• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عشرہ ذی الحجہ کے نو روزوں کا حکم اور یوم عرفہ کے امتیازات

شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

عشرہ ذی الحجہ کے نو روزوں کا حکم اور یوم عرفہ کے امتیازات

http://salafitehqiqimaqalat.blogspot.com/2020/07/blog-post.html

~~~~؛

عشرہ ذوالحجہ کے روزے:

ھنیدہ بن خالد کی زوجہ (صحابیہ) نبی ﷺکی بعض ازواج سے بیان کرتی ہیں:

’’کَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ یَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّۃِ ‘‘

رسول اللہ ﷺذوالحجہ کے (پہلے) نو دنوں کے روزے رکھتے۔ (سنن أبي داود: 2437، سنن النسائي: 2374، وسندہ صحیح)

امام ابو داود نے اس حدیث پر اس طرح باب قائم کیا: ’’باب في صوم العشر‘‘ عشرہ ذوالحجہ کے روزے کا بیان۔

تنبیہ: ایک روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

’’مَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِﷺ صَائِمًا فِی الْعَشْرِ قَطُّ‘‘

میں نے رسول اللہ ﷺکو عشرہ(ذوالحجہ) میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔

ایک دوسری روایت میں ہے:

’’أَنَّ النَّبِیَّﷺ لَمْ یَصُمِ الْعَشْرَ۔‘‘

نبی ﷺ عشرہ (ذوالحجہ) میں روزہ نہ رکھتے۔ (دیکھئے صحیح مسلم: 1176)

امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی:458ھ) فرماتے ہیں:

’’وَہَذَا الْحَدِیثُ أَوْلَی مَعَ مَا سَبَقَ ذِکْرُہُ مِنَ الْحَدِیثِ الَّذِيْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّہَا قَالَتْ: مَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ ﷺ صَائِمًا فِی الْعَشْرِ قَطُّ لِأَنَّ ہَذَا مُثْبِتٌ فَہُوَ أَوْلَی مِنَ النَّافِيْ۔‘‘

یہ حدیث (ھنیدہ بن خالد کے طریق والی) اور اس کے ساتھ جو (اس عشرے) سے متعلق پیچھے ذکرہوا، اولیٰ اور راجح ہے اس حدیث سے جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کی کہ ’’میں نے رسول اللہ ﷺکو ان دس دنوں میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔‘‘ کیونکہ مذکورہ بالا روایت (روزہ رکھنے) کو ثابت کر رہی ہے، اس لیے وہ روزہ رکھنے کی نفی کرنے والی حدیث سے راجح اور اولیٰ ہے۔ (فضائل الأوقات للبیہقي: 175، مزید دیکھئے: السنن الکبرٰی:688/4)

امام نووی رحمہ اللہ (المتوفی: 676ھ) فرماتے ہیں:

’’ہو متأول علی انہا لم ترہ ولا یَلْزَمْ مِنْہُ تَرْکُہُ فِيْ نَفْسِ الْأَمْرِ لِأَنَّہُ ﷺ کَانَ یَکُونُ عِنْدَہَا فِی یَوْمٍ مِنْ تِسْعَۃِ أَیَّامٍ وَالْبَاقِی عِنْدَ بَاقِی أُمَّہَاتِ الْمُؤْمِنِینَ أَوْ لَعَلَّہُﷺ کَانَ یَصُومُ بَعْضَہُ فِيْ بَعْضِ الْأَوْقَاتِ وَکُلَّہُ فِی بَعْضِہَا وَیَتْرُکُہُ فِی بَعْضِہَا لِعَارِضِ سَفَرٍ أَوْ مَرَضٍ أَوْ غَیْرِہِمَا وَبِہَذَا یُجْمَعُ بَیْنَ الْأَحَادِیْث۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے قول کی وضاحت اس طرح سے کی جا سکتی ہے کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو روزے کی حالت میں نہ دیکھا ہو، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ نے حقیقت میں ان روزوں کو چھوڑا تھا کیونکہ آپ نو میں سے ایک دن ان کے پاس ٹھہرتے تھے۔ اور باقی ایام دیگر امہات المومنین کے پاس، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کبھی اس عشرے کے چند دن تو روزہ رکھتے ہوں اور چند دن چھوڑتے ہوں، اور کبھی پورا عشرہ روزہ رکھا ہو اور کبھی سفر یا مرض یا کسی اور سبب سے پورا عشرہ روزے کو ترک کیا ہو۔ اس وضاحت سے احادیث میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ (المجموع شرح المھذب: 387/6)

مزید فرماتے ہیں:

’’فلیس في صوم ہذہ التسعۃ کراہۃ بل ہی مستحبۃ استحبابا شدیدًا لا سیما التاسع منہا وہو یوم عرفۃ‘‘۔

ان نو دنوں میں روزے رکھنا مکروہ نہیں بلکہ مستحب اور شدید مستحب ہیں اور خاص طور پر 9 ذوالحجہ کو جو یوم عرفہ ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم للنووي: 78/8)

٭ امام عبد اللہ بن عون رحمہ اللہ (المتوفی: 150ھ) فرماتے ہیں:

’’کَانَ مُحَمَّدٌ یَصُومُ الْعَشْرَ عَشْرَ ذِي الْحِجَّۃِ کُلِّہِ، فَإِذَا مَضَی الْعَشْرُ وَمَضَتْ أَیَّامُ التَّشْرِیقِ أَفْطَرَ تِسْعَۃَ أَیَّامٍ مِثْلَ مَا صَامَ‘‘

امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ تابعی (المتوفی: 110ھ) مکمل عشرہ ذوالحجہ کے روزے رکھتے تو جب عشرہ ذوالحجہ اور ایام تشریق گزر جاتے تو نو دن روزے کا ناغہ کرتے جیسے پہلے روزے رکھتے‘‘ (مصنف ابن أبي شیبۃ: 300/2، وسندہ صحیح)

یہاں مکمل عشرہ سے مراد 9 دن ہی ہیں کیونکہ اگلے الفاظ سے ظاہر ہے۔ واللہ اعلم

~~~~

عرفہ کے دن کی فضیلت:
یوم عرفہ عشرہ ذوالحجہ میں سے اہم ترین دن ہے اور اس کے متعدد فضائل ہیں:

1: اللہ تعالیٰ کا یوم عرفہ کی قسم کھانا:

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

((وشاھد ومشھود))

قسم ہے حاضر ہونے والے کی اور جس کے پاس حاضر ہوا جائے۔ (البروج: 3)

اکثر مفسرین کا موقف ہے کہ آیت کریمہ میں ’’شاھد‘‘ سے مراد ’’جمعہ‘‘ کا دن اور ’’مشھود‘‘ سے مراد عرفات کا دن ہے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور امام قتادہ رحمہ اللہ سے صحیح و حسن اسناد سے مروی ہے۔ (دیکھئے تفسیر الطبري 481/11، 482)

2: دین کی تکمیل اور اتمام نعمت کا دن:

سیدنا طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! تمھاری کتاب میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو، اگر ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم ضرور اس دن کو عید کا دن بنا لیتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کونسی آیت ہے؟ وہ کہنے لگا: الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدۃ: 3) تو عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: ہم اس دن اور جگہ کو جانتے ہیں جس میں یہ نبی ﷺپر اتری، اس وقت آپ عرفات (کے میدان) میں جمعہ کے دن کھڑے تھے۔‘‘ (صحیح البخاري: 45، 7268، صحیح مسلم: 3017)

ایک دوسری روایت میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

فإنھا نزلت في یوم عیدین في یوم جمعۃ ویوم عرفۃ۔

بے شک یہ آیت دو عید کے دنوں میں اتری، جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن۔ دیکھئے (سنن الترمذي: 3044 وسندہ صحیح)

3: یوم عرفہ اہل اسلام کے لیے عید کا دن:

سیدنا عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’یَوْمُ عَرَفَۃَ، وَیَوْمُ النَّحْرِ، وَأَیَّامُ التَّشْرِیقِ عِیدُنَا أَہْلَ الْإِسْلَامِ، وَہِیَ أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ۔‘‘

یوم عرفہ، قربانی کا دن اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کے لیے عید ہیں اور یہ ایام کھانے پینے کے ہیں۔ (سنن أبي داود: 2419، سنن الترمذي: 773، سنن النسائي: 3007، وسندہ حسن)

4: عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں (حاجیوں) پر فخر کرنا اور عام بخشش فرمانا:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’مَا مِنْ یَوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ أَنْ یُعْتِقَ اللہُ فِیہِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ، وَإِنَّہُ لَیَدْنُو، ثُمَّ یُبَاہِي بِہِمِ الْمَلَائِکَۃَ، فَیَقُولُ: مَا أَرَادَ ہَؤُلَاءِ؟‘‘

اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن بھی اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد نہیں کرتا اور (اللہ تعالیٰ) اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان سارے بندوں کا کیا ارادہ ہے؟‘‘ (صحیح مسلم: 1348)

5: یوم عرفہ کا روزہ:

سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((صِیَامُ یَوْمِ عَرَفَۃَ، أَحْتَسِبُ عَلَی اللہِ أَنْ یُکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِی قَبْلَہُ، وَالسَّنَۃَ الَّتِی بَعْدَہُ……))

عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ گزشتہ اور آئندہ (دو) سالوں کے (گناہوں) کا کفارہ ہو گا۔ (صحیح مسلم: 1162)

تنبیہ: یہ روزہ حاجیوں کے لیے نہیں ہے۔ (دیکھئے: صحیح البخاري: 1658، 1988، صحیح مسلم: 1123)

امام شافعی رحمہ اللہ (المتوفی:204ھ) فرماتے ہیں:

’’فَأُحِبُّ صَوْمَہَا إلَّا أَنْ یَکُونَ حَاجًّا فَأُحِبُّ لَہُ تَرْکَ صَوْمِ یَوْمِ عَرَفَۃَ لِأَنَّہُ حَاجٌّ مُضَحٍّ مُسَافِرٌ وَلِتَرْکِ النَّبِيِّ۔ ﷺ۔ صَوْمَہُ فِی الْحَجِّ وَلِیَقْوَی بِذَلِکَ عَلَی الدُّعَاءِ، وَأَفْضَلُ الدُّعَاءِ یَوْمُ عَرَفَۃَ۔‘‘

میں اس دن کے روزے کو پسند کرتا ہوں سوائے حاجی کے، اس کے لیے میں پسند کرتا ہوں عرفہ کے دن کا روزہ نہ رکھے کیونکہ وہ فریضۂ حج ادا کرنے والا، قربانی کرنے والا اور مسافر ہے (سب سے بڑی بات) نبی ﷺکے حج میں روزہ چھوڑنے کیوجہ سے، تاکہ وہ دعا کے لیے خوب توانا رہے اور عرفہ کے دن کی دعا افضل دعا ہے۔ (دیکھئے مختصر المزني ص59، فضائل الأوقات للبیہقي ص364)

ماخوذ
ماہنامہ الحدیث، شمارہ 144

مضمون: عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت و اہمیت

تحریر: الشیخ ابو احمد وقاص زبیر

~~~~

ٹیلیگرام چینل
سلفی تحقیقی اسلامی کتب و مقالات
Telegram Channel:
Salafi Tehqiqi Islami Kutub O Maqalat

Joining Link :
https://t.me/salafitehqiqitutub

~~~~

ٹیلی گرام اکاؤنٹ اوپن کرنے کیلئے حاصل کریں ٹیلی گرام کی ایپ نیچے کی لنک سے

"Telegram"
https://play.google.com/store/apps/details?id=org.telegram.messenger

~~~~

Share 2 all

.
 
Top