• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عزیمت کے راہی اور انسانوں کے رویے۔ ماضی۔ حال اور مستقبل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
عزیمت کے راہی اس دنیا میں بہت آئے اور چلے گئے۔ ان کے انمٹ نقوش جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ جو کسی کے لئے درس عبرت اور کسی کے دردِ سر کا باعث ہیں۔
عزیمت کا سب سے پہلے راہی غالبا ہابیل بن آدم علیہ السلام تھے۔ جو اللہ اپنے رب کو راضی رکھتے ہوئے اپنے بھائی کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ اللہ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے۔
ان کے بعد قرآن مجید میں سیدنا نوح علیہ السلام کا واقعہ بہت تفصیل سے آیا ہے کہ وہ عزیمت کے راہی بنے۔ ساڑھے نو سو سال اسی راستے پر چلتے رہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں سرخرو کیا۔
اسی طرح سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام۔
سیدنا موسی علیہ السلام
سیدنا عیسی علیہ السلام
اور دیگر انبیاء علیہم السلام
میرے پیارے پیغمبر خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ سید الاولین والآخرین۔ ہمیشہ عزیمت کے راستے پر چلے۔
اللہ تعالیٰ نے سب کے ذکر خیر کو اپنی کلام میں کچھ اس طرح سمویا کہ قیامت تک عزیمت کے راستے کے یہ راہی یاد کئے جاتے رہیں گے۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد
خلیفہ راشد اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عزیمت کے راستے پر چلے۔ راہِ عزیمت پر چلتے ہوئے اُن کا امتحان اس وقت آیا جب زکوٰۃ روکنے والے کلمہ گو لوگوں کے ساتھ قتال کا ارادہ فرمایا۔ کم و بیش تمام صحابہ کرام کی رائے اُن سے مختلف تھی لیکن عزیمت کے پہاڑ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی ایک نہ مانی اور کسی بھی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے۔ عزیمت کے راستے پر چلے۔ رضی اللہ عنہم و رضوا عنہم۔ یہ اُن کی عزیمت ہی تھی کہ بعد میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس راستے پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے۔
دوسرے خلیفہ راشد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ
تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ
چوتھے خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ عنہ
علی ھذا القیاس تمام صحابہ کرم رضوان اللہ علیہم اجمعین
اور
متعدد تابعین کرام
تبع تابعین
آئمہ دین۔ فقہاء امت۔ صلحاء امت۔ علماء کرام۔
غرض یہ ایک جم غفیر ہے جو عزیمت کے راستے پر چلا۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے۔
ماضی میں ایسے لوگوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا گیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ
جب بھی کوئی عزیمت کے راستے پر چلا تو مخالف لوگوں نے ہمیشہ مخالفت کی۔ طرح طرح کی ایذائیں دیں۔ ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی لیکن عزیمت کے راہی نہ جھکے، نہ بکے اور نہ ہی ڈگمگائے۔
جبکہ
ان کی عزیمت کے شناسا ان سے کبھی بھی دُور نہیں گئے۔
بلکہ
جب عزیمت کے راہیوں کی جب جب وفات آئی۔ چشم فلک نظارہ کرتی رہی کہ ان کے جنازے میں شریک لوگ ان لوگوں کے جنازوں سے کہیں زیادہ ہوتے تھے جو عزیمت کے راہیوں کو تختہ مشق بناتے تھے۔
اس ضمن میں تاریخ بھری پڑی ہے لیکن ہم یہاں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کریں گے جن کا نام فورًا ذہن میں اُمڈ آتا ہے جنہوں نے صرف ایک مسئلہ پر راہ عزیمت کی پرخار وادی کو عبور فرمایا۔ اور وہ مسئلہ تھا زبردستی طلاق کا۔
دوسرا بڑا نام جو ہر ذہن میں اُبھرتا ہے
وہ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا ہے
جنہوں نے مسئلہ خلق قرآن پر عزیمت کا راستہ اپنایا اور تن تنہا عبور کر گئے۔
پھر وقت عہد رسالت ﷺ سے تھوڑا اور آگے نکل گیا۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ
جن کی وفات جیل میں ہوئی۔
جنہوں نے پوری زندگی عزیمت کی شاہراہ پر گزار دی۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔
پھر ایک لمبا عرصہ گزرا اور بہت سے مشاہیر اس دنیا میں تشریف لائے اور عزیمت کے راستے پر چلتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔
تقریبا ایک صدی قبل محترم شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی عزیمت کا راستہ اختیار کیا تو اللہ رب العالمین نے ان کی زندگی میں ہی عرب میں توحید کا چاند دوبارہ سے پوری آب و تاب سے چمکایا جس کی بعض کرنیں آج بھی نظر آتی ہیں۔
غرض آج تک جس قدر تاریخ کا مطالعہ کیا۔ یہی پایا کہ عزیمت کے راہیوں کوہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

کیا حال میں بھی یہی قدر و منزلت موجود ہے۔
اس کا جواب شاید کچھ زیادہ مثبت نہیں ہو گا
ایک جگہ ایک خطیب صاحب نے جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ان کی کاوشوں کو قبول و منظور فرمائے۔ بہت محنت سے اور بڑی تگ و دو سے انہوں نے اعمالِ صالحہ سے پہلے عقیدے کا عنوان منتخب فرمایا۔ اور اس میں انہوں نے بلاشبہ بہت سی اچھی باتیں قیمتی موتیوں کی طرح گویا کہ مالا میں پرو دیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔
حیرت اُس وقت ہوئی
جب
انہوں نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اُن کے ایک گہرے دوست جو کہ عالم دین تھے چند روز قبل وفات پا گئے اور ان کی زندگی میں رمضان نہیں المبارک کی مبارک گھڑیاں نہ لوٹ سکیں۔
پورے خطبہ میں یہی انتظار رہا کہ شاید وہ اُن کے لئے کوئی دُعاخیر کر دیں۔
یا ویسے ہی لوگوں سے یہ ارشاد فرما دیں کہ تمام فوت شدگان کو اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیں۔
لیکن
ایسا کچھ بھی سننے کو کان ترستے ہی رہے۔
یہ ایک واقعہ تو آپ کو مثال کے طور پر پیش کیا ہے
ورنہ
آج تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ
عزیمت کے راستے پر چلنے والوں کو
شاید آج مسلمان بھی نہیں سمجھا جاتا
شاید یہی وجہ ہے کہ عزیمت کے راہی لوگوں کے لئے دعائیں کرنے والے آج انتہائی کم ہو گئے ہیں۔

مستقبل کے حالات کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے
لیکن
ہمارے رویوں سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ
اگلے چند سالوں میں
عزیمت کے راہیوں کے لئے دعائے خیر کرنے والے اکا دُکا اشخاص بھی دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔
پھر
صرف اور صرف
مصلحت
اور مصلحت کار
باقی ہوں گے
جو آہستہ آہستہ مصلحت کے نام پر اپنے دین سے اس قدر دُور چلے جائیں گے کہ دین کے آخری کنارے کو بھی پہچان نہیں پائیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
 
Top