• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضمیمہ فتاویٰ علمائے عرب

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عہد صحابہ﷢ سے ہی اَہل علم کا اختلاف رہا ہے کہ صلوۃ الوسطیٰ سے کون سی نماز مراد ہے؟ نمازِ فجر ہے، ظہر ہے یا عصر ہے؟ یہاں تک کہ انہوں نے کہا کہ صحیح ترین رائے یہی ہے کہ وہ عصر کی نماز ہے۔ اسکی صراحت اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مصحف میں ’وصلوۃ العصر‘ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔
ان دنوں تفسیر کو اصل متن سے جدا لکھنے کا کوئی معروف طریقہ رائج نہ تھا۔ قوسین (بریکٹیں)معروف نہ تھیں کہ تفسیری جملوں کو ان کے درمیان لکھ دیا جاتا یا الگ رنگ سے لکھ دیا جاتا۔ بعض روایات میں واؤ کے ساتھ ’وصلوۃ العصر‘ اور بعض روایات میں واؤ کے بغیر ’صلوۃ العصر‘ کے الفاظ ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ اضافہ تفسیر کے قبیل سے ہے، اس کا کلام اللہ(قرآن مجید) کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے اس تفسیری جملے ’وصلوۃ العصر‘ کو مصحف عثمان اور مصحف امام میں نہیں لکھا گیا کیونکہ مصحف امام میں صرف وہی کلام لکھا گیا ہے جس کا سیدنا جبرئیل﷤ نے نبی کریمﷺ کے ساتھ عرضۂ اَخیرہ میں دور کیا تھا۔ تفسیرات و توضیحات وغیرہ کو سیدنا عثمان بن عفان﷜ نے حذف کردیا تھا اور اس پر صحابہ، تابعین اور تمام مسلمانوں کا طویل زمانے سے اِجماع چلا آرہا ہے۔اس وجہ سے صحابہ﷢، تابعین﷭ اور ان کے بعد اَئمہ، قراء سبعہ، قراء عشرہ اور مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی مصحف عائشہ کے مطابق نہیں پڑھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمارے ہاں حجت مصحف عثمان ہے۔جس پر پوری اُمت کا اجماع ہے۔جسے سلف سے خلف نقل کرتے آرہے ہیں اور وہ ضروریات دین میں سے ہے۔مصحف عثمان سے جو کچھ بھی زائد ہے وہ تفسیر کا حکم رکھتا ہے۔ جیسے سیدنا ابن مسعود﷜ کے مصحف میں ’فصیام ثلثۃ أیام متتابعات‘ مکتوب تھا۔ اہل علم لفظ ’متتابعات‘ کو تفسیر ہی شمار کرتے ہیں۔ سیدنا ابن مسعود﷜ نے نبی کریمﷺسے قسم کے کفارہ کی وضاحت کرکے ان الفاظ کا اِضافہ کرلیا تھا۔ اگر سیدنا ابن مسعود﷜ آج ہمارے اس دور میں ہوتے تو ضرور ان کلمات کو بین القوسین، اصل متن سے مختلف رنگ کے ساتھ یا حاشیہ پر لکھتے۔ لیکن اس زمانے میں ایسی کوئی شئ معروف نہ تھی۔ وہ اپنے قدرتی ملکہ سے ہی اصل متن اور تفسیر کو پہچان لیتے تھے۔ اسی لیے اُمت اِسلامیہ نے ان تفسیرات کو کلام اللہ اور اصل متن شمار نہیں کیا۔ اصل مصحف اور اصل متن وہی ہے جو اس وقت ہمارے پاس موجود ہے جس کے بارے میں اللہ کا وعدہ ہے۔’’لَا یَأْتِیْہِ الْبٰطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ ‘‘ (فصلت:۴۲) کائنات میں کوئی ایسی کتاب موجود نہیں ہے جس کے خادموں کی تعداد کتاب اللہ قرآن مجید کے برابر ہو۔ سچ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹)
(فضیلۃ الشیخ محمد یوسف قرضاوی﷾)
(http://www.burhanukum.com/article83.html)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علم قراء ات کا ارتقاء
علم قراء ت کی ابتداء پہلی وحی کے ساتھ ہی ہوگئی تھی۔ جب سیدنا جبرئیل﷤ لوح محفوظ سے اللہ کی کلام لے کر رسول اللہﷺ پرنازل ہوئے۔ اس وحی کا پہلا کلمہ ’’ اِقْرَأْ ‘‘ تھا۔ سیدنا جبرئیل ؑ نے نبی کریمﷺ کو تلاوت کی کیفیت و ادائیگی سکھلائی اور نبی کریمﷺ نے جس طرح قرآن مجید نازل ہوا تھا اسی طرح اپنے صحابہ کرام کو سکھلا دیا۔ صحابہ کرام﷢ اپنی نمازوں اور اپنے گھروں میں قرآن مجید کی تلاوت فرماتے رہے۔ پھر انہوں نے اسے اپنی اولادوں اور ساتھیوں کی طرف منتقل کردیا اور بعد میں آنے والے تابعین کو سکھلایا۔ یہاں تک کہ ہم تک پہنچ گیا۔
لیکن قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ نبی کریمﷺ تلفظ اور نطق میں عرب قبائل کے لہجات کا خیال رکھتے تھے۔
امیرالمؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق﷜ نے قرآن مجید کو ایک مصحف میں جمع کردیا۔پھر عہد عثمانی میں سیدنا عثمان بن عفان﷜ نے کبار صحابہ کے مشورے سے قرآن مجید کے سات نسخے تیار کیے جن کو مختلف اسلامی علاقوں کی طرف روانہ کردیا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسلامی لشکر اپنے ساتھ قرآن اٹھائے ہوئے ہوتے تھے اور ہر جگہ اس کی تلاوت کیا کرتے تھے اور حلقۂ اسلام میں داخل ہونے والے نئے قبائل کو سکھلاتے تھے اور ہر گروہ اس کی ویسے ہی تلاوت کرتا تھا جیسے انہوں نے سنا ہوتا یا نقل کیا ہوتا یا وہ رسم عثمانی کے مطابق تلاوت کرلیتے تھے۔ چنانچہ مختلف شہروں کی قراء ات بھی مختلف ہوگئیں۔ جیسا کہ ایک ہی لشکر میں متعدد قراء ات پڑھنے والے ہوتے تھے۔
چنانچہ حفاظ اورقراء کرام اُٹھ کھڑے ہوئے جنہوں نے قراء ات کو دقت و تحقیق کے ساتھ ضبط کردیا، قراء ات کے اختلافات کو مدون کیا اور اسے آگے نقل کرنے لگے۔ ان قراء کرام میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی ایک قراء ت اور اپنا ایک منہج اختیار کرلیا اور اپنے تلامذہ کو اسی کے مطابق پڑھانے لگے۔ وہ گویا کہ ایک مذہب اور طریق بن گیا جو قراء ت کے نام سے معروف ہوا۔
چنانچہ سات قراء ات میں سات قراء کرام مشہور ہوگئے اور ان کے ساتھ ساتھ مزید تین قراء ات مشہور ہوگئیں جو پہلی سات سے کچھ کم مشہور ہیں۔ وجوہ نادرہ و شاذہ کو شمار کرنے سے مزید چار قراء ات سامنے آئیں۔ نتیجے میں مکمل طور پر چودہ قراء ات معروف ہوگئیں۔
پس قراء ت : سے مراد وہ طریق یا مذہب ہے، جس پر اَئمہ قراء ات میں سے کوئی امام دیگر کی مخالفت کرتے ہوئے چلتا ہے۔ خواہ یہ مخالفت نطق حروف میں ہو یا نطق ہیئت میں ہو۔ اب ساری قراء ات کسی نہ کسی امام اور مقری کی طرف منسوب ہیں جن کی سند تواتر کے ساتھ نبی کریمﷺ تک ثابت ہے۔
(دار الفتوی فی جمہور اللبنانیۃ)
(http://www.darfatwa.gov.lb/content.asp+?catid=49&divid=div1000&islam=1)​

٭_____٭_____٭
 
Top