• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عشرة ذوالحجہ کی فضیلت اور اس کے مسائل

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عشرة ذوالحجہ کی فضیلت اور اس کے مسائل

علامہ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ

افسوس ہے کہ ہم مسلمانوں میں وہ تصورات اور اعمال تو بہت جلد رائج اور مشہور ہو جاتے ہیں جو ایجاد بندہ قسم کے ہوتے ہیں ، اور جنہیں اصطلاح شریعت میں بدعات سے موسوم کیا جاتا ہے۔
لیکن جن تصورات و اعمال کی نشاندہی قرآن و حدیث میں کی گئی ہے ان کا مسلمانوں کو سرے سے علم ہی نہیں ہو عمل تو بہت بعد کی بات ہے۔
جس طرح عشرة محرم کے سلسلے میں بدعی تصورات عوام کے ذہنوں میں راسخ ہیں حالانکہ شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں۔ ایک برخود غلط مذہب کے پیروکاروں نے ان تصورات کو رائج کیا اور اپنے مخصوص عقائد و افکار کی اشاعت کے لئے ان ایام کو خاص کر کے پیچھے اعمال و رسوم کو ان دنوں میں باعث ثواب گردانا۔ بد قسمتی سے اہل سنت کے جاہل عوام میں بھی یہ شیعی تصورات و اثرات انفوز کر گئے اور ان میں ایک طبقہ عشرہ محرم کے سلسلے میں شیعی و بدعی تصورات کا قائل اور عامل ہے۔ حالانکہ شریعت میں معاشرہ محرم کے سلسلے میں کچھ بیان نہیں کیا گیا۔ البتہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ رکھنا حدیث سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں اس کے ساتھ 9 یا 11 محرم کا روزہ ملانا بھی مستحب ہے
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی خواہش کی تھی۔

اسی طرح ماه محرم میں نفلی روزوں کی بھی تاکید ہے۔

ذوالحجہ کے مہینے کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں اسلام کا ایک اہم رکن حج ادا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی ملی تقریب -- عید قرباں بھی اسی مہینے کی ۱۰ تاریخ کو منائی جاتی ہے۔
غالبا اسی وجہ سے اس مہینے کے پہلے دس دن کی بہت فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے ،
اور اللہ تعالی نے جن راتوں کی قسم سورة الفجر میں کھائی ہے۔
وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ «الفجر )جمہور مفسرین نے بھی ان سے ذوالحجہ کی دس راتیں مراد لی ہیں۔ جس سے ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی فضیلت ہی کا اثبات ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ عوام ان ایام فضیلت و شب ہائے سعادت سے بالعموم بے خبر ہیں۔
بہرحال احادیث نبویہ میں عشرہ ذوالحجہ کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے وہ حسب ذیل ہے،اللہ تعالی عمل کی توفیق سے نوازے۔
حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشر، فقالوا یارسول الله ! ولا الجهاد في سبيل الله ؟ فقال رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله، إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء
بخاري، العیدین، باب فضل العمل في أيام التشريق، ح: ۹۹۹ - سنن الترمذي، الصوم، باب ما جاء في العمل في أيام العشر، ح : ۷۵۷، واللفظ للترمذي)
جتنا کوئی نیک عمل اللہ تعالی کو ان دس دنوں (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں پسند ہے اتنا کسی دن میں پسند نہیں۔ آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ! جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے جواب دیا۔ ”ہاں جہاو فی سبیل اللہ بھی نہیں مگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں جان و مال کے ساتھ شهیدہی ہو جائے ۔ "

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه العمل فيهن من هذه الأيام العشر فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد ) أخرجه احمد 7/224 وصحّح إسناده أحمد شاكر . (مسند أحمد، به تحقیق احمد شاكر مصري مرحوم، ۹۲ / ۷ : ۲۵) یعنی اللہ تعالی کے نزدیک کوئی عمل اتنا با عظمت اور محبوب نہیں جتنا وہ عمل ہے جو (ذوالحجہ کے ) ان دس دنوں میں کیا جائے۔ پس تم ان دنوں میں کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تحمید کو»
یعنی: «لا إله إلا الله، والله أكبر، والحمد لله » کا ورد کرو۔
عشرہ ذوالحجہ میں کئے گئے عملوں کی فضیلت کی وجہ کیا ہے؟
اس کی بابت علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں ،لیکن اس کی اصل حقیقت اللہ تعالی ہی جانتا ہے ،
ہمیں تو اس فضیلت پر یقین رکھ کر ان دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے چاہئیں کیونکہ یہ فضیلت بہت سی احادیث میں بیان ہوئی ہے۔

عرفہ کے روزے کی فضیلت :
ذوالحجہ کی ۹ تاریخ کو یوم عرفہ کہا جاتا ہے۔ اس دن حجاج کرام عرفات میں وقوف کرتے ہیں، یعنی صبح سے لے کر سورج غروب ہونے تک وہاں ٹھہرتے ہیں اور اللہ سے خوب دعائیں کرتے ہیں۔ اس دن وہاں حاجیوں کے لئے روزہ رکھنا غیر مستحب ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ لیکن غیر حاجیوں کےلئے اس دن نہ صرف روزہ رکھنا جائز ہے بلکہ نہایت فضیلت والا عمل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، صحیح مسلم ،الصیام ، الترمذي، الصوم، باب ما جاء في فضل الصوم يوم عرفة، ح :۷۶۹)
عرفہ کے دن کے دن روزہ رکھنے سے مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ گزشتہ اور آئندہ دو سالوں کے گناہ معاف فرمادے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان غیر حاجیوں کے لئے ہے کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا آپ نے عرفہ کے دن روزہ نہیں رکھا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا انہوں نے روزہ نہیں رکھنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا انہوں نے روزہ نہیں رکھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا انہوں نے بھی روزہ نہیں رکھا۔ اور میں بھی اس وان (عرفہ میں) روزہ نہیں رکھتا اور نہ اس کا حکم دیتا ہوں نہ اس سے روکتا ہوں۔"
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل
مذکورہ احادیث پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام عشرہ ذوالحجہ میں خوب ذوق و شوق سے اعمال صالحہ اور عبادات و نوافل کا اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل تھا کہ وہ ان دس ایام میں بازار چلے جاتے اور بلند آواز سے تکبیریں پڑھتے، انہیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی تکبیریں پڑھنا شروع کر دیتے
" كان ابن عمر وأبا هريرة رضي الله عنهما كانا يخرجان إلى السوق أيام العشر يكبران ويكبر الناس بتكبيرهما ،
(البخاري، العيدين، بابفضل العمل في أيام التشريق))
حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ عشرة ذوالحجہ میں بسلسلہ اعمال صالحہ خوب سعی و کوشش کرتے۔
فكان سعيد بن جبير إذا دخل أيام العشر اجتهد إجتهادا شديدا حتى ما يكاد يقدر عليه " (رواه البيهقي، الترغيب والترهيب، ۱۹۸/ ۲ )

تکبیرات کا مسئلہ :
صحیح بخاری کے مذکورہ اثر سے واضح ہے کہ عشرہ ذوالحجہ میں جہاں نیکی کے دوسرے اعمال زیادہ زوق و شوق اور زیادہ اہتمام سے کئے جائیں وہاں تکبیرات کا بھی خوب اہتمام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں یہ معمول ہے کہ نو (۹) ذوالحجہ کی نماز فجرے تکبیرات کا آغاز کیا جاتا ہے اور پھر ہر فرض نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ (۱۳) ذوالحجہ کی نماز عصر تک چلتا ہے۔ اور یہ تکبیرات بایں الفاظ پڑھی جاتی ہیں۔
الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله والله أكبر، الله أكبر، ولله الحمد
یہ معمول اور الفاظ تکبیرات ، سنن دار قطنی ( کتاب العیدین) کی ایک روایت میں بیان ہوئے ہیں لیکن یہ روایت ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں۔
تاہم حضرت علی اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے ایک سے اثر سے یہ بات ثابت ہے کہ عرفہ کی صبح سے ایام تشریق کے آخر تک تکبیرات پڑھی جائیں (فتح الباری) اس لئے تکبیرات بھی سارے ہی عشرے میں (۱۳) ذوالحجہ کے عصر کے وقت تک پڑھی جائیں ،
اور صرف نمازوں کے بعد ہی نہیں بلکہ دیگر اوقات میں بھی ان کا اہتمام کیا جائے اس طرح تکبیرات کے مذکورہ الفاظ بھی اگرچہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں، لیکن حضرت عمر اور حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہما کے منقول اثر سے یہ ثابت ہیں۔ اس لئے یہ بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔
البتہ حافظ ابن حجرؒ عسقلانی نے سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے منقول الفاظ (الله أکبر، الله أكبر، الله أكبر کبیرا )کو صحیح ترین قرار دیا ہے۔ (فتح الباري العيدين " باب التكبير ايام منی. ج : ۲ ص ۵۹۵؛ طبع دار السلام الرياض)

قربانی کی نیت رکھنے والا عشر زوالجہ میں حجامت وغیرہ نہ کروائے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ» (صحیح مسلم، الأضاحي، باب نهى من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو يريد التضحية أن يأخذ من شعره...، ح:۱۹۷۷) "جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔


اس حدیث سے اس بات کی تاکید معلوم ہوتی ہے کہ قربانی کی نیت رکھنے والے شخص کو حجامت کروانے اور ناخن تراشنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے قربانی کی عدم استطاعت کا ذکر کیا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ تم دس (۱۰) زواجہ کو اپنے بال بنوالیا ناخن تراش لین مونچھیں کٹوا لینا اور زیر ناف کے بال صاف کر لیا میں عند الله تمہاری قربانی ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب المنحايا رقم:۲ ۸۸)
اس حدیث کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ عدم استطاعت والا شخص گر عشرہ ذوالحجہ میں حجامت وغیرہ نہ کروائے اور دس (۱۰) ذوالحجہ کو عید الاضحی کے دن) حجامت وغیرہ کر لے تو اسے بھی قربانی کا ثواب مل جائے گا لیکن یہ حدیث سند ضعيف ہے۔ چنانچہ شیخ البانی اللہ نے اسے ضعیف ابو داود میں درج کیا ہے۔ اس لئے یہ حدیث قابل حجت نہیں ۔ بنابریں اس سے کسی مسئلے کا اثبات بھی میں نہیں۔
پس عشرة زواجہ میں حجامت وغیرہ نہ کروانے کا حکم صرف اس شخص ہی کے لئے ہے جو قربانی کرنے کی نیت رکھتا ہے یا وہ جانور خرید چکا ہے یا قربانی کی نیت سے اس نے جانور پال رکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top