• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبى رواد الأزدى

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم۔
عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبى رواد الأزدى ، أبو عبد الحميد المكى ، مولى المهلب بن أبى صفرة ( مروزى الأصل )

شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے فتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (ص 56) میں اس راوی کے بارے میں فرمایا: "ضعيف من جهة حفظه، ضعفه الجمهور (تحفة الأقوياء: ٢٤٢)"

لیکن یہ تو صحیح مسلم کا راوی ہے، اور جمہور کی رائے بھی کچھ اور نظر آتی ہے۔
امام احمد، یحیی بن معین، دارقطنی، ابن خزیمہ، حاکم، ابو عوانہ، ترمذی، ابو داود، نسائی، ابو یعلی الخلیلی، ضیا المقدسی، العراقی، ذہبی، ابن حجر، ہیثمی، البوصیری وغیرہ نے اس راوی کی توثیق کی ہے۔
جبکہ جرح کرنے والوں کی تعداد اس سے کم ہے۔ اور مصنف تحریر تقریب التہذیب نے تو یہ کہا ہے کہ یہ راوی ثقہ ہے، وہ حدیث میں ویسے ہی غلطیاں کرتا ہے جسطرح دوسرے عام راوی کرتے ہیں اور وہ ابن جریج کی حدیث میں اثبت الناس ہے۔ لوگ صرف اس کی ارجاء کی وجہ سے اس پر جرح کرتے تھے، اور کچھ نے صرف ارجاء کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا۔

اس راوی کے معاملے میں سچ بات کون سی ہے؟ جزاک اللہ خیرا
 
Top