• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاضر میں خروج کا مسئلہ اور شبہات کا جائزہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الف) خلافتِ راشدہ: اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیابت رسولﷺ میں بندگانِ خدا کی اصلاح ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ، نفاذ شریعت واعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کے سوا ذاتی سطح پر ہرگز بھی کچھ مطلوب نہ ہو۔ یعنی اتباعِ نفس و مرغوباتِ نفسانیہ کا ہرگز بھی کوئی گذر نہیں ہوتا یہاں تک کہ رخصتوں ، مباحات و توسع کے بجائے عزیمت ، تقویٰ و احتیاط کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس رویے کی وضاحت خلفائے راشدین کے طرزِ عمل کی دو مثالوں سے ہوجاتی ہے:
1. باوجود اس کے کہ اسلام میں خلیفہ کےلئے متوسط درجے کا معیارِ زندگی اختیار کرنا جائز ہے تاہم خلفاے راشدین نے ہمیشہ کم سے کم تر پر ہی اکتفا کیا۔
2. باوجود اس کے، کہ خلیفہ کےلئے اپنی حفاظت کا مناسب بندوبست کرنا جائز ہے لیکن خلفائے راشدین نے کبھی اس کا اہتمام نہ فرمایا، حالانکہ تین خلفا شہید تک ہوئے ۔
نیابت رسولﷺ میں اختیارِ عزیمت و احتیاط کا یہ پہلو ہر معاملے میں اپنایا جاتا تھا اور خلفائے راشدین کے طرزِ عمل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کسی بھی خلیفۂ راشد نے اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات کےلئے استعمال کرنے کی ادنیٰ درجے میں بھی کوشش نہیں کی۔ درحقیقت یہی وہ پہلو ہے جو خلافت راشدہ کو محض خلافت سے ممیز کرتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ب ) خلافت ؍امارت؍ سلطنت سے مراد یہ ہے کہ نفاذِ شریعت و جہاد کے ساتھ ساتھ دنیاوی مقاصد، مثلاً مرغوبا تِ نفسانیہ ، مال وجاہ کی خواہش، اقربا پروری، اَمصار و بلدان پر تسلط اور طولِ حکومت کی آرزو وغیرہ بھی شامل حال ہوجاتے ہیں ۔ اس ہوا و ہوس کے بھی کئی مراتب ہیں جن کی بنا پر خلافت کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اوّل: امارتِ عادلہ کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان حکمران عادل ہو جیسے عمر بن عبد العزیز، سلیمان بن عبد الملک، اورنگ زیب عالمگیروغیرہم ۔ یعنی نیابت رسولﷺ میں ظاہر شریعت حاکم کے ہاتھ سے نہ چھوٹتی ہو، نہ ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوتا ہو۔ اگر معصیت میں مبتلا ہو بھی جائے تو اس پر دوام اختیار نہ کرتاہونیز مباحات و توسّعات کے درجے میں لذاتِ نفسانیہ تلاش کرلیتا ہو ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوم : امارتِ جابرہ سے مراد فاسق مسلمان حکمران ہے لیکن اس کا فسق انتہائی درجے کا نہیں ہوتا۔ یہ ایسا حاکم ہوتا ہے جس سے احکاماتِ شریعہ میں کوتاہی ہوجاتی ہے ، یعنی اطاعت ِنفس میں دائرۂ شریعت سے باہر نکل کر فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر اس پر پشیماں بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی توبہ کی فکر کرتا ہے لیکن اس کے باوجود نفاذِ شریعت و مقاصدِ شریعت کے نظام کو قصداً تہہ و تیغ نہیں کرتا بلکہ اُنہیں جوں کا توں بجا لانے کی روش برقرار رکھتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سوم : امارتِ ضالہ کا معنیٰ ایسا مسلمان حکمران ہے جو انتہائی فاسق ،فاجر و ظالم ہو۔ تکبر ، ظلم و تعدی کی بنیاد ڈالتا ہے، نفس پرستی میں ہمت صرف کرتا ہے، فسق و فجور کے طریقوں کو عام کرنے کو اپنی پالیسی بنا لیتا ہے، بیت الما ل کو ذاتی ملکیت بنا لیتا ہے وغیرہ۔ گویا امارتِ جابرہ و ضالہ میں فرق کرنے والی ایک اہم شے حکمران طبقے کے فسق و ظلم کا اسلامی ریاستی نظم کے لئے لازم یا متعدی ہونا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چہارم: حاکمیتِ کفر ایک ایسی ریاست جو شریعت کے برعکس کسی دوسری بنیاد (مثلاً ہیومن رائٹس) پر قائم ہوتی ہے۔ یہاں خود ساختہ قوانین کو شرع پر ترجیح دی جاتی ہے، حرام کو قوانین کا درجہ دے دیا جاتا ہے، حلال پر قدغنیں عائد کردی جاتی ہیں، شارع کے واضح احکامات کو بھی پس پشت ڈال کر دشمنانِ اسلام کے طریقوں کو رائج کرکے ان کے ہاتھ مضبوط کئے جاتے ہیں وغیرہ۔
کسی ریاست کے کفریہ ہونے کے لئے یہ بات غیر اہم ہے کہ اس کا حاکم مسلمان ہے یا کافر۔ مثلاً بارک اوبامہ (یا کسی اور مسلمان ) کے امریکہ کے صدر بن جانے سے امریکہ دارالاسلام نہیں بن جائے گا۔ یا جیسے افغانستان میں اشتراکی نظام نافذ کرنے والے تمام لوگ بظاہر کلمہ گو ہی تھے مگر ان کا یہ دعوی ایمانی کسی اشتراکی ریاست کو اسلامی کہلانے کے لئے کفایت نہ کرے گا ۔
اس تقسیم سے ضمناً یہ اہم بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری تاریخ میں اقتدار ( نظامِ جبر ) بحیثیت ِمجموعی اسلامی تھا گو کہ اچھی بری حکومتیں آتی رہیں ۔ یقیناً اسلامی تاریخ میں برائیاں رہی ہیں، مگر اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلامی ریاست ناپید ہوگئی تھی، بلکہ صرف اس لئے کہ مسلمان فرشتے نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہی ہیں جن سے غلطی اور گناہ کا صدور ممکن ہے۔ چنانچہ بیرونی طور پر اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ اور ان سے جہاد اور اندرونِ ریاست مذہبی و تمدنی زندگی کے اداروں و شعبوں میں احکاماتِ شریعہ کے نفاذ کے مقاصد مختلف درجات میں ادا کئے جاتے رہے، گو خلافتِ راشدہ کے بعد اس کے ساتھ ذاتی مفادات اور عملی کوتاہیوں کے معاملات بھی شامل حال ہوگئے تھے۔ (اس نکتے کی مزید وضاحت درج بالا مثال سے سمجھی جا سکتی ہے)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3) موجودہ مسلم حکومتوں کی حیثیت : اقوالِ فقہا کو درست طور پر سمجھنے نیز موجودہ دور پر اُنہیں چسپاں کرنے کی غلطی سمجھنے کے لئے خلافت اور موجودہ مسلم ریاستوں کے فرق پر غور کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے جس سے یہ واضح ہوسکے گا کہ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں خیر القرون کی خلافت تو کجا خلافتِ عثمانیہ و مغلیہ کے ہم پلّہ بھی نہیں۔ درج ذیل تمام نکات بذاتِ خود تفصیل طلب موضوعا ت ہیں لیکن نفس مضمون اور خوفِ طوالت ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم ان کی طرف اشارہ کئے دیتے ہیں۔4
1. قومی بمقابلہ اسلامی ریاست
2. حاکم کے لئے نمائندگی عوام بمقابلہ نیابتِ رسولﷺ
3. سوشل سائنسز بمقابلہ علومِ شرعیہ کی بالادستی
4. دستور (ہیومن رائٹس ) بمقابلہ شریعت (نظامِ قضا ) کی بالادستی
5. مذہبی معاشرت بمقابلہ سول سوسائٹی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان نکات کی نوعیت سے واضح ہے کہ موجودہ مسلم ریا ستیں دانستہ و نا دانستہ طور پر ایک ایسے نظام پر مبنی اوراس کی حامی و ناصر ہیں جہاں خدا کے بجائے عوام کی حاکمیت، علومِ شرعیہ کے بجائے سرمایہ دارانہ علوم اور شرع کے بجائے دستور نافذ ہے۔ درحقیقت جدید مسلم ریاستیں ہیومن رائٹس کی بالا دستی کا اقرار کرکے بذاتِ خود اپنے سرمایہ دارانہ ہونے کا کھلم کھلا اعلان کررہی ہیں اور یہ بات پولیٹکل سائنس کے ہر طالب علم پر واضح ہے کہ ہیومن رائٹس پر مبنی جمہوری ریاست ایک pluralistic (کثیر الخیر تصوراتی) ریاست ہوتی ہے جہاں کسی مذہب کی بالادستی کا دعویٰ سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کے لئے بطورِ ایک حربہ کچھ عرصے قبول تو کیا جاسکتا ہے (جسے آمرانہ جمہوریتیں کہا جاتا ہے) البتہ ایسی ریاست کے اندر مذہبی حاکمیت کو محفوظ کرنا اور فروغ دینا ناممکن الوقوع شے ہے۔ یہ ریاستیں'خیر' نہیں بلکہ 'حقوق' پر مبنی ریاستیں ہوتی ہیں لہٰذا ہر وہ ریاست جو ہیومن رائٹس کو جزوی یا کلّی طور پر قبول کرتی ہے وہ سیکولر ریاست ہوتی ہے۔ جمہوری ریاست کے اندر عبوری دور کے لئے کسی قسم کی مذہبیت کو محض اس لئے روا رکھا جاتا ہے کہ چونکہ مقامی لوگ ابھی پوری طرح Enlightened (مہذب یعنی ہیومن بینگ) نہیں ہو سکے ہیں لہٰذا اُنہیں ان کے مقامی تعصبات (مثلاً مذہبی یا روایتی وابستگیوں) کے ساتھ ہیومن رائٹس کی بالادستی قبول کرنے کا پابند بنا یا جائے تاکہ ایک طرف ان کی 'نفسیاتی تسکین' کا سامان بھی فراہم ہوجائے اور دوسری طرف 'عملاً سرمایہ دارانہ نظام کو قبولیت ِعامہ ' فراہم کرنے کے لئے ادارتی صف بندی کرنے کا موقع بھی میسر آجائے۔ جوں جوں سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے روایتی مذہبی عقلیت و علمیّت تحلیل ہوکر بے معنیٰ ہوتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ دنیا میں ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام کو اسی حربے کے ذریعے آفاقی قبولیت فراہم کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر کا سب سے بڑا اور غالب ترین کفر بواح 'ہیومن رائٹس کی حقیقت واضح ہوجانے کے بعد اس کا اقرار کرنا'ہے۔5
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس مختصر وضاحت سے معلوم ہوا کہ موجودہ مسلم ریاستیں درحقیقت سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں گو اُنہیں چلانے والے مسلمان ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ریاستی اداروں کے ممبران بہر حال مسلمان ہی ہیں (جن میں سے کئی ایک مخلصین بھی ہیں)، مگر یہ ایسے ہی ہے جیسے مسلمان عیسائی یا ہندو ریاست قائم کرکے اس کے قانون کے ما تحت زندگیاں بسر کرنے لگیں، اسی کو ہم نظریاتی محکومی کہتے ہیں۔ اِنہی معانی میں موجودہ دور میں پائی جانے والی عمومی صورت حال نئی اور منفرد ہے کہ 'قومی نوعیت' کے مسلمان حکمران (بہ استثناے چند) اس سے پہلے ماضی میں کسی 'باطل نظام' کے تحت حکمرانی نہیں کیا کرتے تھے ، بلکہ ان کا جرم فسق وفجور کی نوعیت کا ہوتا تھا، نہ کہ کسی نظامِ باطل کے حامی و ناصر ہونے کا۔ (اس معنی میں کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ مسلم ریاستیں تو یزید کی امارت سے بھی بدتر ہیں، کم از کم وہ کسی اسلام کش نظام کا حامی تو نہیں تھا، خیال رہے کہ ہم یزید کی حمایت نہیں کررہے بلکہ موجودہ مسلم ریاستوں کو اس کی امارت سے بھی بد تر کہہ رہے ہیں) ۔ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں جس علمیت، قانون ، معاشرت و سیاست کو فروغ دے رہی ہیں وہ سرمایہ دارانہ خدوخال پر مبنی ہیں جن کا اسلام سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4) اُمت ِمسلمہ میں خروج کی حالیہ لہر کی وجوہات : یہ بات سمجھنا بھی نہایت اہم ہے کہ آخر پچھلی نصف صدی میں ہی اُمت مسلمہ کے اندر خروج کی اس قدر تحریکات کیوں برپا ہورہی ہیں۔ مختصراً ذیل کے نکات پر غور کرنے سے اس کی جائز فکری بنیادیں سمجھی جاسکتی ہیں :
1. لگ بھگ 1924ء تک کم یا زیادہ کے فرق کے ساتھ، اسلامی ریاست اور شریعت کی حکومت مسلمانوں پر قائم تھی۔
2. ایک بیرونی استعمار نے فوجی، قانونی، سیاسی، سماجی، تعلیمی و نظریاتی استبداد کے ذریعے مسلم دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط کردیا ۔مزے کی بات یہ ہے کہ جدید مسلم مفکرین جن مغربی تصورات واداروں (مثلاً جمہوریت) پر فریفتہ ہو کر اُنہیں 'عین اسلام' قرار دے رہے ہیں، ان کا کوئی سراغ تک اسلامی تاریخ میں نہیں ملتا۔ یہاں سے یہ نکتہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آخر ابتدائی دور میں آمرانہ جمہوریتیں کیوں قائم کی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ اس کا مقصد اسی قسم کی غلامانہ ذہنیت پیدا کرنے کا موقع حاصل کرنا ہوتا ہے ۔
3. اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ تبدیلی جس سے اُمت ِمسلمہ کو سابقہ پڑا، ان معنی میں پہلی تبدیلی تھی کہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کی بنیاد اسلام و شریعت کے سوا کچھ اور ہوگئی (ان معنی میں کمزور ترین مغل سلطان بہادر شاہ ظفر کی ریاست بھی جدید مسلم ریاستوں سے کئی گنا بہتر تھی)
4. مسلم علاقوں سے استعمار کے جانے کے بعد ان علاقوں کے اس سیکولر و جدیدیت زدہ طبقے کو جو دینِ استعمار کا دلدادہ اور پیروکار تھا، تقریباً ہر مسلم علاقے میں'ہیرو' بنا کر وہاں ایک قوم پرست ریاست قائم کرکے قابض کردیا جاتا ہے اور یہ طبقہ ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کا 'مقامی رکھوالا' بن بیٹھتا ہے تو دوسری طرف اسلام پسندوں پر کوڑے برسانے اور نظم اجتماعی میں اُنہیں دیوار سے لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔
5. ساتھ ہی طویل عرصے تک کئی اسلامی تحریکات کو اس غلط فہمی میں مبتلا رکھا جاتا ہے کہ تمہار امسئلہ عوامی رائے کا تمہارے ساتھ نہ ہونا ہے، لہٰذا اگر تم عوامی رائے کی بنیاد پر حکومت بنا لو تو جو جی میں آئے کرلینا (یہ اور بات ہے کہ بذات خود یہ جمہوری ریاستیں قائم کرنے کیلئے مقامی لوگوں کی رائے ضروری نہیں) ، لیکن اگر کہیں (مثلاً الجزائرمیں ) اسلامی تحریکات نے اکثریتی ووٹ لاکر ان کے سامنے دھر بھی دئیے تو ایسے الیکشن کو کالعدم قرار دیکر اسلامک فرنٹ کی حکومت قائم نہ ہونے دی گئی کیونکہ اس حکومت سے خود جمہوری نظام کو خطرہ لاحق تھا۔
6. پس جہاں ایک طرف جمہوریت پسند طبقوں کے 'عمل' نے حقیقت پسند اسلام پسندوں کی اس غلط فہمی کا پردہ چاک کردیا کہ جمہوری راستے سے سرمایہ دارانہ نظم ریاست ختم کرکے اسلامی نظم ریاست قائم کرنا ممکن ہے، وہاں ساتھ ہی مغربی فکر کے تفصیلی مطالعے سے یہ نظریاتی حقیقت بھی عیاں ہوگئی کہ جمہوریت کا مطلب 'اکثریتی رائے ' (will of all) نہیں بلکہ 'ارادہ عمومی' (general will) یعنی آزادی و ہیومن رائٹس کی بنیاد پر ریاستی نظام قائم کرنا ہوتا ہے، اس ارادۂ عمومی کو کسی مذہب یا روایت کی بنیاد پر کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس فریم ورک کے اندر کسی مذہب کی بالادستی قائم کرنا ممکن ہوتا ہے کیونکہ ارادۂ عمومی کی حاکمیت بندگی ربّ نہیں بلکہ آزادی (بغاوت) کو فروغ دیتی ہے ۔
7. چنانچہ جس طرح ریاستی سرپرستی ختم ہوجانے کے بعد علومِ دینیہ کے تحفظ کے لئے علماے کرام نے مساجد و مدرسہ کی سطح پر علمی جدوجہد برپا کی، معاشرے کے اجتماعی بگاڑ کے پیش نظر اَن گنت اصلاحی اسلامی تحریکات سامنے آئیں، بالکل اسی طرح اسلامی قوت جمع کرکے اقتدار کو کفر کے بجائے شریعت کے تابع کرنے کے لئے انقلابی و جہادی تحریکات کا وجود میں آنا بھی نہ صرف یہ کہ عین فطری تقاضا تھا بلکہ اُمت ِمسلمہ کی ایک اہم ضرورت بھی۔6 لہٰذا قابل فکر بات یہ سوچنا نہیں کہ ان تحریکات کو ختم کیسے کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ تمام اسلامی تحریکوں کے کام میں ربط کیسے پیدا کیا جائے ۔ (اس نکتے پر کچھ گفتگو ذیل میں آئے گی)
8۔ چنانچہ اگر سرمایہ دارانہ نظام اور استعمار ایجنٹ حکمرانوں کو مسلم علاقوں میں بے دست و پا کرکے اسلامی خلافت قائم کر دی جائے تو تحریکاتِ خروج و انقلاب خود بخود ختم ہوجائیں گی، جب تک ایسا نہ ہوگا، ان تحریکات کا استحقاق وجود اور وجہ جواز بہر حال قائم رہے گا۔ (اسی لئے کہتے ہیں 'ضرورت ایجاد کی ماں ہے')
 
Top