• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طائف میں درختوں کا گرانا اور اس پر کچھ لوگوں کا رد عمل

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سعودی عرب کے شہر طائف میں ایک جگہ سے کچھ درخت وغیرہ ہٹائے گئے ہیں ، وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ لوگ وہاں بہ کثرت شرکیات و غیر مشروع کاموں میں مبتلا ہونا شروع ہوگئے تھے ۔
اس پر کچھ ملحد بھی چیخے ہیں (حالانکہ ان کا بھونکنا سمجھ سے باہر ہے) ، اور کچھ سنی بھی شکوہ کناں ہوئے ہیں ، جو سعودیہ میں رائج دین کی تعبیر سے اختلاف رکھتے ہیں ، میں ان دنوں چونکہ ایک اور معاملے میں مصروف ہوں ، اس لیے اس حوالے سے زیادہ پوسٹیں اور ویڈیوز باوجود سامنے آنے کے پڑھ یا سن نہیں سکا ، سنا ہے ، بعض حضرات اسے بہت سنگیں مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں ، خیر سعودیہ سے ہمیں نظریاتی طور پر اتفاق ہے ، لیکن اختلافی نوٹ بھی ہم ڈٹ کر لگاتے ہیں ، الحمد للہ . لیکن اس قسم کے معاملوں میں سعودیہ کا طرز عمل مجموعی طور پر درست ہے ، سعودیہ نے جو کیا ، وہ درست سمجھ کر کیا ، اور جو اس پر تنقید کر رہے ہیں ، یہ ان کا حق ہے ، انہیں کرنا چاہیے ، اسی ضمن میں آکسفورڈ میں مقیم ایک عالم دین کی پوسٹ نظر سےگزری ، جس میں انہوں نے ایک تو عرب لوگوں کی عیاشیوں پر تنقید کی ، دوسرا آثار قدیمہ سے متعلق ان کے رویے پر تنقید کی ، بلکہ ایک مباحثے کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے کس طرح ایک ’ عرب عالم دین ‘ کو لاجواب کردیا ، میں چونکہ ایک عرصے سے مدینہ منورہ میں مقیم ہوں ، لہذا ان چیزوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ، اس لیے موقعہ مل جائے تو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ضائع نہیں کرتا ، ان محترم عالم دین کی پوسٹ پر کیا ہوا ، اپنا کمنٹ یہان نقل کرتا ہوں ، اور ساتھ یہ بھی عرض کرتا ہوں ، میں عربی عالم دین ہوں نہ مجھے علامہ فہامہ ہونے کا کوئی زعم ہے ، پاکستانی ہوں ، دین کا طالبعلم ہون ، اگر کوئی صاحب مدینہ منورہ میں آکر یا آن لائن کسی طریقے سے ایسےمسائل پر افہام و تفیہم کرنا چاہیں ، تو میں حاضر ہوں .اب وہ کمنٹ ملاحظہ کیجیے۔
-----------------------------------------
آپ نے عربیوں کی جس بے راہ روی کا ذکر کیا ہے ، یہ تنقید درست ہے ، جبکہ دوسری بات درست نہیں ، میں الحمد للہ ایک عرصے سے یہاں رہتا ہوں ، یہاں آثار قدیمہ مکمل حفاظت کے ساتھ موجود ہیں ، البتہ جن چیزوں کی کوئی تاریخی یا اثری حیثیت نہیں ، یہ اگر لوگوں کی گمراہی کا باعث بن رہی ہوں ، تو یہ بعض دفعہ اسے ختم کردیتے ہیں ، اسی طرح اگر کوئی تاریخی مقام پر بھی لوگ مغالطوں کا شکار ہورہے ہوں ، تو وہاں بھی ان چیزوں کو روکنے کا بندو بست کرتے ہیں .... کہنے کو تو یہی کہا جاتا ہے کہ ہم شرک نہیں کرتے ، لیکن روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے برآمد ہونے والے مختلف زبانوں میں خطوط اور پرچیاں اس دعوی کی تردید کرتی ہیں ، خود میں یہاں ہوتا ہوں ، روز دیکھتاہوں ، اور باوجود منع کرنے کے لوگ نہیں رکتے ، یہاں قرآن ، حدیث اور تاریخ سے متعارف کروانے کے لیے بہترین نمائشیں اور میوزیمز قائم کیے گئے ہیں ، جن میں سے کچھ فری ہیں ، اور کچھ تھوڑا معاوضہ ادا کرکے ، ان میں موجود چیزیں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں ۔ اگر انہیں واقعتا آثار سے اتنی دشمنی ہوتی تو آج مدینہ منورہ میں زیارتیں موجود نہ ہوتیں ۔
رہی بات یہ ہے کہ اختلافی مسائل میں وہ لوگوں کو اپنی رائے اور موقف کا پابند بناتے ہیں ، تو نظام کو منظم و مرتب رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے ، ہم بعض دفعہ چار صفوں کی اپنی مسجد میں کسی دوسرا موقف رکھنے والے مولوی کی تقریر برداشت نہیں کرتے ، بعض لوگوں نے مساجد کے باہر بورڈ لکھ کر لگائے ہوئے ہیں کہ فلاں فرقے والے یہاں نمازنہ پڑھیں ، یا نماز میں فلاں فلاں کام نہ کریں کہ یہاں ڈسپلن خراب ہوتا ہے ، تو یہاں اتنی بڑی جگہ پر بھی انہیں کچھ انتظامی فیصلے کرنا ضروری ہوتے ہیں ۔.. اور یہ کام صرف سعودی حکومت نے ہی نہیں کیا ، جب اس سے پہلے دوسرے لوگ تھے ، ان کے رویے بھی دوسروں کے لیے بعض دفعہ سمجھنا مشکل ہوجاتے تھے ۔
میرے خیال میں عوام کو گائیڈ کرنے کی ضرورت ہے ، عوام یہاں آکر وہ وہ کام کرتے ہیں ، جو خود ان کے علما کے نزدیک بھی جائز نہیں ، وسیلے کی بحث سے ہٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست مانگنا ، یہ تمام سنی فرقوں کے علما کے نزدی جائز نہیں ، لیکن عوام یہاں آکر یہ سب کچھ کرنے پر مصر رہتی ہے ۔
آپ نے یہ پوسٹ شاید طائف میں ایک جگہ پر گرائے جانے والے درختوں کے پس منظر میں کی ہے ، اسی قسم کا کام خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور حکومت میں کروا چکے ہیں ۔ حالانکہ وہ بیعت رضوان والا درخت تھا ، جبکہ جو درخت اب گرائے گئے ہیں ، ایسی چیزیں تو خود بخود لوگ ایجاد کرلیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اس لنک پر موجود تصویریں، ہمارے اس دعوی کی دلیل ہے کہ لوگ یہاں تعظیم کی حدوں کو پھلانگ کر شرک میں مبتلا ہوتے ہیں ، کہنے کو وسیلہ کہتے ہیں ، جبکہ عملا صریح شرکیہ افعال ، جو کسی بھی فرقہ کے عالم دین کے نزدیک جائز نہیں )
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مسجد نبوی کے پاس قرآن کریم کے قدیم نسخوں کی نمائش میں آج میں نے دوران گفتگو ، کچھ حاجیوں سے پوچھا ، لوگ شور مچاتے ہیں کہ سعودیہ والے وہابی ’ آثار قدیمہ ‘ کے دشمن ہیں ، سب کچھ ڈھارہے ہیں ، یہ نمائش آپ کہاں دیکھ رہے ہیں ؟
کچھ لوگ تو گویا چونک اٹھے !
میں نے مزید کہا ، طائف میں ایک جگہ پر غیر معروف درختوں کو کاٹنے پر اخبارات اور میڈیا حرکت میں آگیا ہے ۔
جبکہ مسجد نبوی کے گرد دور سے ہی نظر آنے والی یہ ’ نمائشیں ‘ اور ’ میوزمز ‘ کئی سالوں سے حاجیوں کے لیے بالکل فری کام کر رہے ہیں ، کبھی کوئی خبر سنی ؟!
تیسری بات بھی عرض کردی کہ اختلاف ضرور رکھیں ، یہ آپ کا حق ہے ، لیکن پراپیگنڈہ نہ کریں ، اور نہ اس قسم کی سازشوں کا شکار ہوں ۔
ٹھیک ہے ، سعودیہ ہر پتھر ، اور درخت ، اور گلی کوچے میں زیارتیں ایجاد نہیں ہونے دیتا ، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ صحیح اور مستند تاریخی معلومات سے بھی انہیں کوئی خار ہے ۔
کھلی چھٹی دے کر تم نے دیکھ لیا ، ہر جگہ سے ’ موئے مبارک ‘ ، ’ کرتا شریف ‘ ، نعلین پاک ‘ اور ’ موزے ‘ برآمد ہورہے ہیں ۔ سعودیہ سے باہر ادھر ادھر جگہوں پر تاریخی و غیر تاریخی زیارتیں جاکر دیکھ لیں ، معلوم ہوجائے گا، کہ مشرکین کے بتوں اوربعض مسلمین کی زیارتوں میں کتنا فرق رہ گیا ہے ۔
ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ وسنتی
میں جن دو ’ تبرکات ‘ ، ’ آثار قدیمہ ‘ کا ذکر ہے ، اس کی بات کرلیں ، تو وہی جو وہابیوں کو آثار قدیمہ کے دشمن قرار دیتے ہیں ، 135 دلیلیں دے کر ان ’ آثار قدیمہ ‘ کو ’ آئین پاکستان ‘ طرح کا بنادیں گے ۔ جو ہے تو مقدس ، لیکن قابل عمل اورلائق تنفیذ نہیں ۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تبرک کے متعلق عقیدہ اور چیلنج

پاکستان کی ٹالی اور طائف کے درخت
’’میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تبرک کے متعلق تمہارا عقیدہ قرآن وسنت کے مطابق نہیں ، آکر مجھ سے مناظرہ کرلو ‘‘
یہ جلالی صاحب کا چینلج ہے ، اور یہ صرف چیلنج ہی ہے، مناظرہ کرنا ہوتا تو یقینا اب تک کر چکے ہوتے ۔
جلالی صاحب جن کو چیلنج دے رہے ہیں ، انہوں نے الحمد للہ دیگر عقائد و مسائل کی طرح تبرک کے متعلق بھی اپنے عقیدے کو قرآن و سنت اور سلف صالحین کے فہم کے مطابق تفصیل سے بیان کردیا ہوا ہے۔
یہاں میں اہل حدیث کے ایک شیخ محترم کی تحریر نقل کرتا ہوں :
تبرک کا معنٰی یہ ہے کہ اجر و ثواب اور دین و دنیا میں اضافے کے لیے کسی مبارک ذات یا وقت سے برکت حاصل کرنا۔
محققین علماء کے نزدیک تبرک کی دو قسمیں ہیں :
(1) مشروع تبرک: جسے اللہ و رسول نے جائز قرار دیا ہو۔
(2) ممنوع تبرک : جو جائز تبرک میں شامل نہ ہو یا شارع نے اس سے منع فرما دیا ہو۔
ممنوع تبرک
ممنوع تبرک شرک میں داخل ہے، اس کی دلیل یہ ہے :
سیدنا ابوواقد اللیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے، اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، ایک بیری تھی، جس کے پاس مشرکین ٹھہرتے اور (تبرک کی غرض سے ) اپنا اسلحہ اس کے ساتھ لٹکاتے، اسے ” ذات انواط“ کہا: جاتا تھا، ہم نے عرض کی، اے اللہ کے رسول ! جس طرح مشرکین کا ”ذات انواط“ ہے، ہمارے لیے بھی کوئی ذات انواط مقرر کر دیجئیے : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الله اكبر انها السنن قلتم والذي نفسي بيده كما قالت بنو اسرائيل لموسيٰ — ﴿اجْعَلْ لَنَا إِلَـهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ﴾ — (7-الأعراف:138) لتركبن سنن من كان قبلكم۔۔۔ الله اكبر !
” اللہ اکبر ! اللہ کی قسم، یہ پرانا طریقہ ہے، تم نے اسی طرح کہا: ہے، جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: تھا“ ﴿اجْعَلْ لَنَا إِلَـهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ﴾ ( الاعراف ؛ 138 ) ” ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دیجئیے، جس طرح ان (کافروں کے معبود ہیں) ضرور تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے۔ “ ( مسند الامام احمد : 218/25، جامع الترمذي : 2180، مسند الحميدي ؛ 868، المعجم الكبير للطبراني 274/3، صحيح )
امام ترمذی نے اس حدیث کو ” حسن صحیح“ اور امام ابن حبان ( 6702 ) نے ” صحیح“ کہا: ہے۔
مشروع تبرک
آئیے اب مشروع تبرک کے بارے میں جانتے ہیں :
عیسیٰ بن طہمان کہتے ہیں :​
اخرج الينا انس رضى الله عنه نعلين جرداوين، لهما قبالان، فحدثني ثابت البناني بعد عن انس انهما نعلا النبى صلى الله عليه وسلم
” سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے، ان کے دو تسمے تھے، اس کے بعد مجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔ “ ( صحیح بخاری : 438/1، ح 3107 )
ایک دفعہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے ایک سبز جبہ نکالا اور فرمایا :
هذه كانت عند عائشة حتيٰ قبضت، فلما قبضت قبضتها، وكان النبى كريم صلى الله عليه وسلم يلبسها، فنحن نغسلها للمرضيٰ يستشفيٰ بها
” یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا، آپ فوت ہوئیں تو میں نے اپنے پاس رکھ لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب تن فرمایا کرتے تھے، ہم اسے بیماروں کے لیے شفاء کی امید سے پانی میں ڈالتے ہیں۔ “ ( صحيح مسلم : 190/2، ح 2049 )
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے پانی پیا تھا، ابوحازم کہتے ہیں کہ ” سہل نے اسے نکالا اور ہم نے اس میں پانی پیا، اس کے بعد امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ان سے مانگا، انہوں نے ان کو تحفہ میں دے دیا۔ “ ( صحيح بخاري 842/2 ح 5437 )
عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
” ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تھے، جنہیں ہم نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا، کہتے ہیں، اگر میرے پاس آپ کا ایک بال ہو تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پیارا ہے۔ “ ( صحيح بخاري : 29/1، ح : 170 )
تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا
یاد رہے کہ یہ تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، اب کسی اور کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
حافظ شاطبی فرماتے ہیں :​
ان الصحابة بعد موته لم يقع من أحد منهم شيء من ذلك بالنسبة الي من خلفه اذ لم يترك النبى كريم صلى الله عليه وسلم بعده فى الأمة أفضل من أبى بكر الصديق رضى الله عنه فهو كان خليفته ولم يفعل به شيء من ذلك ولا عمر رضى الله عنه وهو كان أفضل الأمة بعده ثم كذلك عثمان ثم على ثم سائر الصحابة الذين لا أحد أفضل منهم فى الأمة ثم لم يثبت لوأحد منهم من طريق صحيح معروف أن متبركا تبرك به على أحد تلك الوجوه أو نحوها بل اقتصروا فيهم على الاقتداء بالٔافعال والٔاقوال والسير التى اتبعوا فيها النبى كريم صلى الله عليه وسلم فهو اذا اجماع منهم على ترك تلك الأشيائ
” صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، آپ کے بعد خلیفہ بھی تھے، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا، نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان (صحابہ) کے بارے میں انہوں (دیگر صحابہ و تابعین) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اور طریقہ کار پر اکتفا کیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک تبرکات پر اجماع ہے۔ “ ( الاعتصام 9-2/8 )
یہ ہمارا سیدھا سادہ قرآن وسنت کے مطابق موقف ہے ۔
جائز و ناجائز تبرک کی کیا کیا شکلیں ہیں ، اس کی تفصیلات پر ہماری طرف سے الحمد للہ مستقل تصانیف ہیں ، جن میں سے دو کتابوں کا یہاں ذکر کرتا ہوں :
1۔ جائز و ناجائز تبرک ۔ یہ سعودیہ کے ایک شیخ کی عربی تصنیف ہے ، جسے ہمارے اہل حدیث شیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی صاحب نے اردو قالب میں ڈھالا ہے ، اور یہ کتاب تقریبا تین دہائیاں قبل پاکستان میں طبع ہوئی تھی ، اور اس وقت یہ محدث لائبریری پر درج ذیل لنک پر دستیاب ہے:​
https://kitabosunnat.com/kutub-library/jaiz-aur-najaiz-tabarruk
2۔ ماہنامہ السنۃ کا تبرک نمبر ہے ، جو کہ شیخ غلام مصطفی ظہیر اور ان کے تلمیذ رشید حافظ ابو یحیی نور پوری ( حفظہما اللہ ) کی کاوش ہے ، تقریبا ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل یہ رسالہ اپنے موضوع پر ایک بہترین انسائیکلو پیڈیا ہے ، اور جلالی جیسے لوگوں کے لیے حقیقی چیلنج ہے ، جسے قبول کرنا ، یا اس پر تبصرہ کرنا ان پر قرض ہے ۔ یہ رسالہ بھی پی ڈی ایف میں دستیاب ہے۔​
http://mazameen.ahlesunnatpk.com/monthly-assunnah-jhelum-volume-73-78-tabarrukat-number/
ہماری جلالی صاحب سے گزارش ہے کہ چیلنج چیلنج بہت ہوگیا ، اگر واقعتا احقاق حق کی نیت ہے ، تو بسم اللہ کریں ، میدان میں آجائیں، ہماری ان کتابوں پر تبصرہ فرمادیں ، یا پھرجن علماء کرام نے آپ کا چینلج قبول کیا ہوا ہے ، ان سے مناظرہ کرلیں ، تاکہ حق واضح ہوجائے ۔
اب آپ کہیں کہ میرے ساتھ ساجد میر صاحب ، یا حافظ سعید صاحب ، یا امام کعبہ ہی مناظرہ کریں ، تو میں کرتا ہوں ، تو گزارش ہے کہ اس قسم کی عادات سے باز آجائیں، آپ کا اس قسم کا اصرار اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صرف باتیں کرنا چاہتے ہیں ، میدان میں آنے سے گھبراتے ہیں۔
آپ نے چند سال پہلے ایک مقدمہ قائم کیا تھا کہ ’ امت شرک کرہی نہیں سکتی ‘ آپ کے اس مقدمے کا اہل حدیث نے وہ آپریشن کیا تھا کہ آپ خود دفاعی پوزیشن میں آگئے تھے، آپ کے اس دعوی پر ہماری تردید کے صرف دو نموں کا حوالہ دینا چاہوں گا۔
تحریری رد:​
http://forum.mohaddis.com/threads/9475
تقریری رد:​
اور اب صورت حال یہ ہے کہ خود آپ کے قبیلے کے لوگوں کو جزیرہ عرب میں شرک نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔
یادش بخیر! جلالی صاحب چیلنج کا یہ سلسلہ آپ نے طائف میں گرائے جانے والے کچھ درختوں سے شروع کیا ہے، لیکن آپ کو شاید یہ بھول گیا کہ اسی ملک پاکستان میں ، جہاں آپ کو کسی وہابی یا نجدی کا کوئی ڈر خوف نہیں ، وہیں پر آپ کے ایک ’ تبرک‘ کو چیلنج کرکے گرا دیا گیا تھا، آپ کے دلائل میں یا آپ کے تبرکات میں واقعتا کوئی دم خم ہوتا تو ٹالی کٹنے سے بچا لیتے ، یہ ویڈیو دیکھیے ، اور اپنے چیلنج دیکھیے :​
 
Top