السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ
گندم کا عشر ٹھیکہ نکالنے کے بعد یا بمع ٹھیکہ ادا کرنا چاہیے؟براہ کرم دلائل کے ساتھ راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
على من تكون زكاة الأرض المستأجرة للزراعة ؟
رجل يستأجر أرضاً زراعية ، هل الزكاة تستحق على المالك أم على المستأجر ؟ وإذا كانت على المستأجر فهل الزكاة على المحصول بالكامل أم على المتبقي من المحصول بعد دفع الإيجار ؟ .
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد لله
أولاً :
مالك الأرض إن زرعها بنفسه : فزكاة ما يخرج منها عليه ، وإن منحها وأعارها لغيره ليزرعها : فزكاة ما يخرج منها على الزارع .
واختلف أهل العلم في الأرض المستأجرة هل تكون الزكاة على المالك أم على المستأجر الذي يزرعها ، فذهب الجمهور إلى وجوبها على المزارع ، وذهب الحنفية إلى وجوبها على المالك.
قال ابن حزم :
ولا زكاة في تمر , ولا بر , ولا شعير : حتى يبلغ ما يصيبه المرء الواحد من الصنف الواحد منها خمسة أوسق ; والوسق ستون صاعا ; والصاع أربعة أمداد بمد النبي صلى الله عليه وسلم . والمد من رطل ونصف إلى رطل وربع على قدر رزانة المد وخفته , وسواء زرعه في أرض له أو في أرض لغيره بغصب أو بمعاملة جائزة , أو غير جائزة , إذا كان النذر غير مغصوب , سواء أرض خراج كانت أو أرض عشر .
وهذا قول جمهور الناس , وبه يقول : مالك , والشافعي , وأحمد , وأبو سليمان .
وقال أبو حنيفة : يزكى ما قل من ذلك وما كثر , فإن كان في أرض خراج فلا زكاة فيما أصيب فيها , فإن كانت الأرض مستأجرة فالزكاة على رب الأرض لا على الزارع . " المحلى " ( 4 / 47 ) .
وقد ردَّ الأئمة على قول الحنفية وبيَّنوا أن الزكاة حق الزرع وليس حق الأرض كما يقول الحنفية .
قال ابن قدامة المقدسي :
ومن استأجر أرضا فزرعها , فالعشر عليه دون مالك الأرض ، وبهذا قال مالك , والثوري , وشريك , وابن المبارك , والشافعي , وابن المنذر .
وقال أبو حنيفة : هو على مالك الأرض ; لأنه من مؤنتها , فأشبه الخراج .
ولنا : أنه واجب في الزرع , فكان على مالكه , كزكاة القيمة فيما إذا أعده للتجارة , وكعشر زرعه في ملكه , ولا يصح قولهم : إنه من مؤنة الأرض ؛ لأنه لو كان من مؤنتها لوجب فيها وإن لم تزرع , كالخراج , ولوجب على الذمي كالخراج , ولتقدر بقدر الأرض لا بقدر الزرع , ولوجب صرفه إلى مصارف الفيء دون مصرف الزكاة ." المغني " ( 2 / 313 ، 314 ) .
وهو ما رجحه الشيخ ابن عثيمين في " الشرح الممتع " ( 6 / 88 ) .
ثانياً :
وبما أن الزكاة حق الزرع : فعليه أن يخرج زكاة زرعه من كامل المحصول إذا بلغ النصاب ، وهو خمسة أوسق ، والوسَق : ستون صاعاً ، وهو ما يعادل 657 كيلو .
وليس للمزكي أن يخصم أجرة الأرض ولو كان بعد بيع الزرع - جهلاً أو خطأً أو تأولاً - قبل أداء الزكاة .
والصحيح من أقوال أهل العلم هو عدم خصم أية تكاليف ينفقها المزكي على أرضه .
قال ابن حزم :
ولا يجوز أن يعد الذي له الزرع أو التمر ما أنفق في حرث أو حصاد , أو جمع , أو درس , أو تزبيل أو جداد أو حفر أو غير ذلك - : فيسقطه من الزكاة وسواء تداين في ذلك أو لم يتداين , أتت النفقة على جميع قيمة الزرع أو الثمر أو لم تأت , وهذا مكان قد اختلف السلف فيه ... – وذكر الخلاف ثم قال : -
قال أبو محمد : أوجب رسول الله صلى الله عليه وسلم في التمر والبر والشعير : الزكاة جملة إذا بلغ الصنف منها خمسة أوسق فصاعدا ; ولم يسقط الزكاة عن ذلك بنفقة الزارع وصاحب النخل ; فلا يجوز إسقاط حق أوجبه الله تعالى بغير نص قرآن ولا سنة ثابتة ، وهذا قول مالك , والشافعي , وأبي حنيفة , وأصحابنا .
" المحلى " ( 4 / 66 ) .
والله أعلم .
الإسلام سؤال وجواب
_________________________
ترجمہ :
سوال : زراعت كے ليے اجرت پر حاصل كردہ اراضى كى زكاۃ كس پر ہو گى ؟
ايك شخص نے زراعتى زمين كرايہ پر حاصل كى، تو كيا اس كى زكاۃ مالك كے ذمہ ہے يا كہ كرايہ دار پر ؟
اور اگر يہ زكاۃ كرايہ دار كے ذمہ ہے تو كيا وہ زمين سے حاصل ہونے والى مكمل آمدنى پر ہو گى، يا كہ كرايہ ادا كر كے باقى مانندہ آمدن پر ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب
الحمد للہ :
اگر تو زمين كا مالك خود زرعى زمين كاشت كرتا ہے، تو اس سے حاصل ہونے والى آمدن كى زكاۃ بھى مالك كے ذمہ ہے، اور اگر زمين كا مالك زمين كسى دوسرے كو دے يا عاريتا دے كہ وہ اسے كاشت كر لے تو اس سے حاصل ہونے والى آمدن كى زكاۃ كاشت كرنے و الے پر ہو گى.
اہل علم نے كرايہ پر حاصل كردہ زمين كى زكاۃ ميں اختلاف كيا ہے، كہ آيا اس كى زمين مالك كے ذمہ ہے يا كرايہ پر حاصل كرنے والے كاشت كار پر جمہور اہل علم كے ہاں اس كى زكاۃ كاشت كار كے ذمہ ہے، ليكن احناف كے ہاں اس كى زكاۃ مالك كے ذمہ واجب ہے.
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
كھجور، گندم اور جو ميں اس وقت زكاۃ نہيں جب تك كہ وہ ايك فرد كے پاس اور ايك ہى صنف پانچ وسق تك نہ پہنچ جائے، اور وسق ساٹھ صاع كا ہوتا ہے، اور ايك صاع چار مد كا جو كہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا مد جتنا اور ايك مد ڈيڑھ سے سوا رطل مد كے چھوٹا بڑا ہونے كے درميان ہوتا ہے.
چاہے وہ اپنى زمين ميں اس نے كاشت كى ہو يا كسى دوسرے كى زمين ميں زمين غصب كر كے، يا جائز اور ناجائز معاملات كر كے، جب نذ غصب كردہ نہ ہو چاہے وہ زمين خراج والى ہو يا عشر والى.
اور يہ قول جمہور لوگوں كا ہے، اور مالك، شافعى، احمد، اور ابو سفيان رحمہم اللہ نے يہى كہا ہے.
اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
كم ہو يا زيادہ اس كى زكاۃ ادا كرے گا، اور اگر وہ خراج والى زمين ميں ہو تو اس ميں زكاۃ نہيں، اور اگر زمين كرايہ پر ہو تو اس كى زكاۃ زمين كے مالك پر ہے نہ كہ كاشت كار پر.
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 4 / 47 ).
احناف كے قول كو آئمہ كرام نے رد كرتے ہوئے بيان كيا ہے كہ زكاۃ كى ادائيگى كاشت كار كا حق ہے نہ كہ زمين كا حق جيسا كہ احناف كہتے ہيں.
ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور جس شخص نے زمين كرايہ پر حاصل كر كے كاشت كى تو عشر اس پر ہو گى نہ كہ مالك پر، امام مالك، ثورى، اور شريك، اور ابن مبارك، شافعى اورابن منذر رحمہم اللہ كا يہى قول ہے.
اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ زمين كے مالك پر ہے، كيونكہ يہ اس كے بوجھ ميں سے ہے، لہذا خراج كے مشابہ ہے.
اور ہمارے ہاں يہ ہے كہ: يہ فصل ميں ہے، لہذا فصل كے مالك پر ہو گى جيسے كہ تجارت كے ليے تيار كردہ چيز كى قيمت كى زكاۃ كى طرح، اور اپنى ملكيتى زمين كى فصل كى عشر كى طرح.
اور ان كا يہ كہنا صحيح نہيں: كہ يہ زمين كے بوجھ ميں سے ہے؛ كيونكہ اگر يہ زمين بوجھ اور حق ميں سے ہوتى تو پھر خراج كى طرح كاشت كے بغير بھى واجب ہوتى، اور خراج كى طرح ذمى پر بھى واجب ہوتى، اور پھر اس كا اندازہ زمين كے حساب سے لگايا جاتا نہ كہ فصل كے حساب سے، اور اسے فئى كے مصاريف ميں صرف كرنا واجب ہوتا، نہ كہ زكاۃ كے مصاريف ميں.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 2 / 313 - 314 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے ہى راجح قرار ديا ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 88 ).
دوم:
اور اس ليے كہ زكاۃ كى ادائيگى كاشت كار كا حق ہے لہذا جب نصاب پورا ہو جائے يعنى پانچ وسق ہو اور ايك وسق ساٹھ صاع ہے، اور نصاب ( 657 ) كلو بنتا ہے تو اسے حاصل ہونے والى سارى آمدنى سے زكاۃ نكالنا ہو گى.
زكاۃ ادا كرنے والے كو يہ حق نہيں كہ وہ اس ميں سے زمين كا كرايہ كم كرے چاہے وہ فصل فروخت كرنے كے بعد ـ جہالت يا غلطى يا تاويل كے ساتھ ـ اور زكاۃ كى ادائيگى سے قبل ہو.
اہل علم كے اقوال ميں سے صحيح قول يہ ہے كہ زمين پر آنے والے خرچ ميں سے كوئى بھى خرچ فصل سے نہيں نكال سكتا.
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
كاشت كار كے ليے جائز نہيں كہ وہ كاشت كرنے يا كٹائى كرنے، يا اسے گاہنے، يا كھجور توڑنے يا كنواں كھودنے كا خرچ شامل كر كے اسے زكاۃ سے نكال دے، چاہے اس نے اس خرچ كے ليے قرض ليا ہو يا قرض نہ ليا ہو، يہ خرچ فصل كى سارى قيمت يا پھل پر آيا ہو يا نہ، اور اس جگہ سلف كا اختلاف ہے .... اس اختلاف كو ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
ابو محمد ابن حزمؒ رحمہ اللہ كہتے ہيں: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كھجور گندم، اور جو ميں بالجملہ زكاۃ واجب قرار دى كہ جب وہ نصاب پانچ وسق يا اس سے زيادہ ہو جائے تو اس ميں زكاۃ ہے، اور اس ميں سے كاشت كار كا خرچہ اور كھجور كے باغ والے كا خرچ نہيں نكالا اس ليے اللہ تعالى نے جو حق واجب كيا ہے اسے قرآن و سنت كى نص كے بغير ساقط كرنا جائز نہيں ہے، يہ امام مالك، اور امام شافعى اور ابو حنيفہ اور ہمارے اصحاب كا قول ہے.
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 4 / 66 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب