًّا‘‘(یوسف:۲۳۵)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اِنَّاجَعَلْنٰہُ قُرْئَاناً عَرَبِیًّا‘‘ (زخرف:۳)
ایک اور مقام پر اللہ فرماتا ہے:
’’نَزَلَ بِہٖ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُ، عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ، بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ‘‘ (الشعراء:۱۹۳،۱۹۵)
اور اس اَمر میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن مجید میں متعدد قراء ات ہیں، جن میں سے مشہور قراء ات، قراء ات سبعہ ہیں۔ جو شخص ان قراء ات کا عالم ہو اس کے لیے مسنون یہی ہے کہ وہ باری باری تمام قراء ات میں تلاوت کرے۔ کیونکہ قراء اتِ سبعہ سب کی سب متواتر اور نبی کریمﷺسے ثابت ہیں۔ جب یہ نبی کریمﷺسے ثابت ہیں تو ان میں بھی یہی مشروع ہے کہ آدمی کبھی کوئی قراء ت پڑھے اور کبھی کوئی دوسری قراء ت پڑھے۔ جیسا کہ متنوع وجوہ پر مشروع عبادات میں ہم کرتے ہیں کہ کبھی ایک وجہ پر عمل کرلیا اور کبھی دوسری وجہ پر عمل کرلیا تاکہ تمام سنتوں پر عمل ہوجائے۔ لیکن غیر عالم کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ فقط ظن کی بناء پر کوئی قراء ت کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پاس موجود مصحف کی قراء ت پر ہی اکتفاء کرے۔ باقی رہا سائل کا یہ سوال کہ کیا غنہ، مد اور قلقلہ کے بغیر تلاوت کرنا جائز ہے؟ اس مسئلے میں میرے نزدیک درست رائے یہی ہے کہ قواعد تجوید کے مطابق تلاوت کرنا مستحب اور اکمل اَمر ہے۔ واجب نہیں ہے۔ لیکن تلاوت میں یہ اَمر ضروری اور واجب ہے کہ کوئی حرف زیادہ یا کم نہ ہو۔
(فضیلۃ الشیخمحمد بن صالح العثیمین﷫)
(http://www.sahab.net/forums/showthread.php?t=339393)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
متنوع قراء ات کا سبب
سوال: قراء ات کے تنوع کا کیا سبب ہے؟ حالانکہ سیدنا عثمان﷜ نے لوگوں کوایک مصحف پر جمع کیا تھا؟
جواب: سیدنا عثمان﷜نے ایک حرف پر مصحف لکھا تھا، لیکن اس وقت مصاحف نقطوں، اعراب اور ممدود سے خالی تھے۔ لہٰذا لوگوں نے اپنے اپنے اَساتذہ مقرئین سے مختلف لہجات میں پڑھا جس سے قراء ات متنو ع ہوگئیں اور جب مصاحف پر اعراب لگائے گئے تو ہر شخص نے اپنے اپنے اُستاد کے پڑھائے ہوئے کے مطابق اعراب لگائے جس سے یہ اختلاف پیدا ہوگیا۔
(فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین﷾)
(http://ibn-jebreen.com/ftawa.php?view=vmasal&subid=10209&parent=786)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کسی بھی رِوایت میں تلاوت قرآن
سوال: رِوایت ورش یا قراء اتِ سبعہ میں سے کسی بھی روایت میں قرآن کی تلاوت کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا روایت حفص کے علاوہ دیگر روایات میں تلاوت کرناجائز ہے یا ہم صرف روایت حفص عن عاصم پرہی اکتفا کریں؟
جواب: روایت ِورش یا قراء اتِ سبعہ میں سے کسی بھی روایت میں تلاوت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام ورش، مدینہ کے مشہور قاری امام نافع بن ابی نعیم سے روایت کرنے والوں میں سے سب سے معروف راوی ہیں۔ ان کی قراء ت طبع ہوچکی ہے اور مغربی ممالک میں مشہور و متداول ہے،جسے کثیر مالکی پڑھتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے روایت حفص عن عاصم مطبوع ہے اور عرب ممالک میں مشہور و متداول ہے۔ نیز ہمارے لیے ان دو قراء توں (ورش اور حفص) کے علاوہ قراء ِسبعہ یا قراء ِعشرہ کی قراء ات کی تلاوت کرنا بھی جائز ہے۔
(فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین ﷾)
(http://ibn-jebreen.com/ftawa.php?view=vmasal&subid=4283&parent=786
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ شاذہ کی تلاوت کا حکم
سوال : قراء اتِ شاذہ کی تلاوت کا کیا حکم ہے؟
جواب: نماز میں قراء اتِ شاذہ کی تلاوت کرنا حرام ہے۔ کتب قراء ات میں قراء اتِ شاذہ کو نقل کرنے کا مقصد تفسیر اور وضاحت ہے۔ خواہ وہ کسی کلمہ کی زیادتی سے ہوجیسے ابن مسعودوغیرہ کی قراء ت ہے۔ ’’ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ أَیَّامٍ مُتَتَابِعَاتٍ‘‘ یا کسی کلمہ کی کمی سے ہو جیسے بعض صحابہ کی قراء ات ہے۔ ’’وَالنَّھَارِ اِذَا تَجَلّٰی،وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثٰی ‘‘ یا مصاحف عثمانیہ کے کسی کلمہ کی تفسیر سے ہو جیسے سیدنا ابن عباس کی قراء ت ہے۔ ’’وَعَلٰی الَّذِیْنَ یُطَوِّقُوْنَہٗ‘‘ مگر جو قراء ات رسم عثمانی کے موافق ہو اگرچہ موجودہ (روایت حفص میں) مطبوعہ مصحف کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اسے قراء تِ شاذہ نہیں کہا جائے گا جیسے ’’فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ‘‘ (الھمزۃ:۹) میں ’’فِیْ عُمُدٍ مُّمَدَّدَۃٍ‘‘ (الھمزۃ:۹) عین اور میم کے ضمہ کے ساتھ پڑھنا۔ واﷲ أعلم۔
(فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین﷾)
(http://ibn-jebreen.com/ftawa.php?view=vmasal&subid=6615&parent=786)​
 
Top