• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طواف یا سعی میں کسی کو نمائندہ بنانے کا تفصیلی حکم :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
طواف یا سعی میں کسی کو نمائندہ بنانے کا تفصیلی حکم !

سوال:

ایک عورت نے عمرہ کرتے ہوئے طواف تو کر لیا لیکن سعی کی ہمت نہ رہی، چنانچہ اس کی جگہ کسی دوسرے شخص نے مکمل سعی کی تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ اور اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الحمد للہ:

حج اور عمرہ کے کچھ ارکان میں کسی کو اپنا وکیل بنانا موکل کی حالت کے اعتبار سے مختلف احکامات رکھتا ہے:

الف- فقہائے کرام نے صراحت سے لکھا ہے کہ:

1- اگر ایک شخص قدرت و استطاعت رکھتا ہو

2- اس کیلئے طواف اور سعی کسی عارضی رکاوٹ کی وجہ سے ناممکن ہو لیکن مستقبل میں اس رکاوٹ کے زائل ہونے کا امکان ہو۔

3- وہ کسی کو اجرت دیکر یا کسی کا سہارا لیکر طواف اور سعی کر سکتا ہو

مذکورہ تمام صورتوں میں طواف اور سعی کیلئے کسی کو وکیل نہیں بنایا جاسکتا؛ کیونکہ بدنی عبادت ہر مسلمان خود کرنے کا مکلف ہے اور اللہ کے سامنے خود ہی عبادت کرنے کا جوابدہ بھی ہے، چنانچہ عبادت موکل سے وکیل کی طرف کسی شرعی عذر کی بنا پر ہی منتقل ہوگی، اور طواف و سعی کیلئے گنجائش مزید معدوم ہو جاتی ہے جیسا کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں: "طواف اور سعی کرنے کا وقت ختم نہیں ہوتا لیکن رمی کا وقت محدود سا ہوتا ہے[اس لیے عارضی تکلیف کی وجہ سے رمی کیلئے کسی کو اپنا وکیل بنانا جائز ہے طواف اور سعی کیلئے جائز نہیں ہے]"
دیکھیں: " مجموع فتاوى ابن باز " (16/86)

اور اسی طرح " حاشیہ قلیوبی" (2/139) میں ہے کہ:

"طواف ، سعی ، اور سر کے بال منڈوانے میں کسی کو اپنا وکیل نہیں بنایا جا سکتا" انتہی بتصرف

اسی طرح شیخ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

"کیا طواف اور تلاوتِ قرآن کیلئے کسی کو وکیل بنانا جائز ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:

"تلاوت قرآن اور طواف کیلئے کسی کو مکمل نمائندگی دینا صحیح نہیں ہے، ہاں اگر کوئی معاون کے طور پر کسی کو اجرت پر رکھ لے تو جائز ہے" انتہی
" الفتاوى الفقهية الكبرى " (2/ 130)

سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر کوئی جدہ کا حاجی بیمار ہو اور طواف و سعی کیلئے پیدل چلنے سے قاصر ہو تو اسے اٹھا کر طواف کروایا جائے گا اور گاڑی وغیرہ میں بٹھا کر سعی کرائی جائے گی"

" مجموع فتاوى و رسائل سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ الله " (6/60) .

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی (10/271) کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:

"اگر میں بڑھاپے اور صحت کی خرابی کی وجہ سے مکہ واپس نہ جا سکوں تو کیا مجھے اپنی طرف سے طواف افاضہ اور طواف وداع کرنے کی ذمہ داری کسی اور کو دینا جائز ہے؟"

تو کمیٹی کا جواب تھا:

"طواف افاضہ اور طواف وداع میں کسی کو اپنا وکیل بنانا جائز نہیں ہے، اور جو شخص خود طواف نہیں کر سکتا اسے اٹھا کر طواف کروایا جائے گا، اس لئے آپ کو مکہ آنا ہی پرے گا" انتہی

عبد العزیز بن باز، عبد العزیز آل شیخ ، صالح فوزان، بکر ابو زید

دوم:

جو شخص حج یا عمرے کے افعال کو ادا کرنے سے مکمل طور پر قاصر ہو جائے ، یا کوئی ایسا دائمی مرض لاحق ہو جائے جس کی وجہ سے حج و عمرے کے ارکان شدید اور سخت ترین مشقت کے بعد ہی ادا ہو سکتے ہوں، تو اس وقت کسی کو ان ارکان کے ادا کرنے کیلئے اپنا نمائندہ بنا یا جا سکتا ہے، لیکن دو اہم شرطوں کیساتھ:

1- حج یا عمرہ مکمل نہ کرنے سے عاجز ہونے کا سبب ، یا حاصل ہونے والی شدید مشقت دائمی مرض ہو یا ناقابل تلافی مانع ہو، چنانچہ اگر قابل تلافی مانع ہو جو کہ آرام کرنے یا دوا کھانے سے زائل ہو جائے ، یا وقتی طور پر رکاوٹ پیدا ہو بعد میں ختم ہو جائے تو ایسی صورت میں مطلق طور پر کسی کو اپنا نمائندہ بنانا جائز نہیں ہے۔

2- عاجز شخص کو اٹھا کر طواف یا سعی کرنا ممکن نہ ہو، مثلاً: اگر اٹھا کر طواف یا سعی کروائی گئی تو بیماری بڑھ جانے کا خدشہ ہو، یا اٹھانے پر اسے چکر آتے ہوں، یا کوئی اٹھانے والا ہی میسر نہ ہو ، چنانچہ اگر کوئی تعاون کرنے والا شخص مل جائے یا پیسے لیکر اسے طواف و سعی کروا دے تو ایسی صورت میں کسی دوسرے شخص کو اپنا وکیل بنانا درست نہیں ہے۔

جب دونوں شرائط پائی جائیں تو ایسی صورت میں کسی کو وکیل بنانے کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے، جو کہ خثعمی خاتون کے بارے میں ہے، جس میں اس عورت نے کہا تھا: "یا رسول اللہ! بیشک اللہ تعالی کی طرف سے فریضہ حج میرے والد پر بڑھاپے کی حالت میں فرض ہو گیا ہے، اور وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ " تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہاں)، اور یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا" بخاری: (1513) مسلم: (1334)

چنانچہ اگر بڑھاپے کی وجہ سے مکمل حج یا عمرے کیلئے کسی کو اپنا وکیل بنانا جائز ہے تو حج و عمرہ کے بعض اعمال میں بالاولی جائز ہوگا۔

ا
مام رملی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

"ایک شخص نے طواف افاضہ ترک کر دیا اور واپس مثال کے طور پر مصر آگیا ، پھر تمام شرائط کے مطابق ارکان پورے کرنے سے عاجز ہو گیا تو کیا اس کیلئے طواف افاضہ یا کوئی اور رکن یا واجب ادا کرنے کیلئے کسی کو اپنا وکیل بنانا جائز ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:

"وہ کسی کو اپنا وکیل بنا سکتا ہے، بلکہ اس کیلئے یہی واجب ہے؛ کیونکہ اگر حج کے تمام ارکان میں کسی کی نیابت جائز ہے تو کچھ ارکان میں بالاولی جائز ہوگی۔

یہاں یہ نہیں کہا جائے گا کہ : "یہ بدنی عبادت ہے اور بدنی عبادت میں کسی کی نیابت یا نمائندگی نہیں ہو سکتی"؛ کیونکہ یہ بات اس وقت درست ہوتی ہے جب موکل فوت ہو جائے یا موکل خود عبادت کرنے کی طاقت رکھتا ہو، لیکن جب موکل عاجز ہو تو اس کی طرف سے نیابت ہو سکتی ہے۔

بلکہ فقہائے کرام کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرپرست اپنے سمجھدار اور غیر سمجھدار بچے کی طرف سے اور اسی طرح پاگل کی طرف سے احرام کی نیت کر سکتا ہے، اور سرپرست اس کی طرف سے تمام ہر وہ کام کریگا جو ان کی استطاعت میں نہ ہو۔

چنانچہ ان دو صورتوں [یعنی : بچے اور پاگل کی طرف سے احرام کی نیت]میں نفلی مناسک ادا کیے جاتے ہیں، حالانکہ اگر موکل خود بھی یہ کام نہ کرے تو موکل کو کوئی گناہ نہیں ہوگا[کیونکہ موکل ابھی مکلف نہیں ہے] اور ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو)؛ اسی طرح ناگہانی اور پیچیدہ صورت حال میں جب کسی قدر آسان عمل کی ادائیگی کا امکان ہو تو یہ امکان گنوایا نہیں جاتا۔

فقہائے کرام کا یہ بھی کہنا ہے کہ:

"جو شخص مقررہ وقت پر کنکریاں مارنے سے عاجز آ جائے تو اس پر کنکریاں مارنے کیلئے کسی کو اپنا نمائندہ مقرر کرنا واجب ہے؛ انہوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ مکمل حج میں کسی کی طرف سے نیابت کرنا جائز ہے، تو بالکل اسی طرح حج کے بعض ارکان میں بھی نیابت جائز ہے، چنانچہ نمائندگی کرتے ہوئے حج کے ارکان ادا کرنے والے شخص کے اعمال کو انہوں نے موکل کے اعمال کا درجہ ہی دیا ہے۔

اگر یہ موقف ایسے عمل کے بارے میں ہے جو استطاعت کے باوجود چھوٹ جانے کی صورت میں دم دیکر پورا کیا جا سکتا ہے تو رکن میں کسی کی طرف سے نیابت کیوں نہیں ہو سکتی!؟

لیکن یہ الگ بات ہے کہ حج یا عمرے کے دوران فوت ہو جانے والے شخص کی رہ جانے والے اعمال حج و عمرہ میں نیابت نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ کلی طور پر عبادت کا اہل ہی نہیں رہا" انتہی
" فتاوى الرملی " (2/93-94)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذیل سوال پوچھا گیا:

"کیا میں اپنی طرف سے طواف اور سعی کرنے کی ذمہ داری کسی اور کو سونپ سکتا ہوں؟ کیونکہ میں طواف اور سعی کے دوران بھیڑ اور رش کا سامنا نہیں کر سکتا"

تو انہوں نے جواب دیا:

"اگر حاجی بذاتہ خود طواف اور سعی کر نے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے خود ہی طواف اور سعی کرنی چاہیے کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ}

اور اللہ کیلئے حج اور عمرہ [خود ہی] مکمل کرو۔ [البقرة : 196]


چنانچہ جس شخص نے حج یا عمرہ کرنا شروع کر دیا تو تمام مسلمانوں کے اجماع کے مطابق اسے حج یا عمرہ مکمل کرنا ہوگا، چاہے یہ نفل ہی کیوں نہ ہوں، چنانچہ جو شخص احرام باندھ کر ان کی نیت کر لے تو فرمانِ باری تعالی
{وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ} کی تعمیل کرتے ہوئے اسے حج اور عمرہ مکمل کرنا چاہیے، لہذا اگر طواف اور سعی سے عاجز آجائے تو اسے کمر یا ویل چیئر پر اٹھا کر طواف اور سعی کروائی جائے، یہی اس کیلئے واجب ہے، لیکن کسی کو اپنی طرف سے طواف اور سعی کی ذمہ داری مت سونپے۔

یہ معروف ہے کہ بوڑھے مرد اور بوڑھی خاتون کی طرف سے مکمل حج کرنا جائز ہے، جیسے کہ خثعمی خاتون کی حدیث میں اس کی دلیل ہے، جب اس نے کہا تھا:

"یا رسول اللہ! بیشک اللہ تعالی کی طرف سے فریضہ حج میرے والد پر بڑھاپے کی حالت میں فرض ہو گیا ہے، اور وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ " تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے والد کی طرف سے حج کرو)،

اسی طرح وہ حدیث جس میں ایک آدمی نے کہا تھا:

"یا رسول اللہ! میرے والد پر حج فرض ہو گیا ہے، لیکن وہ بہت بوڑھے ہیں، حج اور سفر کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کرو)

چنانچہ بوڑھے مرد اور بوڑھی خواتین جو سواری پر سفر نہیں کر سکتے ان کی طرف سے ایسے ہی حج کیا جا سکتا ہے جیسے میت کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے۔

تاہم اگر کسی بوڑھے شخص یا بوڑھی خاتون نے تکلف کرتے ہوئے احرام باندھ لیا اور حج یا عمرہ کرنے کیلئے نکل پڑا ، لیکن بڑھاپے کی وجہ سے یا کسی دائمی بیماری کی وجہ سے حج یا عمرہ مکمل نہ کر سکا تو اپنی طرف سے کسی کو حج یا عمرہ مکمل کرنے کی ذمہ داری سونپ سکتا ہے، کیونکہ وہ ایسا کرنے سے عاجز ہے۔

لیکن جو شخص خود سے ارکان پورے کر سکتا ہے، یا اسے اٹھا کر ارکان پورے کروائے جا سکتے ہیں تو وہ خود ہی تمام ارکان پورے کریگا" انتہی مختصراً
" فتاوى نور على الدرب " باہتمام: شويعر (18/7)

سائلہ کیلئے خلاصہ یہ ہے کہ:

سعی مکمل کرنے کیلئے اگر رکاوٹ عارضی ہے ، اور کچھ دیر آرام یا دوا استعمال کرنے سے سعی مکمل کر سکتی ہے چاہے اس کیلئے متعدد دن انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے ، تو ایسی صورت میں سعی مکمل کرنے کیلئے کسی دوسرے شخص کو اپنا نمائندہ نہیں بنا سکتی ، بلکہ اس کیلئے شفا یاب ہونے کے فوری بعد سعی کیلئے جانا ضروری ہے، اور اس طرح آخر میں اپنے بال کاٹ کر اپنا عمرہ مکمل کرے، چاہے اس واقعہ کو مہینے یا سال ہی کیوں نہ گزر چکے ہوں، یہ بات یاد رہے کہ اس مدت کے دوران اس سے جو احرام کے منافی امور سر زد ہوئے ہیں وہ کالعدم ہونگے کیونکہ اس خاتون کو ان کی ممانعت کا علم ہی نہیں تھا۔

پہلے ہماری ویب سائٹ پر لا علمی کی بنا پر محذورات کا ارتکاب کرنے والے کا عذر قابل قبول قرار دیا گیا ہے، اس کیلئے سوال نمبر: (36522) ، (49026) اور (95860) کا مطالعہ کریں۔

اور اگر کسی کو اپنا نمائندہ بنانے کی سابقہ تمام شرائط آپ پر مکمل ہوتی ہیں تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور ان شاء اللہ آپ کا عمرہ مکمل ہو چکا ہے۔

واللہ اعلم.

اسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/207520
 
Top