• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبودیت کا تقاضہ

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
عبودیت کا تقاضہ

اچھی بری تقدیر پر راضی ہونا اور سرتسلیم خم کرنا ایمان وبندگی کا تقاضا ہے فرمایا!

ہم تم کو کچھ خوف، بھوک، اور مالوں اور جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجئے

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ
اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔ (البقرہ ١٥٥)۔

تقدیر ہمیشہ خواہشات کے مطابق نہیں ہوسکتی۔ یہ ہمارا قصور ہے کہ ہم قضاء قدر کو نہ مانیں ہم تجویز پیش کرنے کی پوزیشن نہیں رکھتے ہمارا مقام تو صرف عبودیت وتسلیم ہے اسی ایمان کی نسبت سے بندے کی آزمائش ہوتی ہے مجھے اتنی تکلیف ہوتی ہے جتنی تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتی۔

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ
پس (اے پیغمبر !) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا (الاحقاف ٣٥)۔

اللہ جس کے ساتھ خٰر کا ارادہ کرے اسے آزماتا ہے۔
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ
یقیناً ہم تمہارا امتحان کریں گے تاکہ تم میں سے مجاہد اور صبر کرنے والوں کو ظاہر کر دیں اور ہم تمہاری حالتوں کی بھی جانچ کرلیں (محمد ٣١)۔

وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ
ان اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا (العنکبوت ٣)۔

علی بن المامون عباسی، شہزادہ اور خلیفہ کا بیٹا عظیم الشان قصر میں رہتا تھا دنیا کی ہر آسائش میسر تھی اُس نے ایک دن محل کی کھڑکی سے جھانکا کیا دیکھتا ہے کہ ایک مزدور دن بھر کام کرتا ہے دن ڈھلے اُس نے وضو کیا اور دجلہ کے کنارے دو رکعت نماز پڑھی جب دن چھپنے کا وقت ہوگیا تو وہ گھر چلا گیا ایک دن شہزادے نے اسے بلایا اور اس سے حال چال پوچھا اس نے بتایا کہ اُس کی بیوی دو بہنیں اور ایک ماں ہے جن کے لئے وہ محںت کررہا ہے اور یہ کہ اس کے پاس بازار میں مزدوری کی کمائی کے علاوہ اور آمدنی نہیں وہ روزانہ روزہ رکھتا ہے اور جو کماتا ہے اس سے افطار کرتا ہے پوچھا کیا تمہیں کسی شئی کی شکایت ہے؟ کہا نہیں والحمداللہ! یہ سب سُن کر شہزادہ نے محل چھوڑ دیا امیرانہ ٹھاٹ چھوڑ دیئے اور مضطربانہ دور نکل گیا اور کئی سال بعد خراساں کی طرف لکڑی کا کام کرتے ہوئے انتقال کرگیا اسے اس کام میں مسرت ملی تھی جو قصر میں حاصل نہ ہوئی تھی۔

وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ
اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں اللہ نے انہیں ہدایت میں بڑھا دیا ہے اور انہیں ان کی پرہیز گاری عطا فرمائی ہے (محمد ١٧)۔

اسی سے مجھے اصحاب کہف کا قصہ یاد آیا جو بادشاہ کے ساتھ محلوں میں رہتے تھے لیکن وہاں کفر کے باعث انہیں تنگی، انتشار، اور اضطراب لاحق ہوا، وہ ان محلوں سے نکل گئے

وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْهُمْ وَمَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ فَاْوٗٓا اِلَى الْكَهْفِ يَنْشُرْ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَيُهَــيِّئْ لَكُمْ مِّنْ اَمْرِكُمْ مِّرْفَقًا
جب تم ان سے اور اللہ کے سوا ان کے اور معبودوں سے کنارہ کش ہوگئے تو اب تم کسی غار میں جا بیٹھو تمہارا رب تم پر اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے لئے تمہارے کام میں سہولت مہیا کر دے گا۔ (الکہف ١٦)۔

بقول شاعر!
وہ جگہ جہاں تازہ ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں میرے لئے شاندار محل سے بھی زیادہ بہتر ہے۔

بقول شاعر!
حباب کے لئے سوئی کا ناکہ بھی میدان ہے ہماری پلکیں مہمانوں کے لئے فرش راہ ہیں، مطلب یہ ہے کہ محبت اور ایمان کے ساتھ تنگ جگہ بھی وسیع اور الفت سے بہت چیزیں قابل برداشت ہوجاتی ہیں۔

اقتباس
غم نہ کریں
 
Top