• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عربی گرامر

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
: مرکب اضافی:
وہ اسماء کے درمیان اضافت یا ملکیت کا تعلق ہو تو ان سے ملنے والا مرکب مرکب اضافی کہلاتا ہے
جس اسم کی اضافت بیان کی جائے وہ مضاف کہلاتا ہے اور جس اسم سے تعلق بیان کیا جائے وہ مضاف الیہ کہلاتا ہے
جیسے
عبدُاللہِ (اللہ کا بندہ)
میں عبد مضاف اور اللہ مضاف الیہ ہے
رسولُ اللہِ (اللہ کا رسول)
میں رسول مضاف اور اللہ مضاف الیہ ہے
قواعد:
1.مضاف ہمیشہ نکرہ ہوتا اور مضاف الیہ ہمیشہ معرفہ ہوتا ہے.
2.مضاف اکثر مرفوع (حالت رفع میں) ہوتا ہے اور مضاف الیہ لازما مجرور (حالت جر) میں ہوتا ہے.
3. تثنیہ یا جمع سالم کے مضاف ہونے کی صورت میں دونوں کا "ن" گرجاتا ہے.
مثالیں:
ابنا خالدٍ
بنتا زیدٍ
مسلمو الھندِ
بنوا اسرائیلَ
نوٹ: ان مثالوں میں آپ نوٹ کریں گے کہ ان اسماء کو بھی ذکر کیا گیا جن کے ساتھ متصل ضمائر لگے ہیں
اس کی وجہ یہ ہے کہ ضمیر بھی اسم کی اقسام میں سے ہیں اور معرفہ ہے جبکہ اس سے پہلے والا اسم ان سب مثالوں میں نکرہ ہے تو یہ اسم مع ضمیر متصل بھی مرکب اضافی کی مثال ہوی. ضمائر مبنی ہوتے ہیں لہذا ان میں حالت جر کی صورت میں تغییر واقع نہی ہوتا.

تمام بھائیوں سے درخواست ہے ان مثالوں کو لازمی سمجھیں اور یاد کریں جو میں بھیجتا ہوں اس سے وکیبلری بنتی ہے
اگر آپ کو مطلب سمجھ نا آئیں تو گوگل ٹرانسلیٹ سے المعانی ویپ سائٹ سے مطلب دیکھ لیں یا اس گروپ میں پوچھ لیا کریں
http://www.almaany.com/en/dict/ar-en/
https://translate.google.com/m/translate


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عربی زبان میں جملے کی دو اقسام ہیں
1. جملہ اسمیہ
2.جملہ فعلیہ

جملہ اسمیہ:
جملہ اسمیہ وہ جملہ ہوتا ہے جو اسم سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ
اللہُ کریمٌ (اللہ کریم ہے)
زیدٌ حسنٌ (زید خوبصورت ہے)

جملہ اسمیہ میں پہلے جز کو مبتدا کہا جاتا ہے اور دوسرے کو خبر یعنی جس کے متعلق بات ہورہی ہے وہ مبتدا ہے اور جو بات ہورہی ہے وہ خبر ہے

قواعد:
مبتدا عموما معرفہ ہوتا ہے اور خبر نکرہ
جیسے المسجدُ جمیلٌ میں المسجد معرفہ ہے اور مبتدا ہے اور جمیلٌ نکرہ اور خبر

مبتدا اور خبر دونوں مرفوع ہوتے ہیں
جیسے الرجلُ صالحٌ
نوٹ: اگر خبر مبتدا کی صفت نہ ہو تو خبر معرفہ لائی جاسکتی ہے
جیسے ھو عمرو،ٌ ھو زیدٌ، ھو بکرٌ

واحد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث میں خبر مبتدا کے مطابق آئے گی.
جیسے
الولدُ قائمٌ (لڑکا کھڑا ہے)
البنتُ قائمةٌ (لڑکی کھڑی ہے)
الرجلانِ نائمانِ (دو آدمی سوئے ہیں)
المرءتانِ نائمتانِ (دو عورتیں سوئی ہیں)
الرجالُ جالسون (بہت سارے مرد بیٹھے ہیں)
النساءُ جالساتٌ (بہت ساری عورتیں بیٹھی ہیں)

خبر کی تین اقسام ہیں
خبر مفرد
خبر جملہ
خبر شبہ جملہ

اگر مبتدا کے بعد خبر اسم ہو تو وہ خبر مفرد کہلائی گی
جیسا کہ
زیدٌ نائمٌ (زید سویا ہے)
البنتُ قائمةٌ (لڑکی کھڑی ہے)
اس میں نائم اور قائمة خبر مفرد ہیں

اگر مبتدا کے خبر فعل مضارع آئے تو یہ خبر خبر جملہ کہلائے گی
جیسے
زید ینام (زید سوتا ہے)
اسماء تضرب (اسماء مارتی ہے)
ان دو میں ینام اور یضرب خبر جملہ ہے

اگر مبتدا کے بعد حرف جر آجائے تو وہ خبر خبر شبہ جملہ کہلائے گی
زید فی الفصل (زید کلاس میں ہے)
عمر فی البیت (عمر گھر میں ہے)

ان میں فی الفصل اور فی البیت خبر شبہ جملہ ہیں‫.

اگر مبتدا غیر عاقل کی جمع ہو تو خبر واحد مؤنث آئے گی
الحیواناتُ سمینةٌ (جانور موٹے ہیں)
الاشجارُ طویلةٌ (درخت لمبے ہیں)

جب خبر اسمائے استفہام ( interrogative noun) میں سے ہو تو خبر کو مبتدا سے مقدم کردیا جاتا ہے.
جیسے
کیف أبوك؟ (آپ کے ابا کیسے ہیں)
یہ اصل میں أبوك كيف ھے لیکن کیف جو کہ خبر ہے اس کو مقدم کرلیا گیا ہے
کیف حالك؟ (آپ کا کیا حال ہے)

اگر خبر معرفہ ہو تو مبتدا اور خبر کے درمیان ایک ضمیر لائی جاتی ہے جسے ضمیر فاصل کہتے ہیں. یہ ضمیر مبتدا کے مطابق ہوتی ہے.

جیسے
اولئک ھم الفاسقون (وہ ہی فاسق ہیں)
اولئک ھم المفلحون (وہ ہی کامیاب ہیں)
اولئک ھم الصادقون (وہ ہی سچے ہیں)

نوٹ: یہ ترکیب تاکید کے لیے استمال کی جاتی ہے.


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ ہم نے قرآنی عربی گرامر کا اسم والا چیپٹر ختم ہوگیا ہے. اب میں چاہتا ہوں کہ ہم اس کی دھرائی شروع کریں تھوڑی تفصیل کے ساتھ. اب تک میں شیخ محمد خان منھاس کی قرآنی عربی گرامر کو فالو کررہا تھا. اب اس تفصیلی دھرائی کے لیے ان شاء اللہ شیخ خلیل الرحمن چشتی کی کتاب قواعد زبان قرآن کو فالو کروں گا جس کا پہلا حصہ اسم پر ہی مشتمل ہے. اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عربی زبان کا بہترین فہم عطا کرے تاکہ ہم قرآن اور حدیث کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور عمل کرسکیں.


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آج ہم حروف قمری اور حروف شمسی کے بارے میں پڑھیں گے. اس کے علاوہ کلمہ کی بنیادی اقسام بھی زیر مطالعہ ہوں گی


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اسم نکرہ:
اسم نکرہ غیر معین، غیر معروف، عام چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلا کتابٌ سے مراد ایک کتاب یا کوئی کتاب ہے
اسم معرفہ:
اسم معرفہ کسی معین چیز پر دلالت کرتا ہے. یہ اسم کسی معروف یعنی جانے پہچانے خاص شخص یا چیز یا جگہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے. مثلا لاہور ایک خاص شھر کا نام ہے، اسم معرفہ ہے، اسم معرفہ کی سات اقسام ہیں،
علم:
کسی شخص جگہ، یا چیز کا ذاتی نام علم کہلاتا ہے. اسم علم اپنی ذات ہی میں خاص یعنی معرفہ ہوتا ہے.
جیسے آدم، خالد، لاہور، اسلام آباد.

اسم معرف باللام:
اسم نکرہ سے پہلے لام تعریف لگا کر عام اسم کو خاص اسم بنالیا جاتا ہے. ایسا اسم معرف باللام کہلاتا ہے جیسے کتاب سے الکتاب

اسم ضمیر:
اسم ضمیر وہ اسم معرفہ ہے جو اسم علم کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے. یہ متکلم بھی ہوسکتا ہے. حاضر بھی غائب بھی. چونکہ یہ کسی خاص اسم کا قائم مقام ہوتا ہے. کہذا معرفہ ہوتا ہے
جیسے انا (میں)
نحن (ہم)
ھو (وہ)
انت (تم)

اسم اشارہ:
اسم اشارہ وہ اسم ہے جس سے کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جائے
جیسے ھذا (یہ) ، ذالک (وہ) ، ھؤلاء، أولئک وغیرہ
اسم اشارہ بھی، چونکہ خاص اسم کا قائم مقام ہوتا ہے اس لیے معرفہ ہوتا ہے

اسم موصول:
اسم موصول وہ اسم ہے جس کا مطلب ایک پورا جملہ ظاہر کرے. جیسے الذي، التي، الذین، اسم موصول بھی معرفہ ہوتا ہے. اسم موصول کے بعد ایک پورا جملہ ملایا جاتا ہے. جیسے صلة کہتے ہیں.

اسم منادي:
منادی وہ اسم ہے جس کو پکارا جائے. یی بھی نکرہ اسم کو معرفہ میں تبدیل کردیتا ہے مثلا آپ ایک لڑکے کو پکار رہے ہیں تو ولد کے بجائے یا ولد کہیں گے. چونکہ آپ ایک مخصوص لڑکے کو آواز دے رہے ہیں اس لیے نکرہ اسم بھی معرفہ بن گیا ہے. مختصر یہ کہ حرف نداء اپنے منادی کو معرفہ بنادیتا ہے.

اسم مضاف:
بعض اوقات دو اسموں کو ملا کر مرکب بنایا جاتا ہے. ایسے مرکب کی ایک قسم مرکب اضافی ہے. اس کا پہلا اسم مضاف اور دوسرا مضاف الیہ کہلاتا ہے. مضاف بھی مضاف الیہ سے نسبت کی وجہ سے معرفہ بن جاتا ہے بشرطیکہ مضاف الیہ بھی معرفہ ہو. مثلا غلام نکرہ ہے. لیکن آپ غلامُ زیدٍ کہیں گے تو یہاں ایک خاص غلام مراد ہے. اس لیے یہ غلام جو مضاف ہے وہ بھی معرفہ بن گیا ہے.
مثال:
غلامُ زیدٍ زید کا غلام
غلامُ الذي عندک اس شخص کا غلام جو آپ کے پاس ہے
نوٹ: البتہ اگر مضاف الیہ نکرہ ہو تو مضاف نکرہ ہی رہتا ہے. جیسے کتاب ُ رجلٍ: ایک آدمی کی کتاب. اس مثال میں مضاف کتاب ہے اور نکرہ ہی ہے.
سورہ مائدہ سے اسم معرفہ اور اسم نکرہ الگ کریں

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فعل کام کے ہونے کو بیان کرتا ہے. فعل کے اندر زمانے کا پایا جانا ضروری ہے. فعل کی تفصیلات آگے آرہی ہیں یہاں ایک مختصر تعارف دینا مقصود ہے
زمانے کے اعتبار سے فعل ماضی، فعل مضارع، یا امر ہوتا ہے
ذھب یذھب اذھب
فاعل کے اعتبار سے فعل معروف یا مجھول ہوتا ہے
جیسے نَصَرَ، نُصِرَ اور یَنصُرُ، یُنصَرُ.
ضرورت مفعول کے اعتبار سے فعل لازم یا متعدی ہوتا ہے.
جیسے قَامَ، جَلَسَ لازم ہیں، جَعَلَ، ذَبَحَ متعدی ہوتا ہے.
حروف علت کے اعتبار سے فعل صحیح یا معتل ہوتا ہے.
جیسے ذھب، اکل، فر افعال صحیح ہیں
اور وعد، قال، خشی، افعال معتل ہیں.
حروف مادة کے اعتبار سے فعل فعل ثلاثی اور رباعی ہیں
عین کلمے کی حرکت کے فعل کو چھ مشھور ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے
باب نصر، ضرب، فتح، سمِع، کرُم، حسِب

حروف وہ الفاظ ہیں جو نا اسم کی طرح کسی شخص چیز یا جگہ کا نام ہیں اور نا ان میں فعل کی طرح کوئی زمانہ پایا جاتا ہے بلکہ یہ وہ الفاظ ہیں جو اپنا مفھوم دینے کے لیے اسم یا فعل کے محتاج ہوتے ہیں

حروف کی کئی اقسام ہیں جن کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا یہاں مختصرا جند قسموں کا تعارف دیا جارہا ہے

حروف جر: جیسے مِن، إلى، عن، بِ، علی وغیرہ
حروف استفھام: جیسے ھل اور أ
حروف مستقبل: جیسے سَ، سوفَ اور لَن
حروف مشبہ بالفعل: جیسے أن، أن، لكن، كأن، ليت، لعل
حروف عطف: جیسے و، ف، ثم
حروف نفی: جیسے ما، لا، لم اور لما وغیرہ
حروف تنبیہ: جیسے ألا، أما اور ھا
حروف تصدیق: جیسے بلی، نعم وغیرہ
حروف شرط: جیسے إن، لو وغیرہ
حروف استثناء: جیسے إلا وغیرہ
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
عدد کے اعتبار سے اسم کی تین اقسام ہیں
1.واحد
2.مثنی
3.جمع

اسم واحد The singular noun
مسلم،ٌ كتابٌ ،قلمٌ

اسم مثنی The dual noun
دو مثنی کو کہتے ہیں. واحد سے مثنج بنانے کے لیے الف اور نون یعنی "ان" کا اضافہ کیا جاتا ہے
جیسے
مسلمٌ+ان=مسلمان
كتابٌ+ان=كتابان
قلمٌ+ان=قلمان

اسم جمع سالم The Sound Plural Noun
اسم جمع کی دو قسمیں ہیں.
پہلی قسم جمع سالم کہلاتی ہے. اور دوسری جمع مکسر.

جمع سالم میں واحد سے جمع بنانے کے لیے واو اور نون یعنی "ون" کا اضافہ کیا جاتا ہے. جمع سالم میں، واحد کے اصلی حروف، جوں کے توں برقرار رہتے ہیں.
مثلا
مسلمٌ+ون=مسلمون
قادرٌ+ون=قادرون
عاملٌ+ون=عاملون

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اسم جمع مکسر:
جمع سالم میں مادے کے اصلی حروف اپنی ترتیب کے ساتھ جوں کے توں رہتے ہیں. جمع بنانے کے لیے ان کے آخر میں ون، اتِ وغیرہ کا اضافہ کردیا جاتا ہے لیکن اصل ترتیب حروف برقرار رہتی ہے. اس کے برعکس جمع مکسر میں، اسم واحد کے اصل حروف ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں اور ان کے درمیان حروف زائدہ آجاتے ہیں یا پھر کبھی کسی حرف کی کمی کردی جاتی ہے.
مثلا
عبدٌ کی جمع عبادٌ
رسولٌ کی جمع رسلٌ
نبيٌ کی جمع انبیاءٌ

جمع مکسر کی دو قسمیں ہیں
جمع قلت
جمع کثرت
جمع سالم مذکر اور جمع سالم مؤنث دونوں "ال" کے بغیر جمع کثرت ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں

جمع قلت
جمع قلت تین سے دس کی تعداد کے لیے استعمال ہوتی ہے. دس سے زیادہ کی تعداد ظاہر کے لیے جمع قلت استعمال نہی ہوتی بلکہ جمع کثرت استعمال کی جاتی ہے. جمع قلت کے صرف چار اوزان ہیں وہ یہ ہیں.
أفعُلُ جيسے أنهر، أبحر
افعِلَةٌ جيسے أسلحة، ألسنة
أفعَالٌ جيسے أصحاب، أشخاص
فِعلَةٌ جيسے فتية، غلمة

جمع کثرت
دس سے زیادہ کی تعداد ظاہر کرنے کے لیے جمع کثرت کے اوزان استعمال ہوتے ہیں جمع مکسر کے تیس سے زیادہ اوزان ہیں ان میں سے صرف چار جمع قلت کے ہیں اور باقی تمام جمع کثرت کے ہیں. جمع کثرت کو ظاہر کرنے کے لیے جمع سالم بھی ال کے بغیر استعمال کی جاتی ہے
جمع مذکر سالم ال کے بغیر: ضاربون
جمع مؤنث سالم ال کے بغیر: ضاربات
چار اوزان کے علاوہ جمع مکسر کے باقی اوزان
(بعض اوقات جمع قلت کے بجائے جمع کثرت استعمال کی جاتی ہے.
جیسے قرآن میں ثلاثة اقراء کے بجائے ثلاثة قروء استعمال ہوا ہے)

اسم جمع اور شبہ جمع
اسم جمع: The Collective Noun
اسم جمع ایسا مفرد اسم ہے جو معنوی اعتبار سے جمع ہے لیکن ظاہری اعتبار سے واحد ہے. دراصل یہ ایک گروہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
جیسے: خيلٌ، قومٌ، رهطٌ، جيشٌ، حزبٌ

شبه جمع:
شبه جمع ایسا جو جمع کے معنی کو ظاہر کرے. اس کی دو قسمیں ہیں.
ایک ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتی ہے اور دوسری غیر ذوی العقول کے لیے.

غیر ذوی العقول کے لیے شبہ جمع:
جیسے ورقہ کی کی جمع ورق ہے اور ثمرة کی جمع ثمر ہے.
یہ غیر ذوی العقول کے لیے استعمال کی جاتی ہے.
واحد کے آخر میں ة ہوتی ہے. جمع میں حذف کردی جاتی ہے

ذوی العقول کے لیے شبہ جمع:
ذوی العقول کے لیے جمع میں یائے نسبتی کو حذف کردیا جاتا ہے.
جیسے الرومی کی جمع الروم (کئی رومی) ہے
اور المجوسی کی جمع المجوس (کئی مجوسی) ہے

Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
 

munazza

مبتدی
شمولیت
دسمبر 17، 2017
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
السلام علیکم
آج ہم حروف جارة کے بارے میں پڑھیں گے.
حروف جارة وہ حروف ہیں جو اپنے بعد آنے والے اسم کے آخری حرف کو زیر دیتے ہیں
حروف جارة 17 ہیں
بِ،تَ،کَ،لِ،في، منْ،إلى، على، وَ،حتى، عن، منذ، مذ، رُبَّ،حاشا، عدا، خلا بلکہ اگر ہم یہ کہیں حروف جر وہ حروف ہیں جو آنے والے اسم کو حالت جر میں منتقل کرلیتے ہیں تو زیادہ بہتر ہوگا
جنهیں ایک شعر میں یوں اکھٹا کردیا گیا ہے.
باو، تاو، کاف و لام و واو منذ، مذ، خلا
ربَّ، حاشا، من، عدا، في، عن، علی، حتی، إلى


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
اسلام علیکم
Images kon si book kay hain


Sent from my iPhone using Tapatalk
 

Mahboobalam

مبتدی
شمولیت
اپریل 06، 2021
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
: مرکب اضافی:
وہ اسماء کے درمیان اضافت یا ملکیت کا تعلق ہو تو ان سے ملنے والا مرکب مرکب اضافی کہلاتا ہے
جس اسم کی اضافت بیان کی جائے وہ مضاف کہلاتا ہے اور جس اسم سے تعلق بیان کیا جائے وہ مضاف الیہ کہلاتا ہے
جیسے
عبدُاللہِ (اللہ کا بندہ)
میں عبد مضاف اور اللہ مضاف الیہ ہے
رسولُ اللہِ (اللہ کا رسول)
میں رسول مضاف اور اللہ مضاف الیہ ہے
قواعد:
1.مضاف ہمیشہ نکرہ ہوتا اور مضاف الیہ ہمیشہ معرفہ ہوتا ہے.
2.مضاف اکثر مرفوع (حالت رفع میں) ہوتا ہے اور مضاف الیہ لازما مجرور (حالت جر) میں ہوتا ہے.
3. تثنیہ یا جمع سالم کے مضاف ہونے کی صورت میں دونوں کا "ن" گرجاتا ہے.
مثالیں:
ابنا خالدٍ
بنتا زیدٍ
مسلمو الھندِ
بنوا اسرائیلَ
نوٹ: ان مثالوں میں آپ نوٹ کریں گے کہ ان اسماء کو بھی ذکر کیا گیا جن کے ساتھ متصل ضمائر لگے ہیں
اس کی وجہ یہ ہے کہ ضمیر بھی اسم کی اقسام میں سے ہیں اور معرفہ ہے جبکہ اس سے پہلے والا اسم ان سب مثالوں میں نکرہ ہے تو یہ اسم مع ضمیر متصل بھی مرکب اضافی کی مثال ہوی. ضمائر مبنی ہوتے ہیں لہذا ان میں حالت جر کی صورت میں تغییر واقع نہی ہوتا.

تمام بھائیوں سے درخواست ہے ان مثالوں کو لازمی سمجھیں اور یاد کریں جو میں بھیجتا ہوں اس سے وکیبلری بنتی ہے
اگر آپ کو مطلب سمجھ نا آئیں تو گوگل ٹرانسلیٹ سے المعانی ویپ سائٹ سے مطلب دیکھ لیں یا اس گروپ میں پوچھ لیا کریں
http://www.almaany.com/en/dict/ar-en/
https://translate.google.com/m/translate


Sent from my SM-N9005 using Tapatalk
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امید کہ آپ بخیر ہوں گے
یہ کس کتاب کا فوٹو ہے مجھے سخت ضرورت ہے اس کتاب کی ۔ برائے مہربانی اس کتاب کا لنک بھیجیں
جزاکم اللہ خیرا کثیرا
 
Top