• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عالم برزخ کا سفر

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
مومن روح کا عالم برزخ کا سفر
حصہ اول ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک انصاری صحابی کے جنازہ میں شرکت کے لئے نکلے تدفین میت سے پہلے ہم قبرستان پہونچ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہو کر بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے ارد گرد اس طرح کمال ادب سے بیٹھ گئےجیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےدست مبارک میں ایک لکڑی تھی جسے سے آپ زمین کرید رہے تھے تین مرتبہ آپ نے اپنی نظر زمین و آسمان کی طرف اٹھائی اور پست کیا پھر فرمایا۔اے لوگو عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو دو یا تین مرتبہ آپ نے یہ کہا پھر آپ نے یہ دعاپڑھی ﴿ الھم انی اعوزبک من عذاب القبر ﴾ اے اللہ عذاب قبر سے میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس دعا کو بھی آپ نے تین مرتبہ دہریا پھر آپ نے فرمایا ۔ جب بندہ مومن کا دنیا سے رخصتی اور عالم آخرت کی طرف کوچ کرنے کا وقت ہوتا ہے تو اس کے پاس انتہائی خوب رو مثل آفتا ب رشن چہرے والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہمراہ جنت کا کفن اور خوشبو ہوتی ہے اور میت کے قریب تاحد نظر بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت علیہ اسلام آتے ہیں اور مومن کے سر ہانے بیٹھ کر کہتے ہیں اے پاکیزہ روح اور دوسری روایت میں ہے اے مطمن روح اپنے رب کی مغفرت اور اس کی رضا کی طرف چل آپ نے فرمایا پھر یہ روح جسم سے ایسے نکلتی ہے جیسے مشکیزے کے منہ سے پانی ٹپکتا ہے ﴿یعنی بآسانی نکلتی ہے﴾ اس روح کو ملک الموت اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں ۔دوسری روایت میں ہے کہ مومن کی روح جب اپنے جسم سے جدا ہوتی ہے تو آسمان اور مین کے درمیان اور آسمان میں تمام فرشتے اس کے لئے مغفرت کرتے ہیں آسمان کے تمام دروازوں کو اس کے لئے کھول دیاجاتا ہے اور تمام دروازوں پر حاضر ملائکہ اپنی طرف سے اس کی آمد کے لئے دعا کرتے ہیں ۔
جونہی ملک الموت روح قبض کر کے اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں پلک جھپکنے سے پہلے میت کے قریب موجود فرشتے اسے ان سے لے لیتے ہیں اور ساتھ لائے ہوئے کفن میں اسے رکھ لیتے ہیں قبض روح کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ہمارے فرشتے اس کی جان لے لیتے ہیں اور ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرتے ﴿ سورہ الانعام آیت 61 ﴾
اس پاکیزہ روح سے روئے زمین پر موجود مشک کی سب سے بہترین خوشبو پھوٹتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ فرشتے اس روح کو لے کر آسمان کی طرف جاتے ہیں فرشتوں کی جس جماعت سے ان کا گزر ہوتا ہے وہ کہتے ہیں ا س قدر پا کیز روح کس کی ہے ہمراہ فرشتے جو١ب میں بہترین سے بہترین نام اور ولدیت بتاتے ہیں جس سے دنیا میں اسے پکارا جاتا تھا غرض یہ فرشتے اسے لے کر آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں اور آسمان کا دروازہ کھلواتے ہیں دروازہ فوراً کھول دیا جاتا ہے ہر آسمان کے مقرب فرشتے اس کے ہمراہ ﴿ اس کی دل جوئی کےلئے ﴾ اگلے آسمان تک جاتے ہیں تاآنکہ ساتویں آسمان تک اس کی رسائی ہو جاتی ہے اس وقت حکم الہیٰ ہوتا ہے ۔ میرے بندے کے نامہ اعمال کو علیین ﴿ جنت میں ایک بلندو بالا مقام ﴾ میں لکھ دو ﴿ علیین کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے﴾ اور آپ کیا جانیں بلند پایہ لوگوں کا دفتر کیا ہے وہ ایک کتاب ہے لکھی ہوئی جس کے پاس مقرب ﴿ فرشتے ﴾ حاضر رہتے ہیں ﴿ سورہ المطففین آیت 19۔21 ﴾ تو اس کے نامہ اعمال کا اندراج علیین میں کر دیا جاتا ہے پھر ارشاد الہیٰ ہوتا ہے۔ اس روح کو زمین پر واپس کر دو اس لئے کہ ہمارا ان سے وعدہ ے کہ ہم نے نہیں اسی زمین سے پیدا کیا اور اسی میں ہم انہیں لوٹائیں گے پھر اسی سےہم انہیں دوبارہ نکالیں گے پھر روح اس کے جسم میں واپس کر دی جاتی ہے ۔ تدفین کے بعد جب لوگ واپس ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے پھر اس کے پاس دو سخت ڈانٹ والے فرشتے آتے ہیں جو سے ڈانٹتے اور بٹھاتے ہیں اور سوال کرتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ مومن بندہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔ پھر سوال کرتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے ۔ پھر اس سے وہ دونوں فرشتے سوال کرتے ہیں اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جنہیں تم میں بھیجا گیا تھا ؟ تو وہ جواب دیتا ہے وہ اللہ کے رسول ہیں فرشتے اس سے کہتے ہیں تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ وہ جواب دیتا ہے میں نے قرآن مجید کو پڑھا اس پر ایمان لایا اس کی تصدیق کی پھر فرشتہ اسے ڈانٹے گا اور کہے گا تیرا ب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟ تیرے نبی کون ہیں ؟ یہ مومن پرپیش ہونے والی آخری آزمائش ہوگی اور یہی مطلب اس آیت کریمہ کا ہے ۔ جو لوگ ایمان لائے انہیں اللہ تعالیٰ قول ثابت ﴿ کلمہ طیبہ ﴾ سے دنیا کی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی ثابت رکھے گا۔ ﴿ سورہ ابرہیم آیت 27 ﴾
وہ جواب دے گا میرا رب اللہ ہے میرا دین اسلام ہے اور میرے بنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس وقت اسمان سے ندا آتی ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا اس کے لئے جنت کا بستر لگادو اسے جنت کا لباس پہنا دو اور اس کےلئے ﴿ قبر میں ﴾ جنت کا ایک دروازہ کھول دو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دروازہ کھلتے ہی جنت کی خوشبو اور اس کی تروتازہ ہوائیں اس کے پاس آنے لگتی ہیں اس کی قبر تاحد نظر کشادہ ہو جاتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ پھر اس کےپاس ایک خوبصورت خوش پو شاک خوشبو سے بسا ہوا شخص نمودار ہوتا ہے اور کہتا ہے تمہیں اس چیز کی بشارت ہو جس سے تم خوش ہوجاو گےتمہیں اللہ کی رضا اور لازوال نعمت والی جنت مبارک ہو یہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا مردہ کہے گا اللہ آپ کو بھی اچھی بشارت دے آپ کون ہیں ؟ آپ کا چہرہ ہی مسرت کا پیغام دیتا ہے وہ خوش پوشاک آدمی کہے گا میں تیر ا نیک عمل ہوں قسم ہے اللہ کی ہمیشہ ہم نے آپ کو اللہ کی اطاعت میں جلدی کرنے والا اور اس کی نافرما نی میں سست پایا ہے جس کا اللہ نے تمہیں بہترین بدلہ عطا فرمایا ہے پھر اس کے سامنے جنت و جہنم کا ایک دروازہ کھولا جائے گا ﴿ جہنم کی طرف اشارہ کرے ہوئے ﴾ اگر تم اللہ کی نافرمانی کرتے تو یہ تمہارا ٹھکانہ ہوتا جس کے عوض اللہ نے تمہیں یہ ﴿ جنت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ﴾ عطا فرمایا ہے جب وہ جنت اور اس کی نعمتوں کو دیکھے گا تو کہے گا اے رب قیامت جلدی قائم کر تا کہ میں اپنے اہل و عیال اور مال و متاع سے جا ملوں اس سے کہا جائےگا ابھی ٹھہرو جا کے آرام کرو ﴿ تاآنکہ قیامت قائم ہو جائے ﴾
یہ مومن روح کا عالم برزخ کا سفر ہے جسے اللہ رب العالمین کی مکمل حفاظت اور نگہداشت حاصل ہوتا ہے تاکہ خوشی بخوشی اپنے رب اور معبود تک وہ پہنچ جائے جس کی دنیا میں اس نے معرفت حاصل کی اور عبادت کی۔
بری روح کا سفر عالم برزخ
حصہ دوم ۔
کافر و منافق اور فاسق فاجر کی روح کا سفر عالم برزخ تو صادق مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ کیفیت کو ہم یہاں بیان کر رہے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب کافر کے دنیا چھوڑ کر آخرت کی طرف جانے کا وقت ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے سخت گیر کلام ساہ فام فرشتے آتے ہیں ان کے ہمراہ جہنم کا ٹا ٹ ہوتا ہے وہ میت کے قریب تا حد نظر بیٹھ جاتے ہیں پھر ملک الموت آتا ہے اور کافر کے سرہانے بیٹھ کر کہتا ہے اے ناپاک خبیث روح اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی طرف چل یہ سنکر روح جسم میں ادھر ادھر ﴿ چھپنے کے لئے ﴾ بھاگتی ہے جسے ملک الموت اس طرح کھینچتا ہے جس طرح بھیگے ہوئے اون سے زیادہ فنی وال آنکڑا کھینچتا ہے شدت الم سے اس کی رگیں اور پٹھے کٹ کر روح کے ساتھ نکل جاتے ہیں ۔ اس وقت آسمان و زمین کے درمیان اور آسمان پر موجود تمام فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں آسمان کے سارے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں تمام دروازوں پر حاضر ملائکہ اپنی طرف سے اس روح کے اوپر نہ چڑھانے کی اللہ سے دعا کرتے ہیں ملک الموت جیسے ہی روح قبض کرتا ہے ہمراہ فرشتہ پلک جھپکنے سے پہلے اسے لے لیتے ہیں اور ساتھ لائے ہوئے ٹاٹ میں اسے لپیٹ لیتے ہیں ۔ روئے زمین پر موجود سب سے بد ترین متعفن لاش کی اس سے بدبو نکلتی ہے پھر وہ اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں فرشتوں کےجس گروہ سے ان کا گزر ہوتا ہے وہ سب یہی کہتے ہیں اس قدر بری روح کس کی ہے ؟ جواب میں بد سے بدتر نام اور ولدیت بتاتے ہیں جس سے دنیا میں اسے پکارا جاتا تھا یہاں تک کہ اس روح کو لے کر آسمان دنیا پر پہنچ جاتے ہیں آسمان کا دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں لیکن نہیں کھولا جاتا پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی ۔ ان کے لئے نہ تو آسمان کےدروازے کھولے جائیں گے اورنہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے حتی کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے ۔ ﴿ سورہ الاعراف آیت 40 ﴾
اس وقت ارشاد باری تعالی ٰ ہوتا ہے میرے بندے کا نامہ اعمال زمین کی نچلی تہہ میں موجود سجین میں لکھ دو اس کی روح کو زمین پر واپس کردو کیونکہ میرا ان سے وعدہ ہے کہ میں نے انہیں اسی زمین سے پیدا کیا اسی میں انہیں واپس کریں گے اور دوبارہ اسی سے ہم انہیں نکالیں گے پھر اس کی روح زمین پر جھٹک کر پھینک دی جاتی ہے جو جا کر اس کے جسم میں گرتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی ۔ جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنایا تو وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گرے پھر اسے پرندے اچک لیں یا ہوا اسے کسی دور دراز مقام میں پھینک دے ﴿ سورة الحج آیت 31 ﴾
اب اس کی روح ا س کے جسم میں واپس کر دی جاتی ہے تدفین کے بعد واپس ہونے والوں کے جوتوں کی وہ چاپ سنتا ہے پھر اس کے پاس دو سخت ڈانٹنے والے فرشتے آتے ہیں جو اسے ڈانٹے ہیں اور بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں ۔ تیر ا رب کون ہے ؟ وہ جواب میں کہتا ہے ہائے افسوس میں نہیں جانتا پھر وہ سوا ل کرتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے ہائے افسوس میں نہیں جانتا پھر فرشتے سوال کرتے ہیں تمہا را اس آدمی کے بارے میں کیا خیال ہے جنہیں تمہارے درمیان مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ آپ کا نام نہیں بتا سکے گا کہا جائے گا کیا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ؟ توپھر وہی جواب دے گا ہائے افسوس میں نہیں جانتا لوگوں کو یہی کہتے ہوئے سنا ہے اس سے کہا جائے گا نہ تو نے بذات خود جانا اور نہ جاننے والے کی اتباع کی پھر آسمان سے منادی آواز دے گا اس نے جھوٹ کہا اس کے لئے جہنم کا بستر بچھا دو اور اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دو ۔ دروازہ کھلتے ہی جہنم کی گرمی اور زہریلی ہوائیں قبر میں آنے لگتی ہیں اور اس کی قبر اتنی تنگ ہوجاتی ہے کہ اس کی پسلیاں باہم گتھ جاتی ہیں پھر اس کے پاس ایک بدصورت ڈراونی شکل والا بد لباس شخص نمودار ہوتا ہے جس کے بدن سے سڑی ہوئی بدبو نکلتی ہے میت سے کہتا ہے تجھے بری بشارت ہو یہ وہی دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا مردہ کہے گا اللہ تجھے بھی بری بشارت دے بتا تو کون ہے ؟ تیر چہرہ ہی برائی و خوف کا آئینہ دار ہے وہ کہتا ہے میں تیر ا براعمل ہوں اللہ کی قسم میں ہمیشہ تجھے اللہ کی اطاعت و فرماں بردار می سست اور اس کی نافرمانی میں چست پایا ہے۔ جس کا اللہ نے تجھے برا بدلہ دیا ہے پھر اس پر ایک گونگا بہرہ اور اندھا فرشتہ مسلط کر دیا جاتا ہے اس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک گھن ہوتا ہے جس سے اگر کسی پہاڑی پر مار دیاجائے تو وہ مٹی ہو جائے گا فرشتہ اسے مارتا ہے جس سے وہ مٹی ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسےپہلے کی حالت میں لوٹا دیتا ہے فرشتہ دوبارہ اسےمارتا ہے شدت کرب سے وہ ایسی چیخ مارتا ہے جسے انسانوں اور جناتوں کو چھوڑ کر دنیا کی ہر مخلوق سنتی ہے پھر اس کی قبر میں جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور جہنم کابستر بچھا دیا جاتا ہے اس وقت مردہ کہتا ہے اے رب قیامت نہ قائم کر ﴾
یہ حدیث صحیح ہے اسے امام احمد نے اپنی مسند ﴿ 4/287 ، 295 ﴾ میں مذکور ہ ترتیب سے روایت کیا ہے ۔ اسی طرح ابو داود حدیث نمبر 3210 ۔ نسائی 1/282 ۔ ابن ماجہ حدیث نمبر 1548 ، 1549 ۔ حاکم 1/37 تا 40 ۔ ابو داود الطیالسی 753 وغیرہ محدثین نے مختلف الفاظ میں مطول اور مختصر طور پر روایت کیا ہے علامہ ابن لقیم نے اعلام الموقین 1/214 ۔ تھذیب السنن 4/337 ۔ میں اس کی تصحیح کی ہے حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر 2/131 ۔ میں اس حدیث کے بہت سارے الفاظ اور اسناد کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اسی طرح حافظ ابن حجر نے بھی فتح الباری 3/234 تا 240 ۔ میں اس حدیث کے الفاظ و اسانید کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس حدیث کےضمن میں بہت عمدہ فوائد ذکر کئے ہین علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز تصنیف احکام الجنائز میں اس حدیث کے تمام الفاظ اور اسانید کو ذکر کیا ہے اور مذکورہ ترتیب ہم نے اسی کتا ب احکام الجنائز سے نقل کی ہے جب کہ حدیث کی اصل صحیح البخاری حدیث نمبر 1369 اور مسلم حدیث نمبر 2871 میں موجود ہے۔
 
شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
34
پوائنٹ
48
جو لوگ قبر میں دفن نہیں ہوتے مثلاً کوئی ڈوب کر مر گیا اور اسکا مردہ جسم سمندری مخلوق کھا گئی، جیسے ہندو مردے کو جلا دیتے ہیں تو اس کو قبر کا عذاب کہاں ہوتا ہے؟
اس حدیث سے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عالم برزخ قبر کی زندگی کو ہی کہتے ہیں۔
گزارش ہے کہ وضاحت فرما دیں۔
 
Top