• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عجمی اسرائیل

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
بھائی یہ تو صرف امیج ہے۔۔۔!
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس کتاب کو کمپوز کروا لیا ہے لہذا اسے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں جس ساتھی نے کمپوز کیاہے اس نے اپنے لیے دعاوں کی درخواست کی ہے کیونکہ بلا معاوضہ کیا ہے اور کہا کہ جتنا پھیلا سکیں نشر کریں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بسم اللّٰہ الرحمان الرحیم
قادیانی ،پاکستان میں استعماری گماشتے ہیں
عجمی اسرائیل
ایک انڈر گرائونڈ خطرے کا تجزیہ
شورش کاشمیری
ادارہ تحفظِ پاکستان
’’قادیانی مذہب کی پناہ لیتے ہیں لیکن سیاست کا ناٹک کھیلتے ہیں،جب کوئی ان کے سیاسی عزائم کا محاسبہ کرتا ہے تو وہ مذہب کے حصار میں بیٹھ کر ’’ہم اقلیت ہیں ‘‘کا ناد بجادیتے اور عالمی ضمیر کو معاونت کے لیے پکارتے ہیں جس سے حقائق ناآشنا دنیا سمجھتی ہے کہ پاکستان کے ’’جنونی مسلمان‘‘گویا اپنی ایک چھوٹی سی اقلیت کو کچل دینا چاہتے ہیں۔‘‘
نام کتاب:عجمی اسرائیل
مصنف:شورشؔ کاشمیری
طبع:۲۰۰۲ء
تعداد:۱۲۰۰
کمپوزنگ:زکریا شاہین
قیمت:
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
’’پاکستان خطرے میں ہے داخلی اعتبار سے بھی اور خارجی اعتبار سے بھی‘‘ یہ اس تاثر کاخلاصہ ہے جوپاکستان میں ہر کہ ومہ کی زبان پرہے ۔حزب اقتدار اور حزب اختلاف بہ اختلاف الفاظ دونوںہی اس کی نشاندہی کرتی ہیں، خود صدر مملکت نے بعض غیر ملکی جرائد کے وقائع نگاروں کو معنی خیز اشارات میں ان خطرات کاذکرکیااور ملک میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں اپوزیشن سے منسو ب ہیں وہ کھلم کھلا ان خطرات کوبیان کرتی ہیں ان میں اختلاف ہے تو خطرے کی نوعیت اور اس کے تعین کا،خطرے کے وجود اور امکان پرسب کواتفاق ہے اور سبھی اس کوشدت سے محسوس کرتے ہیں ۔
بظاہر داخلی اور خارجی دونوںخطرات ایک دوسرے سے الگ الگ اور آپس میں کٹے چھٹے ہو ئے ہیں ،لیکن صورت حال کی اندرونی فضا خارجی اثرات کے تحت اتنی مربوط ہے کہ الگ الگ مہرے بھی ایک شطر نج کے مہرے نظر آرہے ہیں ۔
خطرات کایہ احساس جواب عوام کے دلوں میں اتر چکا ہے اولاًمعاہدہ تاشقند (۱۹۶۵ء) کے فوراًبعد ملک کے خواص کو خلو تیانِ راز کی معرفت معلوم ہوا تھا اور لوگ محسوس کرنے لگے تھے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی سیاسی خواہشوں کے نرغہ میں ہے ۔آخر مشرقی پاکستان کے (۱۹۷۱ء) الگ ہوکر بنگلہ دیش بن جانے سے ساراملک بلکہ ساری دنیا باخبر ہوگئی کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی سیاسی خواہشوں کامحور ہوچکاہے اوراب پاکستان میں اضطراب وتشویش اورتشتت وانتشار کی جو لہریں دوڑ رہی ہیں وہ تمام تر عالمی طاقتوں کے اسی طرز عمل اور پاکستان کی اندرونی سیاست کے اسی اتار چڑھائو کانتیجہ ہے۔
داخلی طورپر خطرہ کی نوعیت یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی (پیپلز پارٹی )جوسرحد و بلوچستان میں صوبائی نمائندگی سے محروم ہے اپنی مدمقابل سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ ) کو پاکستان کی مزید تقسیم کے عالمی پس منظر میں آلہ کار ٹھہراتی اور اس کی طاقت کوسبو تاژکرکے سیاسی تصادم کے پہلو دار امکانات پیدا کر رہی ہے ادھر اس الزام کی نیپ کے حلقے تردید کرتے ہیں ،لیکن پروپیگنڈامشینری (ریڈیو،ٹیلی ویژن ،اخبارات وغیرہ )پیپلزپاٹی کے ہاتھ میںہیں اس لیے سندھ ایک حدتک اور پنجاب بڑی حدتک نیپ کوپیپلزپاٹی کے الفاظ میں پاکستان دشمن کہتے ہوئے جھجکتانہیں ،بلکہ ایسا کہنا اپنی حب الوطنی کا روز مرہ خیال کرتا ہے ۔پیپلزپارٹی کے شہ دماغوں کااصل نزلہ خان عبدالوالی خاںپر گرتا ہے ، جن کاجرم تویہ ہے کہ وہ صدر بھٹو کی مخالفت میں شروع دن سے ثابت قدم ہیں ۔لیکن ان کے خلاف فرد جرم یہ ہے کہ وہ خان عبدالغفارخان کے فرزند ہیں اور خان عبدالغفار خان سرحدی گاندھی ہیں اور آزادی کے آخری لمحہ تک انڈین نیشنل کانگریس کے زعماء میں سے تھے ،وغیرہ ۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی کی مخاصمت کانقطہ عروج یہ ہے کہ اوّل الذکر نے مرکزی اقتدار کے بل پرموخر الذکر کی سرحد وبلوچستان میں وزارتیں برخاست کرکے سرحد کو طالع آزمائوں کے سپرد کردیا اور بلوچستان جو اْس وقت عالمی سیاست کے نزدیک اپنے معدنی خزائن اور جغرافیائی سواحل کی وجہ سے غایت درجہ اہمیت کاعلاقہ ہے ،نواب اکبر بگٹی کی گورنری کو سونپ دیا بْگٹی پنجاب سے اس حد تک بیزار تھے کہ ان کے نزدیک بھارت کے ہاتھوں پنجاب کی شکست ہی میں مغربی پاکستان یا موجودہ پاکستان کی آزادی کا انحصار تھا اور وہ اپنے ان خیالات کو کبھی چھپاتے نہیں تھے ۔
پنجاب وسرحد میں بہمہ وجوہ پیپلزپارٹی کی عوامی طاقت میں حیرت انگیز کمی ہو گئی ہے ، اب اْس کی طاقت کا نام صرف حکومت ہے ۔ایک دوسری حقیقت جو اس بحث میں قابل ذکرہے وہ پڑھے لکھے طبقے بالخصوص اسلامی ذہن پر پیپلز پارٹی کے مخالف عنا صر کارسْوخ ہے اور یہ رسوخ شروع دن سے ہے ۔صدر بھٹو کسی وجہ سے بھی اس طبقے کو کبھی متاثر نہیں کرسکے ،یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ پیپلز پارٹی اقتدار کے بعد اپنے سیاسی تلوّن اور واضح غلطیوں کے باعث مقبولیت عامہ کے اعتبار سے روز بروز ماندپڑ رہی ہے۔
ملک کی عمو می فطرت کے مطابق بعض خاص عناصر جو صرف اقتدار کے لیے جیتے اور اقتدار ہی کے رہتے ہیں ، صدر بھٹو کو مختلف واسطوں سے شکست دینے کے خواہاں ہیں ۔ان کے سامنے حصول اقتدار کے لیے ہر نظریۂ صحیح ہے ویسے وہ کبھی کسی نظریہ کے نہیں رہے ، ان کا یہ نظریہ ان کی اپنی ذات ہے ۔اس بو قلمونی نے ملک میں عجیب و غریب صورت حال پیدا کردی ہے۔ ایک لحاظ سے ہم اس صورت حال کو ذہنی خانہ جنگی کانام دے سکتے ہیں کہ بالفاظ دیگر اس صورت حال کو ہم ان الفاظ میں مختصر کر سکتے ہیں کہ جانبین اپنے اپنے دوائر میں ملک کے تشتت وانتشار کی پروا کیے بغیر(غیرارادی طور پرہی سہی )پاکستان کوایک ایسے موڑ پر لے آئے ہیںجہاں پاکستان کی نظریاتی بنیادیں ٹوٹ رہیں اور اس کا سیاسی استحکام روز بروز کمزور پڑ رہا ہے ،جس سے عالمی طاقتوں کی سیاسی خواہشوں کو آب ودانہ مل رہا ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خارجی خطرہ عوام محسوس کر رہے اور خواص کو معلوم ہوچکا ہے ۔اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ :
(۱)بھارت نے برطانوی اقتدار کی رخصتی کے وقت پاکستان کوسیاستاًقبول کیا تھا لیکن ذہناً قبول نہیں کیا ۔
(۲)پاکستان کو مٹانے اور جھکانے کا خیال بھارت نے شروع دن سے ترک نہیں کیا ۔ ابتداً پاکستان کے روپے کی روک ،مہا جرین کابے تحاشہ بوجھ ،حیدر آباد کاسقو ط ،کشمیر پرقبضہ ، لیاقت نہرو معاہدے سے انحراف ،لیاقت علی کا قتل ،ناظم الدین کی سبکدوشی ،محمد علی بوگرہ کی درآمد، سکندرمرزا کی آئین کشی،ایوب خاں کامارشل لاء،۱۹۶۵ء کی جنگ ،ایوب خاں کے اقتدار کاخاتمہ ،مشرقی پاکستان کی برہمی،یحییٰ خاں کااقتدار اور ڈھاکہ کا سقوط ۔ان سب چیزوں میں بھارت برابر کا شریک رہا۔ کسی میں بالواسطہ اور کسی میں بلا واسطہ ۔ مثلاًلیاقت علی کے سانحہ قتل میں ہندوستان نہیں تھا مگر عالمی طاقتیں پاکستان کوجس نہج پرلانا چا ہتی تھیں فی الجملہ ہندوستان کسی نہ کسی طرح اُن منفی خواہشوں میں شریک تھا ۔بالفاظ دیگر پاکستان کے معاملہ میں عالمی طاقتوں کے سیاسی نقشے ہندوستان کی مشاورت سے تیار ہوتے رہے اور اب بھی ہندوستان ان نقشوں کے خاکے تیار کرنے میں جزو اً یاسالماًحصہ دار ہے۔
(۳)عالم اشتراکیت میں روس اور چین کی آویزش سے امریکہ اور روس میں خود بخود ایک ذہنی سمجھو تہ (گو اس کی بنیاد میں دوستانہ خیر خواہی نہ تھی)ہوگیا۔امریکہ کے لیے اطمینان کا پہلو یہ تھاکہ روس اور چین میں ٹھن جانے سے اشتراکیت مغرب سے عملاًدستکش ہوجاتی اور اپنی ایک ہم عقیدہ ریاست (چین )سے متصادم ہوکرنہ صرف متحدہ طاقت کی حیثیت سے تقسیم ہوجائے گی بلکہ عالمی سیا ست کا نقشہ ہی پلٹ جائے گا۔روس نے غنیمت سمجھا کہ اس طرح وہ ایشیااور افریقہ میں اپنا اثر بڑھا سکے گا۔عرب دنیا اس کی مٹھی میں ہوگی اور گرم پانی کے جن سمندروں اور کناروں کی اُس کو تلاش ہے اُن کا راستہ مل جائیگا مرو(روس کی حد ) سے لے کر بلو چستان میں جیونی تک ایران و افغانستان کی سرحدوں کے بیچوں بیچ زمین کی ایک پٹی اُس کے ہاتھ آجائے گی جو اقتصادی اعتبار سے ایک عالمی طاقت بننے کے لیے اشد ضروری ہے ۔چین اور ہندوستان کی آویزش جو اس عالمی تصادم ہی کا ایک پارٹ ہے روس اور امریکہ کی ان خواہشوں کے عین مطا بق ہے۔ہندوستان اشتراکی ہو جائے تو ۷۵ کروڑچینیوں کے بعد ۵۰ کروڑ کا مالک سوشلزم کی گودمیںچلا جاتاہے۔ پھر سامراج کے لیے افریشیامیں کوئی جگہ نہیں رہتی ۔چین کا طوفان اسی طرح روکا جاسکتا ہے کہ ہندوستان اشترا کی نہ ہواور چین سے اُس کی ٹھنی رہے تاکہ محاذ سیدھا عالمی طاقتوں کی طرف منتقل نہ ہو ۔ ہندوستان نے روس اور امریکہ سے ہمیشہ یہی کہا کہ مضبوط ہندوستان چین کا مقابلہ اُسی صورت میں کر سکتا ہے جب اس کے دو شا نوں پر موجود پاکستان اس کے لیے خطرہ نہ ہو یا نہ رہے۔
یہ تھا پاکستان سے امریکہ کی دغا اور روس کی دخل اندازی کا نقطئہ آغاز ۔امریکہ نے فیلڈ مارشل ایوب خان کومشترکہ دفاع پرزور دیا ۔لیکن تب عوام کی ذہنی فضااور بھارت سے مسلسل آویزش کے با عث ممکن نہ تھا ۔فیلڈ مارشل ایوب خاں کے اس پر راضی نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ:
أ-امریکہ کے رسوائے عالم ادارہ سی آئی اے نے پاکستان میں قدم جمانے شروع کیے ۔ (اس کی محیر العقول تفصیلات ہیں ،افسوس کہ اس مقالہ کا موضوع نہیں اور یوں بھی وہ تفصیلات ایک جامع کتاب کا مضمون ہیں )
ب-سی آئی اے کے ایک سفارتی اہلکار نے سب سے پہلے فوج میں نقب لگانی چاہی ، ایک بریگیڈیر سے جو اس اہلکار کا جگری دوست تھا جب ٹکا سا جواب پایا توسی آئی اے نے سی ایس پی کے افسروں کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے تلاش کیا ۔
ج- مرکزی انٹیلی جنس بیور و کے ڈائریکٹر جنرل کوسی آئی اے کے اس اہلکار سے یہ جان کرحیرت ہوئی کہ وہ مغربی پاکستان کے تمام تھانوں کی عوامی طاقت ،بندوقوں کی تعداد اور ان کے سا ختہ سنین سے واقف تھا اور اسے ایک عوامی انقلاب کی شکل میں ان کی اجتماعی کار کردگی کا اندازہ تھا ۔
د- مرکزی انٹیلی جنس بیورونے صدر ایوب کو پشاور میں ہاشم کی فا ئرنگ سے قبل از وقت آگاہ کر دیا تھاکہ صورت حال اس طرح بنائی جا رہی ہے (ضروری نہیں کہ ہاشم بھی اس سے آگاہ ہو ، راقم)
ر- اس فا ئرنگ کے بعد راولپنڈی چھائونی سے دس پندرہ میل آگے (قصبہ کا نام یاد نہیں آر ہا سرکاری رپورٹوں میں محفوظ ہوگا )پشاور تک مختلف دیہات کے لوگ بغاوت کے انداز میں سڑکوں پر آگئے لیکن مسٹر الطاف گوہر یا مسٹر این اے رضوی کی کار روکنے کے سوا کوئی اجتماعی مظاہرہ کسی نتیجہ کے ساتھ نہ ہو سکا ۔خبر نذر احتساب ہو گئی ۔
 
Top