• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طلاق کے اہم شرعی مسائل

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
فہرست مضامین


1-عرض ناشر
2-مقدمہ
3-حسن معاشرت
4-زوجین کے درمیان مصالحت
5-شرعی پنچایتیں
6-طلاق نا پسندیدہ ہے
7-طلاق دینے کا شرعی طریقہ
8-تین طلاق دینے کا شرعی طریقہ
9-خلع کا بیان
10-بلا وجہ خلع کرانے پر وعید
11-عدت خلع
12-زمانہ جاہلیت کی طلاق
13-اکھٹی تین طلاقوں کی شرعی حیثیت
14-ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم
15-قرآن کی رو سے پہلی دلیل
16-دوسری دلیل
17-ایک مجلس کی تین طلاق احادیث کی روشنی میں
18-پہلی حدیث
19-دوسری حدیث
20-تیسری حدیث
21-چوتھی حدیث
22-پانچویں حدیث
23-پہلی مؤید حدیث
24-دوسری مؤید حدیث
25-تیسری مؤـید حدیث
26-فقہائے کو فہ کی مہر پر تاجدارمدینہ کی مہر کو ترجیح
27-عورت صرف شرعی طریقہ پر حلال ہوتی ہے
28-مروجہ حلالہ کی حرمت و مذمت پر فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم
29-عدت کا بیان
30-مطلقہ کی اولاد کی پرورش
31-بچوں کی پرورش کا حقدا ر کون؟
32-اختتام
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
عرض ناشر


یہ کتابچہ طلاق کے مسائل کے بارے میں ہے۔ اس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں طلاق کے اہم شرعی مسائل کے بارے میں تحقیق و تشریح کی گئی ہے۔

حسن معاشرت، زوجین کے درمیان مصالحت ،شرعی پنچائتیں، طلاق نا پسندیدگی، طلاق کی شرعی حیثیت ، طلاق دینے کا شرعی طریقہ، خلع کا طریقہ، ایک مجلس میں تین طلاقوں کے واقع ہونے کے بارے میں شرعی حکم، مسئلہ عدت اور اولاد کی پرورش جیسے اہم موضوعات اس کتابچے میں شامل ہیں۔

اللہ رب العزت نے جہاں طلاق کو مشروع قرار دیا ہے وہاں اسے انتہائی نا پسندیدہ بھی قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبار ک ہے:
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے انتہائی نا پسندیدہ چیز طلاق ہے‘‘
(ابو دائود ،ابن ماجہ، مستدرک حاکم، براویت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ)

ہمارے ہاں عام لوگوں میں چونکہ علم کی بہت کمی ہے اس لئے ہمارے ہاں طلاق کا مسئلہ ان اہم معاشرتی مسائل میں سے ہے جو سخت الجھا ہوا ہے اور اس سلسلے میں صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ یہ کتابچہ جسے ہم عامۃ الناس کے استفادہ کے لئے دوبارہ شائع کر رہے ہیں ،نہایت مفید و رہنما ثابت ہوگا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو قرآن و حدیث کی سچی پیروی کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
مقدمہ

الحمدللہ الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ والصلوۃ والسلام علی خیر خلقہ محمد والہ واصحابہ وازواجہ واتباعہ واھل بیتہ اجمعین اللھم ارنا الحق حقا وارزاقنا اتباعہ ،وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ رب اشرح لی صدری و یسرلی امری واحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی ۔ اما بعد!

نکاح وہ مضبوط رشتہ ہے جس کے ذریعے مرد اور عورت دونوں اسلامی قانون کے تحت ایک دوسرے سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے الفت و محبت اور رحمت و مؤدت کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے اطمینان و سکون حاصل کر کے امن و چین اور راحت و سکون کی زندگی گزار سکیں۔

جہاں اسلام نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ
’’وَعاَشِرُوْھنُ َّبِالْمَعْرُوْفِ‘‘ (النساء ۱۹)
عورتوں کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرو۔ وہاں عورتوں کو بھی حکم ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کی پوری پوری اطاعت و فرماں برداری کریں اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں۔

’’ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ‘‘ (البقرۃ ۲۲۸)
ترجمہ:’’جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ایسے ہی عورتوں کے بھی ان پر دستور کے موافق حقوق ہیں‘‘
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
حسن معاشرت

اسلام کی رو سے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہیئے اور حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَعاَشِرُوْھنُ َّبِالْمَعْرُوْفِ‘‘ (النساء :۱۹)
’’عورتوں کے ساتھ بھلائی اور اچھائی کا سلوک کرو‘‘
’’ مَتَاعاً بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ (البقرۃ :۲۳۶)
’’نیک لوگوں پر حق ہے کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں‘‘
’’ فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لِّتَعْتَدُواْ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ ‘‘ (البقرۃ :۲۳۱)
’’پس ان کو بھلے طریقے سے رکھ لو یا شریفانہ طرز سے چھوڑ دو اور دکھ دینے کے لئے ان کو مت روکنا کہ ظلم کرنے لگو اور جو کوئی یہ کرے گا تو اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا‘‘
’’ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ‘‘ (البقرۃ :۲۲۹)
’’اگر رکھو تو اچھی طرح رکھو اور اگر نباہ نہ ہو تو تفریق کر لو لیکن ہر حالت میں حسن سلوک کو مد نظر رکھو کسی پر ظلم نہ کرو‘‘
’’ فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ ‘‘ (الطلاق:۲)
’’پس ان کو بھلے طریق سے رکھ لو یا شریفانہ طرز سے علیحدہ کردو‘‘
رحمۃ للعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استوصوا بالنساء خیرا فانھن خلقن من ضلع وان اعوج شیء فی الضلع اعلاہ فان ذھبت تقیمہ کسرتہ وان ترکتہ لم یزل اعوج فاستوصوا بالنساء خیرا‘‘ (بخاری ج ۲ ص۷۷۹مسلم ج ۱،ص۴۷۵)
’’عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو اس لئے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی کا زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر والے حصے میں ہوتا ہے پھر اگر تم اس کے سیدھاکرنے کا ارادہ کرو گے تو اس کو توڑ ڈالو گے اور اگر اسی حالت میں چھوڑ دیا تو پسلی ٹیڑھی حالت پر باقی رہے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت کو قبول کرو‘‘
’’عن معاویۃ القشیری قال قلت یا رسول اللہ ما حق زوجۃ احدنا علیہ قال ان تطعمھا اذا طعمت وتکسوھا اذا اکتسیت ولا تضرب الوجہ ولا تقبح ولا تھجر الا فی البیت ‘‘ (احمد، ابو داؤد ، ابن ماجہ)
’’معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم پر ہماری عورتوں کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا جب تم کھانا کھائو تو انہیں بھی کھلائو اور جب کپڑا پہنو تو انہیں بھی کپڑے پہنائو ، اور ان کے چہرے پر طمانچہ نہ مارو اور نہ انہیں برا بھلا کہو اور گھر کے علاوہ انہیں اکیلی نہ چھوڑو‘‘
’’عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یفرک مؤمن مؤمنۃ ان کرہ فیھا خلقا رضی منھا آخر‘‘
(رواہ مسلم ج۱، ص۴۷۵،طبع رشدیہ دھلی)
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایماندار خاوند ایماندار بیوی سے بغض نہ رکھے اگر کسی عادت سے ناراض ہوتا ہے تو دوسری خصلت سے خوش ہوگا‘‘
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہل و عیال پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔
’’نفقہ الرجل علی اھلہ صدقۃ ‘‘ (ترمذی ج۳ ، تحفۃ الاحوذی طبعی دھلی)
ایک اور روایت میں ہے سب سے افضل وہ دینار ہے جو آدمی اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے۔
’’افضل الدینار دینار ینفقہ الرجل علی عیالہ ‘‘ (ترمذی مع تحفۃ الاحوذی طبع دھلی ج۳،ص۳۵۶)
’’عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان من اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا والطفھم باھلہ‘‘ (ترمذی تحفۃ الاحوذی ج۳، ص۳۵۶،طبع دھلی)
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایمان والوں میں ایماندار وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ مہربانی اور بھلائی کرنے والا ہے‘‘۔
’’عن جابر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واستوصوا بالنساء فانکم اخذتموھن بامانۃ اللہ واستحللتم فروجھن بکلمۃ اللہ ‘‘ (رواہ مسلم)
’’سیدنا جابر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کے معاملے میں بھلائی کی وصیت قبول کر لو کیوں کہ اللہ کی امان میں تم نے ان کو اپنے قبضے میں لیا ہے اور اللہ کے کلمہ سے تم نے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔‘‘
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
زوجین کے درمیان مصالحت

اگر شوہر اور بیوی میں ناچاقی ہواور قصور اورغلطی عورت کی ہو تو عورت کو نصیحت کی جائے۔ رہن سہن میں علیحدگی اختیار کی جائے اس کو تنبیہ اور ڈرایا دھمکایا جائے۔ اگر یہ تدبیریں کار گر ثابت ہوں اور عورت راہ راست پر آجائے تو تو بہت ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’وَاللاَّتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْہِنَّ سَبِیْلاً ‘‘ (النساء :۳۴)
’’اور جن عورتوں کی تم شرارت معلوم کر کے ان کو سمجھائو اور شب باشی میں ان کو علیحدہ کردو اور مارو تم ان کو پھر اگر وہ تمہاری فرمانبرداری کریں تو بے جا الزام لگانے کی فکر نہ کرو‘‘
اگر ناچاقی میاں بیوی میں دونوں کی طرف سے ہو اور دونوں قصوروار ہوں تو ایک(پنچ )مرد کی طرف سے ایک حکم( پنچ )عورت کی طرف سے مقرر کئے جائیں اور وہ مصالحت پوری پوری کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُواْ حَکَماً مِّنْ أَہْلِہِ وَحَکَماً مِّنْ أَہْلِہَا إِن یُرِیْدَا إِصْلاَحاً یُوَفِّقِ اللّہُ بَیْنَہُمَا ‘‘ (النسائ: ۳۵)
’’اور اگر شوہر بیوی میں مخالفت پائو تو ایک منصف مرد کے کنبہ سے تجویز کرو اور ایک عورت کے کنبہ سے اگر وہ دونوں صلح کرانی چاہیں گے تو اللہ بھی ان کو صلح کی توفیق دے گا‘‘
اگر پنچ سے فیصلہ نہ ہو سکے تو اس قضیئے کو علماء کے سپرد کر دیا جائے تاکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا کوئی بہترین حل پیش کر سکیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
شرعی پنچایتیں

اس ملک(پاکستان) میں اسلامی حکومت نہیں جو مسلمانوں کے مقدمات کو اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ کر سکے اس لئے مسلمانوں کو چاہیئے کہ صوبائی و علاقائی شرعی پنچایتیں قائم کریں جن میں ماہر علماء کی ایک جماعت شامل ہو اور صوبائی و علاقائی سر پنچوں کو حکم( جج) کا درجہ حاصل ہو جو مسلمانوں کے تمام جھگڑوں کا فیصلہ قرآ ن وحدیث کے مطابق انجام دیں اور کوشش کریں کہ حکومت ان کو پوری طرح تسلیم کرے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
طلاق نا پسندیدہ ہے

اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ‘‘ ( ابو داؤد مع عون المعبود ج۱ ،ص۲۲۱، طبع انصاری دھلی)
’’حلال چیزوں میں سے سب سے مبغوض ترین چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے‘‘
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
طلاق دینے کا شرعی طریقہ

طلاق دینے والے مرد کو چاہیئے کہ وہ طلاق کا شرعی طریقہ اختیار کرے اور طلاق کا شرعی اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ:

1۔ صرف ایک طلاق دی جائے یعنی شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی۔ اس پر طلاق ہو جائے گی، پس ایک طلاق دینے پر ہی اکتفا کرے۔ (سورۃ الطلاق آیت نمبر ۱ پ ۲۸)

2۔ طلاق حالت طہر( یعنی ماہواری کے بعد پاکی کی حالت) میں دی جائے جس میں شوہر نے مجامعت نہ کی ہو۔ (بخاری)

3۔ طلاق دو عادل گواہوں کی موجودگی میں دی جائے۔ (الطلاق:2)

4۔ طلاق دینے کے بعد عورت کو عدت گذارنی ہوگی۔ عدت تین ماہواری تک ہے۔ لیکن حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور اگر عورت کو ایام ماہوری نہ آتے ہوں تواس کی عدت تین قمری ماہ تک ہے۔ عدت کے دوران مرد رجوع کر سکتا ہے۔ رجوع کے لئے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے رجوع کر لیا، رجوع دو عادل گواہوں کی موجودگی میں کیا جائے۔ (سورہ بقرہ :228،سورہ الطلاق :4، سورہ الاحزاب 49)

5۔ رجوع نہ کرنے کی صورت میں عدت گذارتے ہی عورت مرد سے جدا ہو جائے گی۔ لیکن یہ ایک طلاق ہوگی۔ اگر مرد اور عورت دونوں چاہیں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ (سورہ بقرہ:231،سورہ الطلاق سورئہ البقرۃ 232)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
تین طلاق دینے کا شرعی طریقہ

طلاق کا صحیح طریقہ اوپر بیان کیا گیا ہے لیکن اگر کسی شخص کو تین طلاق ہی دینی ہو تو وہ تین طہروں یعنی تین مہینوں میں تین طلاق دے سکتا ہے۔ امام نسائی، باب ’’طلاق السنہ‘‘ کے تحت حدیث بیان فرماتے ہیں کہ:
’’سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : مسنون طلاق یہ ہے کہ طہر (پاکی) کی حالت میں بغیر ہم بستری کئے ایک طلاق دے ،پھر ماہواری کے بعد پاکی میں دوسری طلاق دے اور پھر اسی طرح تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے‘‘۔
(سنن نسائی،ج۲،ص۸۰)
 
Top