• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عام سادہ کيمرے يا ويڈيو کيمرے سے لي جانيوالي تصاوير کا کيا حکم ہے ؟

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
بعون الوہاب ومنہ الصدق والصواب وإليہ المرجع والمآب تصوير کشي اللہ رب العالمين نے حرام کر رکھي ہے , رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے ہيں کہ اللہ تعالى نے فرمايا : وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَهَبَ يَخْلُقُ كَخَلْقِي فَلْيَخْلُقُوا حَبَّةً وَلْيَخْلُقُوا ذَرَّةً [ صحيح بخاري كتاب اللباس باب نقض الصور (5953)] اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو ميري مخلوق جيسي تخليق کرنا چاہتا ہے , يہ کوئي دانہ يا ذرہ بنا کر دکھائيں ۔ نيز فرمايا :إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُصَوِّرُونَ [ صحيح بخاري كتاب اللباس باب عذاب المصورين يوم القيامة (5950)] الله کے ہاں قيامت کے دن سب سے سخت عذاب تصويريں بنانے والوں کو ہوگا۔ مزيد فرمايا : أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الَّذِينَ يُضَاهُونَ بِخَلْقِ اللَّهِ [ صحيح بخاري كتاب اللباس باب ما وطئ من التصاوير (5954)] قيامت کے دن سب سے زيادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کي تخليق کي نقالي کرتے ہيں ۔ مندرجہ بالا احاديث اور ديگر بہت سے دلائل تصوير کي حرمت پر دلالت کرتے ہيں , اور يہ ايسا مسئلہ ہے کہ جس پر امت کا اتفاق ہے ۔ اور جو اختلاف ہے وہ اس بات ميں واقع ہوا ہے کہ تصوير بنانے کے جديد ذرائع فوٹوگرافي , مووي ميکنگ وغيرہ کيا حکم رکھتي ہے ؟ کچھ اہل علم کي رائے يہ ہے کہ يہ تصاوير نہيں ہيں بلکہ يہ عکس ہے , اور عکس کے جواز ميں کوئي شک نہيں ہے , لہذا فوٹو گرافي اور مووي بنانا جائز اور مشروع عمل ہے ۔ جبکہ اہل علم کا دوسرا گروہ اسے بھي تصوير ہي سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ يہ تصوير کي جديد شکل ہے , چونکہ تصوير کي حرمت ميں کوئي شبہہ نہيں ہے , لہذا فوٹو گرافي اور ويڈيو ناجائز اور حرام ہے ۔ اہل علم کا ايک تيسرا گروہ يہ رائے رکھتا ہےکہ يہ تصوير ہي ہے , ليکن بامر مجبوري ہم دين کي دعوت و تبليغ کي غرض سے ويڈيو کو استعمال کرسکتے ہيں ۔ يہ رائے اکثر اہل علم کي ہے جن ميں عرب وعجم کے بہت سے علماء شامل ہيں ۔ يعني اس تيسري رائے کے حاملين نے ويڈيو کو اصلا مباح اور حلال قرار نہيں ديا ہے , ليکن ديني اصول " اضطرار" کو ملحوظ رکھ کر قاعدہ فقہيہ " الضرورات تبيح المحظورات " (کہ ضرورتيں ناجائز کاموں کو جائز بنا ديتي ہيں ) پر عمل پيرا ہوتے ہوئے اليکٹرانک ميڈيا کے اس تيز ترين دور ميں ويڈيو کو تبليغ دين کے مقاصد ميں بامر مجبوري استعمال کرنا مباح قرار ديا ہے , يعني دعوت و تبليغ کے علاوہ , يہ گروہ بھي اسے ناجائز ہي سمجھتا ہے , اور بلا امر مجبوري اسے جائز قرار نہيں ديتا ہے ۔ اس اعتبار سے اس گروہ کي رائے مقدم الذکر دونوں گروہوں کي رائے کے مابين ہے ۔ ليکن مسئلہ چونکہ اجتہادي ہے اس ميں خطأ کا امکان بھي بہر حا ل موجود ہي ہے , لہذا ديکھنا يہ ہے کہ ان تينوں فريقوں کے کيا دلائل ہيں اور ان تينوں ميں سے مضبوط دلائل کس گروہ کے پاس ہيں کيونکہ اجتہادي مسئلہ ميں بھي جب مجتہدين کي آراء مختلف ہو جائيں تو حق اور صواب کسي ايک ہي گروہ کے پاس ہوتا ہے۔ اور ہماري تحقيق کے مطابق دوسرے گروہ کي بات مبني برحق ہے ۔اور پہلا گروہ اسے عکس قرار ديکر غلطي پر ہے اور تيسرا گروہ " اضطرار" کا لفظ بول کر "حيلہ" کا مرتکب ہے۔ اس اجما ل کي تفصيل ہم ذيل ميں پيش کرتے ہيں : سب سے پہلے تو يہ بات سمجھ ليں کہ عکس اور تصوير ميں کيا فرق ہے ؟ عکس اسوقت تک باقي رہتا ہے جبتک معکوس سامنے موجود ہو , اور جونہي معکوس سامنے سے غائب ہو جائے عکس بھي غائب ہو جاتا ہے ۔ اور پھر جس پاني يا آئينہ پر عکس ديکھا گيا ہے دوبارہ اس آئينہ پر وہ عکس کبھي نہيں ديکھا جاسکتا جبتک معکوس کو دوبارہ آئينہ کے روبرو نہ کيا جائے ۔ اور تصوير در اصل اسي عکس کو محفوظ کرلينے سے بنتي ہے ۔!!! کيونکہ مصور کسي بھي چيز کو ديکھتا ہے تو اس چيز کا عکس اسکي آنکھيں اسکے دماغ ميں دکھاتي ہيں پھر اسکے ہاتھ اس عکس کو کسي کاغذ , چمڑے , لکڑي يا پتھر , وغيرہ پر محفوظ کر ديتے ہيں تو اسکا نام تصوير ہو جاتا ہے جسکي حرمت پر احاديث دلالت کرتي ہيں اور تمام امت جنکي حرمت پر متفق ہے ۔ اختلاف صرف واقع ہوا ہے تو جديد آلات سے بنائي جانے والي تصاوير پر , ليکن اگر بنظر غائر ديکھا جائے تو يہي بات سمجھ آتي ہے کہ ان آلات يعني کيمرہ وغيرہ سے بنائي جانے والي تصاوير بھي تصاوير ہي ہيں عکس نہيں ہيں !!! , کيونکہ اس دور جديد جسطرح اور بہت سے کام مشينوں سے ليے جانے لگے ہيں اسي طرح تصوير کشي کا کام بھي جديد آلات کے سپرد ہوگيا ہے ۔ ان کيمروں سے تصوير کھينچنے والا اپنے ہاتھ سے صرف اس مشين کا بٹن دباتا ہے جسکے بعد وہ سارا کام جو پہلے پہلے ہاتھ سے ہوتا تھا اس سے کہيں بہتر انداز ميں وہ مشين سر انجام دے ديتي ہے ۔ اور ويڈيو کيمرے کے بارہ ميں يہ غلط فہمي بھي پائي جاتي ہے کہ يہ متحرک تصوير بناتا ہے , حالانکہ امر واقع يہ ہے کہ ويڈيو کميرہ بھي متحرک تصوير نہيں بناتا بلکہ ساکن تصاوير ہي بناتا ہے ليکن اسکي تصوير کشي کي رفتار بہت تيز ترين ہوتي ہے , ايک ويڈيو کيمرہ ايک سيکنڈ ميں تقريبا نو صد (900) سے زائد تصاوير کھينچتا ہے , اور پھر جب اس ويڈيو کو چلايا جاتا ہے تو اسي تيزي کے ساتھ انکي سلائيڈ شو کرتاہے ۔ جسے اس فن سے نا آشنا لوگ متحرک تصوير سمجھ ليتے ہيں حالانکہ وہ متحرک نہيں ہوتي بلکہ ساکن تصاوير کا ہي ايک تسلسل ہوتا ہے کہ انساني آنکھ جسکا ادراک نہيں کرسکتي ۔ آپ ديکھتے ہيں جب پنکھا اپني پوري رفتا ر سے چل رہا ہو تو اسکي جانب ديکھنے والے کو پنکھے کے پر نظر نہيں آتے بلکہ اسے پنکھے کي موٹر کے گرد ايک ہالہ سا بنا دکھائي ديتا ہے اور يوں محسوس ہوتا ہے کہ شايد اسکے پر نہيں ہيں بلکہ ايک شيشہ سا ہے جو اسکے گرد تنا ہوا ہے ۔ جبکہ ذي شعور اور صاحب علم افراد يہ سب اپني آنکھوں سے ديکھنے کے بعد يقين رکھتے ہيں کہ يہ ہماري آنکھوں کا دھوکہ ہے , پنکھے کے پر يقينا موجود ہيں اور وہي گھوم کر ہميں ہوا دے رہے ہيں , ليکن جس شخص نے پنکھے کو ساکن حالت ميں نہ ديکھا ہو گا شايد وہ اس بات پر يقين نہ کرسکے ۔ يہ تو ايک پنکھے کي مثال ہے جسکي رفتار ويڈيو کيمرے سے کم ازکم پانچ گنا کم ہوتي ہے ۔ہماري اس بات کو وہ لوگ بخوبي سمجھتے ہيں جو" مووي ميکنگ اور ايڈيٹنگ" کے فن سے آشنا ہيں يا "کمپيوٹر کے سافٹ وير " ايڈوب فوٹو شاپ" کو اچھي طرح سے سمجھتے ہيں ۔ الغرض ويڈيو کيمرہ بھي متحرک تصوير نہيں بناتا ہے بلکہ وہ بھي ساکن تصاوير ہي کھينچتا ہے اور انہي کي " سلائيڈ " "شو" کرتا ہے ۔ اور ان کيمروں سے لي جانے والي تصاوير ميں عکس کا پہلو ہر گز نہيں پايا جاتا ہے کيونکہ يہ تصاوير عکس کے بر عکس کسي بھي وقت ديکھي جاسکتي ہيں , خواہ وہ شخص جسکي تصاوير لي گئي ہيں دنيا سے ہي کيوں نہ چل بسا ہو۔ رہي تيسرے گروہ کي اضطرار والي بات تووہ بھي بلکل غلط ہے !!! کيونکہ اضطرار ميں ممنوعہ کاموں کو سرانجام دينے کي جو رخصت اللہ نے دي ہے اس ميں بھي قيد لگا ئي ہے کہ "غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ "[البقرة : 173] نيز فرمايا "غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ" [المائدة : 3] , يعني بوقت اضطرار , بقدر اضطرار ممنوع وحرام کي رخصت ہے , وقت اضطرار کے بعد يا قدر اضطرار سے زائد نہيں !!! اور پھر شريعت نے لفظ " ضرورۃ " نہيں بلکہ " اضطرار" بولا ہے۔ اور فقہي قاعدہ " الضرورات تبيح المحظورات" انہي آيات سے مستفاد ہے اور اس ميں بھي لفظ ضرورت کا معنى اضطرار ہي ہے ۔ اضطرا ہوتا کيا ہے ؟ يہ سمجھنے کے ليے ہم انہي آيات پر غور کريں جن ميں يہ لفظ استعمال ہوا ہے تو بات بہت واضح ہو جاتي ہے ۔ اللہ تعالى فرماتے ہيں : " إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ " [البقرة : 173] يقينا تم پر صرف اور صرف مردار , خون , خنزير کا گوشت اور غير اللہ کے ليے پکارا گيا (ذبيحہ وغيرہ) حرام کيا گيا ہے , تو جو شخص مجبور ہو جائے ,حدسے بڑھنے والا اور دوبارہ ايسا کرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئي گنا ہ نہيں ہے يقينا اللہ تعالى بہت زياد ہ مغفرت کرنيوالا اور نہايت رحم کرنيوالا ہے ۔ اس آيت سے يہ بات واضح ہو جاتي ہے کہ بھوک کي وجہ سے اگر کوئي شخص مجبور ہو جائے اور اسکي دسترس ميں کوئي حلال چيز نہ ہو , اور بھوک کي بناء پر اسکي زندگي کو خطرہ لاحق ہو اور حرام کھانے سے اسکي جان بچ سکتي ہو تو اسکے ليے رخصت ہے کہ جسقدر حرام کھانے سے اسکي جان بچ سکتي ہے صرف اسقدر حرام کھالے اس سے زائد نہ کھائے , پيٹ بھرنا شروع نہ کردے اور پھر دوبارہ اس حرام کي طرف نگا ہ اٹھا کر بھي نہ ديکھے ۔ جبکہ دين کي دعوت و تبليغ کے ليے يہ کوئي مجبوري نہيں ہے کہ ويڈيو بنائي جائے , اور دعوت دين ويڈيو کے ذريعہ نہيں آڈيو کے ذريعہ ہي ہوتي ہے حتى کہ ويڈيو ميں نظر آنے والے عالم دين کي تصوير لوگوں کو راہ ہدايت پرلانے کا باعث نہيں بني ہے بلکہ اسکي آواز ميں جو دلائل کتاب وسنت کے مذکور ہوتے ہيں وہ کسي بھي شخص کے راہ ہدايت اختيار کرنے يا حق بات پر عمل کرنے کا باعث بنتے ہيں ۔ يادر ہے کہ ہم مطلقا ويڈيو يا تصاوير کے خلاف نہيں ہيں اور نہ ہي کوئي صاحب علم مطلقا تصوير يا ويڈيو کو ناجائز کہہ سکتا ہے , کيونکہ ممنوع صرف ذي روح جانداروں کي تصاوير ہيں , بس ويڈيو ميں ذي روح کي تصاوير نہ ہوں تو اسکي حلت ميں کسي قسم کا کوئي اشکال باقي نہيں رہتا ہے ۔ مذکورہ بالا دلائل کي رو سےيہ بات روز روشن کي طرح عياں ہوجاتي ہے کہ تصوير کي جديد ترين تمام تر صورتيں ناجائز ہيں ان صورتوں ميں سے کسي کوبھي اپنا کر ذي روح کي تصوير کشي نہيں جاسکتي ہے اور يہ تصا وير ہي ہيں عکس نہيں , اور دعوت دين کے بہانے انہيں اضطرار قرار دينا فہم کا سہو ہے ۔ ھذا , واللہ تعالى أعلم , وعلمہ أکمل وأتم , ورد العلم إليہ أسلم , والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم

Tasveer ki Sharih Hasiyat ( Shiekh Rafiq Tahir ) - YouTube
 
Top