• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عشر کے مسائل

شمولیت
اپریل 10، 2018
پیغامات
62
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
43
السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ
گندم کا عشر ٹھیکہ نکالنے کے بعد یا بمع ٹھیکہ ادا کرنا چاہیے؟براہ کرم دلائل کے ساتھ راہنمائی فرمائیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ
گندم کا عشر ٹھیکہ نکالنے کے بعد یا بمع ٹھیکہ ادا کرنا چاہیے؟براہ کرم دلائل کے ساتھ راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
على من تكون زكاة الأرض المستأجرة للزراعة ؟
رجل يستأجر أرضاً زراعية ، هل الزكاة تستحق على المالك أم على المستأجر ؟ وإذا كانت على المستأجر فهل الزكاة على المحصول بالكامل أم على المتبقي من المحصول بعد دفع الإيجار ؟ .
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد لله

أولاً :

مالك الأرض إن زرعها بنفسه : فزكاة ما يخرج منها عليه ، وإن منحها وأعارها لغيره ليزرعها : فزكاة ما يخرج منها على الزارع .

واختلف أهل العلم في الأرض المستأجرة هل تكون الزكاة على المالك أم على المستأجر الذي يزرعها ، فذهب الجمهور إلى وجوبها على المزارع ، وذهب الحنفية إلى وجوبها على المالك.

قال ابن حزم :
ولا زكاة في تمر , ولا بر , ولا شعير : حتى يبلغ ما يصيبه المرء الواحد من الصنف الواحد منها خمسة أوسق ; والوسق ستون صاعا ; والصاع أربعة أمداد بمد النبي صلى الله عليه وسلم . والمد من رطل ونصف إلى رطل وربع على قدر رزانة المد وخفته , وسواء زرعه في أرض له أو في أرض لغيره بغصب أو بمعاملة جائزة , أو غير جائزة , إذا كان النذر غير مغصوب , سواء أرض خراج كانت أو أرض عشر .

وهذا قول جمهور الناس , وبه يقول : مالك , والشافعي , وأحمد , وأبو سليمان .

وقال أبو حنيفة : يزكى ما قل من ذلك وما كثر , فإن كان في أرض خراج فلا زكاة فيما أصيب فيها , فإن كانت الأرض مستأجرة فالزكاة على رب الأرض لا على الزارع . " المحلى " ( 4 / 47 ) .

وقد ردَّ الأئمة على قول الحنفية وبيَّنوا أن الزكاة حق الزرع وليس حق الأرض كما يقول الحنفية .

قال ابن قدامة المقدسي :
ومن استأجر أرضا فزرعها , فالعشر عليه دون مالك الأرض ، وبهذا قال مالك , والثوري , وشريك , وابن المبارك , والشافعي , وابن المنذر .
وقال أبو حنيفة : هو على مالك الأرض ; لأنه من مؤنتها , فأشبه الخراج .

ولنا : أنه واجب في الزرع , فكان على مالكه , كزكاة القيمة فيما إذا أعده للتجارة , وكعشر زرعه في ملكه , ولا يصح قولهم : إنه من مؤنة الأرض ؛ لأنه لو كان من مؤنتها لوجب فيها وإن لم تزرع , كالخراج , ولوجب على الذمي كالخراج , ولتقدر بقدر الأرض لا بقدر الزرع , ولوجب صرفه إلى مصارف الفيء دون مصرف الزكاة ." المغني " ( 2 / 313 ، 314 ) .

وهو ما رجحه الشيخ ابن عثيمين في " الشرح الممتع " ( 6 / 88 ) .

ثانياً :
وبما أن الزكاة حق الزرع : فعليه أن يخرج زكاة زرعه من كامل المحصول إذا بلغ النصاب ، وهو خمسة أوسق ، والوسَق : ستون صاعاً ، وهو ما يعادل 657 كيلو .

وليس للمزكي أن يخصم أجرة الأرض ولو كان بعد بيع الزرع - جهلاً أو خطأً أو تأولاً - قبل أداء الزكاة .
والصحيح من أقوال أهل العلم هو عدم خصم أية تكاليف ينفقها المزكي على أرضه .

قال ابن حزم :
ولا يجوز أن يعد الذي له الزرع أو التمر ما أنفق في حرث أو حصاد , أو جمع , أو درس , أو تزبيل أو جداد أو حفر أو غير ذلك - : فيسقطه من الزكاة وسواء تداين في ذلك أو لم يتداين , أتت النفقة على جميع قيمة الزرع أو الثمر أو لم تأت , وهذا مكان قد اختلف السلف فيه ... – وذكر الخلاف ثم قال : -

قال أبو محمد : أوجب رسول الله صلى الله عليه وسلم في التمر والبر والشعير : الزكاة جملة إذا بلغ الصنف منها خمسة أوسق فصاعدا ; ولم يسقط الزكاة عن ذلك بنفقة الزارع وصاحب النخل ; فلا يجوز إسقاط حق أوجبه الله تعالى بغير نص قرآن ولا سنة ثابتة ، وهذا قول مالك , والشافعي , وأبي حنيفة , وأصحابنا .
" المحلى " ( 4 / 66 ) .

والله أعلم .

الإسلام سؤال وجواب

_________________________
ترجمہ :
سوال : زراعت كے ليے اجرت پر حاصل كردہ اراضى كى زكاۃ كس پر ہو گى ؟
ايك شخص نے زراعتى زمين كرايہ پر حاصل كى، تو كيا اس كى زكاۃ مالك كے ذمہ ہے يا كہ كرايہ دار پر ؟
اور اگر يہ زكاۃ كرايہ دار كے ذمہ ہے تو كيا وہ زمين سے حاصل ہونے والى مكمل آمدنى پر ہو گى، يا كہ كرايہ ادا كر كے باقى مانندہ آمدن پر ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب
الحمد للہ :

اگر تو زمين كا مالك خود زرعى زمين كاشت كرتا ہے، تو اس سے حاصل ہونے والى آمدن كى زكاۃ بھى مالك كے ذمہ ہے، اور اگر زمين كا مالك زمين كسى دوسرے كو دے يا عاريتا دے كہ وہ اسے كاشت كر لے تو اس سے حاصل ہونے والى آمدن كى زكاۃ كاشت كرنے و الے پر ہو گى.

اہل علم نے كرايہ پر حاصل كردہ زمين كى زكاۃ ميں اختلاف كيا ہے، كہ آيا اس كى زمين مالك كے ذمہ ہے يا كرايہ پر حاصل كرنے والے كاشت كار پر جمہور اہل علم كے ہاں اس كى زكاۃ كاشت كار كے ذمہ ہے، ليكن احناف كے ہاں اس كى زكاۃ مالك كے ذمہ واجب ہے.

ابن حزم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

كھجور، گندم اور جو ميں اس وقت زكاۃ نہيں جب تك كہ وہ ايك فرد كے پاس اور ايك ہى صنف پانچ وسق تك نہ پہنچ جائے، اور وسق ساٹھ صاع كا ہوتا ہے، اور ايك صاع چار مد كا جو كہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا مد جتنا اور ايك مد ڈيڑھ سے سوا رطل مد كے چھوٹا بڑا ہونے كے درميان ہوتا ہے.

چاہے وہ اپنى زمين ميں اس نے كاشت كى ہو يا كسى دوسرے كى زمين ميں زمين غصب كر كے، يا جائز اور ناجائز معاملات كر كے، جب نذ غصب كردہ نہ ہو چاہے وہ زمين خراج والى ہو يا عشر والى.

اور يہ قول جمہور لوگوں كا ہے، اور مالك، شافعى، احمد، اور ابو سفيان رحمہم اللہ نے يہى كہا ہے.

اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

كم ہو يا زيادہ اس كى زكاۃ ادا كرے گا، اور اگر وہ خراج والى زمين ميں ہو تو اس ميں زكاۃ نہيں، اور اگر زمين كرايہ پر ہو تو اس كى زكاۃ زمين كے مالك پر ہے نہ كہ كاشت كار پر.

ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 4 / 47 ).

احناف كے قول كو آئمہ كرام نے رد كرتے ہوئے بيان كيا ہے كہ زكاۃ كى ادائيگى كاشت كار كا حق ہے نہ كہ زمين كا حق جيسا كہ احناف كہتے ہيں.

ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور جس شخص نے زمين كرايہ پر حاصل كر كے كاشت كى تو عشر اس پر ہو گى نہ كہ مالك پر، امام مالك، ثورى، اور شريك، اور ابن مبارك، شافعى اورابن منذر رحمہم اللہ كا يہى قول ہے.

اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ زمين كے مالك پر ہے، كيونكہ يہ اس كے بوجھ ميں سے ہے، لہذا خراج كے مشابہ ہے.

اور ہمارے ہاں يہ ہے كہ: يہ فصل ميں ہے، لہذا فصل كے مالك پر ہو گى جيسے كہ تجارت كے ليے تيار كردہ چيز كى قيمت كى زكاۃ كى طرح، اور اپنى ملكيتى زمين كى فصل كى عشر كى طرح.

اور ان كا يہ كہنا صحيح نہيں: كہ يہ زمين كے بوجھ ميں سے ہے؛ كيونكہ اگر يہ زمين بوجھ اور حق ميں سے ہوتى تو پھر خراج كى طرح كاشت كے بغير بھى واجب ہوتى، اور خراج كى طرح ذمى پر بھى واجب ہوتى، اور پھر اس كا اندازہ زمين كے حساب سے لگايا جاتا نہ كہ فصل كے حساب سے، اور اسے فئى كے مصاريف ميں صرف كرنا واجب ہوتا، نہ كہ زكاۃ كے مصاريف ميں.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 2 / 313 - 314 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے ہى راجح قرار ديا ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 88 ).

دوم:
اور اس ليے كہ زكاۃ كى ادائيگى كاشت كار كا حق ہے لہذا جب نصاب پورا ہو جائے يعنى پانچ وسق ہو اور ايك وسق ساٹھ صاع ہے، اور نصاب ( 657 ) كلو بنتا ہے تو اسے حاصل ہونے والى سارى آمدنى سے زكاۃ نكالنا ہو گى.

زكاۃ ادا كرنے والے كو يہ حق نہيں كہ وہ اس ميں سے زمين كا كرايہ كم كرے چاہے وہ فصل فروخت كرنے كے بعد ـ جہالت يا غلطى يا تاويل كے ساتھ ـ اور زكاۃ كى ادائيگى سے قبل ہو.

اہل علم كے اقوال ميں سے صحيح قول يہ ہے كہ زمين پر آنے والے خرچ ميں سے كوئى بھى خرچ فصل سے نہيں نكال سكتا.

ابن حزم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
كاشت كار كے ليے جائز نہيں كہ وہ كاشت كرنے يا كٹائى كرنے، يا اسے گاہنے، يا كھجور توڑنے يا كنواں كھودنے كا خرچ شامل كر كے اسے زكاۃ سے نكال دے، چاہے اس نے اس خرچ كے ليے قرض ليا ہو يا قرض نہ ليا ہو، يہ خرچ فصل كى سارى قيمت يا پھل پر آيا ہو يا نہ، اور اس جگہ سلف كا اختلاف ہے .... اس اختلاف كو ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:

ابو محمد ابن حزمؒ رحمہ اللہ كہتے ہيں: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كھجور گندم، اور جو ميں بالجملہ زكاۃ واجب قرار دى كہ جب وہ نصاب پانچ وسق يا اس سے زيادہ ہو جائے تو اس ميں زكاۃ ہے، اور اس ميں سے كاشت كار كا خرچہ اور كھجور كے باغ والے كا خرچ نہيں نكالا اس ليے اللہ تعالى نے جو حق واجب كيا ہے اسے قرآن و سنت كى نص كے بغير ساقط كرنا جائز نہيں ہے، يہ امام مالك، اور امام شافعى اور ابو حنيفہ اور ہمارے اصحاب كا قول ہے.
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 4 / 66 ).

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ٹھیکے کی زمین پر زکوٰۃ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حا فظ والاضلع بہا ولنگر سے حا جی ضیا ء الدین لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کا شتکا ری کےلیے زمین ٹھیکہ پر لیتا ہے پھر اس کی کا شت کا ری پر اخرا جا ت اٹھا تا ہے مثلاً ٹر یکٹر کے ذریعے اسے بو یا جا تا ہے پھر اس پرکھا د سپرے کٹا ئی کی مزدوری اور تھر یشر وغیرہ پر کا فی خرچہ آتا ہے کیا عشر دینے سے پہلے ان اخراجا ت کو پیداوار سے منہا کر لیا جا ئے یا کل پیداوار سے عشر ادا کیا جا ئے ؟ کتا ب و سنت کی رو شنی میں جواب دیں ۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال


وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس جوا ب سے پہلے عشر کی حیثیت اور مقدار نیز پیداوار کا تعین ضروری ہے جس پر عشر وصول کیا جا تا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ما ن ہے : کہ وہ زمین جسے با رش یا قدرتی چشمہ کا پا نی سیراب کر تا ہو یا کسی دریا کے کنا رے ہو نےکی وجہ سے خو د بخود سیرا ب ہو جا تی ہو تو اس کی پیداوار سے دسوا ں حصہ بطو ر عشر لیا جا ئے گا اور وہ زمین جسے کنو ئیں سے پا نی کھینچ کر سیرا ب کیا جا تا ہے تو اس کی پیدا وار سے بیسواں حصہ لیا جا ئے گا ۔ (صحیح بخا ری :زکو ۃ 1483)
اس حد یث میں پیدا وار دینے وا لی زمین کی حیثیت اور اس کی پیداوار پر مقدا ر عشر کو واضح الفا ظ میں بیا ن کر دیا گیا ہے جس کی تشریح آیندہ کی جائے گی لیکن کتنی مقدا ر جنس پر عشر دینا ہو گا وہ ایک دوسر ی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : کہ پا نچ وسق سے کم پیداوار میں زکو ۃ یعنی عشر نہیں ہے ۔(صحیح بخا ری :کتا ب الز کو ۃ1484)
اور واضح رہے کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہو تا ہے گو یا نصا ب جنس 300صاع ہیں جدید اعشا رمی نظا م کے مطا بق صا ع 2کلو 100گرام کا ہو تا ہے اس حسا ب پا نچ وسق کے 630 کلو گرا م ہو تے ہیں بعض اہل علم کے نز دیک ایک صا ع اڑھا ئی کلو کے مسا وی ہو تا ہے لہذا ان کے ہاں پیداوار کا نصا ب 750 کلو گرا م ہے غربا اور مسا کین کی ضرورت کے پیش نظر پیدا وار کا نصا ب 630کلو گرا م مقرر کیا جا نا زیا دہ منا سب معلو م ہو تا ہے اول الذ کر حدیث سے معلو م ہو تا ہے کہ شر یعت نے مقدا ر عشر کےلیے اس کی سیرا بی یعنی پیدا وار لینے کےلیے پا نی کو مدار قرار دیا ہے اگر کھیتی کو سیرا ب کر نے کے لیے پا نی بسہولت دستیاب ہے اس پر کسی قسم کی محنت یا مشقت نہیں اٹھا نا پڑتی تو اس میں پیدا وار کا عشر یعنی دسواں حصہ بطو ر زکو ۃ نکا لنا ہو گا اس کے بر عکس اگر پا نی حاصل کر نے کے لیے محنت و مشقت اٹھا نا پڑتی ہو یا اخرا جا ت بردا شت کر نا پڑیں تو اس میں نصف العشر یعنی بیسوا ں حصہ ہے ہمارے ہا ں عا م طو ر پر زمینو ں کی آبپاشی دو طرح سے کی جا تی ہے ،
(1)نہری پا نی :حکو مت نے اس کے لیے مستقل محکمہ انہار قا ئم کر رکھا ہے اس پر زمیندار کو محنت و مشقت کے علا وہ اخرا جا ت بھی بردا شت کر نا پڑ تے ہیں آبپا شی وغیرہ ادا کر نا ہو تا ہے اس کے با و جود نہر ی پا نی فصلو ں کے لیے کا فی نہیں ہو تا اس کےلیے دوسر ے ذرائع سے ضرورت کو پو را کیا جا تا ہے ۔
(2)ٹیو ب ویل :ٹیو ب ویل لگا نے کےلیے کا فی رقم درکا ر ہو تی ہے جب اس کی تنصیب مکمل ہو جا تی ہے وا پڈا کا رحم و کر م شروع ہو جا تا ہے ما ہ بما ہ کمر تو ڑ اور اعصا ب شکن بجلی کا بل ادا کر نا پڑتا ہے یا پھر گھنٹے کے حساب سے پا نی خرید کر کھیتو ں کو سیرا ب کیا جا تا ہے لہذا زمین سے پیداوار لینے کے لیے ذاتی محنت و مشقت اور ما لی اخرا جا ت کے پیش نظر ہما رے ہا ں پیدا وار پر نصف العشر یعنی بیسوا ں حصہ بطو ر زکو ۃ دینا ہو تا ہے اس کے علا وہ جتنے بھی اخرا جا ت ہیں ان کا تعلق زمین کی سیرا بی یا آب پا شی سے نہیں ہے بلکہ وہ اخرا جا ت زمیندا ر پیدا وار بچا نے یا بڑھا نے کےلیے کر تا ہے مثلاً کھا د سپرے وغیر ہ یا پھر زمیندا راو اپنی محنت و مشقت سے بچنے اور اپنی سہو لت کے پیش نظر کر تا ہے مثلاً بو تے وقت ٹر یکٹر کا استعمال کٹا ئی کے وقت مز دو ر کو لگا نا یا فصل اٹھاتے وقت تھر یشر وغیرہ کا استعما ل مختصر یہ کہ شریعت نے مقدار عشر کےلیے زمین کی سیرابی کو مدار بنا یا ہے اس کے علا وہ جو اخرا جا ت ہیں ان کا تعلق مقدار عشر سے نہیں ہے لہذا جہا ں زمین کی سیرا بی کے لیے قدرتی وسا ئل ہو ں گے وہا ں پیداوار سے عشر (دسوا ں حصہ ) لیا جا ئے گا اور جہا ں زمین سیرا ب کر نے کےلیے قدرتی وسا ئل نہیں بلکہ محنت و مشقت کر نا پڑ یں تو وہا ں نصف العشر یعنی بیسواں حصہ دینا ہو گا ہمارے ہا ں عما طو ر پر پیدا وار کا بیسواں حصہ دیا جا تا ہے پیداوار میں دسواں دینے والی زمینیں بہت کم ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عا م طو ر پر مہا جر ین تجا رت اور انصار زراعت پیشہ تھے وہ لو گ زمین کو خو د کاشت کر تے تھے اور خو د ہی کا ٹتے اور فصل اٹھا تے تھے البتہ زمینو ں کی سیرا بی کےلیے محنت و مشقت اور اخرا جا ت بردا شت کر نے کی وجہ سے انہیں پیداوار سے بیسوا ں حصہ بطو ر عشر ادا کر نا ضروری تھا اس کے علا ہ کسی قسم کے اخرا جا ت پیدا وار اسے منہا نہیں کیے جا تے تھے اسی طرح خیبر کی زمین پیدا وار کے کے طے شدہ حصے کے عوض کا شت کی جا تی تھی صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین کو جو حصہ ملتا اگر وہ نصا ب کو پہنچ جا تا تو اس سے اللہ تعالیٰ کا حصہ الگ کر دیتے تھے زمیندا ر چو نکہ زمین کا ما لک ہو تا ہے وہ ٹھیکے کی اس رقم کو اپنی مجمو عی آمدنی میں شا مل کر کے اگر وہ نصاب تک پہنچی ہےتو اس میں سے زکو ۃ ادا کر ے گا اور زمین ٹھیکے پر لینے والا کا شت کر نے میں صا حب اختیا ر ہو تا ہے اور پیداوار کا ما لک بھی وہی ہوتا ہے تو وہ مختا ر کی حیثیت سے ادا عشر کر ے گا ٹھیکے کی رقم اس سے منہا نہیں کی جا ئے گی اسی طرح سہو لت کےلیے یا اپنی پیداوار بڑھا نے کےلیےجو رقم خر چ کی جا تی ہے یہ اخرا جا ت بھی پیدا وار سے منہا نہیں ہو ں گے ا لبتہ محنت و مشقت یا ما لی اخرا جا ت جو زمین کی سیرابی پر آتے ہیں ان کے پیش نظر شر یعت نے اسے رعا یت دی ہے کہ وہ اپنی پیدا وار سے بیسواں حصہ ادا کرے اگر اس رعا یت کے با و جو د ٹھیکہ کی رقم کھا د سپرے کےلیے اخرا جا ت کٹا ئی کےلیے مز دو ری اور تھر یشر وغیرہ کے اخرا جا ت بھی منہا کر دئیے جا ئیں تو با قی کیا بچے گا جو عشر کے طور پر ادا کیا جا ئے گا لہذا ہما را رجحا ن یہ ہے کہ کا شتکا ر کسی قسم کے اخرا جا ت منہا کیے اپنی پیدا وار سے بیسواں حصہ بطو ر عشر ادا کرے گا بشر طیکہ اس کی پیداوار پا نچ وسق تک پہنچ جا ئے اگر اس سے کم ہے تو عشر نہیں ہو گا ہ ں اگر چا ہیے تو دینے پر قد غن نہیں ہے ، (واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص185

محدث فتویٰ
 
Top