• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طلاق کے مسائل

شمولیت
مئی 31، 2017
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
36


تحریر : غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری

سوال : : ایک یا دو طلاقیں دیں، بیوی عدت میں تھی کہ شوہر کی وفات ہو گئی، کیا وارث بنے گی؟
جواب : بیوی وارث بنے گی، اسی طرح بیوی دورانِ عدت فوت ہو جائے، تو شوہر وارث بنے گا۔ یہ اجماعی مسئلہ ہے۔
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سَأَلْتُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہ، فِي مَرَضِہٖ فَبَتَّہَا قَالَ : أَمَّا عُثْمَانُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَوَرَّثَہَا، وَأَمَّا أَنَا فَلَا أَرٰی أَنْ أُوَرِّثَہَا بِبَیْنُونَتِہٖ إِیَّاہَا .
''میں نے سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما سے ایسے آدمی کے متعلق پوچھا، جو اپنے مرض الموت میں طلاقِ بتہ دے ۔ فرمانے لگے : سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تو اسے وارث قرار دیتے ہیں، جب کہ میں اسے وارث نہیں سمجھتا، کیوں کہ وہ اسے طلاقِ بتہ دے بیٹھا ہے۔'' (السنن الکبریٰ للبیھقي : ٧/٣٦٢، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (٣٨٤۔٦ ٤٥ھ) فرماتے ہیں:
وَالطَّلَاقُ الرَّجْعِيُّ ہُوَ الَّذِي یَکُونُ فِیہِ الزَّوْجُ مُخَیَّرًا مَا دَامَتْ فِي الْعِدَّۃِ بَیْنَ تَرْکِہَا لَا یُرَاجِعُہَا حَتّٰی تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا، فَتَمْلِکُ أَمْرَہَا فَلَا یُرَاجِعُہَا إلَّا بِوَلِيٍّ وَرِضَاہَا، وَصَدَاقٍ، وَبَیْنَ أَنْ یُشْہِدَ عَلَی ارْتِجَاعِہَا فَقَطْ فَتَکُونُ زَوْجَتُہ، أَحَبَّتْ أَمْ کَرِہَتْ بِلَا وَلِيٍّ وَلَا صَدَاقٍ، لَکِنْ بِإِشْہَادٍ فَقَطْ. وَلَوْ مَاتَ أَحَدُہُمَا قَبْلَ تَمَامِ الْعِدَّۃِ وَقَبْلَ الْمُرَاجَعَۃِ وَرِثَہُ الْبَاقِي مِنْہُمَا وَہٰذَا لَا خِلَافَ فِیہِ مِنْ أَحَدٍ مِنْ الْأَئِمَّۃِ .
''رجعی طلاق یہ ہے، جس میں خاوند یا تو اپنی بیوی کو عدت کے اختتام تک چھوڑے رکھے۔ عدت کے بعد عورت آزاد ہے۔ خاوند دوبارہ بسانا چاہے، تو عورت کی رضا مندی، ولی کی اجازت اور نئے حق مہر کے ساتھ اسے بیوی بنا سکتا ہے، یا پھر (عدت کے دوران) گواہ بنا کر رجوع کر لے، تو وہ اس کی بیوی رہے گی، بیوی (اس رجوع پر) راضی ہو، یا نہ ہو۔ اس میں کسی ولی یا نئے حق مہر کی ضرورت نہیں، بس گواہی کافی ہے۔ عدت ختم ہونے یا رجوع سے پہلے خاوند بیوی میں کوئی فوت ہوجائے، تو دوسرا وارث بنے گا۔ اس مسئلہ میں ائمہ کا اختلاف نہیں۔''
(المحلیٰ بالآثار : ٩/٤٨٤، مسئلۃ نمبر : ١٩٦٨)
نیز شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اجماع ذکر کیا ہے۔
(مجمو ع الفتاویٰ : ٣٣/٩)
سوال : ایک یا دو رجعی طلاقیں دیں، عورت کی عدت بھی ختم ہو گی، اب گھر آباد کرنے کی کیا صورت ہے؟
جواب : نکاحِ جدید کے ساتھ بیوی بنا سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
١۔ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوفِ .
(سورۃ البقرۃ : ٢٣٢)
''جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت ختم ہو جائے، تم (اولیا) انہیں اپنے سابقہ شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، جب اچھے طریقے سے رضا مند ہو جائیں۔''
2 سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ أُخْتَ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ طَلَّقَہَا زَوْجُہَا فَتَرَکَہَا حَتَّی انْقَضَتْ عِدَّتُہَا، فَخَطَبَہَا، فَأَبٰی مَعْقِلٌ فَنَزَلَتْ : 'فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ' (البقرۃ : ٢٣٢)
''سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی ، عدت ختم ہونے تک چھوڑے رکھا، پھر نکاح کا پیغام بھیجا، تو سیدنا معقل رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہو گئی : فَلَا تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ' (البقرۃ : ٢٣٢) 'انہیں اپنے سابقہ شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔'' (صحیح البخاري : ٤٥٢٩)
3 سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کَانَتْ لِي أُخْتٌ تُخْطَبُ إِلَیَّ فَأَتَانِي ابْنُ عَمٍّ لِي فَأَنْکَحْتُہَا إِیَّاہُ، ثُمَّ طَلَّقَہَا طَلَاقًا لَہ، رَجْعَۃٌ، ثُمَّ تَرَکَہَا حَتَّی انْقَضَتْ عِدَّتُہَا، فَلَمَّا خُطِبَتْ إِلَيَّ أَتَانِي یَخْطُبُہَا، فَقُلْتُ : لَا، وَاللّٰہِ لَا أُنْکِحُہَا أَبَدًا، قَالَ : فَفِيَّ نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ 'وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ' (البقرۃ : ٢٣٢) الْآیَۃَ، قَالَ : فَکَفَّرْتُ عَنْ یَمِینِي فَأَنْکَحْتُہَا إِیَّاہُ .
''مجھے اپنی بہن کی منگنی کا پیغام ملا۔ میرے چچا زاد آئے، تو میں نے ان سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا، اس نے طلاق ِ رجعی دے دی، حتی کہ عدت ختم ہو گئی۔ پھر اس نے نکاحِ جدید کا پیغام بھیجا، میں نے کہا : نہیں، اللہ کی قسم! میں ہرگز نکاح نہیں کروں گا، میرے بارے میں ہی یہ آیت نازل ہوئی: 'وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوفِ' 'جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت ختم ہو جائے، تم انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، جب باہم رضا مند ہوں۔' اس کے بعد میں نے اپنی قسم کا کفارہ دیااور ان سے شادی کر دی۔'' (سنن أبي داؤد : ٢٠٨٧، وسندہ، حسنٌ)
علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
أَنْ یُطَلِّقَہَا دُونَ الثَّلَاثِ ثُمَّ تَعُودَ إلَیْہِ بِرَجْعَۃٍ، أَوْ نِکَاحٍ جَدِیدٍ قَبْلَ زَوْجٍ ثَانٍ فَہَذِہٖ تَرْجِعُ إلَیْہِ عَلٰی مَا بَقِیَ مِنْ طَلَاقِہَا بِغَیْرِ خِلَافٍ نَعْلَمُہ، .
''تین سے کم طلاقیں دے بیٹھے اور دوسرے خاوند سے نکاح کر لینے سے پہلے رجوع یا نکاح ِجدید کر کے اسے واپس لے آئے، تو اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ عورت اپنے خاوند کی طرف بقیہ طلاق کی بنا پر واپس آ سکتی ہے۔''
(المغني : ٨/٤٤١)
سوال : ایک یا دو طلاقیں ہوئیں، عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کر لی، اس نے بھی طلاق دے دی، کیا پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے؟
جواب : جی ہاں، پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
أَیُّمَا امْرَأَۃٍ طَلَّقَہَا زَوْجُہَا، تَطْلِیقَۃً، أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ، ثُمَّ تَرَکَہَا، حَتّٰی تَحِلَّ، وَتَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ، فَیَمُوتُ عَنْہَا، أَوْ یُطَلِّقُہَا، ثُمَّ یَنْکِحُہَا زَوْجُہَا الْأَوَّلُ، فَإِنَّہَا تَکُونُ عِنْدَہ، عَلٰی مَا بَقِیَ مِنْ طَلاَقِہَا .
جس عورت کو اس کا خاوند ایک یا دو طلاقیں دے دے او رعدت ختم ہو جانے تک رجوع نہ کرے، عورت کسی اور سے شادی کر لے اور وہ فوت ہو جائے یا طلاق دے دے، پھر پہلے خاوند سے نکاح کر لے، تو یہ عورت پہلے خاوند کے پاس بقیہ طلاق کی بنا پر رشتہئ زوجیت قائم رکھ سکتی ہے۔''
(مؤطأ الإمام مالک : ٢/٥٨٦، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي : ٧/٣٦٥، وسندہ، صحیحٌ)
طاؤس رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِي الرَّجُلِ یُطَلِّقُ تَطْلِیقَتَیْنِ ثُمَّ یَتَزَوَّجُہَا رَجُلٌ آخَرُ فَیُطَلِّقُہَا أَوْ یَمُوتُ عَنْہَا فَیَتَزَوَّجُہَا زَوْجُہَا الْأَوَّلُ قَالَ : فَتَکُونُ عَلٰی طَلَاقٍ جَدِیدٍ ثَلَاثٍ .
''ایک شخص نے دو طلاقیں دیں، پھر اس عورت سے کسی اور نے شادی کر لی۔ دوسرے آدمی نے طلاق دے دی یا فوت ہو گیا، تو وہ پہلے خاوند سے شادی کر لیتی ہے۔ اس صورت حال کے متعلق سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: وہ نئی تین طلاقوں کا مختار ہو گا۔''
(السنن الکبریٰ : ٧/٣٦٥، وسندہ، صحیحٌ)
رہا طلاقِ جدید کا مسئلہ ، تو یہ مرجوح ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا مؤقف ہی راجح ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ذکر کر کے امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَعَلٰی ذَالِکَ السُّنَّۃُ عِنْدَنَا الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِیہَا .
''اس مسئلہ میں ہمارے ہاں بغیر کسی اختلاف کے یہی طریقہ رائج ہے۔''
(مؤطا الإمام مالک : ٢/٥٨٦)
سوال : حاملہ کو طلاقِ رجعی ہو یا بائن یا وہ شوہر کی وفات کی عدت میں ہو، تو اس کا نان و نفقہ کس کے ذمہ ہے؟
جواب : ہر دو صورتوں میں نان و نفقہ شوہر پر واجب ہے، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
وَإِنْ کُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنْفِقُوا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ .
(سورۃ الطلاق : ٦)
''عورتیں حاملہ ہوں، تو وضعِ حمل تک ان پر خرچ کر یں۔''
سیدہ فاطمہ بنت قیسr کو تین طلاقیں ہوئیں، تو نبی کریمe نے فرمایا:
لَا نَفَقَۃَ لَکِ إِلَّا أَنْ تَکُونِي حَامِلًا .
''آپ کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے، الا کہ آپ حاملہ ہوتیں۔''
(سنن أبي داؤد : ٢٢٩٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
الْمَبْتُوتَۃُ لاَ تَخْرُجُ مِنْ بَیْتِہَا، حَتّٰی تَحِلَّ .وَلَیْسَتْ لَہَا نَفَقَۃٌ . إِلاَّ أَنْ تَکُونَ حَامِلاً، فَیُنْفَقُ عَلَیْہَا حَتّٰی تَضَعَ حَمْلَہَا .
''طلاقِ بتہ والی عورت عدت ختم ہونے تک گھر سے باہر نہیں نکلے گی۔ اس کے لیے نفقہ بھی نہیں ہوگا، ہاں حاملہ ہو، تو وضعِ حمل تک خرچہ خاوند کے ذمہ ہے۔''
(مؤطا الإمام مالک : ٤/٨٣٧)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وھذا الأمر عندنا . ''ہمارا بھی یہی مؤقف ہے۔'' (ایضاً)
سوال : اگر ایک یا دو طلاقیں ہو جائیں، تو دورانِ عدت نان و نفقہ اور رہائش کس کے ذمہ ہے؟
جواب : رجعی طلاق میں دورانِ عدت تمام اخراجات اور رہائش بذمہ شوہر ہوں گے۔
جیسا کہ نبی کریمe نے فرمایاـ:
إِنَّمَا النَّفَقَۃُ وَالسُّکْنٰی لِلْمَرْأَۃِ إِذَا کَانَ لِزَوْجِہَا عَلَیْہَا الرَّجْعَۃُ .
''رجعی طلاق میں ہی عورت کے لیے نفقہ و سکنی ہے۔''
(سنن النسائي : ٣٤٠٣، وسندہ، صحیحٌ)
نیز یہ مسلمانوں کا اجماعی مسئلہ ہے۔ حافظ بغوی رحمہ اللہ (٥١٦ھ) لکھتے ہیں:
لَا خلاف بَین أہل الْعلم فِي الْمُعْتَدَّۃ الرَّجْعِیَّۃ أَنَّہَا تسْتَحقّ النَّفَقَۃ، وَالسُّکْنٰی علی زَوجہَا .
''اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ طلاقِ رجعی کی عدت گزارنے والی عورت کا نفقہ و سکنی خاوند کے ذمہ ہے۔'' (شرح السنۃ : ٩/٣٠٢)
سوال : نکاح ہوا تھا، رخصتی نہیں ہوئی کہ شوہر فوت ہو گیا، کیا عدت گزارے گا؟
جواب : جی ہاں، عدت گزارے گی، کیوں کہ شوہر کی وفات پر عدت مطلق بیان ہوئی ہے، اس میں استثنیٰ نہیں ہے۔
سوال : رجعی طلاق کی عدت میں تھی کہ خاوند فوت ہو گیا، تو کیا کرے گی؟
جواب : وہ اس عدت کو عدتِ وفات میں بدل دے گی، یعنی چار ماہ دس دن عدت گزارے گی۔
 
Top