• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

" عصرِ حاضر کیلیے رہنمائی سورۃ العصر کی روشنی میں"

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
13151973_1025649064137985_907038529075470780_n (1).png


بسم الله الرحمن الرحيم


" عصرِ حاضر کیلیے رہنمائی سورۃ العصر کی روشنی میں"

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ نے 29-رجب- 1437 ہجری کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " عصرِ حاضر کیلیے رہنمائی سورۃ العصر کی روشنی میں" ارشاد فرمایا ، جس انہوں نے بتلایا کہ دین اسلام میں ہی ہماری کامیابی و کامرانی کے راز ہیں اور ان رازوں کو سورۃ العصر میں بیان کیا گیا ہے، چنانچہ انہوں نے اس سورت کی روشنی میں فرد، معاشرے، رعایا، حکمران، اہل قلم اور میڈیا کیلیے سنہری تعلیمات ذکر کیں۔

پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جو نیک لوگوں کا ولی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے آخری انجام کار متقی لوگوں کے حق میں لکھ دیا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں ہمارے نبی سیدنا محمد -ﷺ-اللہ کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں، آپ کو سارے جہانوں کیلیے رحمت بنا کر بھیجا گیا، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور صحابہ کرام پر روزِ قیامت تک رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو!

میں آپ سب اور اپنے آپ کو تقوی الہی اور اطاعت کی نصیحت کرتا ہوں؛ کیونکہ یہی سعادت و کامرانی کا راستہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ}

{ جو شخص اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کرے، اللہ سے خشیت رکھے اور اس سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔[النور: 52]

مسلمانو!

امت اسلامیہ کو متنوع چیلنجز ، مختلف مصائب اور سنگین مسائل کا سامنا ہے، دین اسلام ہی ہماری شان و شوکت ، کامیابی کا گہوارہ ، بہتری کی بنیاد اور دنیاوی و اخروی سعادت مندی کی اساس ہے، اس دین نے ہمیں اعلی اصول دیے ہیں، ان سے ہماری زندگی منظم ہو سکتی ہے ہمارے حالات بہتر ہو سکتے ہیں، ہمارے معاشرے محفوظ، اور صفوں میں اتحاد آ سکتا ہے، یہ دلوں میں باہمی الفت اور دشمنوں کے خلاف قوت پیدا کر سکتے ہیں، ان اصولوں کی ایک ترجمانی اس سورت میں ہے:

{وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ }

زمانے کی قسم [1] بیشک انسان خسارے میں ہے [2] سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ، نیک عمل کرتے رہے اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق بات و باہمی صبر کی تلقین کی۔[العصر: 1 - 3]

یہ قرآن مجید کی ایک انتہائی عظیم سورت ہے، جب بھی امت اس پر عمل پیرا ہو گی تو ہدایت و رہنمائی پائے گی، سعادت مند و کامیاب ہوگی ۔

اس سورت میں کامیابی کے اصول ہیں، دنیاوی و اخروی سلامتی پنہاں ہے، حتی کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے مسلمانوں کی شان و شوکت اور سنہری دور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ:

"اگر لوگ صرف اسی سورت پر غور و فکر کریں تو انہیں کافی ہو گی"

اس سورت نے صحیح منہج واضح کیا ہے، اسی کی روشنی میں مسلم معاشرے کو عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو یا ان پر کسی بھی قسم کی ذمہ داری ہو، چنانچہ اس سورت نے مسلمانوں کیلیے نجات، بہتری، سعادت مندی اور کامیابی کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔

اس منہج کا تقاضا یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالی کی ہو ، اللہ کی شریعت پر استقامت ہو، رضائے الہی کے کاموں کیلیے کوشش، اللہ کے غضب ، ناراضگی اور عذاب کا موجب بننے والے امور سے اجتناب ہو۔

یہ منہج مسلم معاشرے پر حق بات، نیکی اور تقوی پر باہمی تلقین لازمی قرار دیتا ہے، نیز اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ عدل ، خیر و بھلائی، اور بلند اخلاقی اقدار اپنی زندگی میں عام کرنے کیلیے کوشاں رہیں۔

مسلم اقوام!

ان عظیم ہدایات پر چلتے ہوئے تمام مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ لوگوں کو خیر و بھلائی کی تلقین کریں، نیکی اور تقوی پر تعاون فراہم کریں، تا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان عمل پیرا ہو سکیں:

{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى}

نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو۔ [المائدة: 2]

اسی طرح تمام مسلمان اپنی اجتماعی رہنمائی و بہتری کے راستے تلاش کرنے کیلیے رسول ﷺ کی وصیت پر عمل کریں:

"آپ ﷺ نے تین بار فرمایا: (دین خیر خواہی کا نام ہے) ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کس کیلیے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (اللہ کیلیے، رسول اللہ کیلیے ، مسلم حکمرانوں کیلیے اور عام مسلمانوں کیلیے) مسلم

ایسی امت میں کوئی خیر و بھلائی نہیں ہو سکتی جو اپنے حالات درست کرنے کیلیے باہمی اصلاح اور بات چیت سے کام نہ لے، حالانکہ اسی سے حالات درست ہوں گے، پروردگار ان سے راضی ہو گا، اور انہیں دنیا و آخرت میں سعادت ملے گی۔

اسی لیے کچھ صحابہ کرام آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو سورۃ العصر سناتے اور اس پر عمل کے عزم کا اعادہ کرتے ۔

جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:

"میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر نماز قائم کرنے، زکاۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت کی"

یہ ایسی نصیحت ہے کہ جس میں سچائی، خلوص اور اہداف ہیں ، یہ متوازن، اور یہ حکمت و دانائی سے بھر پور ہونے کے ساتھ ساتھ کسی بھی وقت کیلیے مکمل طور پر موزوں نصیحت ہے، اس نصیحت میں مقاصد اسلام کو شانہ بشانہ رکھ کر نرمی، شفقت اور انس بروئے کار لایا گیا ، نیز قولی و فعلی شدت پسندی سے دوری ، گفتار و کردار میں تکبر سے اجتناب رکھا گیا کیونکہ شدت پسندی اور تکبر سے ہی فتنے رونما ہوتے ہیں اور برائی پھیلتی ہے ۔

اسلامی بھائیو!

اس منہج کی تعلیمات میں رعایا کی یہ ذمہ داری ہے کہ حکمرانوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے باہمی تعاون کی فضا میں دین و دنیا کی بھلائیاں سمیٹیں، دلی طور پر خیر خواہی کریں، دل سے دعا دیں، اور اتحاد و اتفاق کیلیے پوری جد و جہد کریں، دلوں میں الفت اور مودت پیدا کرنے کیلیے بھر پور کردار ادا کریں، آپ ﷺ کا فرمان ہے:

(تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، وہ تمہارے لیے دعائیں کریں اور تم ان کیلیے دعائیں کرو) مسلم

اور دوسری جانب حکمران کی ذمہ داری ہے کہ جب اس کو نصیحت یا رہنمائی دی جائے تو اسے قبول کرنے کیلیے رسول اللہ ﷺ کے منہج پر چلے۔

اسلامی بھائیو!

اس سورت کے نقش کردہ منہج کے مطابق معاشرے کے نوجوانوں اور خصوصاً اہل قلم و میڈیا کیلیے ضروری ہے کہ علمائے کرام کے مقام و احترام کو یقینی بنائیں، ان کی جانب سے پیش کردہ خدمات کا اعتراف کریں، ان کے حقوق کو تحفظ دیں، تا کہ علمائے کرام بغض اور کینے سے آلودہ قلموں کا نشانہ نہ بنیں، اور ایسی موشگافیوں سے بچیں جن کا ہدف دین سے بیزاری اور مسلمہ اصولوں میں رخنہ ڈالنا ہے، کیونکہ دشمنان اسلام کی جانب سے تانے ہوئے تیروں کا ہدف علمائے اسلام نہیں بلکہ اس دین کی بنیادوں کا کھوکھلا کرنا ہے۔

اللہ کے بندو!

حق بات کی تلقین کرنے کا یہ بھی ایک ضروری حصہ ہے کہ اس امت کے نوجوان اپنے انفرادی اجتہادات سے باز رہیں، ان سے عام طور پر دشمنوں کیلیے راستے ہموار اور ان کے اہداف پورے ہوتے ہیں، نوجوان! تمہاری نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو تمہاری کارکردگی بھی اچھی اور کتاب و سنت کے مطابق ہونی چاہیے۔

اصل بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں بے چینی اور خلل پیدا کرنے کے کسی بھی ذریعہ کی فراہمی دشمنوں کیلیے بہترین تحفہ ہے، دشمن مسلمانوں کے بارے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، چنانچہ اس راستے میں سد ذرائع دینِ اسلام کا بنیادی اصول ہے۔

اسلامی بھائیو!

پورے کے پورے اسلامی معاشرے چاہے وہ حکمران ہوں یا رعایا انہیں چاہیے کہ وہ ایسے بن کر دکھائیں جیسے اللہ تعالی چاہتا ہے، اس کیلیے شریعت اسلامیہ پر کار بند ہو جائیں، نیکی اور تقوی کے کاموں پر باہمی تعاون کریں، اپنے تمام معاملات میں اطاعتِ الہی اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی تعمیل کریں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو دین اسلام کو اپنے لیے اعزاز سمجھیں، دینی اقدار مضبوطی سے تھام لیں، اور اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی منفی سرگرمی کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔

مسلم اقوام:

مسلمان آپس میں دینی بھائی ہیں، اپنے بھائیوں کے بارے میں صاف دل ان کی امتیازی صفت ہے، ان کی یہ بھی خوبی ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں اچھا گمان رکھتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا}

جب تم نے وہ بات سنی تو مومن مرد و خواتین نے اپنے ہی [ساتھیوں کے] بارے میں اچھا خیال کیوں نہ کیا؟[النور: 12]

اس لیے اسلوبِ نصیحت میں غلطی کرنے والا ہر شخص کینہ پرور نہیں ہوتا لیکن کچھ میڈیائی ذرائع ایسا ہی منظر بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اسلامی معاشرے میں سچے دل سے نصیحت کرتے ہوئے لغزش کا شکار ہونے والا شخص خود غرض، یا ہوس پرست نہیں ہوتا؛ تاہم چونکہ اسلامی معاشرہ مثالی معاشرہ ہوتا ہے اس لیے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے معاملات پیش کرتے ہوئے عدل و انصاف کا دامن مت چھوڑیں، حق بات تک پہنچنے کیلیے سچائی اور خلوص سے کام لیں، با مقصد گفتگو کریں، دل سے خیر خواہی چاہیں، ایسے انداز سے بات چیت کریں کہ جس کی بنیاد صحیح طرزِ استدلال اور واضح حقائق پر ہو اسی طرح غلط اور صحیح کی نشاندہی، مفید اور نقصاندہ میں تفریق علمی ، شرعی انداز سمیت عقل سلیم پر ہو۔

لیکن ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنا اور آوازیں کسنا ، کسی کی نیت پر شک کرنا یہ سب کچھ اسلامی طریقہ کار نہیں ہے، اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اس چیز کی اجازت دی ہے۔

مسلسل مصائب کے شکار اور انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے مسلمانوں کو اس وقت یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ دشمنان اسلام مسلمانوں کے خلاف اعلانیہ جنگ کے ساتھ ساتھ ایک خفیہ جنگ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک ، کٹ حجتی، اور زرق برق ایسی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں جو ظاہری طور پر تو بہت ہی شفقت و رحمت پر مبنی ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ مہلک ترین ہوتی ہیں۔

دونوں قسم کی جنگوں کے سامنے کار گر ہتھیار صرف یہی ہے کہ اسلام پر مضبوطی سے عمل پیرا ہوں، مسلمانو! اللہ تعالی کا فرمان پڑھو اور اس پر غور و فکر کرو کہ اللہ تعالی نے دشمنان اسلام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کیا فرمایا ہے؟ :


{وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ}

وہ تمہیں مشکلات میں پھنسا دیکھنا چاہتے ہیں، بغض ان کی زبانوں سے عیاں ہو چکا ہے لیکن جو ان کے دلوں میں ہے وہ اس سے بھی گراں ہے، ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کر دی ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو[آل عمران: 118]

تو مسلمانو! تم عقل و فکر نہیں رکھتے؟ حالانکہ تمہارے دین ، دھرتی اور دنیاوی امور کے خلاف دشمنوں کی جانب سے سر چڑھتی سر گرمیاں تمہارے سامنے موجود ہیں!؟

مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان سرگرمیوں کے سامنے اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے سینہ سپر ہو جائیں، اسلام کو اپنے لیے اعزاز سمجھیں، اور ملک العلّام کی اطاعت کریں، تمام شعبہ ہائے زندگی میں رب العالمین کی شریعت نافذ کریں، اسی کی دعوت دیں، اور کھوکھلے نعروں ، دین و دنیا تباہ کر دینے والی اصطلاحات سے دھوکہ مت کھائیں، جو کہ مسلم معاشروں میں لمبے چوڑے فسادات کا باعث بنتی ہیں۔

اللہ تعالی ہم سب کو اپنے پسندیدہ اور رضا کا موجب بننے والے اعمال کرنے کی توفیق دے۔

میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اور اللہ تعالی سے اپنے اور تمام مسلمانوں کیلیے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

میں اپنے رب کی حمد بیان کرتا ہوں اور اسی کا شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، بکتیں، اور سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

مومنوں کے دل اپنے بھائیوں کو شام ، یمن اور کچھ دیگر مسلم ممالک میں مصیبت زدہ دیکھ کر بہت ہی زیادہ کڑھتے ہیں، انہیں بہت سی مشکلات اور سنگین حالات کا سامنا ہے، ہم صرف اللہ تعالی کے سامنے ہی شکوی کرتے ہیں وہی ہمیں کافی ہے اور ہمارے بگڑے معاملات سنوارنے والا ہے۔

امت اسلامیہ! مسلم حکمرانو!

اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونے سے پہلے اللہ تعالی سے ڈرو ، اللہ تعالی کے سامنے تمہاری ذمہ داری بہت بڑی ہے ، یہ دنیا تو فانی ہے اور تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ تم متحد ہو جاؤ، ظلم و زیادتی کے خاتمے اور مظلموں کی حمایت کیلیے یکسو ہو جاؤ، خونی حمام بند کرواؤ، اللہ تعالی تم سے اس امانت کے بارے میں ضرور پوچھے گا، اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، اللہ تعالی نے انہیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے، ان نعمتوں کو اطاعتِ الہی میں صرف کرنا مسلمانوں پر واجب ہے، مسلمانوں کے مسائل حل کروانے کیلیے کھڑے ہونا ضروری ہے۔

اللہ تعالی خادم حرمین شریفین کی جانب سے ان امور کو مکمل توجہ دینے پر جزائے خیر سے نوازے، مسلم حکمرانوں آپ بھی حصولِ حق اور مظلوموں کی مدد کیلیے ان کے دست و بازوں بنیں، مبادا وقت ہاتھ سے نکل جائے اور یہ فتنے پوری امت میں سرایت کر جائیں۔

أَمَرْتُكَ أَمْراً جَازِمًا فَعَصَيْتَنِيْ
فَأَصْبَحْتَ مَسْلُوْبَ الْإِمَارَةِ نَادِماً

میں نے تمہیں یقینی بات کا حکم دیا تو تم نے میری بات نہ مانی، اب تمہارے پاس حکمرانی نہیں رہی، تو نادم ہو رہے ہو!

علمائے امت کی عظیم ترین ذمہ داری ہے کہ اس امت کے افراد کو متحد ہونے کی دعوت دیں، کمزور کی مدد واجب سمجھیں، ظلم و زیادتی کرنے والوں کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں۔

مسلمانوں پر جزوی ، اور معمولی نوعیت کے مسائل چھوڑ کر بڑے بڑے مسائل پر حل کرنا فرض اور واجب ہے، مسلمان ضروری طور پر ایسے اقدامات کریں جو رسول اللہ ﷺ کی سنت سے مطابقت بھی رکھتے ہوں اور دلوں کو ملانے کی صلاحیت بھی رکھیں، تا کہ وہ اللہ تعالی کی بتلائی ہوئی قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہو سکیں۔

سب مسلمانوں پر باری تعالی کے سامنے اپنے ہاتھ اٹھانا ضروری ہو چکا ہے، ہر وقت یہ دعا مانگیں کہ اللہ تعالی ان سے ظلم کے بادل چھٹ دے اور مسلمانوں کی تکالیف رفع کر دے۔

یا اللہ! یا ذو الجلال وا الاکرام! ہم تجھے تیرے اسمائے حسنی اور عالی شان صفات کا واسطہ دیتے ہیں کہ شام، یمن اور دیگر تمام خطوں میں مسلمانوں کی مشکلات رفع فرما دے۔

یا اللہ! یا حیی! یا قیوم! یا ذو الجلال و الاکرام! تجھے تیرے اسما و صفات کا واسطہ، یا عزیز! یا حکیم! تو ہی کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں پر اپنی خصوصی رحمت نازل فرما، یا ذو الجلال والاکرام!

یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے خلاف مکاری کرے یا اللہ! اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں ، یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے خلاف مکاری کرے یا اللہ! اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں ، یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے خلاف مکاری کرے یا اللہ! اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! تو ہی ہمیں کافی ہے، اور تو ہی ہمارے معاملات سنوارنے والا ہے، مسلمانوں پر مسلط تمام ظالموں کا خاتمہ فرما، یا اللہ! تو ہی ہمیں کافی ہے، اور تو ہی ہمارے معاملات سنوارنے والا ہے، مسلمانوں کے مال و جان اور خطوں پر مسلط تمام ظالموں کا خاتمہ فرما، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں اور تو ہی غنی و حمید ہے، یا اللہ! ہم تجھ سے ہی مانگتے ہیں تو ہی عزیز و حکیم ہے، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کو معزز بنا، یا اللہ! اسلام دشمنوں کو ذلیل فرما، یا اللہ! اسلام دشمنوں کو ذلیل فرما، یا ذو الجلال والاکرام! یا اللہ! ان پر اپنے لشکر مسلط فرما، یا اللہ! ان پر اپنے لشکر مسلط فرما، یا اللہ! ان پر اپنے لشکر مسلط فرما، یا اللہ! انہیں تمام لوگوں کیلیے نشانِ عبرت بنا دے، یا اللہ! انہیں سب کیلیے نشانِ عبرت بنا دے، یا اللہ! انہیں گزشتہ و پیوستہ تمام لوگوں کیلیے نشانِ عبرت بنا دے ، یا ذو الجلال والاکرام!

یا اللہ! تمام مسلم مرد و خواتین کی بخشش فرما، یا اللہ ! تمام مومن مرد و خواتین کی بخشش فرما، زندہ و مردہ تمام لوگوں کی بخشش فرما دے۔

یا اللہ! مسلم ممالک کی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلم ممالک کی ہر قسم کے شر و مکر سے حفاظت فرما،یا اللہ! مملکت حرمین شریفین کی ہر قسم کے شر و مکر سے حفاظت فرما، یا ذو الجلال و الاکرام!

یا اللہ! سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! تو ہی ان کا حامی ناصر بن ، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! خادم حرمین شریفین کو اچھے کاموں میں کامیاب فرما، یا اللہ! انہیں اپنی طرف سے توفیق اور تائید عطا فرما، یا اللہ! انہیں اپنی طرف سے توفیق اور تائید عطا فرما، یا اللہ! حق کے ذریعے ان کی مدد فرما، یا اللہ! حق کے ذریعے ان کی مدد فرما، یا ذالجلال والاکرام! یا اللہ! انہیں صحت و عافیت سے نواز، یا اللہ! انہیں اور ان کے دونوں نائبوں سمیت تمام مسلمانوں کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما۔

یا اللہ! ہم تجھے تیرے اسما و صفات کا واسطہ دے کر سوال کرتے ہیں کہ تو ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہم پر بارش نازل فرما، اور ہمیں مایوس مت فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! مسلم خطوں میں بارش نازل فرما، یا حیی! یا قیوم!

اللہ کے بندو!

اللہ کا خوب ذکر کرو، صبح و شام اسی کی تسبیح کرو، اور آخر میں نبی کریم پر درود پڑھو، یا اللہ! ہمارے نبی سیدنا محمد پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

اور ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں۔

پی ڈی ایف فارمیٹ میں پڑھنےکیلیے کلک کریں۔
 
Top