سنن ابوداود میں ہے :
حدثنا عبد الله بن مسلمة، قال: قرأت على مالك بن أنس، أنه بلغه عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أنه، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان»، قال مالك: " وذلك فيما نرى والله أعلم أن يشتري الرجل العبد، أو يتكارى الدابة، ثم يقول: أعطيك دينارا على أني إن تركت السلعة أو الكراء فما أعطيتك لك " (سنن ابی داود 3502 )
امام مالکؒ کہتے ہیں :
مجھے یہ بات پہنچی کہ : ۔۔ سیدنا عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک کہتے ہیں: جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، اور اللہ بہتر جانتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بیچنے والے یا کرایہ دینے والے سے کہے کہ میں تجھے (مثلاً) ایک دینار اس شرط پر دیتا ہوں کہ اگر میں نے یہ سامان یا کرایہ کی سواری نہیں لی تو یہ جو (دینار) تجھے دے چکا ہوں تیرا ہو جائے گا (اور اگر لے لیا تو یہ دینار قیمت یا کرایہ میں کٹ جائے گا) ۔
تخریج : سنن ابن ماجہ/التجارات ۲۲ (۲۱۹۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ البیوع ۱ (۱)، مسند احمد (۲/۱۸۳)
اس کی سند میں انقطاع ہے، یہ امام مالک کی بلاغات میں سے ہے ، اسلئے ضعیف ہے ،
اور سنن ابن ماجہ میں ہے
حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا مالك بن انس ، قال: بلغني عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان النبي صلى الله عليه وسلم"نهى عن بيع العربان".
امام مالک فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ :
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعانہ (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔
وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع ۱ (۱)، مسند احمد (۲/۱۸۳)
(یہ بلاغات مالک میں سے ہے، یعنی امام مالک ۔۔ اور ۔۔عمرو بن شعیب سے روایت میں واسطہ کا ذکر نہیں ہے، اس لئے سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام محمد بن إسماعيل الصنعاني، (المتوفى: 1182 ھ)
فرماتے ہیں :
أخرجه أبو داود وابن ماجه وفيه راو لم يسم وسمي في رواية فإذا هو ضعيف وله طرق لا تخلو عن مقال، فبيع العربان فسره مالك قال هو أن يشتري الرجل العبد أو الأمة أو يكتري ثم يقول للذي اشترى منه أو اكترى منه: أعطيتك دينارا أو درهما على أني إن أخذت السلعة فهو من ثمنها وإلا فهو لك: واختلف الفقهاء في جواز هذا البيع فأبطله مالك والشافعي لهذا النهي ولما فيه من الشرط الفاسد والغرر ودخوله في أكل المال بالباطل وروي عن عمر وابنه وأحمد جوازه.(سبل السلام شرح بلوغ المرام )
اس روایت کو ابوداود اور امام ابن ماجہ نے نقل کیا اوراس میں ایک راوی کا نام نہیں بتایا گیا ، لہذا یہ ضعیف ہے ،
اور ۔۔ بیع عربان ۔۔ کی امام مالک ؒ نے یہ تفسیر بیان کی ہے:
کہتے ہیں: جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، اور اللہ بہتر جانتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بیچنے والے یا کرایہ دینے والے سے کہے کہ میں تجھے (مثلاً) ایک دینار اس شرط پر دیتا ہوں کہ اگر میں نے یہ سامان یا کرایہ کی سواری نہیں لی تو یہ جو (دینار) تجھے دے چکا ہوں تیرا ہو جائے گا ۔
امام صنعانی فرماتے ہیں :
بیع کی اس صورت کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے ،امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ اس کو باطل قرار دیتے ہیں ، کیونکہ اس کی ممانعت وارد ہے
اور دوسرا یہ کہ اس میں فاسد شرط اور دھوکہ پایا جاتا ہے ،اور یہ صورت دوسرے کا مال ناحق کھانے کے زمرے میں آتی ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔