• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عامر بْن مسعود الجمحي

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عامر بن مسعود بن أمية بن خلف بن وهب الجمحى۔


آپ کے صحابی وتابعی ہونے میں اختلاف ہے ۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
وقَد أَدرك النَّبي صَلى الله عَليه وسَلم.[العلل للدارقطني 3/ 128]۔

امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
عامر بن مسعود أبو سعد ويقال أبو سعيد الزرقي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ويقال لا صحبة له سكن دمشق وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم وعن عائشة[تاريخ دمشق لابن عساكر: 26/ 108]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748):
عَامِرُ بْنُ مَسْعُودٍ أَبُو سَعْدٍ، وَقِيلَ: أَبُو سَعِيدٍ الزُّرَقِيُّ الْأَنْمَارِيُّ، مُختَلَفٌ فِي صُحْبَتِهِ [تاريخ الإسلام للذهبي: 5/ 143]

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، إِلَّا أَنَّ عَامِرَ بْنَ مَسْعُودٍ اخْتُلِفَ فِي صُحْبَتِهِ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 2/ 92]۔


بعض محدثین کے اصول کے مطابق جس راوی کے صحابی اورتابعی ہونے میں اختلاف ہو ایسا راوی کم ازکم حسن الحدیث ضرورہوتاہے۔

حافظ زبیرعلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
جس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو اورجرح مفسرثابت نہ ہو تو وہ حسن الحدیث راوی ہوتا ہے ، دیکھئے التلخیص الحبیر(ج1ص74ح 70) وغیرہ [فتاوی علمیہ:ج1ص484]۔
عرض ہے کہ عامربن مسعود پر جرح مفسر تو دور کی بات سرے سے کوئی جرح ہی ثابت نہیں ۔

بہرحال اگریہ صحابی ہیں تو ان کی توثیق پیش کرنے کی ضرورت نہیں اوراگرتابعی ہیں تو اختلاف صحبت کے سبب کم از کم حسن الحدیث ضرور ہیں ۔

تاہم اگرآپ اختلاف صحبت سے بھی قطع نظرکرلیا جائے تو بھی آپ ثقہ ہیں کیونکہ:

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کیا:
عامر بن مسعود[الثقات لابن حبان: 5/ 190]۔

اوران سے کئی ثقات نے روایت لی ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ کا اصول ہے کہ جسے ابن حبان ثقہ کہہ دیں اورمتعددثٖقات اس سے روایت لے لیں (اوراس کی مرویات میں نکارت نہ ملے) تو وہ ثقہ ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں:

امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311) نے آپ کی حدیث کو صحیح کہا ، ملاحظہ ہو [صحيح ابن خزيمة 3/ 309 رقم2145 ]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الثقة: من وثَّقَه كثيرٌ ولم يُضعَّف. ودُونَه: من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17].

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248]۔

امام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643) نے بھی الأحاديث المختارة میں ان کی روایت لی ، دیکھئے :[ المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما 8/ 208 رقم وقال المحقق اسنادہ حسن]۔

فائدہ : کسی بھی ناقد نے ان پرکوئی جرح نہیں کی ہے۔
 
Top