• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصرِحاضر میں بڑے بڑے فتنوں میں سے ایک ’’جمہوریت ‘‘کا فتنہ ہے

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
3خلافت راشدہ میں خلیفہ کے انتخاب کے طریقے کو جمہوری قرار دینا
جمہوریت کے دلدادہ لوگ کہتے ہیں کہ خلافت راشدہ کا دور سب سے زیادہ جمہوری دور تھا۔خلفائے راشدین کا انتخاب بھی جمہوری طریقے سے ہواتھااور تمام عوام نے بیعت کرکے ان چاروں کو خلیفہ مقرر کیاتھا ۔چناچہ جمہوریت اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے۔بلکہ بعض لوگ یہ کہنے کی جسارت کر بیٹھتے ہیں مغرب میں رائج جمہوری نظام دراصل خلافت راشدہ میں رائج جمہوری نظام سے اخذ کردہ ہے۔انا للہ والیہ راجعون۔ حالانکہ یہ بات قطعاً غلط اور سفید جھوٹ ہے ۔چناچہ اس شبہ کو رد کرنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے ہم خلفائے راشدین کے طریقہ ٔ انتخاب کا مختصراً جائزہ لینا پڑے گا تاکہ اصل صورتحال معلوم ہوسکے :

خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب:
جمہوریت کے شیدائی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بنائے جانے والے واقعے کو توڑ مروڑ کر جمہوریت کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ
’’سقیفہ بنی ساعدہ‘‘اس وقت کا پارلیمنٹ ہاؤس تھا۔مہاجرین و انصار کے تمام قبائلی سرداروں جوکہ اپنے قبیلوں کے نمائندے تھے ،انہوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔لہذا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کثرت رائے یعنی جمہوری طریقہ سے خلیفہ بنایا گیا‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ محض قبیلہ خزرج کی ایک ذیلی شاخ بنو ساعدہ کے شخص حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کا تھا اور یہ بیٹھک یا سائبان ان ہی کے مکان سے ملحق تھا۔فراغت کے اوقات میں روزمرہ کی عام گفتگوکے لئے چند لوگ جمع ہوتے تھے۔یہ نہ تو کوئی ایسا مقام تھا جو مدینہ بھر کے معززین کے لئے مخصوص ہو یا اس جگہ اتنے آدمی اس چھپر کے سائے میں بیٹھ سکیں ۔یہ کوئی انتخابی مرکز بھی نہ تھا کہ کسی کو خیال آتا کہ انتخاب کے لئے یہ جگہ موضوع رہے گی۔

مزید یہ کہ سقیفہ بنی ساعدہ پر موجود زیادہ تعداد بنو ساعدہ کے انصار کی تھی اور باقی اڑھائی سو انصار کے قبیلوں کے لوگ اور ان کے سردار بھی موجود نہ تھے۔مہاجرین میں سے کل چار یا پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہاں موجود تھے۔جن میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے دس مشہور خاندانوں میں سے نہ تھااور یہاں صرف قریش کے دوقبیلوں کے سردار موجود تھے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ۔

چناچہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی کہ انصار کہ کچھ لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے ہیں ۔لہذا یہ دونوںوہاں پہنچ گئے۔انصار کے کچھ لوگوں نے کہا کہ خلیفہ ہم میں سے ہونا چاہیے ۔لیکن جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا اللہ کے رسول ﷺنے تمہارے موجودگی میں یہ نہیں فرمایا تھا کہ ’’قریش امرِ خلافت کے والی ہیں ۔ان کے نیک نیکوں کی اور فاجر فاجروں کی اتباع کریں گے‘‘۔تو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ’’آپ نے سچ فرمایا ۔چناچہ ہم وزیر ہوں گے اور آپ امیر‘‘۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں چاہتا ہوں کہ تم ان دونوں میں سے (یعنی حضرت عمرفاروقt اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ)میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو۔‘‘۔لیکن دونوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں خلافت قبول کرنے سے انکار کردیا ۔حضرت عمرفاروق ر ضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ اپنا ہاتھ اٹھائیے ،انہوں نے ہاتھ بڑھایا اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی ،اس طرح بیعت انعقاد خلافت ہوگئی۔اس کے بعد تمام حاضرین مجلس نے بیعت کی ۔یہ حضور ﷺکی وفات والے دن ،پیر ظہر کی نماز سے پہلے ہوا۔دوسرے دن یعنی منگل کوحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے مسجدِ نبوی ﷺمیں لوگوں سے خطاب کیا اور اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی اور لوگوں سے کہا کہ ان سے بیعت کریں تو عوام الناس سب نے ان سے بیعت کی اور اس طرح یہ بیعت عامہ ہوئی ۔

حضور ﷺکی وفات کے وقت محتاط اندازے کے مطابق مسلمانوں کی تعداد تیرہ لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔اگر سرداروں کو نمائندہ مان لیا جائے تو کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ تیرہ لاکھ مسلمانوں کے نمائندوں کو چار گھنٹوں میں اطلاع بھی مل گئی ہوگی اور ان چار گھنٹوں میں مدینہ پہنچ کر سقیفہ بنی ساعدہ کے اجلاس میں شرکت کی ہوگی؟چنا چہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے باحیثیت ’’امیر المومنین‘‘کے چناؤکو موجودہ نمائندہ پارلیمانی نظام سے مماثلت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جوکہ بالکل خلافِ واقعہ ہے اور صریح جھوٹ ہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
خلیفہ دوئم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی نامزدگی :
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مرض الوفات میں ہی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرمایا۔چناچہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہاکہ ٗعمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ۔انہوں نے کہا کہ ’’اے خلیفہ رسول ﷺ!عمر آپ رضی اللہ عنہ کی رائے میں زیادہ بہتر ہے ۔مگر مزاج میں سختی ہے ‘‘۔آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ’’وہ اس لئے تھی کہ میں نرم تھا۔ جب خلافت کا بوجھ سر پر پڑے گا تو سب سختیاں دور ہوجائیں گی‘‘۔

اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور پوچھا کہ ’’عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘انہوں نے فرمایا کہ ’’میرے علم کے مطابق ان کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کا کوئی جواب نہیں ‘‘۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی سخت طبیعت کی وجہ سے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا ’’اب آپ تو اللہ کے پاس جارہے ہیں ۔یہ سوچ لیں کہ اللہ کو کیاجواب دیں گے‘‘۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میں اللہ سے کہوں گا میں نے تیرے بندوں پر ایک ایسے شخص کو مقرر کیا ہے جو سب سے بہتر تھا۔‘‘ایک اور روایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلاکر پوچھا تو انہوں نے وہی جواب دیا جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایاتھا۔

پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بلواکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا عہد نامہ لکھوایااور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بالاخانے پر چڑھے اور لوگوں سے کہا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو تم پر خلیفہ مقرر کیا ہے ۔تم اسی کی سنو اور اطاعت کرو ٗ اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔

اس تمام واقعہ سے بھی جمہوریت کا نام ونشان نہیں ملتا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تقریباً تین ماہ بیمار رہے ۔وہ چاہتے تو مکہ ،مدینہ اور طائف کے شہروں میں بسنے والے لوگوں سے ان کی رائے طلب کرسکتے تھے کہ لوگ کس کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا اور اگر تمام لوگوں سے رائے لینا ان کی نظر میں مناسب نہیں تھا تو کم از کم اتنا تو کرسکتے تھے کہ تمام قبائل کے سرداروں اور گورنر وں کو بلواتے اور ان کی اکثریت کی رائے پر فیصلہ فرمادیتے ٗ یہ بھی نہیں ہوا۔یہ تو ہوسکتا تھا کہ کسی بھی نماز کے بعد وہ تمام موجودہ نمازیوں سے ان کی رائے لیتے اور خلیفہ مقرر کردیتے ، یہ بھی نہیں ہوا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خود ذہن بنایا اور چند اکابرین صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔پھر فیصلہ لکھوایا اور لوگوں میں اعلان کردیا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تقریباً سب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مزاج کی سختی کا ذکر کیالیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مقرر کرنے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت منعقد ہوگئی اور پھرسب مسلمانوں نے ان سے بیعت اطاعت کرلی۔تاریخ نے ثابت کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ نہ صرف صحیح تھا بلکہ وہ امت مسلمہ پر احسان کرگئے ۔آج دنیا ایک ایک چیزمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کی مثال دیتی ہے۔ایک انگریز مورخ کہتا ہے کہ ’’اگر عمر (رضی اللہ عنہ) دس سال اور زندہ رہتا تو خلافت ساری دنیا میں پھیل جاتی ‘‘۔سوچنے کی بات ہے کہ کیا ا سلام کے نظام کو وہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم زیادہ جانتے تھے یا ہم جوکہ آج زبردستی جمہوریت کو اسلام میں ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
خلیفہ سوئم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی تقرری:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا چناؤکیسے ہوا ۔صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ کسی کو خلیفہ بنادیجئے ۔فرمایا ’’اگر خلیفہ مقرر کردو ں ٗ تو بھی ٹھیک ہے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو مجھ سے بہتر تھے، خلیفہ مقرر کرگئے تھے اور اگر نہ کروں تو یہ بھی ٹھیک ہے کیونکہ حضورﷺجو مجھ سے بہتر تھے ،خلیفہ نہیں بناکر گئے تھے‘‘۔امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر خنجر کا وار ہوا تو آپ سے کہاگیا کہ کسی کو خلیفہ بناجائیں۔آپ نے فرمایا کہ اگر ابوعبیدہ بن الجرح رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو میں ان کو خلیفہ بنا جاتا‘‘۔

پھر کسی نے کہا کہ آپ tاپنے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو نامزد کرجائیے ۔آپ رضی اللہ عنہ نے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ ’’اگر یہ حکومت اچھی چیز تھی تو اس کا مزہ ہم نے چکھ لیا ۔اگر یہ بری چیز تھی تو عمر کے خاندان کے لئے یہی کافی ہے کہ کل اللہ کے سامنے ان میں سے ایک ہی آدمی سے اس بارے میں حساب لیا جائے‘‘۔

بعدازاں صحیح بخاری میں ہے کہ انہوں نے چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدت مقرر کی تھی۔حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ جب تک یہ لوگ اپنے میں سے کسی کو خلیفہ نہ چن لیں ،کسی کو اندر آنے یا جانے کی اجازت نہ دی جائے ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو صرف رائے دینے کی حد نامزد شوریٰ میں شامل ہونے کی اجازت تھی۔صرف یہی ان کے کمرے میں داخل ہوسکتے تھے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعدیہ شوریٰ بیٹھی ۔حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم چھ اپنے میں سے کسی تین کو مختار بنادیتے ہیں ،چناچہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ،حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہا کہ وہ خلیفہ بننے کی خواہش نہیں رکھتے اس لئے اگر تم دونوں چاہو تو میں تم دونوں میں سے ایک کو خلیفہ مقرر کردوں۔دونوں نے کہا کہ ہمیں قبول ہے۔چناچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے خلافت کا انعقاد کیا ۔

یہاں یہ نکتہ اہم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہزار یا پانچ سو یا کم از کم بیس پچیس صحابہ رضی اللہ عنہم کی بھی شوریٰ بنا سکتے تھے۔لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو چھ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شوریٰ بنائی اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو مشورہ میں شامل کیا ۔ہم سب جانتے ہیں سوائے حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے یہ سب صحابہ عشرۂ مبشرہ میں سے تھے۔چنا چہ دونوں کی رضامندی اور باقی اصحاب کے مشورہ کرکے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔یہ بیعت انعقاد خلافت ہوئی۔پھر بیعت عامہ ہوئی جس میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کی اوراس کے بعد تمام مدینہ والوں نے بیعت کی۔

ذرا سوچئے کہ نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ٗ نہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بلکہ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ کو عوام کی رائے کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے یا آپ کو تمام مسلمانوں سے مشورہ کرنا چاہیے اور جسے وہ چنیں اسے خلیفہ مقرر کریں۔اگر حضور ﷺکا کوئی ایسافرمان ہوتا جس میں تمام مسلمانوں سے مشورہ کرنے کی گنجائش ہوتی تو پوری خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی تاریخ میں کوئی ایک صحابی تو اس کا ذکر کرتے۔مگر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ایک صحابی نے بھی کہا ہو کہ عوام سے مشورہ لیا جائے اور جس کی طرف زیادہ مسلمان ہوں اس کو خلیفہ بنایا جائے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقرری:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کیسے خلیفہ مقرر کئے گئے۔اما م ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد کوفہ اور بصرہ سے آنے والے باـغی اس بات پر آمادہ ہوگئے کہ جو بھی امارت قبول کرے اس کو خلیفہ مقرر کردیا جائے۔چناچہ وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ٗحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ٗ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے مگر سب نے دو ٹوک انداز میں خلیفہ بننے سے انکار کردیا ۔ اس وقت بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حج کی ادائیگی کے لئے بھی گئے ہوئے تھے چناچہ ان لوگوں نے مدینہ کا محاصرہ کرلیااور لوگوں سے کہا کہ ہم تمہیں تین دن کی مہلت دیتے ہیں ،اس دوران اپنا امیر مقرر کرو ،ورنہ اگلے دن ہم علی رضی اللہ عنہ،طلحہ رضی اللہ عنہ،زبیررضی اللہ عنہ سمیت اور بہت سے لوگوں کو قتل کردیں گے۔

یہ لوگ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور خلافت قبول کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ ہم سے آپ سے زیادہ کوئی آدمی مناسب نہیں دیکھتے ،مسابقت فی الاسلام اور حضورﷺکی قرابت کی وجہ سے ۔آپ رضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کرو ،میں امیر بننے سے زیادہ وزیر بننا پسند کروں گا۔لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم!ہم تو آپ کی بیعت کریں گے۔ایک اور روایت کے مطابق آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔
’’یہ اہل شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے ۔جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہوگا۔پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے‘‘۔
دوسرے الفاظ میں آپ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ خلیفہ بنانے کا حق اہل حل وعقد اور صائب الرائے اشخاص کا ہے۔لیکن اس کا موقع ہی نہیں ملااور ایک شخص اشتر نخعی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور خلافت کرلی۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تقرری :
البدایہ میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے قریب آپ سے لوگوں نے کہا کہ اپنا ولی عہد مقرر کردیں۔آپ نے فرمایا ’’مسلمانوں کو اسی حالت میں چھوڑوں گا جس حال میں رسول اللہ ﷺنے چھوڑا تھا ‘‘۔حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ’’اے امیر المومنین !اگر آپ فوت ہوجائیں تو ہم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تو آپ tنے فرما یا ’’میں نہ تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ اس سے روکتا ہوں،تم خود بہتر سمجھتے ہو‘‘۔

امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد قیس بن سعد نے حضرت حسنرضی اللہ عنہ سے کہا ٗ اپنا ہاتھ آگے اٹھائیے ،میں آپ کے ہاتھ پر اللہ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺکی سنت پر بیعت کرتا ہوں چناچہ ان کی بیعت کے بعد سب نے بیعت کرلی۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
ایک اہم مغالطہ اور اس کا سدِباب

ایک اہم مغالطہ اور اس کا سدِباب
ایک مغالطہ ہے جس کو ہم یہاں رفع کرلیں جوکہ داعیانِ جمہوریت پیدا کرتے ہیں کہ خلیفہ کا تقرر اس طرح ہوتاتھا کہ تمام مسلمان کسی ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے اور یوں کثرتِ رائے کے مطابق خلافت کا انعقاد ہوجاتا تھااور یوں اس بات کو یہ لوگ اس کو جمہوریت کے لئے دلیل بناتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ بات جان لیں کہ عامۃ المسلمین سے جو بیعت لی جاتی تھی وہ ’’انعقادِ خلافت‘‘کے لئے نہیں بلکہ اہل حل وعقد اور الرائے شخصیات کی طرف سے کسی بھی شخص کو خلیفہ مقرر کرنے کے بعد اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کے لئے کی جاتی تھی۔جس کو ہم ’’بیعت اطاعت ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں اور جو صاحب الرائے خلیفہ کو مقرر کرنے کے لئے بیعت کرتے تھے اس کو ہم ’’بیعت انعقادِ خلافت ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔چناچہ حضرت ابوبکر صدیقtکی بیعت خاص یعنی بیعت انعقادِ خلافت سقیفہ بنی ساعدہ میں ہوئی اور بیعت عام یعنی ’’بیعت اطاعت‘‘دوسرے دن مسجد نبویﷺمیں ہوئی ۔اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت سے متعلق مشورے حضرت منور بن مغیرہ رضی اللہ عنہ کے گھر پر ہوئے اور اس میں بیعت انعقاد یعنی بیعت خاص عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کی اوربیعت عام مسجد نبوی ﷺمیں ہوئی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی یہی چاہتے تھے کہ ان کا چناؤحسبِ دستو رہو مگر ہنگامی حالت کی وجہ سے ان کی آرزو پوری نہ ہوسکی۔بیعت انعقادِ خلافت اشتر نخعی نے کی اور بیعت عام یعنی بیعت اطاعت مسجد نبوی ﷺمیں ہوئی ۔

بیعت انعقادِ خلافت ٗ اور بیعت اطاعت سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فیصلہ شوریٰ یعنی اہل حل و عقد کرتے ہیں ۔بیعت عام کا مقصد محض سننا اور اطاعت ہے جیسے کہ تمام متعلقہ احادیث سے ثابت ہے۔بیعت عام اطاعت کی بیعت ہوتی ہے۔خلیفہ کا چناؤعوام کا کام نہیں اور نہ ہی اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اہل حل وعقدکے فیصلے کو رد رکریں اور نہ کبھی ایسا ہوا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انعقادِ خلافت یا بیعت خلافت کے بعدفیصلہ عوام کے سامنے بغرضِ قبولیت ِ عامہ پیش کیا جاتا تھا۔چاہے تو اسے منظور کریں یا اسے رد کردیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بھی درست نہیں ۔ان کے اس نظریہ کے سلسلہ میں کوئی ایسی حدیث نہیں ملتی اور نہ کسی صحابی tکا بیان ملتا ہے جس سے کہا جاسکے کہ بیعت خاص یعنی انعقادِخلافت کے بعد دوبارہ مسئلہ لوگوں کے سامنے فیصلے کے لئے پیش کیا جاتا تھا بلکہ یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ بیعت عام کو لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیاہو۔

خلاصہ یہ کہ یہ کہنا کہ امت ہی عام مسلمان ہی خلیفہ کا بالواسطہ یا براہِ راست چنائو کرتے ہیں ٗ نہ دینی طور پر درست ہے نہ تاریخی طور پر،اور یہ کہنا کہ ’’منتخب ہونے والا امیدوار‘‘امت کی بیعت کے ذریعے خلافت کے منصب پر فائز ہوتاہے ٗ تاریخ سے ناواقفیت اور دینی کم فہمی کا ثبوت ہے۔پھر یہ کہنا کہ ’’امت کی بیعت کے ذریعے خلیفہ کا چناؤ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے‘‘سراسر سفید جھوٹ ہے اور حقیقت میں حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم پر صریح بہتان ہے کہ انہوں نے خلاف قرآن و سنت کام کیا۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
خلفائے راشدین کی نامزدگی کو بنیاد بناکر داعیان جمہوریت مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔

خلفائے راشدین کی نامزدگی کو بنیاد بناکر داعیان جمہوریت یہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا انتخاب ’’جمہوری‘‘ بنیادوں پر ہواتھا،جوکہ سراسر بہتان اور سیرتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔خلفائے راشدین کی نامزدگی جن مختلف طریقہ کار پر ہوئی تھیں وہ درج ذیل ہیں :
٭ صائب الرائے اور اہل حل و عقد پر مشتمل شوریٰ کے ذریعے خلیفہ مقرر کرنا۔
٭ خلیفہ کا اپنی زندگی ہی میں خلافت کے اہل شخص کو خلیفہ نامزدکرنا۔
٭ اور دونوں صورتوں کے علاوہ کسی ہنگامی صورت حال میں شوریٰ کے ایک ہی رکن یا کسی بھی بااثر شخصیت کا خلیفہ مقرر کردینا۔
چناچہ اب ہم ان تمام طریقہ ء نامزدگی کامختصراًجائزہ لیتے ہیں کہ آیا ان کے طریقہ نامزدگی میں کہیں وہ جمہوری اقدار پائے جاتے ہیں جن کا یہ جمہوریت کے دلدادہ ڈھنڈورہ مچاتے ہیں:

٭ صائب الرائے اور اہل حل و عقد پر مشتمل شوریٰ کے ذریعے خلیفہ مقرر کرنا:
خلیفہ اگر صائب الرائے اور اہل حل و عقد پر مشتمل شوریٰ منتخب کرے تو یہ سب سے بہترین صور ت ہے ۔کیونکہ رسول اللہ ﷺکا اسوہ یہی ہے اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ارشاد بھی ہے :
’’لاخلا فۃ الاعن مشورۃ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ج:۳،ص:۱۳۹)
’’مشورہ کے بغیر خلافت نہیں‘‘۔

اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی اسی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں کہ:
’’الامرۃ مااؤتمر فیھا‘‘ (طبقات ج:۴،ص:۱۱۳)
’’امارت وہ ہے جسے قائم کرنے میں مشورہ کیا گیا ہو‘‘۔

خود نبی کریمﷺ،حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل سے اس منصب کو شوریٰ کے سپرد کیا اگرچہ اول الذکر دونوں ہستیاں استخلاف یعنی کسی ایک اپنی زندگی ہی میں خلیفہ مقرر کرجانے کی طرف مائل تھی ۔جیسے نبی کریم ﷺنے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد خلافت کے لئے اہل سمجھنے کے باوجود یہ معاملہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا۔چناچہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ مجھے رسول اللہ ﷺنے اپنی مرضِ موت کے دوران فرمایا:
’’اپنے باپ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اپنے بھائی (عبد الرحمن رضی اللہ عنہ ) کوبلاؤتاکہ میں وصیت لکھ دوں۔مجھے ڈر ہے کہ حریص لوگ اس (خلافت) کی آرزو کریں گے اور کچھ کہنے والے یہ بھی کہیں گے کہ خلافت کا حق دار میں زیادہ ہوں۔مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے سوانہ اللہ تعالیٰ کسی دوسرے کی خلافت کو تسلیم کرے گا اور نہ مسلمان‘‘۔ (صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب فضائل ابوبکرؓ)
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ :
’’اگر رسول اللہ ﷺکسی کو خلیفہ بناتے تو کس کو بناتے ؟فرمایاحضرت ابوبکر ظکو۔پوچھاگیا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد کس کو؟فرمایاحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ۔پوچھا گیا حضرت عمررضی اللہ عنہ کے بعد کس کو؟فرمایا حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو اور یہاں بات ختم ہوگئی‘‘۔ (صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب فضائل ابوبکرؓ)
پھر بھی اللہ کے رسول ﷺنے یہ معاملہ مسلمانوں پر چھوڑ دیاتاکہ بعد میں آنے والے لوگ اس عمل سے رہنمائی لے سکیں۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بھی یہ ہی معاملہ اختیار کیا ۔چناچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’جب حضرت عمررضی اللہ عنہ (زخمی ہوئے تو ان ) کہا گیاکہ آپ tکسی کو خلیفہ بنا دیجئے ؟آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اگر خلیفہ مقرر کروں تو ( بھی ٹھیک ہے کیونکہ )حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ جو مجھ سے بہتر تھے خلیفہ مقرر کرگئے تھے اور نہ کروں تو (بھی ٹھیک ہے کیونکہ )نبی کریم ﷺجو مجھ سے بہتر تھے خلیفہ نہیں بناگئے تھے۔(پھر فرمایا)میں تو یہی غنیمت سمجھتا ہو کہ خلافت کے مقدمہ میں برابر پر چھوٹ جاؤں نہ مجھے ثواب ملے نہ عذاب ہو۔میں اس بوجھ کو جسے زندگی بھر اٹھایا ہے مرتے وقت اُٹھانا نہیں چاہتا‘‘۔(بخاری ،کتاب الاحکام،باب الاستخلاف)
چناچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ معاملہ بھی رسول اللہ ﷺکی طرح ’’شوریٰ ‘‘پر چھوڑدیا۔

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہ معاملہ اصحاب الرائے پر چھوڑدیا۔چناچہ البدایہ میں ہے کہ :
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وفات کے وقت آپ سے لوگوں نے کہا کہ ’’استخلف‘‘ یعنی اپناجانشین مقرر کرجائیے تو آپ نے جواب میں فرمایا :’’میں مسلمانوں کو اسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہﷺنے چھوڑاتھا‘‘۔(البدایۃج:۸،ص:۱۳تا ۱۴)
٭ خلیفہ کا اپنی زندگی ہی میں خلافت کے اہل شخص کو خلیفہ نامزدکرجانا:
شوریٰ کی انتخاب کے بعد استخلاف کا نمبر ہے جسے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عملاً اختیار کیااور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس کو درست سمجھا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کردیاتھا۔چناچہ طبری میں ہے کہ :
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے بالا خانے پر چڑھ کر لوگوں سے متوجہ ہوئے جبکہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا انہیں تھامے ہوئے تھیں جس کے دونوں ہاتھ گودے ہوئے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:’’جس شخص کو میں نے خلیفہ بنایا ہے کیا تم اس سے راضی ہو۔اللہ کی قسم میں نے رائے قائم کرنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور اپنے کسی رشتہ دار کو نہیں بلکہ عمر بن الخطاب کو مقرر کیا ہے ۔لہذا تم اس کی سنو اور اطاعت کرو۔اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم سنیں گے اور مانیں گے‘‘۔ (طبری ج:۳ص:۴۳۰۴۲۸)
پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بھی اس خواہش کا اظہار فرمایاتھاکہ:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر جب خنجر کا وار ہوا تھا تو آپ سے کہا گیا کہ ا ے امیر المومنین!کسی کو خلیفہ بناجائیے۔آپ tنے کہا ’’کس کو جانشین بناؤں؟اگر ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو ان کو جانشین مقررکرجاتا۔میرا رب اگر مجھ سے پوچھتا تو کہہ دیتا کہ تیرے نبی ﷺکی زبان سے سنا تھا کہ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اس امت کے امین ہیں۔پھر اگر ابوحذیفہ کے مولیٰ سالم رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو انہیں خلیفہ نامزدکرجاتا۔میرا رب مجھ سے پوچھتا تو کہہ دیتا کہ میں نے تیرے نبی ﷺکو فرماتے سنا تھا ’’سالم رضی اللہ عنہ اللہ سے بہت محبت کرنے والاہے‘‘۔(طبری ج:۴،ص:۲۲۷)
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اصرار پرکبائر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے چھ صحابہ کی ایک شوریٰ منتخب کی اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ آپس میں کسی ایک کو خلیفہ منتخب کرلیں ۔
’’لوگوں نے کہاکہ اے امیر المومنین !کسی کو خلیفہ بنا جائیے ۔آپ نے کہا کہ خلافت کا حقدار ان چند لوگوں کے سوا کوئی نہیں جن سے رسول اللہ ﷺراضی رہے۔انہوں نے حضرت علی،حضرت عثمان، حضرت زبیر،حضرت طلحہ ،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کا نام لیا اور کہاکہ عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ مشورہ میں تمہارے ساتھ رہے گا ۔لیکن خلافت میں اس کا کوئی حصہ نہیں‘‘۔ (صحیح بخاری،کتاب المناقب ،باب قصۃ البیت والاتفاق علی عثمان )
اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب بیماری لاحق ہوئی اور وہ حج پر نہ جاسکے اور وصیت کرنے لگے ۔چناچہ لوگ خلیفہ نامزد کرنے کے متعلق دریافت کرنے لگے ۔صحیح بخاری میں ہے کہ:
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں ؟کہنے لگا ’’ہاں‘‘۔آپ tنے پوچھا کہ ’’کس کے متعلق؟‘‘تو وہ چپ رہا ۔پھر آپ نے فرمایا’’شاید وہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا نا چاہتے ہیں ؟‘‘اس نے کہا کہ ’’ہاں‘‘۔آپ نے فرمایا ’’اللہ کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔جتنے لوگوں کو میں جانتا ہوں ،زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ان سب سے بہتر ہیں اور سب سے زیادہ نبی کریم ﷺسے محبت رکھتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری ،کتاب المناقب )
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ :
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے خلافت کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے لئے لکھ کر اپنے منشی کے پاس وہ کاغذ رکھوادیا تھا۔مگر حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کی زندگی میں ہی ۳۲ھ میں ہی انتقال کرگئے تھے‘‘۔
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ جب زخمی ہوئے تو ان سے حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے کہاکہ :
’’اے امیر المومنین!اگر آپ فوت ہوجائیں تو ہم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں؟ فرمایا:’’میں نہ تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں ۔تم خود بہتر سمجھتے ہوں‘‘۔(البدایہ والنھایہ ج:۷،ص۳۲۷)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
کسی ہنگامی صورت حال میں شوریٰ کے ایک ہی رکن یا کسی بھی بااثر شخصیت کا خلیفہ مقرر کردینا۔

کسی ہنگامی صورت حال میں شوریٰ کے ایک ہی رکن یا کسی بھی بااثر شخصیت کا خلیفہ مقرر کردینا۔
کسی ہنگامی صورتحال میں جبکہ شوریٰ کے تمام اراکین بھی موجود نہ ہوئے اور نہ خلیفہ نے کسی کو اپنا جانشین مقرر کیاہوا تھااور امت میں انتشار واختلاف کا اندیشہ کے پیش نظر ایسی صورتحال میں بھی شوریٰ کی ایک رکن کی بیعت سے بھی خلافت منعقد ہوگئی ۔اسی طرح اگر شوریٰ موجود نہ ہوئی تو بھی عوام الناس میں سے بھی کسی بااثر شخصیت کی بیعت سے خلافت منعقد ہوگئی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت ہنگامی حالت میں جب کہ امت میں انتشار و اختلاف کا ڈر تھا ایک صائب الرائے شخص یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منعقد ہوگئی ۔چناچہ بخاری میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کانقشہ ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں جس کا کچھ حصہ یوں ہے کہ :
’’(ایک انصاری صحابی نے کہاکہ )ایک امیر ہم میں سے ہواور اے قریش ! ایک امیر تم میں سے ہو‘‘۔اس تجویذ پر غُل مچ گیا اور کئی طرح کی آوازیں بلند ہونے لگیں ۔(حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ )میں ڈر گیا کہ امت انتشار واختلاف کا شکار نہ ہوجائے ۔سو میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے ۔انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے بیعت کی اور مہاجرین نے بیعت کی اور پھر انصار نے بیعت کی‘‘۔ (بخاری ،کتاب المحاربین ،باب رجم الحبلی)
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیعت خلافت منعقد ہوئی ۔اس حوالے سے طبری میں الفاظ ملتے ہیں کہ :
’’حضرت حسن بن علی کی خلافت پر بیعت ہوئی اور کہتے ہیں کہ پہلا شخص جس نے بیعت کی وہ قیس بن سعد تھا ۔اس نے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے ۔میں آپ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت پر بیعت کرتا ہوں‘‘۔(طبری ج:۵،ص:۱۵۸)
اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب پوری امت خلفشار کا شکار تھی اور مدینہ پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا تھا اور کبائر صحابہ میں سوائے چند ایک کہ ،اکثریت حج کو گئی ہوئی تھی ۔باغی حضرت طلحہ ،حضرت زبیر ،حضرت سعد اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے پاس گئے اور ان سے خلافت سنبھالنے کو کہا ۔مگر سب نے انکار کردیا ۔لیکن بالآخر باغیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا بار اٹھانے پر مجبور کردیا۔یہی وجہ تھی چونکہ یہ بیعتِ خلافت بغیر شوریٰ کے مشورے اور رائے کے بغیر ہوئی تھی ۔لہذا بہت سے صحابہ نے اس بیعت سے گریز کیا اور مدینہ سے چلے گئے اور بہت سے صحابہ کو باغیوں نے جبری بیعت کروائی ۔(دیکھئے طبری ج:۴،ص:۴۲۷تا ۴۳۵اور مقدمہ علامہ ابن خلدون ،فصل ولایت عہد ،ص:۳۷۸)
خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اسی بات کے قائل تھے کہ خلافت کا فیصلہ اہل بدر اورشوریٰ کے ذریعے ہونا چاہیے ۔چناچہ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے باغیوں کے سامنے یہی بات رکھی تھی کہ:
’’یہ اہل شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے ۔جسے وہ منتخب کریں وہی خلیفہ ہوگا۔پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے‘‘۔(ابن قیتبہ۔الامامۃ والسیاسٰۃ ج:۱ص۴۱)
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے بھی باغیوں سے یہ سوال کیاتھا جبکہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت پر ان کو مجبور کررہے تھے کہ
’’کیا شوریٰ نے جمع ہوکر اس کا فیصلہ کیا ہے‘‘۔ (ابن قیتبہ۔الامامۃ والسیاسٰۃ ج:۱ص۴۲)
لیکن چونکہ خلافت منعقد ہوچکی تھی اور دوسری طرف امت انتشار و اختلاف کی طرف جارہی تھی لہذاحضرت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ مؤقف تھا کہ چونکہ خلافت منعقد ہوچکی ہے لہذا عارضی طور سب اس پر متفق ہوجائیں تاکہ قوت کے ساتھ قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لیاجاسکے اور بعد میں اس خلافت کے مسئلہ کو باہمی مشاورت سے حل کرلیا جائے۔گویا خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنی بیعت خلافت سے مطمئن نہیں تھے۔لیکن دوسری طرف کچھ حضرات ِ صحابہ رضی اللہ عنہم جن میں حضرت معاویہ ،حضرت طلحہ ،حضرت زبیر ،حضرت عبد اللہ بن زبیر ،حضرت سعد اور حضرت عائشہرضی اللہ عنہم کا مؤ قف یہ تھا کہ جو صحابہ اہل حل و عقد ہیں وہ بیعت ِعلی رضی اللہ عنہ کے وقت مدینہ میں نہیں تھے یا ان کی قلیل تعداد تھی،وہ اس وقت دیگر شہروں میں متفرق تھے۔ان کے بغیر یا ان کی قلیل تعداد کے ساتھ بیعت منعقد نہیں ہوسکتی ،اس لئے بیعت ہی سرے سے منعقد ہی نہیں ہوئی ۔مسلمان لمحہ ٔ انتشا ر میں ہیں۔اس بناء پر ان کا یہ کہنا تھا کہ پہلے خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ پورا کیاجائے۔اجماع علی الامام کا معاملہ دوسرے نمبر پررکھا جائے۔

جنگِ صفین کے دوران جب وفد کے ذریعہ صلح کی بات چیت شروع ہوئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے وفد نے اس وقت بھی اسی بات کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے دہرایا تھا کہ آپ امرِخلافت کو چھوڑ کراسے شوریٰ کے حوالے کردیں تاکہ وہ اپنی مرضی سے جسے چاہے خلیفہ منتخب کردیں۔(دیکھئے طبری جلد۵صفحہ ۷۳۷،الکامل جلد ۳صفحہ۲۹۱)

ان تمام احوال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اصولی طور حضرت علیtاور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات پر متفق تھے کہ خلیفہ کا انتخاب کا اختیار صائب الرائے اور اہل حل وعقد پر مشتمل شوریٰ کو ہی حاصل ہے ،اختلاف صرف اس کام کے مؤخر یا مقدم رکھنے پر تھا۔

خلفائے راشدین المھدین کے طریقۂ انتخاب اور نامزدگی کے عمل کو اگر تحقیق نظر سے دیکھا جائے تو سب سے مقدم اور پسندیدہ طریقہ رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کا متفقہ طور پر سامنے آیا کہ خلیفہ کے انتخاب کا معاملہ مسلمانوں کے اندر ان لوگوں کے ذریعے کیا گیا جو صائب الرائے اور اہل حل وعقد تھے۔دوسری صورت یہ سامنے آئی کہ خلیفہ نے اپنی زندگی ہی میں کسی اہل شخص کو اپنا جانشین مقرر کیا ۔لیکن اس میں بھی شوریٰ کو اپنے اعتماد میں لیااور ان کو اس قابلیت پر قائل کیا ۔تیسری صورت یہ سامنے آئی کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں جب امت میں انتشار واختلاف کا اندیشہ ہواتو شوریٰ کے ایک ہی رکن کی بیعت پر خلافت منعقد ہوگئی ۔پھر بعد میں تمام اہل شوریٰ اس کی تائید کی۔چوتھی جو انتہائی صورت سامنے آئی کہ اہل شوریٰ کی عدم موجودگی میں کسی ایک فرد کی بیعت ِانعقادِخلافت سے خلیفہ کا تقرر ہوگیا مگر بااتفاقِ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس معاملے کو اہل شوریٰ کی طرف لوٹانے کو ہی ضروری سمجھا ۔

چناچہ ان تمام طریقہ کارسے یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں ہوتی کہ خلفائے راشدین کا انتخاب یا نامزدگی جمہوری بنیادوں پر ہوتی تھی بلکہ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک’’کثرتِ رائے یا عوامی رائے دہندگی ‘‘ کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔

5دورِ نبوی ﷺاور دور خلفائے راشدین میں اہم امور کے فیصلوں کو جمہوری قرار دینا
داعیانِ جمہوریت جہاں ایک طرف یہ مغالطہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خلفائے راشدین کا انتخاب کثرتِ رائے یا عوامی رائے دہندگی کی بنیاد پر ہوتا تھا ،وہاں یہ فریب کاری بھی کرتے ہیں کہ دورِ نبوی ﷺاور دور خلفائے راشدین میں ہونے والے فیصلوں کو توڑ مروڑ کر زبردستی جمہوریت کے حق میں دلیل بنانے کی مذموم ومردود کوشش کرتے ہیں اور یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہاں بھی فیصلے کثرتِ رائے اور عوامی رائے کے مطابق ہوتے تھے۔چناچہ ہم یہاں مختصراً اس بات کا بھی جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوتا تھا یا صورتحال اس کی برعکس ہے۔
(جاری ہے)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
دورِ نبوی ﷺ

دورِ نبوی ﷺ
اس سے پہلے کہ ہم یہ بات جاننے کی کوشش کریں کہ کیا دورِ نبوی ﷺمیں فیصلے جمہوری اصولوں کی بنیاد پر کثرتِ رائے سے ہوتے تھے ۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آیا خلیفہ کو کسی بھی معاملہ فیصلہ کرنے کا کتنا اختیار حاصل ہے؟

اس ضمن میں سب سے پہلی بات یہ کہ اسلام کے نظام خلافت میں خلیفہ کے لئے کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے صائب الرائے افراد پر مشتمل شوریٰ سے مشورہ اور رائے لینا ضروری قرار دیاگیا ہے۔البتہ خلیفہ کو اس بات کا پابند نہیں بنایا گیا کہ وہ اہل شوریٰ کی رائے کے مطابق فیصلہ کرے ،چہ جائے کہ وہ اپنے فیصلے اکثریت کی رائے کے مطابق کرنے کا پابند ہواور دوسری بات یہ کہ اہل شوریٰ سے مشاورت جب لی جائے گی جب کسی معاملے میں شریعت کا کوئی واضح حکم موجود نہ ہویا پھر شریعت کے کسی حکم کے نفاذ کے طریقہ کار یا اس کے مقدم و مؤخر کرنے کا معاملہ ہو۔

غزوہ بدر:
غزوۂ بدر کے موقع پر جب قریشِ مکہ کے ستر بڑے سردار قیدی بن کر دربارِ نبوی ﷺمیں پیش کئے گئے توآپ ﷺنے حسبِ عادت مجلسِ شوریٰ طلب کی اور پھر معاملہ زیرِ بحث آیا۔چناچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں ان کی رائے دریافت کی۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں ہی سے کیوں رائے معلوم کی۔اس وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((لواجتمعاماعصیتکما)) (عن ابن عباس ؓ،درمنثورج:۳ص:۲۰۲)
’’اگر تم دونوں کسی ایک رائے پر متفق ہوجاتے تو میں اس کے خلاف نہیں کرتا‘‘۔

چناچہ اس معاملے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ رائے دی کہ چونکہ یہ ہمار ے قرابت دار ہیں چناچہ ان کو ’’فدیہ ‘‘لے کر چھوڑدیا جائے اور اس رقم کو جہاد اور دوسرے دینی امور میں استعمال کیاجائے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اللہ ان کی اولاد کو اسلام کی نعمت سے نوازے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بالکل اس کے برعکس رائے دی ۔انہوں نے کہا کہ ان سب کو قتل کردیا جائے بلکہ ہم میں سے ہر ایک ان میں سے اپنے قریبی رشتہ دار کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے۔

رسول اللہ ﷺنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کیا۔لیکن اللہ رب العزت کو کچھ اور ہی مقصود تھا ۔دوسرے دن رسول اللہ ﷺاور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے پایا تو اس کی وجہ پوچھی؟تو آپﷺنے فرمایا :
’’مجھ پر مسلمانوں کے لئے عذاب اس درخت سے بھی قریب دکھا یا گیا ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیا ت نازل فرمائیں۔
{مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ o لَوْلاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ} (الانفال:۶۷تا۶۸)
’’ نبی کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ ان کو قیدی بناتے جب تک کہ وہ زمین میں خوب خون ریزی نہ کر لیتے ۔اے مسلمانوں کیا تم دنیا کا سازوساما ن چاہتے ہو ؟جبکہ اللہ تعالیٰ آخرت چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے کمال حکمت والا ہے اور اگر ایک حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے گزر نہ چکا ہوتا۔یقیناً جو تم نے لیاتم کو اس کی وجہ سے پہنچتابڑا عذاب‘‘۔ (دیکھئے صحیح مسلم ،کتاب الجہاد ،باب اباحۃ الغنائم )
اس واقعہ سے یہ پتہ چلاکہ رسول اللہ ﷺجب شیخین یعنی حضرت ابوبکر وعمررضی اللہ عنہماکی رائے جب کسی معاملے میں ایک ہوجاتی تواس کے خلاف نہ کرتے ،چاہے دوسری طرف کتنے ہی صحابہ کرامرضی اللہ عنہم موجودہوں۔یہ بات اس چیز کی واضح دلیل ہے کہ مشورہ کرتے وقت کثرتِ رائے کے بجائے مشورہ دینے والے مشیر کی اہلیت و قابلیت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ کسی بھی معاملے میں اصل فیصلہ کثرتِ رائے کے بجائے امیر کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔

نماز کے لئے منادی پر مشورہ:
اسی طرح بخاری ومسلم میں ہے کہ نماز کی منادی کرنے کے لئے مختلف طریقہ کار سامنے آئے ۔کسی نے کہاکہ نصاریٰ کے طریقے کو اور کسی نے یہودیوں کے طریقے کو اپنانے کا مشورہ دیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ کسی ایک آدمی کو نماز کے لئے بلانے کے لئے مقرر کردیا جائے۔چناچہ رسول اللہ ﷺنے اس کام کے لئے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔اس واقعہ سے بھی یہ پتہ چلا کہ رسول اللہ ﷺان امور بھی صحابہ کرام سے مشاورت کرتے تھے جس کے بارے میں بذریعہ وحی کوئی واضح دلیل موجود نہ ہواور یہ بھی کہ مختلف آراء سننے کے بعد کسی رائے کا اقرب الی الحق یا رضائے الٰہی کے قریب ہونا پسندیدگی کا معیار تھا۔رائے دینے والوں کی تعداد نہیں گنی جاتی تھی۔
غزوۂ احد:
غزوہ ٔ احد کے موقع پر جب قریشِ مکہ تین ہزارکا لشکرِ جرار لے کر مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو آپﷺنے اس امر پر صحابہ کرامرضی اللہ عنہم مشاورت کی کہ جنگ مدینہ میں رہ کر مدافعانہ طور پر لڑی جائے یا شہر سے باہر نکل کر میدان میں لڑی جائے۔رسول اللہ ﷺکی رائے تھی کہ جنگ شہرمیں رہ کر لڑی جائے اور کبارصحابہ رضی اللہ عنہم کی رائے بھی یہی تھی ۔رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بھی یہی چاہتا تھا۔لیکن چند نوجوان صحابہ جنہوں نے غزوۂ بدر میں شرکت نہیں کی تھی ،ان کا اصرار تھا کہ جنگ باہر میدان جاکر لڑی جائے۔چناچہ رسول اللہ ﷺنے ان کی رائے کااحترام کرتے ہوئے باہر لڑنے کا اعلان فرمایا ۔رسول اللہ ﷺہتھیار منگوائے اور دوہری زرہ پہن کر تشریف لائے۔اسی اثناء میں کبارصحابہ رضی اللہ عنہم نے ان نوجوان صحابہرضی اللہ عنہم سے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے جس بات کو پسند کررہے تھے اسی کو اختیار کرنے میں خیر تھی۔چناچہ جب ان نوجوان صحابہ نے بھی رسو ل اللہﷺسے معذرت کی اور آپ ﷺکو اپنی سابقہ رائے کے مطابق ہی فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا۔لیکن آپﷺنے فرمایا:
’’کسی نبی کو یہ لائق نہیں کہ اسلحہ جنگ زیبِ تن کرے اور دشمن کی طرف نکلنے کا اعلان کرے تو اس سے لڑے بغیر واپس ہو۔میں نے تمہیں یہ بات کہی تھی تو تم نے اسے تسلیم نہ کیا اور باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا ۔اب تم پر لازم ہے کہ اللہ سے ڈرو اور جب دشمن سے مقابلہ ہو تو جنگ میں ثابت قدم رہواور اس بات کا خیال رکھو کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے ، اسی طرح کرو‘‘۔(البدایہ والنھایہ ج:۴ص۱۲)
اس واقعہ سے بھی یہ بات پتہ چلتی ہے کہ لوگوں کی اکثریت مدینہ میں رہ کر جنگ لڑنے کی قائل تھی مگر رسول اللہ ﷺنے ا ن چند نوجوان صحابہ رضی اللہ عنہم کی دلجوئی کے لئے مدینہ سے باہر نکل کر لڑنے کا فیصلہ کیا مگر جب بعد تمام صحابہ کرام بشمول نوجوان صحابہ بھی مدینہ میں رہ کر جنگ لڑنے کا مشورہ دینے لگے تو رسول اللہ ﷺنے اکثریت کی بات کو رد کرتے ہوئے اپنافیصلہ برقرار رکھا۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
دورِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم
دین جمہوریت کے دلدادہ دورِ خلفائے راشدین کے بارے میں بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں بھی تمام امور جمہوری بنیادوں پر طے ہوتے تھے ۔اس حوالے سے بھی چند مثالیں سامنے رہیں جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے کسی بھی جمہوری اقدار کا دور دور تک کوئی شائبہ بھی دورِ خلفائے راشدین میں نہیں ملتا جس کاڈھنڈورہ یہ جمہوریت کے داعی پیٹتے رہتے ہیں۔

جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ :
رسول اللہﷺکی وفات کے بعد جب عرب کے قبائل مرتد ہونے لگے اور کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ۔جھوٹے داعیانِ نبوت کھڑے ہونے لگے اور آئے دن اُ ن کی قوت میں اضافہ ہونے لگا۔دوسری طرف جیشِ اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کامسئلہ بھی سامنے تھا جس کو خود نبی کریم ﷺنے اپنی زندگی میں ترتیب دیا تھا۔ان حالات کے پش نظر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پہلے جیشِ اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کے متعلق مشورہ کیا تو ان نازک حالا ت میں شوریٰ فوری طور پر لشکر کی روانگی کے خلاف تھی لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا دوٹوک فیصلہ ان الفاظ میں فرمایا:
’’اس ذات کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔اگر مجھے یہ یقین ہوکہ درندے آکر مجھے اٹھالے جائیں گے،تو بھی میں اسامہ کا لشکر ضرور روانہ کروں گا۔جیساکہ نبی کریم ﷺنے حکم دیا تھااور اگر ان آبادیوں میں میرے سوا کوئی شخص بھی باقی نہ رہے تو بھی میں یہ لشکر ضرور روانہ کروں گا‘‘۔(طبری جلد۳ص۲۲۵)
چناچہ آپ رضی اللہ عنہ کے اس دوٹوک فیصلہ کے بعد بااتفاق یہ لشکر بھیجا گیا جو چالیس دن کے بعد کامیاب ہوکر واپس لوٹا۔
مانعین زکوٰۃ کا معاملہ:
اس کے بعد مانعینِ زکوٰۃ کے متعلق آپ رضی اللہ عنہ نے انصارومہاجرین کو جمع کیا اور ان مشاورت چاہی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اے خلیفہ رسولﷺ!میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت عرب سے نماز اداکرنے کو ہی غنیمت سمجھیں اور زکوٰۃ پر مواخذہ نہ کریںاور اس وقت مہاجرین و انصار میں تمام عرب وعجم کے مقابلے کی سکت نہیں‘‘۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کی رائے سننے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے رائے طلب کی تو انہوں نے حرف بہ حرف حضرت عمررضی اللہ عنہ کی رائے کی تائید کی ۔اس کے بعد تما م انصار ومہاجرین بھی اسی رائے کی تائید میں یک زبان ہوگئے ۔یہ سن کر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور فرمایا:
’’اللہ کی قسم !میں برابر امرِ الٰہی پر قائم رہوں گا اور اللہ کی راہ میں جہاد کروں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا…اللہ کی قسم!اگریہ لوگ جو زکوٰۃ رسول اللہ ﷺکو دیتے تھے اس میں سے ایک رسی بھی روکیں گے تو میں ان سے برابر جہادکرتا رہوں گا حتیٰ کہ میری روح اللہ تعالیٰ سے جاملے۔خواہ ان لوگوں کی مد دکے لئے ہر درخت اور پتھر اورجن و انس میرے مقابلے کے لئے جمع ہوجائیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ میں کوئی فرق نہیں رکھابلکہ دونوں کو ایک ہی سلسلہ میں ذکر فرمایاہے ‘‘۔(کنز العمال جلد۳ص۴۲)
یہ تقریر ختم ہوتے ہی حضرت عمررضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور فرمایا:
’’اللہ کی قسم!اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے حق ہے‘‘۔(بخاری،کتاب استتابۃالمرتدین)
اس واقعہ سے اسلامی نظامِ شوریٰ کی کتنی وضاحت اور جمہوری اقدار کی نفی ہوتی ہے کہ ایک شخص کی رائے چونکہ اقرب الی الحق تھی تو تمام لوگوں کی رائے پرحاوی ہوگئی ۔

جنگ قادسیہ کے موقع سپہ سالار کا مسئلہ:
جنگِ قادسیہ کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو ہراول کا سردارمقرر فرمایا۔حضرت زبیر بن عوام کو میمنہ پر اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو میسرہ پر مقرر فرماکر خود سپہ سالار بن کر روانگی کا عزم فرمایا۔حضرت علیرضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا اور فوج لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور چشمہ صرار پر آکر قیام کیا۔فوج میں لڑائی کے لئے بڑا جوش پیدا ہوگیا تھا۔کیونکہ خلیفہ وقت خود اس فوج کا سپہ سالار تھا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کا خود عراق جانا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔چناچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تمام سردارانِ فوج اور عام لشکری لوگوں کو ایک جگہ کا مخاطب کرکے مشورہ طلب کیا تو کثرتِ رائے خلیفہ وقت کے ارادے کے موافق ظاہر ہوئی ۔لیکن حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس رائے کو ناپسند کرتا ہوں ۔خلیفہ وقت کا خودمدینہ منورہ سے تشریف لے جانا خطرہ سے خالی نہیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ سے بلایا گیا اور تمام اکابر صحابہ سے مشورہ کیا گیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اور تمام جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ اجتماع عام کیا کو مخاطب کرکے فرمایا :
’’میں تمہارے ساتھ عراق جانے کو تیار تھا لیکن صحابہ کرام کے تمام صاحب الرائے حضرات میرے جانے کو ناپسند کرتے ہیں لہذامیں مجبور ہوں ۔اب کوئی دوسرا شخص سپہ سالار بن کر تمہارے ساتھ جائے گا‘‘۔

اب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس شوریٰ میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا کہ کس کو سپہ سالار بناکر عراق بھیجا جائے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ سمیت سب نے اس کی تائید کی اور ان کو سپہ سالار بناکر روانہ کردیا گیا۔
اس واقعہ مشاورت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جمہوری اقدار کے برعکس متعدد صاحب الرائے اشخاص کی رائے عوام الناس کی بھاری اکثریت کی رائے سے زیادہ وزنی ہوتی ہے ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تمام فوج اور فوج کے سرداروں اور خود اپنی خواہش کے مطابق ایک معاملہ طے کیا۔لیکن صرف چند اہل الرائے کے مشورہ کو قبول کرتے ہوئے اکثریت کی رائے کو رَدکردیا۔

سفر شام کے دوران طاعون کا مسئلہ:
صحیح مسلم میں ہے کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ جب شام کی طرف سفر کو نکلے کہ اور جب مقامِ سرغ پر پہنچے تو اسلامی حکام فوجی سرداروں وابوعبیدہ بن الجراح tرضی اللہ عنہ جو شام کے گورنر تھے وہ آکر ملے اور خبر دی کہ آج کل شام کے علاقے میں طاعون کی وبا ء پھیلی ہوئی ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’مہاجرین اول کو بلاؤ‘‘۔میں انہیں بلایا تو انہیں شام میں وباء پھیلنے کی اطلاع دی اور اس کے متعلق مشورہ طلب کیا۔ان کا آپس میں اختلاف ہوا۔آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو واپس بھیج دیااور انصارِ مدینہ کو بلایااور ان سے مشورہ طلب کیا ۔ان میں بھی مہاجرین کی طرح اس معاملے میں اختلاف ہوا۔آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو بھی واپس بھیج دیا۔اس کے بعد آپ نے ان قریشی مہاجرین بزرگوں کو طلب کیاجنہوں نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کی تھی۔ان میں سے دو آدمیوں کے درمیان بھی اختلاف نہ ہوااور کہنے لگے کہ ہم یہی مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نہ جائیں اور لوگوں کو اس وبا ء میں نہ جھونکیں ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مدینہ واپسی کا اعلان کیا تو حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا کہ آپ تو تقدیر الٰہی سے بھاگ رہے ہیں ۔اتنے میں حضرت عبد الرحمن بن عوف tرضی اللہ عنہ آگئے اور آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس معاملہ کا شرعی حکم معلوم ہے ۔میں نے رسول اللہﷺفرماتے ہوئے سناکہ :
’’جب سنو کسی شہر میں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤاور اگر ایسی جگہ طاعون پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہووہاں سے مت بھاگو‘‘۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیااور واپس آگئے۔(دیکھئے صحیح مسلم ،کتاب السلام،باب الطاعون)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل امور پر روشنی ملتی ہے کہ جن لوگوں سے مشورہ لیا جائے ان کے فرق مراتب کا لحاظ رکھا جائے ۔جو لوگ اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کی رضاجوئی پیش پیش ہوں،مشورہ کے سب سے زیادہ حقدار وہی لوگ ہیںاور دوسرا یہ کہ مشورہ کے بعد رائے شماری اور اکثریت کے فیصلہ کا کوئی معیار نہیں ہے۔

عراق کی مفتوحہ زمینوں کا معاملہ:
جب عراق اور شام کو مسلمانوں نے فتح کرلیا اور ان زمینوں پر قبضہ ہوگیا تو امرائے فوج نے اصرار کیا کہ مفتوحہ مقامات ان کے صلہ ٔ فتح کے طور پر انہیں عطا کی جائیں اور ان کے باشندوں کو ان کی غلامی میں دیا جائے۔لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ ان زمینوں کو ان کے باشندوں کے پاس ہی رہنے دیاجائے اور ان کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔

اکابرِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اورحضرت بلال رضی اللہ عنہ اہل فوج کے ہم زبان تھے۔اموالِ غنیمت کے علاوہ زمینوں اور قیدوں کی تقسیم پر بھی مُصر تھے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ یہ استدلال پیش کرتے تھے کہ اگر مفتوحہ علاقے فوج میں تقسیم کردیئے جائیں توآئندہ افواج کی تیاری ،بیرونی حملوں کی مدافعت اورامن وامان قائم رکھنے کے لئے مصارف کہاں سے آئیں گے اور اس سے بڑھ کر یہ مصلحت بھی تھی کہ اگر زمین افواج میں تقسیم کردی جائیں تو وہ جہاد کی طرف سے غافل ہوجائیں گے اور بڑی بڑی جاگیریں وجود میں آجائیں گی۔لہذاموالِ غنیمت تو فوج میں تقسیم کردینے چاہئیں اور زمین بیت المال کی ملکیت قراردی جانی چاہیے ۔

چونکہ دونوں طرف دلائل موجود تھے۔لہذاحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کے لئے مجلس مشاورت طلب کی۔یہ مجلس دس افراد پر مشتمل تھی،پانچ مہاجرین اور پانچ انصار میں سے ۔حضرت عثمان ،حضرت علی اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا۔تاہم کوئی فیصلہ نہ ہوسکااور کئی دن تک بحث چلتی رہی۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ کو دفعتاً قرآن کریم ی ایک آیت یاد آئی جو بحث طے کرنے کے لئے نصِ قاطع تھی۔اس آیت کے ابتدائی فقرے {وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْا مِنْم بَعْدِہِمْ}(الحشر:۱۰)سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے استدلال کیا کہ فتوحات میں آئندہ نسلوں کا بھی حق ہے لیکن اگر اسے فاتحین میں تقسیم کردیا جائے تو آنے والی نسلوں کے لئے کچھ باقی نہ رہے گا ۔چناچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بااتفاق ان کی رائے کو درست قرار دیا۔(دیکھئے شرح السنۃ بحوالہ مشکوٰۃ ،باب الفیئ)
مندرجہ بالا حقائق کثرتِ رائے کے معیارِ حق ہونے کے جوکہ جمہوریت کا اصل خاصہ ہے ،ابطال پر دو ٹوک اورقطعی فیصلہ کردیتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود جو جمہوریت کی اس ’’نیلم پری‘‘کے دامِ فریب میں مبتلا ہوکر جمہوریت کو اسلا م کے نظامِ شوریٰ سے جوڑتا رہے تو اس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ :
{فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوبَہُمْ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ } (الصف:۵)
’’پس جب انہوں نے ٹیڑھا راستہ اختیار کیا تو اللہ نے اُن کے دلوں کو اور ٹیڑھا کردیا اور اللہ تعالیٰ ہرگز کسی فاسق وفاجر کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔
 
Top