• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عدالت ميں حنفى مسلك كے مطابق ولى كے بغير عقد نكاح كيا گيا !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عدالت ميں حنفى مسلك كے مطابق ولى كے بغير عقد نكاح كيا گيا

ميں عراق سے تعلق ركھتا ہوں اور چھ برس قبل شادى ہوئى ميرا ايك بچہ بھى ہے، عراق ميں حنفى مسلك كے مطابق عدالت ميں كيا جاتا ہے، عقد نكاح كے وقت لڑكى كا والد وہاں موجود تھا ليكن جج كے سامنے صرف ميں اور لڑكى ہى گئے كيونكہ كسى اور كو جانے كى اجازت نہيں، ليكن لڑكى اور ميرے والد نے بطور گواہ نكاح نامہ پر دستخط كيے، كيا ہمارى شادى صحيح ہے، اور كيا مجھ پر كچھ لازم آتا ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

اللہ تعالى آپ كو دينى امور ميں حرص ركھنے پر جزائے خير عطا فرمائے، ليكن آپ نے يہ كام بہت دير سے كيا ہے آپ كو چاہيے تھا كہ آپ اس حادثہ كے فورا بعد تاخير كيے بغير دريافت كيا ہوتا تو بہتر تھا، ليكن لگتا ہے كہ آپ كو علم نہيں تھا كہ اس طريقہ سے نكاح غلط ہوتا ہے.

دوم:

بعض ممالك ميں عقد نكاح حنفى مسلك كے مطابق شرعى عدالت ميں كئے جاتے ہيں، آپ ديكھيں كے وہاں نكاح خوان بلند آواز سے كہتا ہے كہ عقد نكاح كتاب و سنت اور امام ابو حنيفہ كے مسلك كے مطابق كيا جا رہا ہے!

جو كہ شريعت كے مخالفت ہے، كسى بھى مسلمان شخص كو اپنى عبادت معاملات ميں كسى معين مسلك پر اعتماد نہيں كرنا چاہيے، اور ملكوں كو بھى ايسا نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ ہو سكتا ہے مذاہب ميں شريعت كے مخالف بھى ہو، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اس سے زيادہ صحيح پايا جاتا ہو، تو پھر سب معاملات ميں كسى ايك معين مذہب پر اعتماد كيسے كيا جا سكتا ہے؟!

اس طريقہ كے مطابق عقد نكاح كرنے والے شخص كا رد كرنے كا آسان طريقہ يہ ہے كہ اسے كہا جائيگا: امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ سے پہلے كس طريقہ پر عقد نكاح كيا جاتا تھا ؟!

عقلمند شخص جانتا ہے كہ يہ عبارت صحيح نہيں بلكہ باطل ہے، اور وہ يہ بھى علم ركھتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كسى كا بھى يہ عبارت بول كر نكاح نہيں كيا، اور عقلمند شخص يہ بھى جانتا ہے كہ آئمہ كرام نے بھى اس طرح شادياں نہيں كيں، ان آئمہ كرام ميں امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ خود بھى شامل ہيں !

بلكہ يہ چيز تو صرف متعصب قسم كے لوگوں سے معلوم ہوا ہے، اور ان لوگوں كا تعصب يہاں تك جا پہنچا ہے كہ وہ گمان كرنے اور كہنے لگے ہيں كہ جب عيسى عليہ السلام نازل ہوں گے تو وہ بھى فقہ حنفى كے مطابق فيصلے كيا كريں گے!!

حنفى مسلك ميں عقد نكاح كے وقت ولى كى شرط نہيں ہے بلكہ عورت خود اپنا نكاح كر سكتى ہے، جو كہ قرآن مجيد اور سنت صحيحہ كے مخالف ہے.

جب عورت كا ولى كے بغير نكاح ہو تو يہ نكاح باطل ہو گا كيونكہ حديث ميں اسے باطل قرار ديا گيا ہے-

اكثر طور پر عدالتميں جانے سے قبل ہى عقد نكاح ہوجاتا ہے، اس طرح آدمى عورت كے ولى سے موافقت طلب كر كے مہر كى تحديد كرتا ہے اور دونوں خاندانوں كے كچھ افراد كى موجودگى ميں عقد نكاح كيا جاتا ہے، اور پھر بعد ميں عقد نكاح كى توثيق شرعى عدالت يا دوسرے محكمہ سے كرائى جاتى ہے، اس طرح عدالت يا نكاح رجسٹرار كا كام تو صرف نكاح كى توثيق ہوا جس ميں كوئى حرج كى بات نہيں.

ليكن ... اس عقد نكاح كے صحيح ہونے ميں علماء كرام كے اختلاف كو مدنظر ركھتے ہوئے يہ كہا جائيگا كہ جب حاكم اور قاضى و جج اس نكاح كے صحيح ہونے كا حكم لگائے تو اس حكم كو توڑا نہيں جائيگا، اس صورت ميں اس نكاح كا صحيح كہا جائيگا تا كہ لوگ پريشانى ميں مبتلا نہ ہوں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ ولى كے بغير عقد نكاح كے بارہ ميں كہتے ہيں:

" اگر حاكم اس عقد نكاح كے صحيح ہونے كا حكم دے يا پھر حاكم عقد نكاح كا ولى ہو تو اس كے حكم كو نہيں توڑا جائيگا، اور اسى طرح باقى فاسد نكاح بھى.

بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ اس كے حكم كو توڑا جائيگا كيونكہ يہ نص كے خلاف ہے، ليكن پہلا قول اولى ہے؛ كيونكہ اس مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے، اور اس ميں اجتھاد جائز ہے " انتہى بتصرف

ديكھيں: المغنى ( 9 / 346 ).
اور جب آپ احتياط چاہتے ہيں تو آپ بيوى كے ولى سے كہيں كہ وہ عقد نكاح دوبارہ كر دے، اس طرح وہ آپ سے كہے كہ ميں نے اپنى بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا، اور اسے قبول كر ليں، نكاح كى پہلى توثيق ہى كافى ہے، عقد نكاح ميں احتياط كا تقاضہ يہى ہے اور اولى بھى تا كہ بغير كسى شبہ كے عقد نكاح صحيح ہو.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/104148
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
لڑکی نے ولی کے بغیر شادی کرلی !!!

میں اجنبی ملک میں رہائش پزیرہوں اورکسی اورملک کی ایک نصرانی لڑکی سے شادی کی ہے ، ہم دونوں کا اس ملک میں کوئي بھی قریبی رہائش پزیر نہیں ، میں نے اسے شادی کا پیغام دیا تووہ شادی پر رضامند ہوگئی بعد میں ہمارا ایجاب وقبول بھی ہوا لیکن میں مہر دینا بھول گيا اور بعد میں اسے کچھ رقم دی ، اس لڑکی کا کوئي وصی نہیں وہ بالغ اوربا اختیار ہے ، اوراس شادی کے کوئي گواہ بھی نہیں ۔

توکیا یہ شادی صحیح ہے ، ہم نے معاشرے کے رسم و رواج سے ہٹ کر صرف اللہ تعالی کی رضا کے لیے شادی کی تھی ، اس خدشہ سے کہ کہیں ہماری یہ شادی غلط نہ ہوایک دوسرے کو طلاق دے دی ، توکیا ایسا کرنا صحیح تھا، اورکیا اب گواہوں اوراس کے کسی ولی کی موجودگي میں عقد نکاح کرنا واجب ہوگا ؟

الحمد للہ :

اول :

جمہور علماء کرام جن میں امام شافعی ، امام احمد ، امام مالک رحمہ اللہ تعالی کامسلک ہے کہ کسی بھی مرد کے لیےحلال نہیں کہ وہ عورت سے اس کے ولی کے بغیر شادی کرے چاہے وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ ۔

ان کے دلائل میں مندرجہ ذيل آیات شامل ہیں :

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

{ اورتم انہیں اپنے خاوندوں سے شادی کرنے سے نہ روکو }

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

{ اورمشرکوں سے اس وقت تک شادی نہ کرو جب تک وہ ایمان نہيں لے آتے } ۔

اورایک مقام پر یہ فرمایا :

{ اوراپنے میں سے بے نکاح مرد و عورت کا نکاح کردو } ۔

ان آیات میں نکاح میں ولی کی شرط بیان ہوئي ہے اوراس کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان سب آیات میں عورت کے ولی کو عقدنکاح کے بارہ میں مخاطب کیا ہے اوراگر معاملہ ولی کا نہیں بلکہ صرف عورت کے لیے ہوتا تو پھر اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی فقہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح بخاری میں ان آیات پر یہ کہتے ہوئے باب باندھا ہے ( باب من قال ) " لانکاح الا بولی " بغیر ولی کے نکاح نہیں ہونے کے قول کے بارہ میں باب ۔

اورحدیث میں بھی یہ وارد ہے کہ :

ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 1101 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2085 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر( 1881 ) ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 1 / 318 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
اور ام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اوراگر ( خاوندنے ) اس سے دخول کرلیا تو اس سے نفع حاصل اوراستمتاع کرنے کی وجہ سے اسے مہر دینا ہوگا ، اوراگر وہ آپس میں جھگڑا کریں اور جس کاولی نہیں حکمران اس کا ولی ہوگا

سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1102 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2083 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1879 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 1840 ) میں اسے صحیح قرار دیاہے ۔
حدیث میں اشتجروا کا معنی تنازعوا یعنی تنازع ہے ۔

دوم :

اگر عورت کا ولی اسے اپنی پسند کی شادی بغیر کسی عذر کے نہیں کرنے دیتا تواس کی ولایت ختم ہوکر اس کے نزدیکی کے منتقل ہوجائے گی مثلا باب کی بجائے دادا ولی بن جائے گا ۔

سوم :

اوراگر اس کے سب اولیاء نے اسے بغیر کسی عذر شرعی کے شادی کرنے سے روکا تو سابقہ حدیث کی وجہ سے حکمران ولی بنے گا کیونکہ حدیث میں ہے ( ۔۔۔ اگر وہ جھگڑا کریں تو جس کا ولی نہ ہو حکمران اس کا ولی ہے ) ۔

چہارم :

اگر نہ تو ولی ہو اور نہ ہی حکمران تو پھر وہ شخص اس کی شادی کرے گا جسے سلطہ اور اختیار حاصل ہو مثلا گاؤں کا نمبردار ، یا گورنر ، وغیرہ ،اوراگر یہ بھی نہ ہوں تووہ عورت اپنی شادی کے لیے کسی مسلمان امین شخص کو اپنی شادی کے لیے وکیل بنائے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اگر نکاح کا ولی نہ ہو تواس حالت میں ولایت اس شخص کی طرف منتقل ہوگی جسے نکاح کے علاوہ دوسرے معاملات میں ولایت حاصل ہو مثلا گا‎ؤں کا نمبردار ، یا قافلے کا امیر وغیرہ ۔ دیکھیں الاختیارات ص ( 350 ) ۔

اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اگرعورت کا ولی نہ ہو اورنہ ہی حکمران ملے تو امام احمد کا قول ہے کہ اس عورت کی اجازت سے کوئي عادل شخص اس کی شادی کردے ۔ دیکھیں المغنی ( 9 / 362 ) ۔

اورشیخ عمر الاشقر کہتے ہیں :

جب مسلمانوں کی طاقت ختم ہوجائے اورانہیں سلطہ حاصل نہ ہو یا پھر عورت کسی ایسی جگہ رہتی ہو جہاں پر مسلمان اقلیت میں ہوں اورانہیں کوئي اختیار نہ ہو ان کا حکمران نہ ہو اورعورت کا ولی بھی نہ ہو جس طرح کے امریکہ وغیرہ میں مسلمان بستے ہیں ۔

اگر ان ممالک میں اسلامی تنظیمیں ہوں جو مسلمانوں کے حالات کا خیال رکھتی ہوں تویہی تنظیم بھی اس عورت کا شادی کرے گی ، اوراسی طرح اگر مسلمانوں کا کوئي ایسا امیر ہوجس کی بات تسلیم کی جاتی ہواور وہ اس کی اطاعت ہوتی ہو یا کوئي مسئول جو اس کے حالات کی دیکھ بھال کرتا ہو وہ عورت کا ولی بنے گا ۔ دیکھیں : الواضع فی شرح قانون الاحوال الشخصیۃ الاردنی ص ( 70 ) ۔

عقد نکاح میں واجب اورضروری ہے کہ دو عدد عاقل بالغ مسلمان اس عقدنکاح کی گواہی دیں ۔

اس لیے آپ کی پہلی شادی باطل تھی اب آپ کو دوبارہ نکاح کرنا چاہیے اوراس میں عورت کے ولی اور دوگواہوں کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

http://islamqa.info/ur/7989
 
Top