• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبد الرحمن ابن رجب الحنبلی --- ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
تفسير ابن رجب الحنبلی --- عبد الرحمن ابن رجب الحنبلی --- ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے-

وممن رجَّح هذا القولَ - أعني السؤالَ والنعيمَ والعذابَ للروح خاصةً - من أصحابِنا ابنُ عقيلٍ وأبو الفرج ابن الجوزيِّ. في بعضِ تصانيفِهما. واستدلَّ ابنُ عقيلٍ بأنَّ أرواحَ المؤمنينَ تنعمُ في حواصلِ طيرٍ خضرٍ، وأرواح الكافرينَ تعذَّب في حواصلِ طيرٍ سودٍ، وهذه الأجسادُ تبْلَى فدلَّ ذلك على أنَّ الأرواحَ تعذبُ وتنعمُ في أجسادٍ أخرَ


ترجمہ : اور جو اس قول کی طرف گئے ہیں یعنی کہ سوال و جواب راحت و عذاب صرف روح سے ہوتا ہے ان میں ہمارے اصحاب ابن عقیل اور ابو الفرج ابن الجوزی ہیں اپنی بعض تصانیف میں اور ابن عقیل نے استدلال کیا ہے کہ مومنین کی ارواح سبز پرندوں میں نعمتیں پاتی ہیں اور کافروں کی ارواح کو کالے پرندوں میں عذاب ہوتا ہے اور یہ اجساد تو (جو کہ دنیاوی قبروں میں ہیں) گل سڑ جاتے ہیں پس یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے -
(روائع التفسير الجامع لتفسير الامام ابن رجب الحنبلی ، جلد ٢ ، صفحہ ١٠٢)


abdul rehman humbli.jpg


ابن رجب صاحب کی مندرجہ بالا صراحت سے معلوم ہوا کہ ارواح کو ایک برزخی جسم عطا کیا جاتا ہے - اور دوم ان دنیاوی قبروں میں مردہ لاشہ گل سڑ کر مٹی ہو جاتا ہے اور ارواح کو عذاب و راحت دوسرے جسموں میں ملتی ہے -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
میرے جن بھایئوں نے غیر متفق کیا ہے - وہ اس کی وجہ بھی بتا دیں تا کہ ہمارے علم میں اضافہ ہو - شکریہ -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
مجھ سے پہلے دو فاضل بھائیوں نے اس پر غیر متفق ریٹ کیا ہے ،اس لئے پہلے وہ ہی وضاحت فرمادیں تو مجھ فقیر کےلئے بھی رہنمائی ہوگی
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
مجھ سے پہلے دو فاضل بھائیوں نے اس پر غیر متفق ریٹ کیا ہے ،اس لئے پہلے وہ ہی وضاحت فرمادیں تو مجھ فقیر کےلئے بھی رہنمائی ہوگی
درست فرمایا آپ نے۔۔۔۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
بعض لوگ یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ جب عبادت کی مشقت اور گناہ کی لذت اس جسم نے اٹھائی ہے تو جزا وسزا دوسرے جسم کو کیوں؟ کیا عبادت کی مشقت اور گناہ کی لذت میں جسم، روح کے ساتھ شریک نہیں تھا؟ اگر تو انسان صرف روح کا نام ہے تو پھر یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن اگر انسان جسم اور روح کا مرکب ہے تو جسم اور روح دونوں کو جزا وسزا ہونی چاہیے۔ اب اس کے تو سب قائل ہیں کہ جسم اور روح دونوں کو جزا وسزا ہو گی لیکن جسم کے تعین میں اختلاف ہو گیا۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ اسی جسمانی وجود کو جزا وسزا ہونی چاہیے، ان کی دلیل وہی ہے جو میں اوپر نقل کر چکا ہوں کہ جس وجود نے گناہ کی لذت اور عبادت کی مشقت اٹھائی ہے، اسی کو جزا وسزا ہونی چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ولا تزر وازرۃ وزر اخری

کچھ لوگوں نے اس جسم کو روح کے لیے ایک حامل یعنی کنٹینر قرار دیا جیسے اصل دودھ ہے، اب اسے کسی بھی برتن میں ڈال لو۔ ان کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ اہل جنت کا قد ساٹھ ہاتھ ہو گا اور اہل جہنم ایسے ایسے ہوں گے وغیرہ لہذا ان کا جسم وہ نہیں ہو گا جو یہاں دنیا میں تھا۔ واللہ اعلم بالصواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بعض لوگ یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ جب عبادت کی مشقت اور گناہ کی لذت اس جسم نے اٹھائی ہے تو جزا وسزا دوسرے جسم کو کیوں؟ کیا عبادت کی مشقت اور گناہ کی لذت میں جسم، روح کے ساتھ شریک نہیں تھا؟ اگر تو انسان صرف روح کا نام ہے تو پھر یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن اگر انسان جسم اور روح کا مرکب ہے تو جسم اور روح دونوں کو جزا وسزا ہونی چاہیے۔ اب اس کے تو سب قائل ہیں کہ جسم اور روح دونوں کو جزا وسزا ہو گی لیکن جسم کے تعین میں اختلاف ہو گیا۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ اسی جسمانی وجود کو جزا وسزا ہونی چاہیے، ان کی دلیل وہی ہے جو میں اوپر نقل کر چکا ہوں کہ جس وجود نے گناہ کی لذت اور عبادت کی مشقت اٹھائی ہے، اسی کو جزا وسزا ہونی چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ولا تزر وازرۃ وزر اخری

کچھ لوگوں نے اس جسم کو روح کے لیے ایک حامل یعنی کنٹینر قرار دیا جیسے اصل دودھ ہے، اب اسے کسی بھی برتن میں ڈال لو۔ ان کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ اہل جنت کا قد ساٹھ ہاتھ ہو گا اور اہل جہنم ایسے ایسے ہوں گے وغیرہ لہذا ان کا جسم وہ نہیں ہو گا جو یہاں دنیا میں تھا۔ واللہ اعلم بالصواب
یعنی کنٹینر یہاں بھی ۔۔۔۔۔۔

ویسے اہل حق اہل علم کا کہنا تو یہ ہے ،کہ سلامتی کا راستہ اس باب میں یہ ہے کہ:
وقد تواترت الأخبار عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثبوت عذاب القبر ونعيمه لمن كان لذلك أهلا، وسؤال الملكين، فيجب اعتقاد ثبوت ذلك والإيمان به، ولا يتكلم في كيفيته، إذ ليس للعقل وقوف على كيفيته، لكونه لا عهد له به في هذه الدار، والشرع لا يأتي بما تحيله العقول، ولكنه قد يأتي بما تحار فيه العقول. فإن عود الروح إلى الجسد ليس على الوجه المعهود في الدنيا، بل تعاد الروح إليه إعادة غير الإعادة المألوفة في الدنيا
یعنی قبر کا عذاب وثواب متواتر احادیث سے ثابت ہے ،لہذا اسپر ایمان رکھنا واجب ہے ،
اور اس کی کیفیت(جتنی احادیث میں آچکی اس سے زیادہ )پر بات ہرگز نہ کرنی چاہئے ،
کیونکہ عقل کی پہنچ اس جہان کی کیفیات تک نہیں ،
اور یہ حقیقت پلے باندھ لینی چاہئے کہ شرع کی کوئی چیز عقلاً محال تو نہیں ،
البتہ کچھ حقائق کی چکاچوند عقل کو حیراں کردیتی ہے ،
عالم جسم میں روح کا اعادہ و اتصال ،دنیا میں معروف کیفیت جیسا ہرگز نہیں (کہ عقل اس کا فوری ادراک و تشریح کر سکے )
شرح عقیدہ الطحاویہ
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
نشان زدہ الفاظ کا اگلا جملہ دیکھیں و ھذا لا حجۃ فیہ اور اگر یہ بحث آخر تک پڑھیں تو ابن رجب رحمہ اللہ کا قول بھی مل جائے گا آخری پیرا گراف میں لانہ لو کان العذاب علی الروح خاصۃ لم یختص العذاب بالقبر و لم ینسب الیہ http://ia700309.us.archive.org/1/items/tottot/rtird2.pdf یہاں دیکھ لیجیئے کتاب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عذاب القبر على الصحيح من أقوال العلماء يقع على الروح والجسد
.

علماء کا صحیح قول یہی ہے کہ عذاب قبر روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے ۔​
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله :
ومذهب سلف الأمة وأئمتها أن العذاب أو النعيم يحصل لروح الميت وبدنه ، وأن الروح تبقى بعد مفارقة البدن منعمة أو معذبة ، وأيضا تتصل بالبدن أحيانا فيحصل له معها النعيم أو العذاب ". وعلينا الإيمان والتصديق بما أخبر الله .
"الاختيارات الفقهية" ( ص 94 ) .


شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
آئمہ سلف کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر اور اس کی نعمتیں میت کی روح اور جسم دونوں کو حاصل ہوتی ہیں اور روح بدن سے جدا ہونے کے بعد عذاب یا نعمت میں ہوتی ہے اور بعض اوقات جسم سے ملتی بھی ہے تو دونوں کو عذاب یا نعمت حاصل ہوتی ہے ۔
تو ہم پر یہ ضروری ہے کہ جو اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی ہے ہم اس پر ایمان لائیں اور اس کی تصدیق کریں ۔ الاختیارات الفقہیۃ (ص 94)

وقال ابن القيم :
وقد سئل شيخ الإسلام عن هذه المسألة ، ونحن نذكر لفظ جوابه فقال :
بل العذاب والنعيم على النفس والبدن جميعاً باتفاق أهل السنة والجماعة ، تُنعَّم النفس وتعذب منفردة عن البدن وتنعم وتعذب متصلة بالبدن ، والبدن متصل بها فيكون النعيم والعذاب عليها في هذه الحال مجتمعين كما تكون على الروح منفردة عن البدن .

اور ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اس مسئلہ کے متعلق شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا اور ان کے جواب کے الفاظ ہمیں یاد ہیں انہوں نے فرمایا :
اہل سنت والجماعت اس پر متفق ہیں کہ عذاب اور نعمتیں بدن اور روح دونوں کو ہوتی ہے روح کو بدن سے جدا ہونے کی شکل میں بھی عذاب اور نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور بدن سے متصل ہونے کی شکل میں بھی تو بدن سے روح کے متصل ہونے کی شکل میں روح کو عذاب اور نعمت کا اس حالت میں حصول دونوں کو ہوتا ہے جس طرح کہ روح کا بدن سے منفرد ہونے کی شکل میں ہے ۔
مذهب سلف الأمة وأئمتها :
أن الميت إذا مات يكون في نعيم أو عذاب ، وأن ذلك يحصل لروحه وبدنه ، وأن الروح تبقى بعد مفارقة البدن منعمة أو معذبة ، وأنها تتصل بالبدن أحياناً ويحصل له معها النعيم أو العذاب ، ثم إذا كان يوم القيامة الكبرى أعيدت الأرواح إلى الأجساد وقاموا من قبورهم لرب العالمين ومعاد الأبدان متفق عليه بين المسلمين واليهود والنصارى . " الروح " ( ص 51 ، 52 ) .

ويضرب العلماء مثالا لذلك الحلم في المنام فقد يرى الإنسان أنه ذهب وسافر وقد يشعر بسعادة وهو نائم وقد يشعر بحزن وأسى وهو في مكانه وهو في الدنيا فمن باب أولى أن تختلف في الحياة البرزخية وهي حياة تختلف كلية عن الحياة الدنيا أو الحياة في الآخرة
مرنے کے بعد میت یا تو نعمتوں میں اور یا پھر عذاب میں ہوتی ہے ۔ جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتا ہے روح بدن سے جدا ہونے کے بعد یا تو نعمتوں میں اور یا عذاب میں ہوتی اور بعض اوقات بدن کے ساتھ ملتی ہے تو بدن کے ساتھ عذاب اور نعمت میں شریک ہوتی اور پھر قیامت کے دن روحوں کو جسموں میں لوٹایا جائے گا تو وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف نکل کھڑے ہوں گے جسموں کا دوبارہ اٹھنا اس میں مسلمان اور یہودی اور عیسائی سب متفق ہیں- الروح ( ص / 51- 52)
علماء اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ انسان خواب میں بعض اوقات یہ دیکھتا ہے کہ یہ کہیں گیا اور اس نے سفر کیا یہ پھر اسے سعادت ملی ہے حالانکہ وہ سویا ہوا ہے اور بعض اوقات وہ غم وحزن اور افسوس محسوس کرتا ہے حالانکہ وہ اپنی جگہ پر دنیا میں ہی موجود ہے تو بزرخی زندگی بدرجہ اولی مختلف ہو گي جو کہ اس زندگی سے مکمل طور پر مختلف ہے اور اسی طرح آخرت کی زندگی میں بھی ۔
قال النووي :

فان قيل : فنحن نشاهد الميت على حاله في قبره فكيف يُسأل ويُقعد ويضرب بمطارق من حديد ولا يظهر له أثر ، فالجواب : أن ذلك غير ممتنع بل له نظر في العادة وهو النائم ، فإنه يجد لذة وآلاما لا نحس نحن شيئا منها ، وكذا يجد اليقظان لذة وآلما لما يسمعه أو يفكر فيه ولا يشاهد ذلك جليسه منه ، وكذا كان جبرئيل يأتي النبي صلى الله عليه وسلم فيخبره بالوحي الكريم ولا يدركه الحاضرون ، وكل هذا ظاهر جلى .
" شرح مسلم " ( 17 / 201 ) .

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اگر یہ کہا جائے کہ میت کو قبر میں اپنی حالت پر ہی دیکھتے ہیں تو پھر کس طرح اس سے سوال کیا جاتا اور اسے بٹھایا اور لوہے کے ہتھوڑوں سے مارا جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے بلکہ اس کی مثال اور نظیر عام طور پر نیند میں ہے کیونکہ سویا ہوا شخص بعض اوقات کسی چیز پر لذت اور یا پھر تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرتے اور اسی طرح بیدار شخص جب کچھ سوچ رہا ہوتا یا پھر سنتا ہے تو اس کی لذت اور یا تکلیف محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اس کا مشاہدہ نہیں کرتا اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتے اور انہیں وحی کی خبر دیتے تھے لیکن حاضرین کو اس کا ادراک نہیں ہوتا تھا تو یہ سب کچھ واضح اور ظاہر ہے –
شرح مسلم ( 71/ 201)

والله أعلم.
الإسلام سؤال وجواب
الشيخ محمد صالح المنجد
 
Top