ابوقتادہ الانصاری سے عبداللہ بن معبد کی مرویات کو بہت سے جلیل القدر محدثین نے صحیح کہا ہے۔
اورہم نے مختلف مقامات پر یہ واضح کیا ہے کہ محدثین کی تصحیح جس طرح سند کے رواۃ کی توثیق ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح طبقات سند میں سماع پر بھی دلالت کرتی ہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے پوری صراحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے جیساکہ ہم اسی سیکشن میں دوسرے مقام پر پیش کرچکے ہیں۔
محدثین کی تصحیح کے ساتھ ساتھ ایک عظیم محدث خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے پوری صراحت کے ساتھ کہا:
عبدالله بن معبد الزماني البصري سمع أبا قتادة الأنصاري [المتفق والمفترق للخطيب البغدادي 3/ 16]۔
محض اتنی باتیں اس بات کی کافی دلیل ہے کہ ابوقتادہ سے ابن معبد کا سماع ثابت ہے۔
رہا امام بخاری رحمہ اللہ کا قول تو :
دیگر ائمہ فن کی تحقیقات کی روشنی میں ہم یہی کہیں گے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کو اس سماع کا علم نہیں ہوسکا لیکن دیگر محدثین کو اس سماع کا علم ہوا ۔اورعلم ، عدم علم پر حجت ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ صحیح مسلم کی یہ حدیث صحیح ہے ۔اس پر کسی طرح کا کوئی اعتراض درست نہیں ۔