• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عالم برزخ اور میدانِ حشر شیخ محمد العریفی کی کتاب عالمِ آخرت سے ماخوذ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
شیخ محمد بن عبدالرحمٰن العریفی اپنی کتاب "عالم آخرت" کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ ملحدانہ افکارو نظریات سے متاثر ایک نوجوان سے مکالمہ کے بعد انہیں "بڑی شدت سے احساس ہوا کہ ایسے نوجوانوں کو ایک ایسی کتاب کی بہت ضرورت ہے جو آخرت کے امور پر جدید انداز سے روشنی ڈالے اور نہایت سادہ زبان میں لکھی جائے۔"

مزید کہتے ہیں کہ "اس کتاب کو میری اس کتاب کا تتمہ سمجھنا چاہیے جس میں، میں نے اختتام دنیا اور قیامت کی چھوٹی بڑی نشانیوں سے بحث کی ہے۔" یعنی 'نھایۃ العالم'۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
دنیائے آخرت!! لیکن کیوں؟!!


تمام آسمانی مذاہب اس پر متفق ہیں کہ مرنے کے بعد تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا اور ان اعمال کے نتیجے میں جو وہ دنیا میں انجام دیتے رہے ہیں، انہیں جزا و سزا کے مرحلے سے گزرنا پڑے گا۔ دنیا میں جو آدمی ظلم کرتا رہا تھا، اسے اس ظلم کی سزا دی جائے گی۔ اور جس نے دنیا میں اچھے کام کیے تھے، اسے ان اچھے کاموں کی جزا دی جائے گی۔ یوں دنیا کی زندگی، زندگی کا آخری مرحلہ نہیں۔ دنیا کی زندگی کے بعد بھی ایک لافانی زندگی سے واسطہ پڑے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:


أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْ‌ضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ‌

کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے برابر کر دیں گے جو (ہمیشہ) زمین میں فساد مچاتے رہے، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟

سورۃ ص،28:38

اور فرمایا:

قُلْ بَلَىٰ وَرَ‌بِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ‌

(اے نبی!)آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گے پھر جو تم نے کیا اس کی خبر دیئے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بلکہ آسان ہے ۔

التغابن،7:64

اس لیے یوم آخرت پر ایمان لانا ایمانیات کا ایک اہم رکن ہے۔ جو آدمی موت کے بعد کی زندگی اور حساب کتاب کا منکر ہے، وہ دراصل اللہ تعالیٰ کا منکر ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:


الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُم بِالْآخِرَ‌ةِ كَافِرُ‌ونَ

جو اللہ کی راہ سے روکتےتھے اور اس میں ٹیڑھ تلاش کرتے تھے وہ لوگ آخرت کے بھی منکر تھے۔

الاعراف،45:7
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
دنیائے آخرت پر ایمان!! لیکن کیوں؟!


اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی بنائی اور قرآن مجید میں جابجا اس کے حالات بیان کیے ہیں۔ اس نے ہم پر واجب قرار دیا ہے کہ ہم آخرت کی زندگی پر ایمان لائیں اور اس کے لیے تیاری کریں۔

دنیائے آخرت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔ اس سے آدمی کو اچھے کاموں کی ترغیب ملتی ہے۔ پریشانی اور اکتاہٹ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ برے کاموں سے نفرت ہوتی ہے۔ آدمی دوسروں پر ظلم نہیں کرتا۔ دوسروں کا حق نہیں مارتا۔ امانت میں خیانت نہیں کرتا۔ بے ایمانی سے کام نہیں لیتا کیونکہ اسے یومِ آخرت کو جواب دہی کا ڈر ہوتا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:


وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْ‌دَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ

قیامت کے دن ہم انصاف کے ترازو رکھیں گے،پھر کسی پر کچھ ظلم بھی نہ کیا جائے گا۔ اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا ہم(تولنے کے لیے) اسے لا حاضر کریں گے، اور ہم حساب کرنے میں کافی ہیں۔

الانبیاء، 47:21

اور فرمایا:

وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا

تمام چہرے اس زندہ اور قائم دائم اور مدبر، اللہ کے سامنے کمال عاجزی سے جھکے ہوئے ہونگے، یقیناً وہ ناکام ہوا جس نے ظلم (شرک) کا بوجھ اٹھایا

طہ، 111:20

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ،‏‏‏‏ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ،‏‏‏‏ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ"

اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے ظلم کیا ہو) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم، بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے (مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔

صحیح بخاری،کتاب المظالم والغصب،حدیث: 2449

 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
تاہم اہل ایمان پر رحمت کی برکھا یوں بھی برسے گی کہ اللہ تعالیٰ ظالم و مظلوم کی صلح کروا کر ظالم کو معاف اور مظلوم کو راضی کردے گا۔

قَالَ أَبُو يَعْلَى: حدَّثنا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، ثنا عبد الله بن بكر ، ثنا عَبَّادُ بْنُ شَيْبَةَ الْحَبَطِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أنس، عن أنس رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- جَالِسٌ، إِذْ رَأَيْنَاهُ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ ثناياه، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: (مَا أضحكك) يا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بأبي أنت وأمي؟ فقال -صلى الله عليه وسلم-: "رجلان جثيا من أُمتي بين يدي رب العزة جل جلاله، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَبِّ، خُذْ لِي مَظْلَمَتِي مِنْ أَخِي، قَالَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ: أَعْطِ أخاك مظلمته، قال: يا رب لم يبق من حسناتي شَيْءٌ، قَالَ: رَبِّ، فَلْيَحْمِلْ عَنِّي مِنْ أَوْزَارِي " قال: وفاضت عينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بِالْبُكَاءِ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ ذَلِكَ لِيَوْمٌ عَظِيمٌ، يحتاج الناس فيه أَنْ يُحْمَلَ عَنْهُمْ مِنْ أَوْزَارِهِمْ، فَقَالَ اللَّهُ تبارك وتعالى لِلطَّالِبِ: ارْفَعْ بَصَرَكَ فَانْظُرْ فِي الْجِنَانِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، أَرَى مَدَائِنَ مِنْ فضة، وقصورًا من ذهب، مكلَّلة باللؤلؤ لِأَيِّ نَبِيٍّ هَذَا، لِأَيِّ صِدِّيقٍ هَذَا، لِأَيِّ شَهِيدٍ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ، قَالَ: يَا رَبِّ وَمَنْ يَمْلِكُ ذَلِكَ؟ قَالَ جل وعلا: أَنْتَ تَمْلِكُهُ، قَالَ: بِمَاذَا يَا رَبِّ؟ قَالَ: تَعْفُو عَنْ أَخِيكَ قَالَ: يَا رَبِّ، فَإِنِّي قَدْ عَفَوْتُ عَنْهُ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: خُذْ بِيَدِ أَخِيكَ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ" ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عَنْ ذَلِكَ: "فاتقوا الله وأصلحوا ذات بينكم فإن الله عَزَّ وَجَلَّ يُصْلِحُ بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معمول کی مجلس میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ کو ہنستے ہوئے دیکھا۔ آپ اتنا مسکرائے کہ سامنے کے دانت دکھائی دیے۔ کسی نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ فرمایا: "میری امت کے دو فرداللہ تعالیٰ کے حضور گھٹنوں کے بل بیٹھے۔ ایک نے عرض کیا کہ ربِ کریم! مجھے میرے بھائی سے اس کے ظلم کا بدلہ دلا۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے سے فرمایا: "اپنے بھائی کو ظلم کا بدلہ دے" وہ بولا "رب تعالیٰ! میری تو کوئی نیکی نہیں بچی۔" پہلے نے عرض کیا کہ "رب کریم! اگر ایسی بات ہے تو یہ میرے گناہ اپنے سر لاد لے۔" اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ آپ نے فرمایا: "اس روز لوگوں کو یہ بھی ضرورت ہوگی کہ ان کے گناہوں کا بوجھ ہلکا کر دیا جائے۔" پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا حق مانگنے والے سے فرمایا کہ نگاہ اٹھا کر دیکھ۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو عرض کیا کہ رب عز و جل! میں تو سونے کے شہر دیکھ رہا ہوں اور سونے کے محل جن میں ہر طرف سُچے موتی جڑے ہوئے ہیں۔ یہ کس نبی کے ہیں؟ یہ کس صدیق کے ہیں؟ یہ کس شہید کے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "یہ اس کے ہیں جو ان کی قیمت چکائے گا"۔ اس نے عرض کیا: "ان کی قیمت بھلا کون چکا سکتا ہے؟ فرمایا: "تو چکا سکتا ہے ان کی قیمت۔" اس نے عرض کیا: "وہ کیسے؟" فرمایا: "اپنے بھائی کو معاف کرکے۔" تب اس نے کہا: "رب کریم! میں نے اسے معاف کیا۔" فرمایا: "تو اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ اور اسے جنت میں لے جا۔" بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور آپس میں صلح کرو۔ روز قیامت اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی صلح کرائے گا۔"

المطالب العالیۃ لابن حجر، حدیث:4590، و ضعیف الترغیب والترہیب، حدیث:1469


الإِسناد ضعيف جدًا فيه عباد بن شيبة الحبطي، وهو منكر الحديث، وشيخه سعيد بن أنس مجهول.
ولهذا قال الحافظ عقب ذكره: ضعيف جدًا.

وذكره البوصيري في الإِتحاف (٣/ ل ١٥٤)، وقال: رواه أبو يعلى بسند ضعيف لضعف سعيد بن أنس وعباد بن شيبة.

آخرت پر ایمان لانا آدمی کو فساد اور الحاد سے بچاتا ہے جبکہ یومِ آخرت کا منکر برا کام کرتے ہوئے گھبراتا نہیں، وہ ہمیشہ بے راہ روی کا شکار رہتا ہے۔

ارشادِ الٰہی ہے:

وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَ‌ةِ عَنِ الصِّرَ‌اطِ لَنَاكِبُونَ

بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ صراط مستقیم سے ہٹ رہے ہیں
المؤمنون،74:23

ایمان بالآخرت آدمی کو حسنِ اخلاق کا خوگر بناتا اور مصائب پر صبر مندی کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ دنیا کی کوئی شے چھن جائے، ضائع ہوجائے تو وہ کفِ افسوس ملنے کے بجائے ثوابِ آکرت کا امیدوار ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«مَا مِنْ مُصِيبَةٍ تُصِيبُ الْمُسْلِمَ إِلاَّ كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا عَنْهُ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا».

جو مصیبت بھی کسی مسلمان کو پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہ کا کفارہ کر دیتا ہے (کسی مسلمان کے) ایک کانٹا بھی اگر جسم کے کسی حصہ میں چبھ جائے(تو اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں)۔

صحیح بخاری،كتاب المرضى،حدیث: 5640
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
یہ ایمان بالآخرت ہی ہے جو آدمی کو اعترافِ گناہ کی جرات دلاتا اور اسے اس امر پر آمادہ کرتا ہے کہ جیسے بھی ہو، اسے گناہ کی غلاظت دھو کر پاکیزگی حاصل کرنے چاہیے۔ خود احتسابی کے حوالے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مثالی عمل و کردار ہمارے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ ایک صحابی تھے۔ شیطان نے انہیں ایک روز وسوسہ ڈالا۔ وہ ایک انصاری کی باندی سے زنا کر بیٹھے۔ ارتکاب گناہ کے بعد شیطان نے تو اپنی راہ لی جبکہ وہ سخت نادم ہوئے اور خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے۔

عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَآءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ طَهِّرْنِي فَقَالَ وَيْحَکَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اللہَ وَتُبْ إِلَيْهِ قَالَ فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَآءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ طَهِّرْنِي فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيْحَکَ ارْجِعْ فَاسْتَغْفِرِ اللہَ وَتُبْ إِلَيْهِ قَالَ فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيدٍ ثُمَّ جَآءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ طَهِّرْنِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ حَتّٰی إِذَا کَانَتِ الرَّابِعَةُ قَالَ لَهٗ رَسُولُ اللہِ فِيمَ أُطَهِّرُکَ فَقَالَ مِنَ الزِّنَا فَسَأَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبِهٖ جُنُونٌ فَأُخْبِرَ أَنَّهٗ لَيْسَ بِمَجْنُونٍ فَقَالَ أَشَرِبَ خَمْرًا فَقَامَ رَجُلٌ فَاسْتَنْکَهَهٗ فَلَمْ يَجِدْ مِنْهُ رِيحَ خَمْرٍ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزَنَيْتَ فَقَالَ نَعَمْ فَأَمَرَ بِهٖ فَرُجِمَ فَکَانَ النَّاسُ فِيهِ فِرْقَتَيْنِ قَائِلٌ يَقُولُ لَقَدْ هَلَکَ لَقَدْ أَحَاطَتْ بِهٖ خَطِيئَتُهٗ وَقَائِلٌ يَقُولُ مَا تَوْبَةٌ أَفْضَلَ مِنْ تَوْبَةِ مَاعِزٍ أَنَّهٗ جَآءَ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ يَدَهٗ فِي يَدِهٖ ثُمَّ قَالَ اقْتُلْنِي بِالْحِجَارَةِ قَالَ فَلَبِثُوا بِذٰلِکَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً ثُمَّ جَآءَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ جُلُوسٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ فَقَالُوا غَفَرَ اللہُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ

سلیمان بن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ماعز بن مالکؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے پاک کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تیرے لئے ہلاکت ہو! واپس جا، اللہ سے معافی مانگ اور اس کی طرف رجوع کر، تو وہ تھوڑی دور ہی جا کر لوٹ آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے پاک کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہلاکت ہو تیرے لئے! لوٹ جا، اللہ سے معافی مانگ اور اس کی طرف رجوع کر، وہ تھوڑی دور جا کر لوٹے، پھر آکر عرض کی: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے پاک کریں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح فرمایا، یہاں تک کہ چوتھی دفعہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے کس بارے میں پاک کروں؟ انہوں نے عرض کیا: زنا سے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا یہ دیوانہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی کہ وہ دیوانے نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا اس نے شراب پی ہے؟ تو ایک آدمی نے اٹھ کر انہیں سونگھا اور ان سے شراب کی بدبو نہ پائی اس نے کہہ دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تونے زنا کیا؟ انہوں نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تو انہیں رجم کیا گیا اور لوگ ان کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے، ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ یہ ہلاک ہوگئے اور ان کے گناہ نے انہیں گھیر لیا اور دوسرے گروہ نے کہا کہ ماعزؓ کی توبہ سے افضل کوئی توبہ نہیں، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے، انہوں نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں رکھ کر عرض کیا: مجھے پتھروں سے قتل کردیں، پس صحابہ رضی اللہ عنہم دو دن یا تین دن اسی بات پر رہے، یعنی اختلاف رہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اس حال میں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام فرمایا اور بیٹھ گئے اور فرمایا ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش مانگو، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے ایسی خالص توبہ کی ہے کہ اگر اس کو امت میں تقسیم کردیا جاتا تو ان سب کے لئے کافی ہو جاتی

صحیح مسلم، کتاب الحدود، حدیث:1692، صحیح بخاری، المحاربین، حدیث:6824، ابو داؤد:4419

ماعز کی خوش بختی کے کیا کہنے! یہ درست ہے کہ وہ زنا میں پڑے تھے۔ بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے تھے لیکن جب گناہ کی لذت جاتی رہی اور پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہ رہا تو انہوں نے ایسی توبہ کی کہ بہت سارے لوگوں میں تقسیم کردی جاتی تو ان کے لیے کافی ہوتی۔
آخر میں ایک یہ بات کہ ایمان بالآخرت آدمی کو امانتداری پر آمادہ کرتا اور ریا کاری سے محفوظ رکھتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّمَا يَعْمُرُ‌ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ
"اللہ کی مسجدیں تو صرف وہ آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکاۃ دی اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا،لہٰذا امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوں گے۔"

التوبہ، 18:9

"ایمان بالآخرت دنیا میں راحت کا اور آخرت میں سعادت (خوش انجامی) کا باعث ہے۔"
 
Top