• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عربان کی بیع

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( عربان کی بیع ) سے منع فرمایا ہے۔ ابوعبداللہ ( ابن ماجہ ) کہتے ہیں کہ عربان: یہ ہے کہ آدمی ایک جانور سو دینار میں خریدے، اور بیچنے والے کو اس میں سے دو دینار بطور بیعانہ دیدے، اور کہے: اگر میں نے جانور نہیں لیا تو یہ دونوں دینار تمہارے ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا ہے واللہ اعلم: ( عربان یہ ہے کہ ) آدمی ایک چیز خریدے پھر بیچنے والے کو ایک درہم یا زیادہ یا کم دے، اور کہے اگر میں نے یہ چیز لے لی تو بہتر، ورنہ یہ درہم تمہارا ہے۔

۔
کیا یہ صحیح حدیث ہے؟ ”عربان“ کا کیا مطلب ہے؟ پاکستان کی پراپرٹی بزنس کا تو یہ قاعدہ قانون ہے کہ بیعانہ دینے کے بعد اگر خریدار کی طرف سے سودا منسوخ ہوا تو بیعانہ واپس نہیں کیا جائے گا۔ اور اگر ۔پراپرٹی کے مالک نے سودا منسوخ کیا تو اسے بیعانہ سے دگنی رقم واپس کرنی ہوگی۔ ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
سنن ابوداود میں ہے :
حدثنا عبد الله بن مسلمة، قال: قرأت على مالك بن أنس، أنه بلغه عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أنه، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان»، قال مالك: " وذلك فيما نرى والله أعلم أن يشتري الرجل العبد، أو يتكارى الدابة، ثم يقول: أعطيك دينارا على أني إن تركت السلعة أو الكراء فما أعطيتك لك " (سنن ابی داود 3502 )
امام مالکؒ کہتے ہیں :​
مجھے یہ بات پہنچی کہ : ۔۔ سیدنا عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے۔ امام مالک کہتے ہیں: جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، اور اللہ بہتر جانتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بیچنے والے یا کرایہ دینے والے سے کہے کہ میں تجھے (مثلاً) ایک دینار اس شرط پر دیتا ہوں کہ اگر میں نے یہ سامان یا کرایہ کی سواری نہیں لی تو یہ جو (دینار) تجھے دے چکا ہوں تیرا ہو جائے گا (اور اگر لے لیا تو یہ دینار قیمت یا کرایہ میں کٹ جائے گا) ۔​

تخریج : سنن ابن ماجہ/التجارات ۲۲ (۲۱۹۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ البیوع ۱ (۱)، مسند احمد (۲/۱۸۳)
اس کی سند میں انقطاع ہے، یہ امام مالک کی بلاغات میں سے ہے ، اسلئے ضعیف ہے ،

اور سنن ابن ماجہ میں ہے
حدثنا هشام بن عمار ، ‏‏‏‏‏‏حدثنا مالك بن انس ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ بلغني عن عمرو بن شعيب ، ‏‏‏‏‏‏عن ابيه ، ‏‏‏‏‏‏عن جده ، ‏‏‏‏‏‏ان النبي صلى الله عليه وسلم"نهى عن بيع العربان".
امام مالک فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی کہ :
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعانہ (عربان کی بیع) سے منع فرمایا ہے۔

وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع ۱ (۱)، مسند احمد (۲/۱۸۳)
(یہ بلاغات مالک میں سے ہے، یعنی امام مالک ۔۔ اور ۔۔عمرو بن شعیب سے روایت میں واسطہ کا ذکر نہیں ہے، اس لئے سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام محمد بن إسماعيل الصنعاني، (المتوفى: 1182 ھ)
فرماتے ہیں :
أخرجه أبو داود وابن ماجه وفيه راو لم يسم وسمي في رواية فإذا هو ضعيف وله طرق لا تخلو عن مقال، فبيع العربان فسره مالك قال هو أن يشتري الرجل العبد أو الأمة أو يكتري ثم يقول للذي اشترى منه أو اكترى منه: أعطيتك دينارا أو درهما على أني إن أخذت السلعة فهو من ثمنها وإلا فهو لك: واختلف الفقهاء في جواز هذا البيع فأبطله مالك والشافعي لهذا النهي ولما فيه من الشرط الفاسد والغرر ودخوله في أكل المال بالباطل وروي عن عمر وابنه وأحمد جوازه.(سبل السلام شرح بلوغ المرام )
اس روایت کو ابوداود اور امام ابن ماجہ نے نقل کیا اوراس میں ایک راوی کا نام نہیں بتایا گیا ، لہذا یہ ضعیف ہے ،
اور ۔۔ بیع عربان ۔۔ کی امام مالک ؒ نے یہ تفسیر بیان کی ہے:
کہتے ہیں: جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، اور اللہ بہتر جانتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بیچنے والے یا کرایہ دینے والے سے کہے کہ میں تجھے (مثلاً) ایک دینار اس شرط پر دیتا ہوں کہ اگر میں نے یہ سامان یا کرایہ کی سواری نہیں لی تو یہ جو (دینار) تجھے دے چکا ہوں تیرا ہو جائے گا ۔
امام صنعانی فرماتے ہیں :
بیع کی اس صورت کے جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے ،امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ اس کو باطل قرار دیتے ہیں ، کیونکہ اس کی ممانعت وارد ہے
اور دوسرا یہ کہ اس میں فاسد شرط اور دھوکہ پایا جاتا ہے ،اور یہ صورت دوسرے کا مال ناحق کھانے کے زمرے میں آتی ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Top