• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عشرۃ ذی الحجۃ۔۔۔۔ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عشرۃ ذی الحجۃ۔۔۔۔ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ

یوں تو اللہ ذوالجلال والاکرام کی رحمت کی بارش ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں جب اللہ ارحم الراحمین کے رحم و کرم کے سمندر سے دیا سیراب نہ ہوتی ہو، مگر بعض ایام، بعض عشرے اور بعض ماہ ایسی خصوصیتیں رکھتے ہیں جو دوسرے دِنوں میں موجود نہیں۔

منجملہ ان کے عشرۂ ذی الحجہ ہے اس میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے بحرِ رحمت کی امواج میں بے انتہا تلاطم پیدا ہو جاتا ہے اور رحمت کی فراوانی خشک وادیوں کو سیراب اور مردہ بیابانوں کو زندہ کر دیتی ہے۔ قارئین کے فائدہ کے لئے قرآن و حدیث سے کچھ عرض کرتا ہوں۔ ممکن ہے کوئی تشنۂ ثواب اس سے فائدہ اُٹھائے اور میرے لئے باعثِ اجر و ثواب بن جائے۔

یہ وہ عشرہ ہے جس کی بزرگی اور فضیلت قرآن اور حدیث سےثابت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی قسم کھائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:۔

﴿وَالفَجرِ‌ ﴿١﴾ وَلَيالٍ عَشرٍ‌ ﴿٢﴾... سورة الفجر

قسم ہے صبح (یوم النحر) کی اور (ذی الحجہ) دس راتوں کی۔

جس چیز کی قسم کھائی جائے وہ مکرم و معظم ہوتی ہے۔ تو عشرہ ذی الحجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مکرم و معظم ہوا۔ لہٰذ ااس میں اللہ تعالیٰ کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونا چاہئے، جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿وَيَذكُرُ‌وا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ...﴿٢٨... سورة الالحج

یعنی یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام معلوم دنوں میں۔

معلوم دنوں سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے جیسا کہ بخاری میں ابن عباسؓ سے مروی ہے۔
پس قرآن مجید سے اس عشرہ کی عظمت اور بزرگی ثابت ہوئی اور اس میں کثرتِ ذکر و عبادت کی ترغیب بھی ثابت ہوئی۔
اور فریضہ حج جو ارکانِ خمسہ میں داخل ہے اور بے انتہائ محاسن و فضائل کا حامل ہے۔ یہ بھی اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ بھی اس کی فضیلت پر دال ہے۔
اور قربانی جو حب خلیلؑ کی یادگار اور خالق پر مخلوق کے ایثار اور جاں فشانی کی بے مثال دلیل ہے۔ اسی عشرہ میں کی جاتی ہے۔ یہ بھی اس عشرہ کی فضیلت کی دلیل ہے۔

عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت احادیث سے

پہلی حدیث:۔
بخاری شریف میں ہے:
عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم ما من أیام ۔۔۔۔ العمل الصالح فیهن أحب الی الله ۔۔۔۔ من هذہ الأیام العشرة، قالوا: یا رسول الله ولا الجهاد في سبیل اللہ؟ قال: ولا الجهاد في سبیل الله إلا رجل خرج بنفسه وما له فلم یرجع من ذلك بشيء (رواہ البخاری)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان دس دنوں کے اعمال صالحہ جتنے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں اتنے اور دِنوں کے نہیں یعنی ان دنوں کے اعمال نماز روزہ، تسبیح، تہلیل، تکبیر اور صدقہ خیرات وغیرہ اللہ عزوجل کو بہت ہی محبوب ہیں لہٰذا ان دنوں میں بندگی و عبادت میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔

صحابہ نے عرض کیا کہ جہاد بھی ان دنوں کے اعمال صالحہ کے برابر نہیں ہوتا؟ فرمایا: جہاد بھی برابر نہیں ہو سکتا۔ ہاں وہ مجاہد جو جان مال لے کر جہاد کے لئے نکلے اور پھر کوئی چیز واپس نہ لائے یعنی خود بھی شہید ہو جائے اور مال بھی خرچ ہو جائے۔ ایسا جہاد ان دِنوں کے اعمال صالحہ کے برابر ہو سکتا ہے۔

اس صحیح حدیث میں اس عشرہ کی کتنی بزرگی اور عظمت ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ جو بندہ کی ایک ایک نیکی کو اتنا محبوب رکھتا ہے کہ ایک ایک نیکی پر اس کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ ہزاروں گا تک ثواب دیتا ہے۔ اس عشرہ کی نیکی کو بہت محبوب رکھتا ہے۔ یہ بحرِ رحمت کی موجیں ہیں جو عاجز بندہ کو اسکے بحرِ رحمت س خطِ وافر لینے کے لئے پکار رہی ہیں۔ کاش کہ انسان ایسے وقتوں کی قدر کرے اور کمربستہ ہو کر کچھ کما لے۔ خوش قسمت ہی وہ لوگ جو ایسے وقتوں میں بحرِ رحمت میں غوط لگاتے ہیں۔

دوسری حدیث:
عن ابن عمر قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ما من أیام أعظم عند الله ولا العمل فیهن أحب الی الله عزوجل من هذہ الأیام یعنی من العشر

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دِس دنوں سے بزرگ و برتر اور کوئی دن نہیں ہیں نہ ان دنوں کے عمل کے برابر کسی اور دنوں کا عمل اللہ کو محبوب ہے۔

تیسری حدیث:
عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی الله علیه وسلم ما من أیام أعظم عند الله سبحانه ولا أحب إلیه العمل فیهن من هذه الأیام العشر فأکثروا فیهن من التهلیل والتکبیر والتحمید (رواہ احمد)

ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر اللہ سبحانہٗ کے نزدیک اور کوئی دن نہیں ہیں اور ان دنوں کے اعمال جیسے اللہ کو پیارے ہیں اور کوئی عمل نہیں۔ لہٰذا ان دِنوں میں لا إلہ إلا اللہ، اللہ أکبر اور الحمد للہ کثرت سے پڑھنا چاہئے۔

چوتھی حدیث:

عن ابی هریرة قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ما من أیام أحب الی الله ان یتعبد له فیها من عشر ذی الحجة، یعدل صیام كل یوم منها بصیام سنة وقیام كل لیلة منها بقیام لیلة القدر، رواہ الترمذي وابن ماجۃ وقال الترمذي إسنادہ ضعیف

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ کی بندگی باقی ایام کی بندگی سے بہت محبوب ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔ اگرچہ اس حدیث کو امام ترمذی نے ضعیف کہا ہے۔
منقول از : ماہنامہ محدث
 

haseeb123121

مبتدی
شمولیت
اگست 30، 2015
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
2
عشرۃ ذی الحجۃ۔۔۔۔ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ

یوں تو اللہ ذوالجلال والاکرام کی رحمت کی بارش ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں جب اللہ ارحم الراحمین کے رحم و کرم کے سمندر سے دیا سیراب نہ ہوتی ہو، مگر بعض ایام، بعض عشرے اور بعض ماہ ایسی خصوصیتیں رکھتے ہیں جو دوسرے دِنوں میں موجود نہیں۔

منجملہ ان کے عشرۂ ذی الحجہ ہے اس میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے بحرِ رحمت کی امواج میں بے انتہا تلاطم پیدا ہو جاتا ہے اور رحمت کی فراوانی خشک وادیوں کو سیراب اور مردہ بیابانوں کو زندہ کر دیتی ہے۔ قارئین کے فائدہ کے لئے قرآن و حدیث سے کچھ عرض کرتا ہوں۔ ممکن ہے کوئی تشنۂ ثواب اس سے فائدہ اُٹھائے اور میرے لئے باعثِ اجر و ثواب بن جائے۔

یہ وہ عشرہ ہے جس کی بزرگی اور فضیلت قرآن اور حدیث سےثابت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی قسم کھائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:۔

﴿وَالفَجرِ‌ ﴿١﴾ وَلَيالٍ عَشرٍ‌ ﴿٢﴾... سورة الفجر

قسم ہے صبح (یوم النحر) کی اور (ذی الحجہ) دس راتوں کی۔

جس چیز کی قسم کھائی جائے وہ مکرم و معظم ہوتی ہے۔ تو عشرہ ذی الحجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مکرم و معظم ہوا۔ لہٰذ ااس میں اللہ تعالیٰ کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونا چاہئے، جیسا کہ ارشاد ہے:

﴿وَيَذكُرُ‌وا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ...﴿٢٨... سورة الالحج

یعنی یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام معلوم دنوں میں۔

معلوم دنوں سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے جیسا کہ بخاری میں ابن عباسؓ سے مروی ہے۔
پس قرآن مجید سے اس عشرہ کی عظمت اور بزرگی ثابت ہوئی اور اس میں کثرتِ ذکر و عبادت کی ترغیب بھی ثابت ہوئی۔
اور فریضہ حج جو ارکانِ خمسہ میں داخل ہے اور بے انتہائ محاسن و فضائل کا حامل ہے۔ یہ بھی اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ بھی اس کی فضیلت پر دال ہے۔
اور قربانی جو حب خلیلؑ کی یادگار اور خالق پر مخلوق کے ایثار اور جاں فشانی کی بے مثال دلیل ہے۔ اسی عشرہ میں کی جاتی ہے۔ یہ بھی اس عشرہ کی فضیلت کی دلیل ہے۔

عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت احادیث سے

پہلی حدیث:۔
بخاری شریف میں ہے:
عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم ما من أیام ۔۔۔۔ العمل الصالح فیهن أحب الی الله ۔۔۔۔ من هذہ الأیام العشرة، قالوا: یا رسول الله ولا الجهاد في سبیل اللہ؟ قال: ولا الجهاد في سبیل الله إلا رجل خرج بنفسه وما له فلم یرجع من ذلك بشيء (رواہ البخاری)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان دس دنوں کے اعمال صالحہ جتنے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں اتنے اور دِنوں کے نہیں یعنی ان دنوں کے اعمال نماز روزہ، تسبیح، تہلیل، تکبیر اور صدقہ خیرات وغیرہ اللہ عزوجل کو بہت ہی محبوب ہیں لہٰذا ان دنوں میں بندگی و عبادت میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔

صحابہ نے عرض کیا کہ جہاد بھی ان دنوں کے اعمال صالحہ کے برابر نہیں ہوتا؟ فرمایا: جہاد بھی برابر نہیں ہو سکتا۔ ہاں وہ مجاہد جو جان مال لے کر جہاد کے لئے نکلے اور پھر کوئی چیز واپس نہ لائے یعنی خود بھی شہید ہو جائے اور مال بھی خرچ ہو جائے۔ ایسا جہاد ان دِنوں کے اعمال صالحہ کے برابر ہو سکتا ہے۔

اس صحیح حدیث میں اس عشرہ کی کتنی بزرگی اور عظمت ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ جو بندہ کی ایک ایک نیکی کو اتنا محبوب رکھتا ہے کہ ایک ایک نیکی پر اس کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ ہزاروں گا تک ثواب دیتا ہے۔ اس عشرہ کی نیکی کو بہت محبوب رکھتا ہے۔ یہ بحرِ رحمت کی موجیں ہیں جو عاجز بندہ کو اسکے بحرِ رحمت س خطِ وافر لینے کے لئے پکار رہی ہیں۔ کاش کہ انسان ایسے وقتوں کی قدر کرے اور کمربستہ ہو کر کچھ کما لے۔ خوش قسمت ہی وہ لوگ جو ایسے وقتوں میں بحرِ رحمت میں غوط لگاتے ہیں۔

دوسری حدیث:
عن ابن عمر قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ما من أیام أعظم عند الله ولا العمل فیهن أحب الی الله عزوجل من هذہ الأیام یعنی من العشر

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دِس دنوں سے بزرگ و برتر اور کوئی دن نہیں ہیں نہ ان دنوں کے عمل کے برابر کسی اور دنوں کا عمل اللہ کو محبوب ہے۔

تیسری حدیث:
عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی الله علیه وسلم ما من أیام أعظم عند الله سبحانه ولا أحب إلیه العمل فیهن من هذه الأیام العشر فأکثروا فیهن من التهلیل والتکبیر والتحمید (رواہ احمد)

ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر اللہ سبحانہٗ کے نزدیک اور کوئی دن نہیں ہیں اور ان دنوں کے اعمال جیسے اللہ کو پیارے ہیں اور کوئی عمل نہیں۔ لہٰذا ان دِنوں میں لا إلہ إلا اللہ، اللہ أکبر اور الحمد للہ کثرت سے پڑھنا چاہئے۔

چوتھی حدیث:

عن ابی هریرة قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ما من أیام أحب الی الله ان یتعبد له فیها من عشر ذی الحجة، یعدل صیام كل یوم منها بصیام سنة وقیام كل لیلة منها بقیام لیلة القدر، رواہ الترمذي وابن ماجۃ وقال الترمذي إسنادہ ضعیف

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ کی بندگی باقی ایام کی بندگی سے بہت محبوب ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔ اگرچہ اس حدیث کو امام ترمذی نے ضعیف کہا ہے۔
منقول از : ماہنامہ محدث
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اللہ کریم نے اہل اسلام کیلئے سال میں کچھ مخصوص بابرکت اوقات و احوال مقرر فرمائے ہیں
جن میں تھوڑی سی محنت اور عمل سے بے شمار اجر و ثواب سمیٹا جاسکتا ہے ،
ایسے مبارک اوقات میں ذوالحجہ کے دس دن بھی شامل ہیں جن کی فضیلت قرآنِ کریم اور احادیث میں وارد ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَٱلْفَجْرِ‌ ﴿١﴾ وَلَيَالٍ عَشْرٍ‌ۢ﴿٢﴾...سورة الفجر
''قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔''

امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں ۔
اور اِرشادِ ربانی ہے:وَيَذْكُرُ‌وا ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْلُومَـٰتٍ...﴿٢٨﴾...سورة الحج
'' ا ن معلوم دِنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں ۔''

ابن عباسؓ کا قول ہے: ''أیام معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن مراد ہیں ۔''
امام بخاری رحمة اللہ علیہ رحمة اللہ علیہ اپنی صحیح میں ابن عباسؓ سے روایت لائے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
(ما العمل في أیام أفضل من ھذہ) قالوا: ولا الجهاد؟ قال: (ولا الجهاد إلا رجل خرج یخاطر بنفسه وماله فلم یرجع بشيء) صحیح بخاری:969
''(ذوالحجہ) کے دِنوں میں کئے گئے اعمال سے کوئی عمل افضل نہیں ۔صحابہؓ نے عرض کی: جہادبھی نہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: جہاد بھی نہیں ، مگر وہ شخص جواپنی جان اور مال لے کر اللہ کے رستے میں نکلا اور کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا۔''

ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ما من أیام أعظم عند اﷲ ولا أحب إلیه العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر فأکثروا فیھن من التھلیل والتکبیر والتحمید(i)) مسند احمد: 2؍75، مسند ابو عوانہ
''اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں سے زیادہ کوئی دن برتر نہیں اور نہ ہی ان ایام میں کئے گئے اعمال سے کوئی عمل زیادہ پسندیدہ ہے۔ پس ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اللہ کی تہلیل،کبریائی اور تعریف کرو۔''

مشہور جلیل القدر تابعی سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ کے متعلق آتا ہے کہ جب ذوالحجہ کے دس دن شروع ہوتے تو آپ رحمة اللہ علیہ اعمال میں اپنی طاقت سے بڑھ کر محنت کرتے اور آپ رحمة اللہ علیہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ ''اس عشرے کی راتوں میں اپنے چراغوں کو بجھنے نہ دو۔'' (یعنی قراء ت اور قیام کا اہتمام کرو)
ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
والذي یظھر أن السبب في امتیاز عشر ذي الحجة لمکان اجتماع أمھات العبادة فیه،وھي الصلاة والصیام والصدقة والحج،ولا یتأتي ذلي في غیرہ 4فتح الباری:2؍460
' 'عشرئہ ذوالحجہ کی برتری کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نماز، روزہ، زکوٰة اور حج جیسی اساسی عبادات جمع ہوچکی ہیں جبکہ دوسرے دنوں میں ایسا نہیں ۔''

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ
وسئل: (*)
عن عشر ذي الحجة والعشر الأواخر من رمضان. أيهما أفضل؟
فأجاب:
أيام عشر ذي الحجة أفضل من أيام العشر من رمضان والليالي العشر الأواخر من رمضان أفضل من ليالي عشر ذي الحجة.

یعنی شیخ الاسلام امام ابن تینیہ سے پوچھا گیا کہ ذوالحجہ کے دس دن افضل ہیں یا رمضان المبارک کے آخری دس دن؟ تو آپ رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا:''
ذوالحجہ کے دس دن رمضان المبارک کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری دنوں کی راتیں ذوالحجہ کے عشرہ کی راتوں سے افضل ہیں ۔'' (مجموع فتاویٰ:6؍100 )

مسلمان بھائیو ! اپنے وقت کو کارآمد بنانے اور قیمتی گھڑیوں کے فوائد سمیٹنے میں جلدی کیجئے تاکہ آپ کی باقی ماندہ عمر کامول پڑ جائے اور اللہ سے آئندہ وقت ضائع کرنے کی معافی مانگئے،بلاشبہ ان مبارک ایام میں نیک اعمال کی چاہت میں رہنا بھلائی کی طرف پیش رفت ہے اور تقویٰ پردلالت کرتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ذَ‌ٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَـٰٓئِرَ‌ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾...سورة الحج
جو اللہ کی نشانیوں کی عزت و تکریم کرے تو یہ اس کے دلی تقویٰ کی وجہ سے ہے۔''

اِن ایام میں مستحب افعال
ایک مسلمان کو یہی زیبا ہے کہ وہ اس عام بھلائی کے موسموں کا سچی توبہ کے ساتھ استقبال اور خیرمقدم کرے۔کیونکہ دنیاو آخرت میں اگر کوئی خیر سے محروم ہوتا ہے تو صرف اپنے گناہوں کی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَآ أَصَـٰبَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَن كَثِيرٍ‌ۢ ﴿٣٠﴾...سورة الشوری
''تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کابدلہ ہے، وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرمالیتاـہے۔ ''

گناہ دِلوں پرقدیم اثرات چھوڑ جاتے ہیں ۔ جس طرح زہرجسموں کو نقصان پہنچاتا ہے اور جسم سے ان کانکالنا ضروری ہوجاتا ہے بعینہٖ گناہ بھی دلوں پر مکمل طور پر اثر چھوڑتے ہیں ، اسی طرح سیاہ کاریاں الگ کھیتی اُگا دیتی ہیں اورگناہوں کی دوسری آلائشوں کو بھی دعوت دیتی ہیں ، جس سے ان کی نمو ہوتی رہتی ہے حتیٰ کہ ان آلائشوں کو انسان کے لئے دلوں سے نکالنا یا علیحدہ کرنا انتہائی دشوار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا مسلمانو!سچی توبہ کرتے ہوئے،سیاہ کاریوں اورگناہوں سے دامن بچاتے ہوئے اللہ سے بہ اصرا ربخشش طلبی کے ساتھ ان ایام کا استقبال کیجئے اور اللہ عزوجل کے ذکر پر ہمیشگی اختیار کرلیں ۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اچانک کب اس کو موت کا بلاوا آجائے اور وہ اس دنیاے فانی سے کوچ کرجائے۔ اَب ہم ان چند نیک اعمال کا ذکر کرتے ہیں :

عام نیک اعمال کثرت کے ساتھ بجا لانا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ما من أیام أعظم عند اﷲ ولا أحب إلیه العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر۔۔۔)6
اور وہ نیک اعمال جن کے بارے میں عام طور پر لوگ غفلت کاشکار رہتے ہیں ،ان میں قرآن کی تلاوت، بہت زیادہ صدقہ کرنا، مساکین پر خرچ کرنا، أمربالمعروف ونھی عن المنکر پر عمل کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عشرہ ذوالحجہ كي فضيلت


يسأل عن فضل العشر من ذي الحجة
هل للأيام العشر الأوائل من شهر ذي الحجة فضل على غيرها من سائر الأيام ؟ وما هي الأعمال الصالحة التي يستحب الإكثار منها في هذه العشر ؟.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الحمد لله

من مواسم الطّاعة العظيمة العشر الأول من ذي الحجة ، التي فضّلها الله تعالى على سائر أيام العام ؛ فعن ابن عباس رضي الله عنهما ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله منه في هذه الأيام العشر . قالوا ولا الجهاد في سبيل الله !! قال : ولا الجهاد في سبيل الله ، إلا رجل خرج بنفسه وماله ولم يرجع من ذلك بشيء ) أخرجه البخاري 2/457 .

وعنه أيضا ،ً رضي الله عنهما ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( ما من عمل أزكى عند الله عز وجل ، ولا أعظم أجراً من خير يعمله في عشر الأضحى . قيل : ولا الجهاد في سبيل الله ؟ قال : ولا الجهاد في سبيل الله عز وجل ، إلا رجل خرج بنفسه وماله ، فلم يرجع من ذلك بشيء ) رواه الدارمي 1/357 وإسناده حسن كما في الإرواء 3/398 .

فهذه النصوص وغيرها تدلّ على أنّ هذه العشر أفضل من سائر أيام السنة من غير استثناء شيء منها ، حتى العشر الأواخر من رمضان . ولكنّ ليالي العشر الأواخر من رمضان أفضل من ليالي عشر ذي الحجة ، لاشتمالها على ليلة القدر ، التي هي خير من ألف شهر . انظر تفسير ابن كثير 5/412

فينبغي على المسلم أن يستفتح هذه العشر بتوبة نصوح إلى الله ، عز وجل ، ثم يستكثر من الأعمال الصالحة ، عموما ، ثم تتأكد عنايته بالأعمال التالية :

1- الصيام

فيسن للمسلم أن يصوم تسع ذي الحجة . لأن النبي صلى الله عليه وسلم حث على العمل الصالح في أيام العشر ، والصيام من أفضل الأعمال . وقد اصطفاه الله تعالى لنفسه كما في الحديث القدسي : " قال الله : كل عمل بني آدم له إلا الصيام فإنه لي وأنا أجزي به " أخرجه البخاري 1805

وقد كان النبي صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة . فعن هنيدة بن خالد عن امرأته عن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم قالت : كان النبي صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة ويوم عاشوراء وثلاثة أيام من كل شهر . أول اثنين من الشهر وخميسين " أخرجه النسائي 4/205 وأبو داود وصححه الألباني في صحيح أبي داود 2/462 .

2- الإكثار من التحميد والتهليل والتكبير :

فيسن التكبير والتحميد والتهليل والتسبيح أيام العشر . والجهر بذلك في المساجد والمنازل والطرقات وكل موضع يجوز فيه ذكر الله إظهاراً للعبادة ، وإعلاناً بتعظيم الله تعالى .

ويجهر به الرجال وتخفيه المرأة

قال الله تعالى : ( ليشهدوا منافع لهم ويذكروا اسم الله في أيام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الأنعام ) الحج/28 . والجمهور على أن الأيام المعلومات هي أيام العشر لما ورد عن ابن عباس رضي الله عنهما : ( الأيام المعلومات : أيام العشر )

وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( ما من أيام أعظم عند الله ولا أحب إليه العمل فيهن من هذه الأيام العشر فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير والتحميد ) أخرجه احمد 7/224 وصحّح إسناده أحمد شاكر .

وصفة التكبير : الله أكبر ، الله أكبر لا إله إلا الله ، والله أكبر ولله الحمد ، وهناك صفات أخرى .

والتكبير في هذا الزمان صار من السنن المهجورة ولاسيما في أول العشر فلا تكاد تسمعه إلا من القليل ، فينبغي الجهر به إحياء للسنة وتذكيراً للغافلين ، وقد ثبت أن ابن عمر وأبا هريرة رضي الله عنهما كانا يخرجان إلى السوق أيام العشر يكبران ويكبر الناس بتكبيرهما ، والمراد أن الناس يتذكرون التكبير فيكبر كل واحد بمفرده وليس المراد التكبير الجماعي بصوت واحد فإن هذا غير مشروع .

إن إحياء ما اندثر من السنن أو كاد فيه ثواب عظيم دل عليه قوله صلى الله عليه وسلم : ( من أحيا سنة من سنتي قد أميتت بعدي فإن له من الأجر مثل من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئاً ) أخرجه الترمذي 7/443 وهو حديث حسن لشواهده .

3- أداء الحج والعمرة : إن من أفضل ما يعمل في هذه العشر حج بيت الله الحرام ، فمن وفقه الله تعالى لحج بيته وقام بأداء نسكه على الوجه المطلوب فله نصيب - إن شاء الله - من قول رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( الحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة ).

4- الأضحية :

ومن الأعمال الصالحة في هذا العشر التقرب إلى الله تعالى بذبح الأضاحي واستسمانها واستحسانها وبذل المال في سبيل الله تعالى .

فلنبادر باغتنام تلك الأيام الفاضلة ، قبل أن يندم المفرّط على ما فعل ، وقبل أن يسأل الرّجعة فلا يُجاب إلى ما سأل .

الإسلام سؤال وجواب


ترجمہ :
عشرہ ذوالحجہ كي فضيلت كے متعلق سوال
كيا ماہ ذوالحجہ كے پہلے دس دنوں كو دوسرے سب ايام پر فضيلت حاصل ہے ؟
اور ان دس دنوں ميں كونسے ايسے اعمال صالحہ ہيں جو كثرت سے كرنا مستحب ہيں ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ:

اطاعت وفرمانبردارى كے موسموں ميں سے ماہ ذوالحجہ كے پہلے دس يوم بھي ہيں جنہيں اللہ تعالى نے باقى سب ايام پر فضيلت دى ہے:

سیدنا عبداللہ ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالی کوسب سے زيادہ محبوب ہیں ، صحابہ نے عرض کی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد بھی نہيں !! تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورجھاد فی سبیل اللہ بھی نہيں ، لیکن وہ شخص جواپنا مال اورجان لے کر نکلے اورکچھ بھی واپس نہ لائے " صحیح بخاری ( 2 / 457 )

اور ايك دوسرى حديث ميں ہے ابن عباس رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عشرہ ذی الحجہ میں کیے گئے عمل سے زیادہ پاکیزہ اورزيادہ اجروالا عمل کوئي نہيں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گيا کہ نہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا ؟ تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اورنہ ہی اللہ تعالی کے راستے میں جھاد کرنا " سنن دارمی ( 1 / 357 ) اس کی سند حسن ہے دیکھیں الارواء الغلیل ( 3 / 398 ) ۔

مندرجہ بالا اوراس کے علاوہ دوسری نصوص اس پردلالت کرتی ہیں کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن باقی سال کے سب ایام سے بہتر اورافضل ہيں اوراس میں کسی بھی قسم کا کوئي استثناء نہيں حتی کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی نہيں ، لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی دس راتیں ان ایام سے بہتر اورافضل ہیں کیونکہ ان میں لیلۃ القدر شامل ہے ، اورلیلۃ القدر ایک ہزار راتوں سے افضل ہے ، تواس طرح سب دلائل میں جمع ہوتا ہے ۔دیکھیں : تفسیر ابن کثیر ( 5 / 412 ) ۔

لھذا مسلمان شخص كو چاہئے كہ وہ ان دس دنوں كي ابتدا اللہ تعالى كے سامنے سچى اور پكى توبہ كے ساتھ كرے اور پھر عمومى طور پر كثرت سے اعمال صالحہ كرے اور پھر خاص كر مندرجہ ذيل اعمال كا خيال كرتے ہوئے انہيں انجام دے:

1 - روزے ۔

مسلمان شخص کےلیے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھنا سنت ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس ایام میں اعمال صالحہ کرنے پرابھارا ہے اور روزہ رکھنا اعمال صالحہ میں سے سب سے افضل اوراعلی کام ہے ، اوراللہ تعالی نے روزہ اپنے لیے چنا ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

( ابن آدم کے سارے کے سارے اعمال اس کے اپنے لیے ہیں لیکن روزہ نہيں کیونکہ وہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا اجروثواب دونگا ) ، صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1805 ) ۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نو ذوالحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے ، ھنیدہ بن خالد اپنی بیوی سے اوروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ نے بیان کیا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو ذوالحجہ اوریوم عاشوراء اورہر ماہ تین روزے رکھا کرتے تھے ، مہینہ کے پہلے سوموار اوردو جمعراتوں کے ۔

سنن نسائي ( 4 / 205 ) سنن ابوداود ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 2 / 462 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

2 - تکبیریں، الحمد اللہ اور سبحان اللہ كثرت سے کہنا :

ان دس ایام میں مساجد ، راستوں اورگھروں اورہر جگہ جہاں اللہ تعالی کا ذکر کرنا جائز ہے وہیں اونچی آواز سے تکبیریں اورلاالہ الااللہ ، اورالحمدللہ کہنا چاہیے تا کہ اللہ تعالی کی عبادت کا اظہار اوراللہ تعالی کی تعظیم کا اعلان ہو ۔ مرد تواونچي آواز سے کہيں گے لیکن عورتیں پست آواز میں ہی کہيں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اپنے فائدے حاصل کرنے کوآجائيں ، اوران مقرردنوں میں ان چوپایوں پراللہ تعالی کانام یاد کریں جوپالتوہیں } الحج ( 28 ) ۔

جمہورعلماء کرام کا کہنا ہے کہ معلوم دنوں سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں کیونکہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ایام معلومات سے مراد دس دن ہیں ۔

عبد اللہ بن عمر رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى كے ہاں ان دس دنوں سے عظيم كوئى دن نہيں اور ان دس ايام ميں كئے جانے والے اعمال سے زيادہ كوئي عمل محبوب نہيں، لھذا لاالہ الا اللہ، اور سبحان اللہ ، اور تكبيريں كثرت سے پڑھا كرو" اسے امام احمد نے روايت كيا ہے اور اس كي سند كو احمد شاكر رحمہ اللہ نے صحيح قرار ديا ہے: ديكھيں: مسند احمد ( 7/ 224 ) .

اورتکبیر کے الفاظ یہ ہیں :

الله أكبر ، الله أكبر لا إله إلا الله ، والله أكبر ولله الحمد

اللہ بہت بڑاہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ تعالی کےعلاوہ کوئي معبود برحق نہيں ، اوراللہ بہت بڑا ہے ، اوراللہ تعالی ہی کی تعریفات ہیں ۔

اس کےعلاوہ بھی تکبیریں ہیں ۔

یہاں ایک بات کہنا چاہیں گے کہ موجود دورمیں تکبریں کہنے کی سنت کوترک کیا جاچکا ہے اورخاص کران دس دنوں کی ابتداء میں توسننے میں نہیں آتی کسی نادر شخص سے سننے میں آئيں گیں ، اس لیے ضروری ہے کہ تکبیروں کواونچی آواز میں کہا جائے تاکہ سنت زندہ ہوسکے اورغافل لوگوں کوبھی اس سے یاد دہانی ہو۔

ابن عمر اور ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہما کے بارہ میں ثابت ہے کہ وہ دونوں ان دس ایام میں بازاروں میں نکل کر اونچی آواز کے ساتھ تکبیریں کہا کرتے تھے اورلوگ بھی ان کی تکبیروں کی وجہ سے تکبیریں کہا کرتے تھے ، اس کا مقصد اورمراد یہ ہے کہ لوگوں کوتکبریں کہنا یاد آئيں اور ہرایک اپنی جگہ پراکیلے ہی تکبریں کہنا شروع کردے ، اس سے یہ مراد نہيں کہ سب لوگ اکٹھے ہوکر بیک آواز تکبیریں کہيں کیونکہ ایسا کرنا مشروع نہيں ہے

اورجس سنت کوچھوڑا جاچکا ہویا پھر وہ تقریبا چھوڑی جارہی ہو تواس پرعمل کرنا بہت ہی عظیم اجروثواب پایا جاتا ہے کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی اس پردلالت کرتا ہے :

( جس نے بھی میری مرد سنت کوزندہ کیا اسے اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب دیا جائے گا اوران دونوں کے اجروثواب میں کچھ کمی نہيں ہوگي ) اسے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے : دیکھیں سنن ترمذي ( 7 / 443 ) یہ حدیث اپنے شواھد کے ساتھ حسن درجہ تک پہنچتی ہے ۔

3 - حج وعمرہ کی ادائيگي :

ان دس دنوں میں جوسب سے افضل اوراعلی کام ہے وہ بیت اللہ کاحج وعمرہ کرنا ہے ، لھذا جسے بھی اللہ تعالی اسے اپنے گھرکا حج کرنے کی توفیق عطا فرمائے اوراس نے مطلوبہ طریقہ سے حج کے اعمال ادا کیے توان شاء اللہ اسے بھی اس کا حصہ ملے گا جونبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے :

( حج مبرور کا جنت کے علاوہ کوئي اجروثواب نہيں ) ۔

4 - قربانی :

عشرہ ذی الحجہ کے اعمال صالحہ میں قربانی کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا بھی شامل ہے کہ قربانی کی جائے اوراللہ تعالی کےراستے میں مال خرچ کیا جائے ۔

لھذا ہميں ان فضيلت والے ايام سے فائدہ اٹھانا چاہئے يہ ہمارے لئے بہترين اور سنہري موقع ہے، قبل اس كے كہ ہم اپنى كوتاہى پر نادم ہوں، اور قبل اس كے كہ ہم واپس دنيا ميں آنے كا سوال كريں ليكن اس كي شنوائى نہ ہو.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اِرشادِ ربانی ہے:وَيَذْكُرُ‌وا ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْلُومَـٰتٍ...﴿٢٨﴾...سورة الحج
'' ا ن معلوم دِنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں ۔''

اس آیت کی تفسیر میں امام ابن ِکثیرؒ لکھتے ہیں :
قوله: {ويذكروا اسم الله في أيام معلومات على ما رزقهم من بهيمة الأنعام}
قال شعبة [وهشيم] عن [أبي بشر عن سعيد] عن ابن عباس: الأيام المعلومات: أيام العشر، وعلقه البخاري عنه بصيغة الجزم به . ويروى مثله عن أبي موسى الأشعري، ومجاهد، وعطاء، وسعيد بن جبير، والحسن، وقتادة، والضحاك، وعطاء الخراساني، وإبراهيم النخعي. وهو مذهب الشافعي، والمشهور عن أحمد بن حنبل "
یعنی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت میں "معلوم ایام " سے مراد عشرہ ذوالحجہ دس دن ہیں ،امام بخاری ؒ نے اسے تعلیقاً بالجزم بیان کیا ہے ، اور اسی طرح سیدنا ابو موسی اشعری ، امام مجاہد ،امام عطا بن ابی رباح ،سعید بن جبیرؒ ،امام حسن بصریؒ قتادہؒ ،ضحاکؒ ،عطا الخراسانیؒ ،ابراہیم نخعیؒ سے مروی ہے ،
امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا بھی یہی قول ہے "
 
Top