• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عدت کا مسئلہ جلد جواب دیں

ناصر خان

مبتدی
شمولیت
مئی 01، 2018
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
عورت کا سوال:
میرے شوھر نے مکان فروخت کر دیا ھے۔ جو کہ دو مہینے بعد ہم لوگوں نے خالی کرنا تھا۔ میرے شوھر نے دوسرا مکان خرید لیا تھا۔ اسی دوران میرے شوھر کا انتقال ھوگیا۔
جبکہ دو مہینے بعد ہمیں مکان خالی کرنا ہے قاعدے کے مطابق۔ تو کیا میں کچھ عدت اسی مکان میں اور باقی عدت دوسرے مکان میں گزار سکتی ھوں؟
نوٹ: دونوں مکان میرے شوھر ہی کے ھیں۔ سابقہ مکان بیچا جا چکا ھے۔ جبکہ نیا خریدا جا چکا ھے۔ اور اسوقت میں پرانے مکان میں ھوں۔ دو مہینے میں مجھے میرے مکان کی پوری رقم مل جائے گی تو یہ مکان چھوڑ کر نئے مکان میں مجھے جانا پڑے گا۔
اب میرے لیئے کیا حکم ھے؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عورت کا سوال:
میرے شوھر نے مکان فروخت کر دیا ھے۔ جو کہ دو مہینے بعد ہم لوگوں نے خالی کرنا تھا۔ میرے شوھر نے دوسرا مکان خرید لیا تھا۔ اسی دوران میرے شوھر کا انتقال ھوگیا۔
جبکہ دو مہینے بعد ہمیں مکان خالی کرنا ہے قاعدے کے مطابق۔ تو کیا میں کچھ عدت اسی مکان میں اور باقی عدت دوسرے مکان میں گزار سکتی ھوں؟
نوٹ: دونوں مکان میرے شوھر ہی کے ھیں۔ سابقہ مکان بیچا جا چکا ھے۔ جبکہ نیا خریدا جا چکا ھے۔ اور اسوقت میں پرانے مکان میں ھوں۔ دو مہینے میں مجھے میرے مکان کی پوری رقم مل جائے گی تو یہ مکان چھوڑ کر نئے مکان میں مجھے جانا پڑے گا۔
اب میرے لیئے کیا حکم ھے؟؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انتقال المعتدة إلى بيت أهلها خوفا من البقاء وحدها
امرأة توفي زوجها وتسكن بيت إيجار في نفس المنطقة لكن بعيد عن أهلها ، ولا يوجد إلا أخ واحد لا يمكنه ترك أعماله والبقاء عندها ، وتخاف أن تبقى وحدها ، ولا تستطيع دفع إيجار البيت ؟ .

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد لله

يجب على المرأة المحادة على زوجها أن تمكث في البيت الذي كانت تسكن فيه عند موت زوجها ؛ لأمر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك ، فقد روى أصحاب السنن أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لفريعة بنت مالك : ( امكثي في بيتك الذي جاء فيه نعي زوجك حتى يبلغ الكتاب أجله . قالت : فاعتددت فيه أربعة أشهر وعشرا ) رواه أبو داود (2300) والترمذي (1204) والنسائي (200) وابن ماجه (2031) وصححه الألباني في صحيح ابن ماجه .

وإلى هذا ذهب جماهير أهل العلم ، عملا بهذا الحديث ، إلا أنهم رخصوا للمرأة إن خافت على نفسها ، أو لم يوجد عندها من يقوم بمصالحها ولم تستطع هي أن تقوم بها أن تعتد في غير منزلها .

قال ابن قدامة رحمه الله : " وممن أوجب على المتوفى عنها زوجها الاعتداد في منزلها : عمر وعثمان رضي الله عنهما ، وروي ذلك عن ابن عمر وابن مسعود وأم سلمة ، وبه يقول مالك والثوري والأوزاعي وأبو حنيفة والشافعي وإسحاق . وقال ابن عبد البر : وبه يقول جماعة فقهاء الأمصار بالحجاز والشام والعراق ".

ثم قال : " فإن خافت هدما أو غرقا أو عدوا أو نحو ذلك ، أو حوّلها صاحب المنزل لكونه بإجارة انقضت مدتها ، أو منعها السكنى تعدّيا ، أو امتنع من إجارته ، أو طلب به أكثر من أجرة المثل ، أو لم تجد ما تكتري به ، [أي لم تجد أجرة البيت] فلها أن تنتقل ؛ لأنها حال عذر . . . وإذا تعذرت السكنى ، سقطت ، ولها أن تسكن حيث شاءت " . انتهى من "المغني" (8/127) بتصرف .

وسئل علماء اللجنة الدائمة عن امرأة مات زوجها وليس في مدينتهم أحد يقوم بمسئوليتها ، فهل لها أن تعتد في مدينة أخرى ؟

فأجابوا :

" إذا كان الواقع كما ذكر من أنها لا يوجد في البلد الذي مات فيه زوجها من يقوم بمسئولياتها وشئونها ، ولا تستطيع أن تقوم هي بشئون نفسها شرعا جاز لها أن تنتقل إلى بلد آخر تأمن فيه على نفسها ، وتجد فيه من يقوم بشئونها شرعا " انتهى .

"فتاوى اللجنة الدائمة" (20/463) .

وجاء فيها أيضا (20/473) :

" إذا كان تحول أختك المتوفى عنها زوجها من بيت الزوجية إلى بيت آخر في أثناء عدة الوفاة للضرورة ، كأن تخاف على نفسها من البقاء فيه وحدها ، فلا بأس بذلك ، وتكمل عدتها في البيت الذي انتقلت إليه " انتهى .

وبناء على ذلك : فإذا كانت هذه المرأة تخاف من البقاء وحدها ، أو لا تستطيع دفع أجرة البيت ، فلا حرج عليها أن تنتقل إلى بيت أهلها وتكمل عدتها فيه .

والله أعلم .

الإسلام سؤال وجواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
اكيلى رہنے كے خوف سے عدت والى عورت كا ميكے منتقل ہونا
ايك عورت كا خاوند فوت ہوگيا اور وہ كرايہ كے گھر ميں رہتى ہے، اس كے ميكے والے بھى اسى علاقے ميں رہتے ہيں ليكن گھر ان سے دور ہے، اور اس كا بھائى بھى كام كاج كى بنا پر اس كے گھر آ كر نہيں رہ سكتا، اور عورت مكان كا كرايہ بھى ادا نہيں كر سكتى، كيا يہ عورت عدت گزارنے كے ليے ميكے منتقل ہو سكتى ہے ؟

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ:

بيوہ عورت كے ليے اپنے اسى گھر ميں عدت گزارنى واجب ہے جس گھر ميں رہائش ركھے ہوئے اسے خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى حكم ديا ہے.

كتب سنن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى درج ذيل حديث مروى ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فريعۃ بنت مالك رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:

" تم اسى گھر ميں رہو جس گھر ميں تمہيں خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى، حتى كہ عدت ختم ہو جائے.

فريعۃ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں:
چنانچہ ميں نے اسى گھر ميں چار ماہ دس دن عدت بسر كى تھى "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2300 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1204 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 200 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابن ماجہ ميں صحيح قرار ديا ہے.

اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اكثر اہل علم كا بھى يہى مسلك ہے، ليكن انہوں نے يہ اجازت دى ہے كہ اگر كسى عورت كو اپنى جان كا خطرہ ہو يا پھر اس كے پاس اپنى ضروريات پورى كرنے كے ليے كوئى دوسرا شخص نہ ہو اور وہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہ كر سكتى ہو تو كہيں اور عدت گزار سكتى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بيوہ كے ليے اپنے گھر ميں ہى عدت گزارنے كو ضرورى قرار دينے والوں ميں عمر اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہما شامل ہيں، اور ابن عمر اور ابن مسعود اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى مروى ہے، اور اما مالك امام ثورى اور امام اوزاعى اور امام ابو حنيفہ اور امام شافعى اور اسحاق رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
حجاز شام اور عراق كے فقھاء كرام كى جماعت كا بھى يہى قول ہے "

اس كے بعد لكھتے ہيں:
" چنانچہ اگر بيوہ كو گھر منہدم ہونے يا غرق ہونے يا دشمن وغيرہ كا خطرہ ہو... تو اس كے ليے وہاں سے دوسرى جگہ منتقل ہونا جائز ہے؛ كيونكہ يہ عذر كى حالت ہے...

اور اسے وہاں سے منتقل ہو كر كہيں بھى رہنے كا حق حاصل ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 8 / 127 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك عورت كا خاوند فوت ہو گيا ہے اور جس علاقے ميں اس كا خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس عورت كى ضرورت پورى كرنے والا كوئى نہيں، كيا وہ دوسرے شہر جا كر عدت گزار سكتى ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" اگر واقعتا ايسا ہے كہ جس شہر اور علاقے ميں خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس بيوہ كى ضروريات پورى كرنے والا كوئى نہيں، اور وہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہيں كر سكتى تو اس كے ليے وہاں سے كسى دوسرے علاقے ميں جہاں پر اسے اپنے آپ پر امن ہو اور اس كى ضروريات پورى كرنے والا ہو وہاں منتقل ہونا شرعا جائز ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتا ( 20 / 473 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:
" اگر آپ كى بيوہ بہن كو دوران عدت اپنے خاوند كے گھر سے كسى دوسرے گھر ميں ضرورت كى بنا پر منتقل ہونا پڑے مثلا وہاں اسے اكيلے رہنے ميں جان كا خطرہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، وہ دوسرے گھر ميں منتقل ہو كر عدت پورى كريگى " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 473 ).

اس بنا پر اگر يہ عورت اكيلا رہنے سے ڈرتى ہے، يا پھر گھر كا كرايہ نہيں ادا كر سكتى تو اپنے ميكے جا كر عدت گزارنے ميں كوئى حرج نہيں ہے.
واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب​
 

ناصر خان

مبتدی
شمولیت
مئی 01، 2018
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
بھائی ان مثالوں میں کہیں بھی میرے مسئلے کی مثال موجود نہیں؟ مجھے میرے مسئلے کا جواب چاہییے۔ جلدی سے۔ پلیز
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بھائی ان مثالوں میں کہیں بھی میرے مسئلے کی مثال موجود نہیں؟ مجھے میرے مسئلے کا جواب چاہییے۔ جلدی سے۔ پلیز
محترم بھائی !
آپ کا مسئلہ یا سوال یہ ہے کہ
دوران عدت کسی مجبوری کے سبب اپنے گھر سے دوسری جگہ منتقل ہونا ،
تو اس فتوی میں یہی بتایا گیا ہے کہ (انتہائی ضرورت اور مجبوری کی بنا پر بیوہ عورت عدت میں دوسری جگہ رہائش رکھ سکتی ہے ؛
اور اگر اسی جگہ رہنا ممکن ہے تو جگہ تبدیل نہ کرے ، اسی گھر میں عدت کے ایام گزارے ۔
 
Top