• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عالم دین کا مقام و ذمہ داری

مقصود

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2017
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
6
اسلام و علیکم ورحمتہ اللہ میرا سوال یہ ہے کہ ایک عالم دین کا اسلام کے اندر کیا مقام ہے اور ساتھ میں اس عالم کا بھی بتاۓ جو حق بات جانتے ہوٸے بھی لوگوں کو نہیں بتاتا اسکے لیے کیا وعید ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@محمد نعیم یونس بھائی! اس سوال کو نئے تھریڈ میں منتقل کریں، یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے!
مزید کہ @مقصود بھائی کو تھریڈ بنانے کے طریقہ کی رہنمائی کر دیجیئے!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی منتقل کر دیا ہے!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اسلام و علیکم ورحمتہ اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس طرح صحیح لکھاکریں ۔
میرا سوال یہ ہے کہ ایک عالم دین کا اسلام کے اندر کیا مقام ہے
علما انبیاء کے وارث ہیں ۔
اور ساتھ میں اس عالم کا بھی بتاۓ جو حق بات جانتے ہوٸے بھی لوگوں کو نہیں بتاتا اسکے لیے کیا وعید ہے
تبلیغ دین ، لوگوں کو اس کی طرف رہنمائی کرنا، عالم کی ذمہ داری ہے ، اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو اللہ کے ہاں مجرم ہوگا۔
حق بات چھپانا یہودیوں کی صفت ہے ۔ بعض احاديث میں مروی ہے، جس سے کوئی بات پوچھی جائے ، لیکن وہ نہ بتائے ، ایسے شخص کو آگ کی لگام پہنائی جائے گی ۔
البتہ حق بات کے اظہار میں مصالح و مفاسد کا خیال رکھناضروری ہے ، لہذا وقتی طور پر اگر کسی بات کو بتانے سے گریز بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ، بلکہ بعض دفعہ ضروری ہوتا ہے ۔
اصول یہ ہونا چاہیے کہ جہاں بات بتانے میں فائدہ ہو وہاں ضرور بتائی جائے ، جہاں نہ بتانے میں فائدہ ہو ، وہاں بتانے سےگریز کیا جائے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
عالم کا مقام اورذمہ داریاں

قرآن و حدیث میں علم کو فلاح اور کام یابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور اہل علم کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ علم انسان کو پستی سے بلندی کی طرف لے جاتاہے۔ یہ ادنیٰ کو اعلیٰ بناتا ہے۔ غیر تہذیب یافتہ اقوام کو تہذیب کی دولت سے مالا مال کر تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اہل علم افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ علم کی اہمیت کے حوالے سے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے۔
چناں چہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کعبہ کی تعمیر مکمل کی تو دعا فرمائی :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴿129
’’ اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقیناً تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
( سورۃ البقرہ: 129)

علم دین کی ضرورت و اہمیت کے باب میں نبی اکرم ﷺ کا یہی فرمان کافی ہے کہ جس ذات کے اندر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات کی تمام خوبیاں یکجا کر دیں، اُس ذات نے خود کو معلم کے طور پر پیش کیا اور فرمایا ’’ بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
اور آپ نے عالم و معلم کی فضیلت میں فرمایا :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَيْرَ»:
قال الترمذیؒ «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ»
جناب ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نبي اکرمﷺ نے ارشاد فرمايا کہ ’’اللہ تعالي رحمت نازل فرماتا ہے
اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمين ميں رہنے والي ساري مخلوقات، يہاں تک کہ چيونٹياں اپنے سوراخوں ميں اور مچھلياں (پاني ميں) اس بندے کے ليے دعائے خير کرتي ہيں جو لوگوں کو بھلائي کي اور دين کي تعليم ديتا ہے ‘‘ (جامع تر مذي)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن اس شان اور فضیلت کے ساتھ ساتھ عالم کی ذمہ داریاں بہت اہم اور نازک ہیں :
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (سورۃ البقرۃ 159)
جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدايتوں کو جو ہم نے نازل کي ہيں (کسي غرض فاسد سے) چھپاتے ہيں باوجوديکہ ہم نے ان لوگوں کے (سمجھانے کے) ليے اپني کتاب ميں کھول کھول کر بيان کر ديا ہے ايسوں پر خدا اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہيں "[جالندھري]‏
------------------------
امام ابن کثيرؒ اس آيت کي تفسير ميں لکھتے ہيں :
هَذَا وَعِيدٌ شَدِيدٌ لِمَنْ كَتَمَ مَا جَاءَتْ بِهِ الرسلُ مِنَ الدَّلَالَاتِ الْبَيِّنَةِ عَلَى الْمَقَاصِدِ الصَّحِيحَةِ وَالْهُدَى النَّافِعِ لِلْقُلُوبِ،
مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَهُ اللَّهُ -تَعَالَى -لِعِبَادِهِ فِي كُتُبِهِ، التِي أَنْزَلَهَا عَلَى رُسُلِهِ.

اس ميں زبردست دھمکي ہے ان لوگوں کو جو انبياء کي لائي ہوئي شريعت کے صحيح مقاصد پرواضح دلالت کرنے والی باتوں کو جو دلوں کيلئے نفع بخش ھدايت ہيں چھپاتے ہيں "

علم کو چھپانا جہنمي لگام پہننے کے مترادف ہے جس شخص کو اللہ تعالي علم دے اور وہ اسے چھپائے
تو قيامت کے روز اللہ اسے آگ کي لگام پہنائيں گے -
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ
(ابن ماجہ 264 »
سیدنا انس بن مالک رضي اللہ عنہ کہتے ہيں کہ ميں نے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”
جس شخص سے دين کے کسي مسئلہ کے متعلق پوچھا گيا، اور باوجود علم کے اس نے اسے چھپايا، تو
قيامت کے دن اسے آگ کي لگام پہنائي جائے گي“
( ابن ماجہ،(اسکی سند ميں يوسف بن ابراہيم ضعيف ہيں، ليکن شواہد کی بناء پر حديث صحيح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة بتحقیق الالبانیؒ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ رَجُلٍ يَحْفَظُ عِلْمًا فَيَكْتُمُهُ، إِلَّا أُتِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلْجَمًا بِلِجَامٍ مِنَ النَّارِ»
سنن ابن ماجه261
ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ”جو شخص بھي علم
دين ياد رکھتے ہوئے اسے چھپائے، تو اسے قيامت کے دن آگ کي لگام پہنا کر لايا جائے گا“
(ابن ماجہ ،سنن ابي داود/ العلم ،سنن الترمذي/ العلم ،وقد اخرجہ: مسند احمد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ القِيَامَةِ
بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ» [ص:30] وَفِي البَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو: «حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ

سنن الترمذي 2649 )»
ابوہريرہ رضي الله عنہ کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ”جس سے علم دين کي کوئي
ايسي بات پوچھي جائے جسے وہ جانتا ہے، پھر وہ اسے چھپائے تو قيامت کے دن اسے آگ کي لگام
پہنائي جائے گي“
امام ترمذي کہتے ہيں: - ابوہريرہ رضي الله عنہ کي حديث حسن ہے، - اس باب ميں جابر اور عبداللہ بن عمرو رضي الله عنہم سے بھي احاديث آئي ہيں۔
تخريج دارالدعوہ: سنن ابي داود/ العلم ، سنن ابن ماجہ/المقدمة)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہذا علم اور شرعی حکم چھپانا نہیں چاہیئے ، تاہم :
حق بات کے اظہار میں مصالح و مفاسد کا خیال رکھناضروری ہے ، لہذا وقتی طور پر اگر کسی بات کو بتانے سے گریز بھی کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ، بلکہ بعض دفعہ ضروری ہوتا ہے ۔
 
Top