• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر کی حقیقت ۔ از قلم شیخ ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تین زندگیاں اور تین موتیں؟

قرآن کریم کے مطابق انسان کو دو زندگیاں اور دو موتیں دی گئی ہیں لہٰذا قبر کی زندگی کو ماننے سے قرآن کریم کے اصول کی نفی ہو جاتی ہے؟

(الجواب) ہم نے واضح کر دیا ہے کہ قبر کا عذاب میت کو ہوتا ہے اور میت مردے کو کہتے ہیں اور زندہ کے عذاب کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ مرنے کے بعد روح قبر کے سوال و جواب کے بعد جنت میں یا جہنم میں چلی جاتی ہے جبکہ جسم یعنی میت قبر میں ثواب و عذاب بھگتی ہے اور یہ حالت موت ہے۔ کیونکہ موت میں روح اور جسم میں جدائی رہتی ہے۔ البتہ جب قیامت آئے گی تو روح کو دوبارہ جسم میں لوٹادیا جائے گا اور یہ انسان دوبارہ زندہ ہو جائے گا اور یہ انسان کی دوسری زندگی ہو گی۔ البتہ بعض انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے تین زندگیاں اور تین موتیں بھی عطا فرمائی ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ ھُمْ اُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ (البقرۃ:۲۴۳)
’’کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل پڑے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا: مر جاؤ! پھر اس نے ان کو زندہ کیا اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے‘‘

مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ لوگ طاعون کی وباء سے ڈر کر وطن چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے تھے لیکن موت نے انہیں آلیا اور پھر اللہ کے فضل و کرم سے وہ دوبارہ زندہ کر دیئے گئے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اگر کسی کو تیسری زندگی بھی مل جائے تو یہ قرآن کریم کے اصول کے خلاف نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ جسے چاہے تیسری زندگی عنایت کر دے۔ چنانچہ قرآن کریم میں کچھ مزید لوگوں کی تیسری زندگیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جیسے:

1- بنی اسرائیل کے ستر نمائندے جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کوہِ طور پر گئے تھے اور گستاخانہ مطالبہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے اپنے غضب سے انہیں ہلاک کر دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں موسیٰ علیہ السلام کی دُعا سے دوبارہ زندہ کر دیا۔ (الاعراف آیت:۱۵۵۔ البقرۃ:۵۶)۔

2- سیدنا عزیر علیہ السلام کا سو سال تک مردہ حالت میں رہنا، پھر اللہ تعالیٰ کا ان کو زندہ کرنا (البقرۃ:۲۵۹)

3- بنی اسرائیل کے ایک شخص کے قتل ہو جانے کے بعد گائے کے گوشت کا ٹکڑا لگنے سے زندہ ہو جانا۔ (البقرۃ۷۳)۔

4- اصحاب کہف جنہیں اللہ تعالیٰ نے تین سو نو سال کے بعد اٹھایا۔ (سورئہ کہف:۱۹)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک زبردست مغالطہ

برزخی قبر کو ثابت کرنے کے لئے ایک صحیح حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے:
اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
انما مر رسول اللّٰہ ﷺ علی یھودیۃ یبکی علیھا اھلھا فقال انھم یبکون علیھا و انھا لتعذب فی قبرھا (بخاری:۱۲۸۹۔ مسلم:۹۳۲)
رسول اللہ ﷺ ایک یہودیہ پر سے گزرے اس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر موصوف نے اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی ﷺ ایک یہودی ـ(عورت) پر گذرے (قبر پر نہیں) اس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ اس (یہودیہ) پر رو رہے ہیں اور اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ بخاری ص ۱۷۲جلد۱اور مسلم میں یہ واقعہ بھی ہے کہ نبی ﷺ کے پاس ایک یہودی کا جنازہ گذرا اور لوگ اس یہودی کے اوپر رو رہے تھے پس نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ رو رہے ہیں اور اسے عذاب ہو رہا ہے۔ (مسلم عربی ص۳۰۳جلد۱)۔

بخاری کی اس حدیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ وہ یہودی عورت ابھی زمین کی قبر میں دفن بھی نہیں کی گئی تھی زمین کے اوپر تھی اور نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس یہودی عورت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں قبر سے مراد برزخی قبر ہے دنیاوی نہیں۔ اور یہی بات مسلم کی حدیث بھی ثابت کرتی ہے۔‘‘ (عذاب برزخ ص۱۶)۔

الجواب: باطل فرقوں کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ دلائل کے بجائے مغالطوں اور دھوکا دہی سے کام لیتے ہیں اور فراڈ کے ذریعے اپنی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف اس حدیث کو ذکر کرکے اس سے برزخی قبر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور لکھتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک یہودی (عورت) پر گذرے۔ بریکٹ میں لکھتے ہیں (قبر پر نہیں) یعنی حدیث لکھنے میں بھی جھوٹ بول رہے ہیں اور دھوکا دینا چاہتے ہیں اور شروع شروع میں موصوف نے اس حدیث پر اسٹیکر بھی شائع کیا تھا کہ عذاب ارضی قبر میں نہیں بلکہ برزخی قبر میں ہوتا ہے اور جب ان کی گرفت کی گئی تو سارے اسٹیکر غائب ہو گئے۔ اس حدیث کا سیاق کیا ہے اور ڈاکٹر موصوف اس سے کیا مسئلہ ثابت کرنے کے درپے ہے اور پھر یہ اصول ہے کہ ایک حدیث کی وضاحت دوسری حدیث کرتی ہے۔ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے جس پس منظر میں یہ بات بیان کی ہے اسے محدثین نے مختلف سندوں سے ذکر کیا ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کے جواب میں بیان کی تھی:
ان المیت لیعذب فی قبرہ ببکائِ اھلہ (علیہ) (بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل:۳۹۷۸۔ مسلم ۹۳۲)
’’بیشک البتہ میت کو اس کی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اس کے اہل کے اس پر رونے کے سبب سے‘‘۔

اس حدیث میں میت اور قبر دونوں الفاظ موجود ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کو اسکی قبر میں عذاب دیا جاتا ہے اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا انکار نہیں کیا بلکہ انکا موقف یہ تھا کہ نوحہ کی وجہ سے مومن کو عذاب نہیں ہوتا بلکہ کافر کے عذاب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ لَیَزِیْدُ الْکَافِرَ عَذَابًا بِبُکَائِ اَھْلِہٖ عَلَیْہِ
اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب میں زیادتی کر دیتا ہے، اس کے گھر والوں کے اُس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے۔ (دیکھئے بخاری:۱۲۸۸) ۔

اور دوسری روایت میں انہوں نے ذکر کیا کہ دراصل یہ بات نبی ﷺ نے یہودیہ کے متعلق فرمائی تھی۔ ایک اور روایت میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ الفاظ مروی ہیں:
انما مر النبی ﷺ علی قبر فقال ان صاحب ھذا لیعذب و اھلہ یبکون علیہ (مسند احمد ۲/۳۸، ابوداود مع عون المعبود ۳/۱۶۳، النسائی ۱/۲۶۲)
’’رسول اللہ ﷺ ایک قبر پر سے گذرے پس فرمایا کہ بے شک اس صاحب (قبر) کو عذاب دیا جارہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں‘‘۔

اس حدیث کے اور طریق بھی موجود ہیں جو ڈاکٹر موصوف کے جھوٹ کا پول کھولنے کے لئے کافی و شافی ہیں اور جس کا ذکر ہم نے اپنی مفصل کتاب میں تفصیل سے کیا ہے۔ اور صحیح بخاری کی اس روایت کو بھی اگر غور سے پڑھا جائے تو اس میں بھی قبر کے الفاظ موجود ہیں چنانچہ الفاظ یہ ہیں:
فقال انھم یبکون علیھا و انھا لتعذب فی قبرھا (بخاری:۱۲۸۹)
’’پس آپ نے فرمایا کہ بے شک یہ اس پر رو رہے ہیں اور اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے‘‘۔

حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے الفاظ یہیں سے شروع ہو رہے ہیں اور آپ ﷺ فرما رہے ہیں کہ یہ اس پر رو رہے ہیں اور حال یہ ہے کہ اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ یہ الفاظ خود واضح کر رہے ہیں وہ عورت دفن ہو چکی تھی۔ اسی لئے تو رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کے واضح الفاظ ارشاد فرمائے ہیں۔ یعنی ’’یہ اس یہودیہ پر رو رہے ہیں جبکہ اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے‘‘۔ اتنی صاف اور واضح بات ہونے کے باوجود بھی ڈاکٹر موصوف نے یہاں دھوکا دینے کی زبردست کوشش کی ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ ’’چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے‘‘۔ حدیث میں یہ الفاظ کہ آپﷺ ایک یہودیہ پر گزرے اب ان الفاظ کا کبھی تو یہ ترجمہ کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ ایک یہودیہ کی لاش پر سے گزرے۔ یا آپ ﷺ ایک یہودیہ پر گزرے۔ اصل میں ڈاکٹر موصوف کو یہ کاوشیں اس لئے کرنا پڑیں کہ وہ برزخ میں قبر کا وجود ثابت کرنا چاہتے تھے اور اس حدیث کے بیان کرنے کا مقصد بھی یہی تھا۔ قرآن و حدیث کے کسی ماخذ سے برزخ میں قبر کا ثبوت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اگر برزخ میں پہلے قبر کا وجود ثابت کیا جاتا اور پھر ڈاکٹر موصوف اس روایت سے اس طرح کا استدلال کرتے تو اس کے استدلال میں کچھ وزن ہوتا۔ اور جب یہ بات سرے سے موجود ہی نہیں تو پھر اس سے اس طرح کااستدلال بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اذا لیس فلیس۔ اسی لئے کسی نے کہا ہے ثَبِّتِ الْعَرْشَ ثُمَّ انْقُشْ پہلے عرش ثابت کیجئے پھر اس پر نقش و نگار کی بات کیجئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث عائشہ پر تحقیق مزید

اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیں : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مررت علی موسی وھو یصلی فی قبرہ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب: من فضائل موسی علیہ السلام (ح۲۳۷۵)
میں (شب معراج میں) موسیٰ علیہ السلام پر گذرا اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔

اس حدیث کے یہ الفاظ ’’میں موسیٰ علیہ السلام پر گذرا‘‘ اور وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے، بالکل اسی طرح ہیں جیسے نبی ﷺ ایک یہودیہ پر سے گذرے اور اسے اس کی قبر میں عذاب ہو رہا تھا۔ اگر موصوف کے ترجمہ کو درست مان لیا جائے تو ان کی منطق کے مطابق اس حدیث کا مفہوم یہ ہو گا کہ ’’میں موسیٰ علیہ السلام پر گذرا‘‘ یعنی موسیٰ علیہ السلام کی لاش پر سے گذرا (جو قبر کے باہر پڑی ہوئی تھی) اور موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر میں نماز بھی پڑھ رہے تھے۔ اور اس عثمانی کاوش سے حدیث کا ترجمہ ایک مذاق بن جائے گا۔ اس وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موصوف عربی ادب کی روح سے بھی ناواقف ہے۔ اور یہ موصوف کی نری منطق ہے جسے عقل سلیم تسلیم نہیں کرتی اور نیز موصوف کے پاس اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی ﷺ یہودیہ کی قبر پر سے گذرے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بتایا کہ وہ اپنی قبر میں عذاب دی جا رہی ہے جیسے آپﷺ موسیٰ علیہ السلام پر گذرے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھایا کہ وہ اپنی قبر میں نماز ادا کر رہے تھے۔ اور بس۔ اور اگر موصوف کی بات کو مان لیا جائے تو اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ابھی تک دفن ہی نہیں ہوئے۔ ویاللعجب۔
تنبیہ: میت چونکہ قبر میں دفن کی جاتی ہے اس لئے اسے قبر کی ضرورت ہوتی ہے اور شریعت کا حکم بھی یہی ہے۔ اب واضح کیا جائے کہ برزخ میں قبر کی ضرورت کس لئے ہے کیا وہاں روح اس میں دفن کی جاتی ہے؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
برزخی قبر کس کے لئے؟

برزخی فرقہ برزخ میں قبر ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں تحریف تک کرنے کا روادار ہے لیکن تمام کوششوں اور جدوجہد کے باوجود بھی وہ برزخ میں قبر ثابت کرنے میں بالکل ناکام رہا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر برزخ میں قبر ثابت کرنے کے لئے یہ تمام کوششیں کیوں کی جارہی ہیں۔ اس لئے کہ قبر تو میت کو دفن کرنے اور چھپانے کے لئے ہوتی ہے کیا برزخ میں روح کو بھی قبر میں دفن کیا جاتا ہے؟ اور اگر روح دفن ہوتی ہے تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ اور اگر روح دفن نہیں ہوتی تو پھر برزخ میں قبر کا ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟ فارسی زبان میں کہتے ہیں: چہ معنی دارد؟ امید ہے کہ برزخی فرقہ اس نکتہ پر سنجیدگی غور کرے گا اور اپنے باطل عقائد و نظریات سے توبہ کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعادئہ روح کا مسئلہ

قبر میں جب میت کو دفن کیا جاتا ہے تو اس وقت دو فرشتے آکر اس میت کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال و جواب کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں بخاری و مسلم کی احادیث میں موجود ہیں۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ سوال و جواب کے وقت میت کی طرف روح کو لوٹا دیا جاتا ہے، چنانچہ ایک طویل اور مشہور حدیث میں جو سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، مومن اور کافر کے متعلق یہ الفاظ آئے ہیں:
فتعاد روحہ فی جسدہ و یأتیہ ملکان فیجلسانہ فیقولان لہ من ربک
(مسند احمد ج۴ص۲۸۷، مصنف ابن ابی شیبہ ج۳ص۳۸۱، تفسیر ابن کثیر ج۲ص۵۳۱، کتاب الزھد والرقاق ص ۴۳۱لامام عبداللہ بن مبارک)
’’پھر اس کی روح کو اس کے جسد میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟

یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ مسند ابو داؤد طیالسی ص۱۰۲، سنن ابی داؤد، مستدرک لامام حاکم ج۱ص۳۷وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ امام حاکم، علامہ ذھبی، علامہ ھیثمی، امام بیہقی، علامہ منذری، امام ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم، حافظ ابن حجر العسقلانی، علامہ شاہ بدیع الدین شاہ راشدی، علامہ محمد ناصر الدین البانی، الشیخ شعیب الارنؤوط اور حافظ زبیرعلیزئی وغیرہ نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا۔ اس حدیث کے ایک راوی زاذان پر ڈاکٹر عثمانی نے شیعیت کا الزام لگایا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ سیدنا زاذان کو واقدی کذاب نے جو رافضی بھی ہے شیعہ کہا ہے۔ دیکھئے: ’’دعوت قرآن کے نام سے قرآن و حدیث سے انحراف‘‘۔ اب ایک کذاب راوی کے کہنے سے ثقہ راوی کو کیسے شیعہ مان لیا جائے۔ بہرحال محدثین کے نزدیک زاذان ثقہ ہیں بلکہ سیدنا یحییٰ بن معین تو فرماتے ہیں کہ وہ تو ایسا ثقہ ہے کہ اس جیسے کے بارے میں سوال ہی نہیں کرنا چاہیئے۔ (تھذیب التھذیب ج۳ص۳۰۳)۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں یہ الفاظ مروی ہیں:
فترسل من السماء ثم تصیر الی القبر فیجلس الرجل الصالح
(مسند احمد ج۲ص ۳۶۴، سنن ابن ماجہ رقم ۴۲۶۲، تفسیر ابن کثیر ج۱ص ۵۳۳)
’’پھر (مومن کی روح کو) آسمان سے بھیجا جاتا ہے پھر وہ روح قبر میں پہنچ جاتی ہے۔ پس مرد صالح اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے‘‘۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’شرح حدیث النزول‘‘ میں اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’کتاب الروح‘‘ میں اس حدیث کے مزید طرق بھی بیان کئے ہیں جن میں مزید اضافہ بھی ہے۔ اس حدیث کے راوی بخاری و مسلم کے ہیں اور ثقہ ہیں۔ لہٰذا یہ روایت بالکل صحیح ہے۔ ان احادیث کے علاوہ، مزید احادیث اور تفصیل میں نے اپنی مفصل کتاب میں بیان کر دی ہے۔ اس صحیح ترین روایت پر ڈاکٹر موصوف وغیرہ نے کوئی اعتراض نہیں کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس صحیح روایت کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ والحمد للّٰہ علی ذٰلک۔

پس ثابت ہوا کہ اعادئہ روح الی القبر کا عقیدہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور عذاب القبر اور اعادہ روح الی القبر دو الگ الگ مسئلے نہیں بلکہ اعادہ روح کا تعلق بھی عذاب القبر ہی سے ہے۔ اور عذاب القبر کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے اور اعادہ روح کے باوجود بھی میت کی یہ زندگی دنیاوی نہیں بلکہ اُخروی ہی ہوتی ہے۔ اور اسے دنیاوی زندگی پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔

عذاب قبر یا اعادہ روح کی کوئی بات جب منکرین عذاب قبر سن لیتے ہیں تو فوراً کفر کے فتوے داغنے لگ جاتے ہیں۔ اس تفصیل کے آجانے کے بعد دیکھتے ہیں کہ یہ حضرات اپنے پیر مغاں پر کیا فتوے داغتے ہیں اور اسے کفر کے کس مرتبہ پر فائز کرتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر موصوف تیسری حقیقی زندگی کے قائل بھی تھے اور اعادئہ روح کے بھی۔ کفر اور شرک کی مشین گنیں چلانے والے جاہل مفتیوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ وہ کفر و شرک کے فتوے داغ کر اپنا کتنا نقصان کر رہے ہیں۔ دراصل ڈاکٹر موصوف نے ان مادرپدر آزاد دوستوں کو تربیت ہی ایسی دی تھی کہ جس کے نتیجے میں ہر محدث، ہر عالم پر یہ فوراً کفر کا فتویٰ داغ دیتے ہیں اور محدثین کرام، ائمہ کرام، علماء دین اور عام مسلمین سب ہی کو کافر کہتے نہیں تھکتے۔ بلکہ ان کے پیر مغاں نے سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اور سیدنا بریدہ الاسلمی رضی اللہ عنہ پر بھی فتویٰ داغ دیا ہے اور نبی مکرم ﷺ پر بھی بحرانی کیفیت طاری ہونے کا ذکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر موصوف کے پرستاروں کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ بغیر کسی وجہ کے کفر کے جو فتوے یہ داغ رہے ہیں ان فتوؤں سے ان لوگوں کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ فتوی داغنے والا اپنا ایمان گنوا بیٹھے گا۔ کاش یہ نادان دوست سمجھ لیتے کہ کفر کی مشین گن چلانے سے وہ اپنا ہی ستیاناس کر رہے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کفر کے فتوے داغنے والے اور انہیں گالیاں دینے والے دنیا میں تو اپنا دل ٹھنڈا کر رہے ہیں لیکن انکے ان افعال سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام اور مرتبہ دن بدن بلند ہوتا چلا جارہا ہے اور یہ چیز ان کے مفاد میں ہے۔ اسی طرح دنیا کے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دینے والے ان کا کوئی نقصان نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کے درجات کو وہ بلند کرنے کا سبب بن رہے ہیں البتہ یہ لوگ اپنی آخرت کو داؤ پر لگا بیٹھے ہیں اور اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان نادان دوستوں کو ہدایت نصیب فرمائے (آمین)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قبر کی زندگی نیند سے مشابہہ ہے

اللہ تعالیٰ نے سونے والے کو مرنے والا قرار دیاہے۔ دیکھئے سورۃ الانعام آیت:۶۰، الزمر آیت:۴۲۔ اسی طرح احادیث میں بھی نیند کو موت قرار دیا گیا ہے:
اللھم باسمک اموت و احیاء
اے اللہ تیرے حکم سے مرتا ہوں اور تیرے حکم سے جیوں گا۔

اور جاگتے وقت:
الحمد للّٰہ الذی احیانا بعد ما اماتنا و الیہ النشور
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ (بخاری کتاب الدعوات باب:۸ح:۶۳۱۴)۔

اسی طرح مرنے والے کو سونے والا کہا گیا ہے۔
قالوا یٰویلنا من بعثنا من مرقدنا ھذا ما وعد الرحمن و صدق المرسلون (یٰس:۵۲)
کہیں گے ہائے ہماری کم بختی ہمیں ہماری خوابگاہوں سے کس نے (جگا) اٹھایا؟ یہ وہی تو ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔

اور حدیث میں ہے کہ مردہ کو کہا جاتا ہے:
نم صالحا ’’اچھی نیند سو جا‘‘ (بخاری)۔
دوسری حدیث میں ہے:
نم کنومۃ العروس ’’سو جا جیسے نئی نویلی دلہن سوتی ہے‘‘۔ (ترمذی)۔

گویا قبر کی زندگی کی مثال سونے والے کی طرح ہے جس طرح ایک سونے والا جب کوئی خواب دیکھتا ہے تو اس کا جسم اسے پوری طرح محسوس کرتا ہے بالکل اسی طرح ثواب و عذاب کو یہ مردہ جسم پوری طرح محسوس کرتا ہے۔ اس وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعادئہ روح کے بعد اور قبر کے سوال و جواب کے بعد میت کو سونے کا کہا جاتا ہے۔ اور نیند اور موت دونوں ہم معنی ہیں۔ اور جس کے بعد نیک انسان کی روح کو جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ جہاں وہ قیامت تک رہتی ہے۔ اس وضاحت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ میت کے روح کے آنے کے بعد روح اُس میں قیامت تک رہتی ہے یہ الزام بھی غلط ہے۔ اور یہ بات قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔ اور اعادئہ روح سے بھی نئی زندگی ثابت نہیں ہوتی بلکہ میت بدستور میت ہی رہتی ہے کیونکہ روح کا تعلق میت کے ساتھ دنیاوی زندگی کی طرح کا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس وقت انسان حالت موت سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اور قیامت کے دن وہ زندہ ہو کر قبر سے نکلے گا۔ جیسا کہ قرآن و حدیث کے تمام نصوص کو سامنے رکھنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ نیز یہ تمام آخرت کے معاملات ہیں اور انہیں دنیا میں رہتے ہوئے سمجھنا بہت مشکل ہے۔ نیز یہ آخرت کے معاملات ہیں آخرت کے معاملات کو دنیا پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عثمانی فرقہ کا طریقہ استدلال

عثمانی فرقہ جسے برزخی فرقہ بھی کہا جاتا ہے ان کا طریقہ استدلال بڑا ہی عجیب و غریب ہے۔ یہ لوگ جب عذاب القبر کی احادیث پر تنقید کرنے لگتے ہیں تو انہیں ضعیف، موضوع اور قرآن کریم کا خلاف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بغیر دلیل کے کہہ دیتے ہیں کہ فلاں روایت میں شیعہ راوی ہے لہٰذا یہ روایت موضوع ہے لیکن دوسری طرف وہ خود جن روایات سے استدلال کرتے ہیں ان میں بھی شیعہ راوی ہوتے ہیں اور ایسے راوی بھی کہ جنہیں اس فرقہ کے سرخیل اور بانی ڈاکٹر عثمانی نے جھوٹا قرار دے رکھا ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ان کی روایات نقل کر چکے ہیں جیسا کہ ان کا لٹریچر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے اور جس کی تفصیل ہماری کتاب ’’الدین الخالص‘‘ دوسری قسط میں موجود ہے۔ اور اسی طرح یہ اپنی تائید میں من گھڑت اور جھوٹے واقعات بھی نقل کر چکے ہیں یعنی مطلب کی ہر بات ان کے ہاں دلیل اور جو دلیل ان کے خلاف جاتی ہے اسے غلط قرار دے دیتے ہیں حالانکہ وہ دلیل درست اور صحیح ہوتی ہے گویا وہ کسی اصول کے پابند نہیں ہیں بلکہ ڈاکٹر موصوف کے پابند ہیں کہ وہ جس بات کو درست کہہ دے تو وہ درست اور جس بات کو موصوف غلط کہہ دیں تو وہ غلط ہے۔ بے اصولی ان برزخیوں کا اصول ہے۔ اعادہ روح کے بارے میں ایک برزخی لکھتا ہے کہ اس روایت کے شیعہ راویوں نے اللہ پر جھوٹ کہا ہے۔ حالانکہ جب راوی شیعہ ہیں اور شیعہ ہونے کی بناء پر وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بھی بولتے ہیں تو پھر ان کی حدیث نقل کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ کیا دین ہے کہ راوی شیعہ بھی ہیں اور اللہ پر جھوٹ بھی بولتے ہیں اور پھر انہی راویوں کی روایات کو دلیل کے طور پر پیش بھی کیا گیا ہے؟ ایک چیز اپنے لئے جائز بلکہ زبردست دلیل اور دوسروں کیلئے ناجائز بلکہ ’’شجرہ ممنوعہ‘‘۔ معلوم ہوا کہ ان برزخیوں کا سارا دین ہی جھوٹا ہے کیونکہ اس کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔ لہٰذا اب ان جھوٹوں کی حیثیت بھی دنیا کے سامنے ہے۔ لینے اور دینے کا یہ دوہرا معیار بڑا عجیب بلکہ سنگین جرم ہے اور ایسے دھوکہ باز اللہ کے عذاب اور عذاب القبر سے نہ بچ سکیں گے۔ ویل للمطففین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دینی معاملات میں عقل کو معیار بنانا درست نہیں ہے

ایمان باللّٰہ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جب کوئی مسئلہ بیان کرے تو اس کے دلائل قرآن و حدیث سے پیش کرے لیکن چونکہ قرآن و حدیث ان کے باطل عقائد کی قطعاً تائید نہیں کرتے لہٰذا یہ احادیث صحیحہ کے مقابلے میں عقلی گھوڑے دوڑانے لگتے ہیں اور ہر حدیث پر عقلی اعتراض وارد کرتے ہیں اور یہ طرز عمل ایمان کے منافی ہے۔ لازم ہے کہ قرآن و حدیث پر ایمان رکھا جائے اور ان کی باطل تاویلات سے اجتناب کیا جائے، اسی میں ایمان کی سلامتی ہے۔ دین کا دارومدار عقل اور رائے پر نہیں ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’دین کا دارومدار رائے (اور عقل) پر ہوتا تو موزوں کے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اوپر مسح کرنے سے۔ اور بلاشبہ میں نے دیکھا ہے رسول اللہ ﷺ کو کہ آپ ﷺ موزوں کے اوپر مسح کرتے تھے‘‘۔ (رواہ ابوداؤد، الدارمی معناہ۔ مشکاۃ المصابیح ص:۵۴ح:۵۲۵۔ وقال الاستاذ علی زئی: صحیح، رواہ ابوداؤد:۱۶۲، الدارمی۱/۱۸۱ح۷۲۱، وللحدیث شواھد)۔

اسی طرح ریح کے خارج ہونے سے وضو کیا جاتا ہے حالانکہ ریح کہاں سے خارج ہوتی ہے اور دھویا کن اعضاء کو جاتا ہے؟ معلوم ہوا کہ دین کا دارومدار ایمان یعنی مان لینے پر ہے عقل پر نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عقیدہ عذاب القبر سے عقیدہ توحید کو نقصان؟

عذاب القبر کے انکار کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس سے عقیدہ توحید کو نقصان پہنچا ہے اور (بقول ان کے) مردہ کو قبر میں زندہ ماننے سے عقیدہ توحید متزلزل ہو جاتا ہے حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے اس لئے کہ مردہ کو کوئی بھی قبر میں زندہ نہیں مانتا یعنی دنیاوی زندگی کا کوئی بھی قائل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں شہداء کو زندہ کہا، بلکہ مردہ گمان کرنے سے بھی منع فرما دیا۔ اب جن احادیث کی بنا پر ان کو جنت میں زندہ ثابت کیا جا رہا ہے ان میں انہی کے اصول کے مطابق جھوٹے اور شیعہ راوی ہیں اور ممکن ہے کہ شیعہ راویوں نے اللہ پر جھوٹ کہا ہو، لہٰذا قرآن سے ثابت ہوا کہ شہداء زندہ ہیں، ان کو مردہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ورنہ ایمان سلامت نہیں رہے گا اور مردہ جسم ہوتا ہے، روح کو کوئی مردہ نہیں کہتا۔ پس ثابت ہوا کہ شہداء قرآن کی رو سے زندہ ہیں۔ اب ان کے زندہ ہونے سے عقیدہ توحید پر کوئی زد نہیں پڑتی اور پھر ڈاکٹر عثمانی خود مرنے والوں کو نئے جسم کیساتھ زندہ مانتا ہے اور ان کی حقیقی زندگی کا قائل ہے۔ لہٰذا اس طرح ان کا فتوی خود ان ہی پر لوٹ جائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے عقیدہ توحید کی تبلیغ کے لئے جن برگزیدہ ہستیوں کو پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا وہ انتہائی درجے کے صالح، متقی، پرہیزگار اور صادق و امین تھے۔ نبی ﷺ کا لقب ہی صادق و امین پڑ گیا تھا۔ کسی فراڈی یا دھوکا باز کو اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی عقیدہ توحید کی حفاظت پر معمور نہیں فرمایا اور اس فرقہ نے اپنے کتابچوں میں جگہ جگہ دھوکا و فراڈ سے کام لیا ہے پس ثابت ہوا کہ یہ لوگ عقیدہ توحید کی حفاظت کے لئے نہیں اٹھے بلکہ یہ اپنی ذات اور اپنا خود ساختہ عقیدہ منوانے کے لئے میدان عمل میں آئے ہوئے ہیں کیونکہ کوئی فراڈی کبھی بھی عقیدہ توحید کی خدمت نہیں کر سکتا، البتہ وہ اہل ایمان کو آپس میں لڑانے اور ان کے درمیان نفرت و عداوت اور فتنہ و فساد کا بیج بونے کا کام عمدہ طریقہ سے کر سکتے ہیں۔ عقیدہ توحید کے لئے اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں صالح و متقی علماء کرام کو پیدا کرتا ہے اور انہی کو اللہ تعالیٰ دین حق کی حفاظت پر معمور کرتا ہے۔ العلماء ورثۃ الانبیاء (ترمذی)۔ ’’علماء کرام، انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں‘‘۔ انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلماء (فاطر:۲۸) ’’اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں‘‘۔ (یعنی علماء حق)۔

نبی ﷺ نے قیامت کی علامات میں سے ایک بڑی علامت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ علماء دنیا سے اٹھ جائیں گے اور جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنا لیں گے، پھر ان سے دین کی باتیں پوچھیں گے اور وہ علم کے بغیر فتوی دیں گے۔ (اس طرح وہ) خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (بخاری ح:۱۰۰۔ و مسلم:۲۲۷۳۔ مشکوٰۃ صفحہ۳۳، ح:۲۰۶)

اسلام اور عقیدہ توحید کو جس قدر نقصان جاہلوں کا یہ گروہ پہنچا رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ اتنا نقصان غیر مسلموں نے بھی کبھی نہیں پہنچایا۔ یہ نادان دوست اسلام کے لبادے میں اور جہالت کی وجہ سے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس طرح یہ انکار حدیث اور پھر انکارِ قرآن کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ اور یہ ہمارا صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ واقعی اس فرقہ سے مزید کئی ایسے فرقے نکل چکے ہیں کہ جو انکار حدیث کے لئے باقاعدہ کام کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ شجرہ خبیثہ سے کسی عمدہ چیز کے پیدا ہونے کی اُمید رکھنا ہی نادانی اور ناسمجھی ہے۔ اب بھی اگر یہ حضرات ہماری بات کو نہ سمجھیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد اور قیامت کے دن مزید یہ ہماری بات سمجھ جائیں گے۔ لیکن اس دن کا سمجھنا انہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کے اتباع کی توفیق عطا فرمائے اور باطل سے کامل طور پر اجتناب کی توفیق دے۔ (آمین)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قہر رحمانی بر فرقہ عثمانی

برزخی فرقہ کے باطل ہونے کی ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان زبردست اختلاف پیدا کر دیئے ہیں اور یہ دو گروہوں اور فرقوںمیں بٹ چکے ہیں اور ہم عقیدہ ہونے کے باوجود بھی یہ ایک دوسرے پر مرتد ہونے کا فتویٰ لگاتے ہیں اور ایک دوسرے کو نہ تو سلام کرتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھتے ہیں بلکہ خروج کرنے والے فرقہ نے شروع میں اپنا امیر بدرالزمان صدیقی کو بنایا تھا لیکن اس نے جب کہیں مخالفین کی مسجد میں ان کے پیچھے ایک نماز ادا کر لی تو اسے امارت سے فارغ کر دیا گیا اور یہ تعصب کی انتہاء ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تکفیری فرقے سخت تعصب کا شکار ہیں اور ان فرقوں نے ایک دوسرے کے خلاف پمفلٹ بازی بھی کی ہے اور اس سے پہلے بھی اس فرقے نے کئی فرقیاں جنم دی ہیں کہ جن کی کوکھ سے منکرین حدیث پیدا ہو چکے ہیں اور وہ اس گندے عقیدہ کی دعوت بھی لوگوں کو دے رہے ہیں۔ یہ یقینا ان برزخیوں پر اللہ تعالیٰ کا ایک عذاب ہے۔ کاش یہ لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیتے۔ اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّھُمْ یَفْقَھُوْنَ
’’کہو وہ (اللہ) اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیج دے یا تمہیں گروہوں میں (تقسیم کر کے) الجھا دے اور تمہیں ایک دوسرے کی طاقت (کا مزا) چکھائے۔ دیکھو کس طرح ہم اپنی آیات بار بار بیان کر رہے ہیں شاید کہ یہ سمجھ لیں‘‘۔ (الانعام:۶۵)

اب برزخی حضرات اس عذاب کے بعد کیا اوپر اور نیچے کے عذاب کے منتظر ہیں؟ اور یا وہ اس جہالت سے توبہ کر کے قرآن و حدیث کی طرف پلٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
 
Top