• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طوفان نوح کے بعد شرک

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
عام لوگوں کے ذہن میں یہ سوال کھٹکتا ہے کہ طوفان نوح کے ذریعہ اللہ تعالی نے سارے مشرکین کو ہلاک کردیا تھا تو پھردوبارہ شرک کب سے شروع ہوگیا, کشتی نوح میں تو صرف موحد ہی تھے مشرک تو غرق ہو گئے ؟ ۔
شرک کی ابتداء نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہوا ۔ جس کا ذکر قرآن میں اور صحیح احادیث میں موجود ہے ۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ قوم نوح میں پانچ نیک اور بزرگ لوگ تھے ، ود ،سواع، يغوث، يعوق اور نسر۔ ان صالح لوگوں کی وفات کے بعد شیطان قوم نوح کے پاس آتا ہے اور لوگوں کو ان بزرگوں کی نسبت دیکر اپنی مجلس میں بت بنانے کا ذکرکرتاہے ۔ قوم اس کی بات مان کر بت بتاتی ہے اور ان مورتوں کا وہی نام دیتی ہے۔ ابھی بت کی پوچا شروع نہیں ہوئی تھی۔ جب وہ لوگ مرگئے جنہوں نے بت بنایا تھا اور لوگوں سے بت بنانے کی وجہ ختم ہوگئی تو شرک کی ابتداء شروع ہوئی ۔(باختصارتفسیر عباس)
جیساکہ سوال میں مذکور ہے کہ طوفان نوح میں سارے مشرک مرگئے تھے تو پھر دوبارہ کب شرک شروع ہوا؟
اللہ تعالی نے جتنے پیغمبروں کو بھیجا انہوں نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور شرک سے منع کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ توحید و شرک کا علم ہرقوم میں تھا مگر آدم علیہ السلام سے لیکرنوح علیہ السلام کی پیدائش تک سارے لوگ ایک امت تھے یعنی توحید کو ماننے والے اور شرک سے بیزار تھے۔ نوح علیہ السلام کے زمانے سے شیطان کے ذریعہ شرک کی شروعات ہوئی ۔ جب اللہ تعالی نے طوفان بھیجا تو اس میں کفار سمیت سارے مشرکین غرقاب ہوگئے ۔ کہا جاتا ہے کہ طوفان نوح کے بعد شیطان دوبارہ لوگوں کے پاس آیا اور طوفان کی زد میں آنے والے بتوں کی طرف پھر سے رہنمائی کی اور لوگوں کو دوبارہ شرک میں مبتلا کیا۔
میں نے پہلے بھی بتایا کہ سارے پیغمبروں نے توحید کی دعوت دی اور شرک سے منع کیا گویا شرک لوگوں میں متعارف تھا اس لئے طوفان نوح میں جو نیک لوگ بچے ، ان کی نسلیں چلیں ، آگے چل کر پھر شرک جنم لے لیا اور لوگ اس میں واقع ہوگئے ۔ محمد ﷺ نے اپنی امت کو توحید کی دعوت دی اور شرک سے منع کیا جن کے حصے میں ہدایت تھی وہ لوگ شرک چھوڑ کر توحید پرست بن گئے ، ہدایت سے محروم لوگ توحید کی دولت سے محروم رہے ۔ آج کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ خود کو مسلمان کہتا ہے اور شرک بھی دھڑلے سے کرتا ہے اور کہتا ہے ، کہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان شرک نہیں کرسکتا جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَما يُؤمِنُ أَكثَرُ‌هُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِ‌كونَ ۔ (سورة يوسف:106)
ترجمہ: اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔
یعنی ایمان لانے والوں کی اکثریت شرک میں واقع ہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے والے مشرک خود کو مسلمان ہونے کا دعوی نہیں کرتے تھے مگر آج کے اہل شرک خود کو کیسے پکے مسلمان کہتے ہیں ؟ اور اسلام کے ان دعویداروں میں شرک کہاں سے آیا ؟ ظاہر سی بات ہے نبی ﷺ نے شرک کی جن باتوں سے امت کو منع کیا یہ باز نہیں آئے ۔ غلو اور تقلید شرک کی وجوہات میں سے ہیں انہوں نے غلو اور اندھی تقلید میں شرک کا دروازہ کھول دیا اور اس کام میں مست ہوگئے ۔

اللہ تعالی ہمیں شرک سے بچائے اور توحید کی راہ پہ چلائے ۔ آمین
 
Top