• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم عرب … محلِ وقوع اور قومیں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عرب ... محلِ وقوع اور قومیں

سیرتِ نبوی درحقیقت اس پیغام ربانی کے عملی پَر تَو سے عبارت ہے ، جسے رسول اللہﷺ نے قول وفعل اور ارشادوسلوک کے ذریعہ انسانی جمعیت کے سامنے پیش کیا تھا اور جس کے ذریعے زندگی کے پیمانے بدل دیئے تھے۔ برائی کو اچھائی سے تبدیل کردیا تھا اور انسان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں اور بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کردیا تھا۔ یہاں تک کہ دنیائے انسانیت میں تاریخ کی لائن اور زندگی کا دھارا بدل دیاتھا۔ چونکہ اس سیرتِ طیّبہ کی مکمل صورت گری ممکن نہیں جب تک کہ اس پیغامِ ربّانی کے نزول سے پہلے کے حالات اور بعد کے حالات کا تقابل نہ کیا جائے اس لیے اصل بحث سے پہلے پیش نظر باب میں اسلام سے پہلے کی عرب اقوام اور ان کی نشوونما، حکومتیں،امارات ، اس وقت کے قبائلی نظم ، ادیان وملل، عادات ورسوم،سیاست واجتماع ، اور اقتصاد کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ان حالات کا خاکہ پیش کیا جارہا ہے جن میں رسول اللہﷺ کی بعثت ہوئی تھی۔
عرب کا محلِ وقوع:
لفظ عرب صحرا اور بے آب وگیا ہ زمین کا معنی بتلاتا ہے۔ عہد قدیم سے یہ لفظ جزیرہ نمائے عرب اور اس میں بسنے والی قوموں پر بولا گیا ہے۔
عرب کے مغرب میں بحر احمر اور جزیرہ نمائے سینا ہے۔ مشرق میں خلیج عرب اور جنوبی عراق کا ایک بڑا حصہ ہے۔ جنوب میں بحر عرب ہے جو درحقیقت بحر ہند کا پھیلاؤ ہے۔ شمال میں ملک شام اور کسی قدر شمالی عراق ہے۔ ان میں سے بعض سرحدوں کے متعلق اختلاف بھی ہے، کل رقبے کا اندازہ دس لاکھ سے تیرہ لاکھ مربع میل تک کیا گیا ہے۔
جزیرہ نمائے عرب طبعی اور جغرافیائی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اندرونی طور پر یہ ہر چہار جانب سے صحرا اور ریگستان سے گھرا ہوا ہے جس کی بدولت یہ ایسا محفوظ قلعہ بن گیا ہے کہ بیرونی قوموں کے لیے اس پر قبضہ کرنا اور اپنا اثر ونفوذ پھیلانا سخت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قلب جزیرۃ العرب کے باشندے عہدِ قدیم سے اپنے جملہ معاملات میں مکمل آزاد وخود مختار نظر آتے ہیں حالانکہ یہ ایسی دو عظیم طاقتوں کے ہمسایہ تھے کہ اگر یہ ٹھوس قدرتی رکاوٹ نہ ہوتی تو ان کے حملے روک لینا باشندگانِ عرب کے بس کی بات نہ تھی۔
بیرونی طور پر جزیرہ نمائے عرب پرانی دنیا کے تمام معلوم برّ اعظموں کے بیچوں بیچ واقع ہے اور خشکی اور سمندر دونوں راستوں سے ان کے ساتھ جڑا ہواہے۔ اس کا شمال مغربی گوشہ ، بر ّ اعظم افریقہ میں داخلے کا دروازہ ہے۔ شمال مشرقی گوشہ یورپ کی کنجی ہے۔ مشرقی گوشہ ایران ، وسط ایشیا اور مشرق بعید کے دروازے کھولتا ہے اور ہندوستان اور چین تک پہنچاتا ہے۔ اسی طرح ہر براعظم سمندر کے راستے بھی جزیرہ نمائے عرب سے جڑا ہوا ہے اور ان کے جہاز عرب بندرگاہوں پر براہ راست لنگر انداز ہوتے ہیں۔
اس جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے جزیرۃ العرب کے شمالی اور جنوبی گوشے مختلف قوموں کی آماجگاہ اور تجارت وثقافت اور فنون ومذاہب کے لین دین کا مرکز رہ چکے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عرب قومیں

مؤرّخین نے نسلی اعتبار سے عرب اقوام کی تین قسمیں قرار دی ہیں :
عرب بائدہ...یعنی وہ قدیم عرب قبائل اور قومیں جو بالکل ناپید ہوگئیں اور ان کے متعلق ضروری تفصیلات بھی دستیاب نہیں۔ مثلاً: عاد ، ثمود، طَسم ، جَدِیس ، عَمَالِقَہ ، امیم ، جرہم، حضور ، وبار، عبیل اور حضرموت وغیرہ۔
عرب عَارِبَہ... یعنی وہ عرب قبائل جو یعرب بن یشجب بن قحطان کی نسل سے ہیں۔ انہیں قحطانی عرب کہا جاتا ہے۔
عرب مُستعربہ... یعنی وہ عرب قبائل جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ انہیں عدنانی عرب کہا جاتا ہے۔
عرب عاربہ : یعنی قحطانی عرب کا اصل گہوارہ ملک یمن تھا۔ یہیں ان کے خاندان اور قبیلے سبأ بن یشجب بن یعرب بن قحطان کی نسل سے مختلف شاخوں میں پھوٹے ، پھیلے اور بڑھے۔ ان میں سے دو قبیلوں نے بڑی شہرت حاصل کی۔ ایک حمیر بن سبأ ، دوسرے کہلان بن سبأ۔ سبأ کی باقی اوّلاد جو گیارہ یا چودہ تھے ان کا کوئی قبیلہ نہ بن سکا۔ وہ سبائی ہی کہلاتے ہیں۔
(الف) حِمیر ...کی مشہور شاخیں یہ ہیں :
قضاعہ : اس سے بہراء، بلی ، قین، عذرہ، وبرہ ، کے قبیلے ہیں۔
سکاسک : یہ بنو زید بن وائلہ بن حمیر ہیں۔ زید ہی کا لقب سکاسک ہے اور یہ کندہ کے سکاسک سے الگ ہیں، جن کا ذکر بنو کہلان میں آرہا ہے۔
زید الجمہور : ان کی شاخوں میں حمیر اصغر ، سبأ اصغر ، حضور اور ذو اصبح ہیں۔
(ب ) کہلان ...جس کی مشہور شاخیں ہمدان ، الہان ، اشعر ، طَی،مذحِج، (مذحج سے عنس اور نخع ) لَخم ،( لخم سے کندہ ، اور کندہ سے بنو معاویہ ، سکون اور سکاسک) جُذَام ، عائلہ ، خولان ، معافر ، انمار (انمار سے خثعم ، بجیلہ۔ بجیلہ سے احمس ) اور ازد (اور ازد سے اوس ، خَزرج ، خزاعہ اور اوّلادِ جفنہ ہیں ، جنھوں نے آگے چل کر ملک شام کے اطراف میں بادشاہت قائم کی اور آل غسّان کے نام سے مشہور ہوئے۔
عام کہلانی قبائل نے بعد میں یمن چھوڑ دیا اور جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں پھیل گئے۔ ان کے عمومی ترکِ وطن کا واقعہ سیلِ عَرِم سے کسی قدر پہلے اس وقت پیش آیا جب رومیوں نے مصر وشام پر قبضہ کرکے اہل یمن کی تجارت کے بحری راستے پر اپنا تسلط جما لیا ، اور بَر ّی شاہراہ کی سہولیات غارت کر کے اپنا دباؤ اس قدر بڑھا دیا کہ کہلانیوں کی تجارت تباہ ہو کر رہ گئی۔
اور کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سیل عرم کے بعد اس وقت ترک وطن کیا جب تجارت کی ناکامی کے بعد کھیتی اور چوپائے بھی تباہ ہو گئے اور یوں سارے وسائل زندگی ختم ہو گئے۔ سورۂ سبأ :۱۵- ۱۹ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
کچھ عجب نہیں کہ کہلانی اور حمیر ی خاندانوں میں چشمک بھی رہی ہو اور یہ بھی کہلانیوں کے ترکِ وطن کا ایک مؤثر سبب بنی ہو۔ اس کا اشارہ اس سے بھی ملتا ہے کہ کہلانی قبائل نے تو ترکِ وطن کیا لیکن حمیری قبائل اپنی جگہ برقرار رہے۔
جن کہلانی قبائل نے ترکِ وطن کیا ان کی چار قسمیں کی جاسکتی ہیں :
اَزد ... انھوں نے اپنے سردار عمران بن عمرو مزیقیاء کے مشورے پر ترکِ وطن کیا۔ پہلے تویہ یمن ہی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے اور حالات کا پتا لگانے کے لیے آگے آگے ہر اوّل دستوں کو بھیجتے رہے لیکن آخر کار شمال اور مشرق کا رخ کیا اور پھر مختلف شاخیں گھومتے گھماتے مختلف جگہ دائمی طور پر سکونت پذیر ہو گئیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے :
ثعلبہ بن عَمرو : اس نے اوّلاً حجاز کا رُخ کیا اور ثعلبیہ اور ذی قار کے درمیان اقامت اختیار کی۔ جب اس کی اوّلاد بڑی ہوگئی اور خاندان مضبوط ہوگیا تو مدینہ کی طرف کوچ کیا ، اور اسی کو اپنا وطن بنا لیا۔ اسی ثعلبہ کی نسل سے اَوس اور خَزرَج ہیں جو ثعلبہ کے صاحبزادے حارثہ کے بیٹے ہیں۔
حارثہ بن عَمرو: یعنی خزاعہ اور اس کی اوّلاد یہ لوگ سرزمین حجاز میں گردش کرتے ہوئے مَرّالظہران میں خیمہ زن ہوئے، پھر حرم پر دھاوا بول دیا اور بنو جرہْم کو نکال کر خود مکہ میں بودو باش اختیار کر لی۔
عمران بن عمَرو: اس نے اور اس کی اوّلاد نے عمان میں سکونت اختیار کی، اس لیے یہ لوگ ازدعمان کہلاتے ہیں۔
نصر بن ازد: اس سے تعلق رکھنے والے قبائل نے تہامہ میں قیام کیا۔ یہ لوگ اَزدِشَنُوء ۃ کہلاتے ہیں۔
جفنہ بن عمَرو: اس نے ملک شام کا رخ کیا اور اپنی اوّلاد سمیت وہیں متوطن ہو گیا۔ یہی شخص غَسّانی بادشاہوں کا جدّ اعلیٰ ہے۔ انہیں آل غَسّان اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے شام منتقل ہونے سے پہلے حجاز میں غَسّان نامی ایک چشمہ پر کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔
چھوٹے قبائل حجاز وشام کی جانب منتقل ہونے میں ان ہی قبائل کے ساتھ شامل ہوگئے ، مثلاً: کعب بن عمرو ، حارث بن عمرو اور عوف بن عمر و۔
لخم وجذام ... یہ لوگ مشرق اور شمال کی جانب منتقل ہوئے۔ ان ہی لخمیوں میں نصر بن ربیعہ تھا جو حیرہ کے شاہان آل مُنذِر کا جد اعلیٰ ہے۔
بنوطَیٔ ... اس قبیلے نے بنو اَزد کے ترک ِ وطن کے بعد شمال کا رخ کیا اور اجاء اور سلمیٰ نامی دوپہاڑیوں کے اطراف میں مستقل طور پر سکونت پذیر ہوگیا ، یہاں تک کہ یہ دونوں پہاڑیاں قبیلہ طی کی نسبت سے مشہور ہو گئیں۔
کندہ ... یہ لوگ بحرین –– موجودہ الاحساء –– میں خیمہ زن ہوئے۔ لیکن مجبوراً وہاں سے دست کش ہوکر حضرموت گئے۔ مگر وہاں بھی امان نہ ملی اور آخر کار نجد میں ڈیرے ڈالنے پڑے۔ یہاں ان لوگوں نے ایک عظیم الشان حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ مگر یہ حکومت پائیدار نہ ثابت ہوئی اور ا س کے آثار جلد ہی ناپید ہوگئے۔
کہلان کے علاوہ حمیر کا بھی صرف ایک قبیلہ قضاعہ ایسا ہے –– اور اس کا حمیری ہونا بھی مختلف فیہ ہے –– جس نے یمن سے ترکِ وطن کر کے حدود عراق میں بادیۃ السماوہ کے اندر بود وباش اختیار کی 1 بعض نے ملک شام کے حدود میں اور شمالی حجاز میں سکونت اختیار کی۔(1۔ان قبائل کی اور ان کے ترک وطن کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو: نسب معد والیمن الکبیر ، جمہرۃ النسب ، العقد الفرید ، قلائد الجمان ، نہایۃ الادب ، تاریخ ابن خلدون ، سبائک الذہب اور تاریخ العرب قبل الاسلام سے متعلق کتابیں۔ ترک وطن کے ان واقعات کے زمانہ اور اسباب کے تعین میں تاریخی مآخذ کے درمیان بڑا سخت اختلاف ہے۔ ہم نے مختلف پہلوؤں پر غور کرکے جو بات راجح محسوس کی اسے درج کردیا ہے۔)
عرب مُستَعربہ: ان کے جَدِ اعلیٰ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اصلاً عراق کے شہر اُور کے باشندے تھے۔ یہ شہر دریائے فرات کے مغربی ساحل پر کوفے کے قریب واقع تھا۔ اس کی کھدائی کے دوران جو کتبات برآمد ہو ئے ہیں ان سے اس شہر کے متعلق بہت سی تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کی بعض تفصیلات اور باشندگانِ ملک کے دینی اور اجتماعی حالات سے بھی پردہ ہٹا ہے۔
یہ معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے ہجرت کر کے شہر حَرّان تشریف لے گئے تھے اور پھر وہاں سے فلسطین جا کر اسی ملک کو اپنی پیغمبرانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھا اور دعوت وتبلیغ کے لیے یہیں سے اندرون وبیرون ملک مصروفِ تگ وتاز رہا کرتے تھے۔ ایک بار آپ مصر تشریف لے گئے۔ فرعون نے آپ کی بیوی حضرت سارہؑ کی کیفیت حسن وجمال سنی تو ان کے بارے میں بد نیت ہو گیا اور اپنے دربار میں بُرے ارادے سے بلایا لیکن اللہ نے حضرت سارہؑ کی دعا کے نتیجے میں غیبی طور پر فرعون کی ایسی گرفت کی کہ وہ ہاتھ پاؤں مارنے اور پھینکنے لگا۔ اس کی نیت بد اس کے منہ پر ماردی گئی اور وہ حادثے کی نوعیت سے سمجھ گیا کہ حضرت سارہؑ اللہ تعالیٰ کی نہایت خاص اور مقرب بندی ہیں اور وہ حضرت سارہؑ کی اس خصوصیت سے اس قدر متاثر ہوا کہ حضرت ہاجرہؑ کو ان کی خدمت میں دے دیا۔
(مشہور یہ ہے کہ حضرت ہاجرہ ؑ لونڈی تھیں لیکن علامہ منصور پوری نے مفصل تحقیق کرکے اور محققین اہل کتاب نے اپنے صحیفوں کی شرح میں جو کچھ بیان کیا ہے اس سے استناد کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ لونڈی نہیں بلکہ آزاد تھیں اور فرعون کی بیٹی تھیں۔ دیکھئے رحمۃ للعالمین ۲/۳۶ -۳۷ ،ابن خلدون ، عمرو بن عاص اور اہل ِ مصر کی ایک گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مصریوں نے ان سے کہا کہ ہاجرہ ہمارے ایک بادشاہ کی خاتون تھیں ، ہمارے اور عین شمس والوں کے درمیان لڑائیاں ہوئیں۔ ایک لڑائی میں انھیں شکست ہوئی۔ چنانچہ فاتحین نے بادشاہ کو قتل کردیا ، اور ہاجرہ کو قید کر لیا اور یوں وہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ تک پہنچیں۔ (تاریخ ابن خلدون ۲/۱/۷۷ ))
پھر حضرت سارہؑ نے حضرت ہاجرہؑ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجیت میں دے دیا۔
(ایضاً ۲/۳۴ واقعے کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:صحیح بخاری ۱/۴۸۴۔)
حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت سارہؑ اور حضرت ہاجرہؑ کو ہمراہ لے کر فلسطین واپس تشریف لا ئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہاجرہ علیہا السلام کے بطن سے ایک فرزند ارجمند اسماعیل علیہ السلام عطا فرمایا لیکن اس پر حضرت سارہؑ کو جوبے اوّلاد تھیں بڑی غیرت آئی اور انھوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مجبور کیا کہ حضرت ہاجرہؑ کو ان کے نوزائیدہ بچے سمیت جلاوطن کردیں۔ حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ انہیں حضرت سارہؑ کی بات ماننی پڑی اور وہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو ہمراہ لے کر حجاز تشریف لے گئے اور وہاں ایک بے آب وگیاہ وادی میں بیت اللہ شریف کے قریب ٹھہرادیا۔ اس وقت بیت اللہ شریف نہ تھا۔ صرف ٹیلے کی طرح اُبھری ہو ئی زمین تھی۔ سیلاب آتا تھا تو دائیں بائیں سے کتراکر نکل جاتا تھا۔ وہیں مسجد حرام کے بالائی حصے میں زمزم کے پاس ایک بہت بڑا درخت تھا۔ آپ نے اسی درخت کے پاس حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑا تھا۔ اس وقت مکہ میں نہ پانی تھا نہ آدم اور آدم زاد۔ اس لیے حضرت ابراہیم ؑ نے ایک توشہ دان میں کھجور اور ایک مشکیزے میں پانی رکھ دیا۔ اس کے بعد فلسطین واپس چلے گئے لیکن چند ہی دن میں کھجور اور پانی ختم ہو گیا اور سخت مشکل پیش آئی مگر اس مشکل وقت پر اللہ کے فضل سے زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا اور ایک عرصہ تک کے لیے سامانِ رزق اور متاعِ حیات بن گیا۔ تفصیلات معلوم ومعروف ہیں۔
(ملا حظہ ہو: صحیح بخاری ، کتاب الانبیاء ۲/۴۷۴ ، ۴۷۵۔)
کچھ عرصے کے بعد یمن سے ایک قبیلہ آیا جسے تاریخ میں جُرہُم ثانی کہا جاتا ہے۔ یہ قبیلہ اسماعیل علیہ السلام کی ماں سے اجازت لے کر مکہ میں ٹھہر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ پہلے مکہ کے گرد وپیش کی وادیوں میں سکونت پذیر تھا۔ صحیح بخاری میں اتنی صراحت موجود ہے کہ (رہائش کی غرض سے ) یہ لوگ مکہ میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی آمد کے بعد اور ان کے جوان ہونے سے پہلے وارد ہو ئے تھے لیکن اس وادی سے ان کا گزر اس سے پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔
(صحیح بخاری ۱/۴۷۵۔)
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے متروکات کی نگہداشت کے لیے وقتًا فوقتًا مکہ تشریف لایا کرتے تھے لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس طرح ان کی آمد کتنی بار ہوئی۔ البتہ تاریخی مآخذ میں چار بار ان کی آمد کی تفصیل محفوظ ہے جو یہ ہے :
قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے صاحبزادے (حضرت اسماعیل علیہ السلام ) کو ذبح کر رہے ہیں۔ یہ خواب ایک طرح کا حکمِ الٰہی تھا اور باپ بیٹے دونوں اس حکمِ الٰہی کی تعمیل کے لیے تیار ہو گئے اور جب دونوں نے سرِ تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بَل لٹا دیا تو اللہ نے پکارا : ''اے ابراہیم ! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ، ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی اور ہم نے انہیں فِدیے میں ایک عظیم ذبیحہ عطا فرمایا۔''
(سورۂ صافات : ۱۰۳ - ۱۰۷ (فلما أسلما...بذبح عظیم ))
مجموعہ بائیبل کی کتاب پیدائش میں مذکور ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ، حضرت اسحاق علیہ السلام سے تیرہ سال بڑے تھے اور قرآن کا سیاق بتلاتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے پیش آیا تھا۔ کیونکہ پورا واقعہ بیان کر چکنے کے بعد حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت کا ذکرہے۔
اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے جوان ہو نے سے پہلے کم از کم ایک بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کا سفر ضرور کیا تھا۔ بقیہ تین سفروں کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک طویل روایت میں ہے جو ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے (صحیح بخاری ۱/۴۷۵-۴۷۶)
اس کا خلاصہ یہ ہے
حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہو گئے۔ جُرہُم سے عربی سیکھ لی اور ان کی نگاہوں میں جچنے لگے تو ان لوگوں نے اپنے خاندان کی ایک خاتون سے آپؑ کی شادی کردی۔ اسی دوران حضرت ہاجرہؑ کا انتقال ہو گیا۔ ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہو اکہ اپنا ترکہ دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ وہ مکہ تشریف لے گئے لیکن حضرت اسماعیل ؑ سے ملاقات نہ ہوئی۔ بہو سے حالات دریافت کیے۔ اس نے تنگ دستی کی شکایت کی۔ آپ ؑ نے وصیت کی کہ اسماعیل علیہ السلام آئیں تو کہنا اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ اس وصیت کا مطلب حضرت اسماعیل علیہ السلام سمجھ گئے۔ بیوی کو طلاق دے دی اور ایک دوسری عورت سے شادی کر لی جو جُرہُم کے سردار مضاض بن عَمرو کی صاحبزادی تھی۔
(قلب جزیرۃ العر ب ص :۲۳۰)
اس دوسری شادی کے بعد ایک بار پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لے گئے مگر اس دفعہ بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات نہ ہوئی۔ بہو سے احوال دریافت کیے تو اس نے اللہ کی حمد وثناء کی۔ آپ نے وصیت کی کہ اسماعیل علیہ السلام اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھیں اور فلسطین واپس ہو گئے۔
اس کے بعد پھر تشریف لائے تو اسماعیل علیہ السلام زمزم کے قریب درخت کے نیچے تیر گھڑ رہے تھے۔ دیکھتے ہی لپک پڑے اور وہی کیا جو ایسے موقع پر ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا باپ کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ ملاقات اتنے طویل عرصے کے بعد ہو ئی تھی کہ ایک نرم دل اور شفیق باپ اپنے بیٹے سے اور ایک اطاعت شعار بیٹا اپنے باپ سے بمشکل ہی اتنی لمبی جدائی برداشت کر سکتا ہے۔ اسی دفعہ دونوں نے مل کر خانۂ کعبہ تعمیر کیا۔ بنیاد کھود کر دیواریں اٹھائیں اور ابراہیم علیہ السلام نے ساری دنیا کے لوگوں کو حج کے لیے آواز دی۔
اللہ تعالیٰ نے مضاض کی صاحبزادی سے اسماعیل علیہ السلام کو بارہ بیٹے عطا فرمائے۔
(قلب جزیرۃ العر ب ص :۲۳۰)
جن کے نام یہ ہیں :
نابت یا نبایوط ، قیدار ، ادبائیل ، مبشام ، مشماع، دوما ، میشا، حدد ، تیما، یطور ، نفیس اور قیدمان۔
ان بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے وجود میں آئے اور سب نے مکہ ہی میں بودوباش اختیار کی۔ ان کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر یمن اور مصر وشام کی تجارت پر تھا۔ بعد میں یہ قبائل جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں - بلکہ بیرون عرب بھی- پھیل گئے اور ان کے حالات ، زمانے کی دبیز تاریکیوں میں دب کر رہ گئے۔ صرف نابِت اور قیدار کی اوّلاد اس گمنامی سے مستثنیٰ ہیں۔
نبطیوں کے تمدّن کو شمالی حجاز میں فروغ اور عروج حاصل ہوا۔ انھوں نے ایک طاقتور حکومت قائم کرکے گردوپیش کے لوگوں کو اپنا باجگذار بنا لیا۔ بَطراء ان کا دار الحکومت تھا۔ کسی کو ان کے مقابلے کی تاب نہ تھی۔ پھر رومیوں کا دور آیا اور انھوں نے نبطیوں کو قصۂ پارینہ بنادیا۔ انساب کا علم رکھنے والے محققین کی ایک جماعت کا رجحان یہ ہے کہ آلِ غسان اور انصار یعنی اَوس وخَزرج قحطانی عرب نہ تھے۔ بلکہ اس علاقے میں نابت بن اسماعیل(علیہ السلام ) کی جو نسل بچی کھچی رہ گئی تھی وہی تھے۔ امام بخاری کا رجحان یہی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ان کے ایک باب کا عنوان یہ ہے: ''نسبۃ الیمن إلی اسماعیل ''اس پر انھوں نے بعض احادیث سے استدلال کیا ہے، حافظ ابن حجر اس کی شرح میں کہتے ہیں کہ قحطان نابت بن اسماعیل علیہ السلام کے نسل سے ہیں۔
(بخاری ، کتاب المناقب ، باب نسبۃالیمن الی اسماعیل حدیث نمبر ۳۵۰۷ فتح الباری ۶/۶۲۱-۶۲۳ نسب معد والیمن الکبیر ۱/۱۳۱ ، تاریخ ابن خلدون: ۲/۱/۴۶، ۲/۲/۲۴۱ ، ۲۴۲ ۔)
قیدار بن اسماعیل علیہ السلام کی نسل مکہ ہی میں پھلتی پُھولتی پرہی یہاں تک کہ عَدنان اور پھر ان کے بیٹے مَعد کا زمانہ آگیا۔ عدنانی عرب کا سلسلۂ نسب صحیح طور پر یہیں تک محفوظ ہے۔
عدنان ، نبیﷺ کے سلسلۂ نسب میں اکیسویں پشت پر پڑتے ہیں۔ بعض روایتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ آپﷺ جب اپنا سلسلۂ نسب ذکر فرماتے تو عدنان پر پہنچ کر رک جاتے اور آگے نہ بڑھتے۔ فرماتے کہ ماہرینِ انساب غلط کہتے ہیں۔
(طبری : تاریخ الامم والملوک: ۲/۱۹۱-۱۹۴، الاعلام ۵/۶۔)
مگر علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ عدنان سے آگے بھی نسب بیان کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ مگر خود ان کے درمیان اتنا اختلاف ہے کہ جمع وتطبیق ممکن نہیں۔ علامہ منصورپوری کا رجحان ابن سعد کے ذکر کردہ اس قول کی جانب ہے ، جسے طبری اور مسعودی نے منجملہ اقوال کے ذکر کیا ہے، عدنان اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان چالیس پشتیں ہیں۔
(ابن سعد ۱/۵۶ تاریخ طبری: ۲/۲۷۲، ۲۷۳ مروج الذہب مسعودی : ۲/۲۷۳ ، ۲۷۴ تاریخ ابن خلدون: ۲/۲/۲۹۸ فتح الباری: ۶/۶۲۲ رحمۃ للعالین: ۲/۷،۸، ۱۴، ۱۷۔)
بہر حال مَعد کے بیٹے نزار سے ...جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے علاوہ مَعَد کی کوئی اوّلاد نہ تھی... کئی خاندان وجود میں آئے۔ در حقیقت نزار کے چار بیٹے تھے اور ہر بیٹا ایک بڑے قبیلے کی بنیاد ثابت ہوا۔ چاروں کے نام یہ ہیں : اِیاد ، انمار، ربیعہ اور مضر ، ان میں سے مؤخر الذکر دوقبیلوں کی شاخیں اور شاخوں کی شاخیں بہت زیادہ ہوئیں۔ چنانچہ ربیعہ سے ضبیعہ اور اَسد بن ربیعہ ، اسد سے عنزہ وجدیلہ ، جدیلہ سے عبد القیس ، وائل ، وائل سے بکر ، تغلب اور بنو بکر سیبنو قیس بنوشیبان اور بنو حنیفہ وغیرہ وجود میں آئے۔ عنزہ سے موجودہ سعودی عرب کے حکمراں آلِ سعود ہیں۔
مُضر کی اوّلاد دو بڑے قبیلوں میں تقسیم ہوئی :

قیس عیلان بن مضر
الیاس بن مضر
قیس بن عیلان سے بنو سُلیم ، بنو ہَوَازِن ، بنو ثقیف ، بنو صعصعہ ، بنو غطفان ، غطفان سے عَبس ، ذُبیَان ... اشجع اور غنی بن اعصر کے قبائل وجود میں آئے۔
الیاس بن مضر سے تمیم بن مرہ ، ہذیل بن مدرکہ ، بنو اسد بن خزیمہ اور کنانہ بن خزیمہ کے قبائل وجود میں آئے۔ پھر کِنانہ سے قریش کا قبیلہ وجود میں آیا۔ یہ قبیلہ فِہر بن مالک بن نضر بن کنانہ کی اوّلاد ہے۔
پھر قریش بھی مختلف شاخوں میں تقسیم ہوئے۔ مشہور قریشی شاخوں کے نام یہ ہیں :
جمح ، سَہم ، عَدِی، مخزوم ، تیم ، زُہرہ، اورقُصَیّ بن کلاب کے خاندان۔ یعنی عبد الدار ، اسد بن عبد العزیٰ اور عبد مناف۔ یہ تینوں قُصَیّ کے بیٹے تھے۔ ان میں سے عبدِمناف کے چار بیٹے ہوئے ، جن سے چار ذیلی قبیلے وجود میں آئے۔ یعنی عبدِشمس ، نوفل ، مُطَّلِب اور ہاشم۔ انہیں ہاشم کی نسل سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضور محمدﷺ کا انتخاب فرمایا۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی اوّلاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا، پھر اسماعیل علیہ السلام کی اوّلاد میں سے کنانہ کو منتخب کیا اور کنانہ کی نسل سے قریش کو چنا، پھر قریش میں سے بنو ہاشم کا انتخاب کیا اور بنوہاشم میں سے میرا انتخاب کیا۔ (صحیح مسلم ۲/۲۴۵، جامع ترمذی ۲/۲۰۱۔)
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :''اللہ تعالیٰ نے خلق کی تخلیق فرمائی تو مجھے سب سے اچھے گروہ میں بنایا ، پھر ان کے بھی دوگروہوں میں سے زیادہ اچھے گروہ کے اندر رکھا ، پھر قبائل کو چنا تو مجھے سب سے اچھے قبیلے کے اندر بنایا ، پھر گھرانوں کو چنا مجھے سب سے اچھے گھرانے میں بنا یا، لہٰذا میں اپنی ذات کے اعتبار سے بھی سب سے اچھا ہوں ، اور اپنے گھرانے کے اعتبار سے بھی سب سے بہتر ہوں اور ایک لفظ یوں ہے ''اللہ نے مخلوق پیدا کی تو مجھے بہترین فرقے میں بنایا۔ پھر انہیں دوفرقے بنایا تو مجھے اچھے فرقے کے اندر بنایا ، پھر انہیں قبائل بنائے۔ پھر مجھے بہترین قبیلے میں بنایا۔ پھر انہیں گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانے اوربہترین نفس کا بنایا۔ (ترمذی ۲/۲۰۱)
بہر حال عدنان کی نسل جب زیادہ بڑھ گئی تو وہ چارے پانی کی تلاش میں عرب کے مختلف اطراف میں بکھر گئی، چنانچہ قبیلہ عبد القیس نے ، بکر بن وائل کی کئی شاخوں نے اور بنوتمیم کے خاندانوں نے بحرین کا رُخ کیا اور اسی علاقے میں جابسے۔
بنو حنیفہ بن صعب بن علی بن بکر نے یمامہ کا رُخ کیا اور اس کے مرکز حجر میں سکونت پذیر ہوگئے۔
بکر بن وائل کی بقیہ شاخوں نے یمامہ سے لے کر بحرین ، ساحل کاظمہ ، خلیج ، سواد عراق ، اُبُلَّہ اور ہِیت تک کے علاقوں میں بودوباش اختیار کی۔
بنو تغلب جزیرہ فراتیہ میں اقامت گزیں ہوئے، البتہ ان کی بعض شاخوں نے بنوبکر کے ساتھ سکونت اختیار کی۔
بنوتمیم نے بادیہ بصرہ کو اپنا وطن بنایا۔
بنو سلیم نے مدینہ کے قریب ڈیرے ڈالے۔ ان کا مسکن وادی القریٰ سے شروع ہو کر خیبر اور مدینہ کے مشرق سے گزرتا ہوا حرہ بنوسُلیم سے متصل دوپہاڑوں تک منتہی ہوتا تھا۔
بنو ثقیف نے طائف کو وطن بنایا اور بنو ہَوازن نے مکہ کے مشرق میں وادیٔ اوطاس کے گرد وپیش ڈیرے
ڈالے۔ ان کا مسکن مکہ ...بصرہ شاہراہ پر واقع تھا۔
بنو اسد تَیماء کے مشرق اور کوفہ کے مغرب میں خیمہ زن ہوئے۔ ان کے اور تیماء کے درمیان بنو طی کا ایک خاندان بحتر آباد تھا۔ بنو اسد کی آبادی اور کوفے کے درمیان پانچ دن کی مسافت تھی۔
بنو ذُبیان تیماء کے قریب حوران کے اطراف میں آباد ہو ئے۔
تہامہ میں بنو کنانہ کے خاندان رہ گئے تھے۔ ان میں سے قریشی خاندانوں کی بود وباش مکہ اور اس کے اطراف میں تھی۔ یہ لوگ پراگندہ تھے۔ ان کی کوئی شیرازہ بندی نہ تھی تا آنکہ قُصی بن کلاب ابھر کر منظر عام پر آیا اور قرشیوں کو متحد کر کے شرف و عزت اور بلندی ووقار سے بہرہ ور کیا۔ ( محاضرات خضری ۱/۱۵، ۱۶۔)

الرحیق المختوم
****​
 
Top