• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاضر میں خروج کا مسئلہ اور شبہات کا جائزہ

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
5. اسی طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں کو فقہا کے اقوال کی روشنی میں جانچتے وقت یہ بات ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے کہ تقریباً تمام ہی مسلم ریاستیں یا تو لبرل یا آمرانہ جمہوری نظم کے تحت کام کررہی ہیں اور جن کا اسلامی نظم اطاعت سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ لہٰذا ان ریاستوں کو غلط طور پر اسلامی فرض کرکے اُنہیں ان اقوال کی روشنی میں خروج سے پناہ دینا قیاس مع الفارق ہے۔ پس ائمہ سلف کے فتاوی کو ان کے پورے محل سے کاٹ کر الگ اور بے محل پیش کرنے کے بجائے اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ یہ فتویٰ کن حالات اور کن اُمور کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیا گیا تھا۔ [حصہ سوم اور چہارم آئندہ شمارہ میں ]
جزاک الله - متفق -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
2) اقوال فقہا کاسیاسی پہلو
حصہ اوّل میں بیان کردہ اُصولی مباحث سے واضح ہوتا ہے کہ
1. عدم خروج کے جو اقوال کتبِ فقہ میں موجود ہیں وہ فاسق حکمران کی موجودگی میں ہی صحیح مگر اسلامی ریاست (نہ کہ محض حکومت) کی موجودگی کو بہرحال فرض (Pre-suppose) کرتے ہیں۔
2. لہٰذا علماے متقدمین نے خروج کے خلاف جو فتوے دئیے تھے،اُنہیں موجودہ صورتِ حال پر منطبق کرنا درست نہیں کیونکہ یہاں تو سرے سے وہ اسلامی ریاست ہی مفقودہے جس کے خلاف خروج پر وہ فتوے دئیے گئے تھے، یعنی جس اسلامی ریاست کے اندر ' فساد کے اندیشے' کی وجہ سے یہ فتوے دئیے گئے، وہ ریاست ہی جب سرے سے مفقود ہے تو ان فتووں کی آڑ میں موجودہ ریاستوں کو تحفظ دینے کا کیا مطلب؟ فقہ اسلامی کے اہم رجحانات پہلی اور دوسری صدی ہجری میں مرتب ہوئے جب بنواُمیہ اور عباسی خلافتیں قائم تھیں ، آج کے دور میں تو مسلمان آبادیوں اور حکمرانوں سب پر طاغوت کا غلبہ ہے لہٰذا ان حالات میں بجائے انقلابی جدوجہد کی ضرورت کا دفاع کرنے کے اُنہیں غلط طور پر اِن اُصولوں پر منطبق کرنے کی کوشش کرنا جو فقہاے کرام نے 'خلافت ِاسلامیہ' کے تناظر میں مرتب کئے تھے، قیاس مع الفارق ہے۔ پس فقہاے کرام کے اقوال منکرین خروج کے حق میں دلیل بننے سے قاصر ہیں، اگر وہ واقعی اپنے حق میں کوئی دلیل پیش کرنا چاہتے ہیں تو فقہائے کرام کے ایسے اقوال پیش کریں جن کے مطابق ' غیر اسلامی ریاست کے خلاف ہر حال میں جہاد (خروج) کرنا ناجائز قرار دیا گیا ہو۔' اگر ایسا کوئی قول ہے تو براے مہربانی پیش کیا جانا چاہئے کیونکہ موجودہ ریاستوں کے تناظر میں خلاف خروج اقوال پیش کرنا ظلم (وضع الشيء في غیر محله) کا مصداق ہے کہ یہ تمام اقوال تو 'اسلامی ریاست' نہ کہ 'غیر اسلامی ریاست ' کے پس منظر میں نقل ہوئے ہیں۔ پس موجودہ حکومتوں کے خلاف انقلابی جدوجہد کو خروج کہنا ایک کم تر اور نسبتاً کمزور دلیل سے اس کا جواز فراہم کرنا ہے کیونکہ اس کے لئے زیادہ مناسب اور بہتر علمی اصطلاح جہاد ہونی چاہئے ۔18 فقہ اسلامی میں خروج سے مراد 'اسلامی ریاست' کی اصلاح کےلئے اسلامی حکومت کے خلاف بذریعہ قوت جدوجہد کرنا ہے۔ خروج بطورِ حکمت ِعملی تب محل بحث ہوسکتی ہے جب اسلامی ریاست موجود ہو۔ البتہ جب اسلامی ریاست سرے سے موجود ہی نہ ہو تو ایسے حالات میں ریاست کے خلاف بذریعہ قوت کی جانے جدوجہد خروج نہیں بلکہ اصطلاحا ً جہاد کہلاتی ہے (جیسے تاتاری حکومت کے خلاف برپا کی گئی اسلامی جدوجہد)۔ دوسرے لفظوں میں تصورِ خروج خلافتِ اسلامی کی موجودگی کو فرض کرتا ہے اور اس کی عدم موجودگی میں جو شے مدارِ بحث ہونی چاہئے وہ خروج سے آگے بڑھ کر جہاد ہونی چاہئے۔ یہ بات درست ہے کہ فاسق و فاجر اسلامی حکومت کے خلاف جائز خروج بھی معناً جہاد کے زمرے میں شمار ہوتا ہے (جیسا کہ حدیث شریف میں بیان ہوا ''جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا بہترین جہاد ہے''، نیز تفسیر جصاص میں نفس زکیہ کے خروج کے حق میں امام ابوحنیفہ کا قول منقول ہے کہ آپ نے اسے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرا ر دیا )، البتہ یہاں بات اصطلاح کی ہو رہی ہے۔ یہ فرق بالکل ایسا ہے جیسے لفظ 'حد' بطورِ فقہی اصطلاح اوربطورِ قرآنی اصطلاح میں معنوی فرق ہے۔ پس دورِ جدید میں خروج کی بحث اُٹھانے والے حضرات پر درحقیقت موجودہ مسلم ریاستوں کی اصل حقیقت ہی واضح نہ ہوسکی۔
جمہوریت کی درج بالا مثال پر قیاس کرتے ہوئے چند اہم باتوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے :
جزاک الله - متفق -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
3.اسلامی خلافت بھی محض تبدیلی حکومت کے مخصوص نظام (شوری کے مشورے سے خلیفہ کے تعین) کا نام نہیں بلکہ یہ بھی ایک مکمل نظم اطاعت ہے، لہٰذا کسی ایک ادارے (انتقال اقتدار)کے کرپٹ ہوجانے سے پورا اسلامی نظام ختم نہیں ہوجاتا۔ دورِ ملوکیت میں جو بنیادی ادارتی خرابی پیدا ہوئی، وہ یہ تھی کہ 'اہل الرائے 'کے مشورے سے خلیفہ کی نامزدگی کا نظام ختم ہو گیا اور ریاست وحکومت کے اس فرق کو نہ پہچاننے کی وجہ سے خلافت ِراشدہ کے بعد اسلامی نظام اقتدار میں آنے والی جزوی تبدیلی (اہل الرائے کے مشورے سے خلیفہ کے تعین) کو جدید مفکرین نے بذاتِ خود اسلامی ریاست کی تبدیلی پر محمول کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاے کرام نے بادشاہوں کے فسق کے باوجود خروج سے منع فرمایا ہے کہ ان انفرادی خرابیوں کے باوجود ریاستی نظام بحیثیت ِمجموعی اسلامی تھا اور خروج کے نتیجے میں نظم اطاعت کو خطرہ ہوسکتا تھا۔
جزاک الله - متفق -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
6) ﴿أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم....٥٩ ....سورة النساء ''اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں سے صاحب ِامر ہوں۔'' اولی الامر سے قبل 'اطیعوا 'کا لفظ نہ آنے سے معلوم ہوا کہ اطاعت ِامیر مستقل بالذات نہیں بلکہ درحقیقت اطاعتِ شارع سے مشروع ہے، اگر وہ اس کے خلاف ورزی کرے تو اس کی اطاعت ضروری نہیں۔
جزاک الله - متفق -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
7) ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا : «ستکون أمراء فتعرفون وتنکرون فمن عرف برئ ومن أنکر سلم ولکن رضي و تابع قالوا: أفلا نقاتلهم قال :لا ما صلّوا »'' عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جنہیں تم پہچانتے ہو گے اور ان کا انکار کرو گے، پس جس کسی نے ان (کی حقیقت) کو پہچان لیا وہ بری ہوگا، جس کسی نے برملا انکا انکار کیا وہ تو سلامتی کے راستے پر ہوگا سوائے اس کے جو اُن پر راضی ہوگیا اور ان کی اطاعت کرنے لگا (یعنی نہ وہ بری ہے اور نہ سلامتی کے راستے پر)۔ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! کیاایسے اُمرا کے خلاف ہمیں قتال نہیں کرلینا چاہئے؟ آپ ﷺنے فرمایا: جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ،ایسا مت کرنا ۔'' اس حدیث سے پتہ چلا کہ فاسق حکمرانوں کی اطاعت کی کم از کم شرط یہ ہے کہ وہ نظامِ صلوة قائم رکھیں (یعنی خود بھی ادا کریں، اس کی ادائیگی کا اہتمام کریں نیز رعایا کو بھی اس کا حکم دیں)۔ اس حدیث میں لفظ 'قتال'یہ واضح کررہا ہے کہ اس شرط کی عدم موجودگی میں محض احتجاج (منازعت) نہیں بلکہ ' مسلح جدوجہد' کی اُصولی اجازت بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسی احادیث ہیں جن سے حکمرانوں کے خلاف بذریعہ قوت نہی عن المنکر پر استدلال ہوتا ہے۔
اس حدیث پر گفتگو فرماتے ہوئے کچھ حضرات نے یہ نکتہ پیش کیا کہ چونکہ قرونِ اولیٰ میں نماز ان معنی میں شعائر اسلام سمجھی جاتی تھی کہ ہر کوئی نماز پڑھتا تھا لہٰذا اس کی عدم ادائیگی پر خروج کی اجازت دی گئی لیکن چونکہ آج کے دور میں اکثریت بے نمازیوں کی ہے لہٰذا آج یہ اس طور پر شعائر اسلام نہیں رہی ،اس لئے آج ترکِ صلوة پر خروج جائز نہ ہوگا۔ ہم اس تاویل کا سر اور پیر دونوں ہی تلاش کرنے سے قاصر ہیں، اہل علم خود ہی اس تاویل کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں۔ البتہ اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ حدیث شریف کا مدعا یہ بتانا ہے کہ اقامت ِصلوٰةہر دور کے لئے حقیقی اسلام کے اظہار کا کم سے کم درجہ ہے، گویا رسول اللہﷺنے وہ پیمانہ بتا دیا جس میں تول کر فیصلے کئے جاسکتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ مؤمن اور کافر میں فرق کرنے والی شے نماز ہے۔ اس نکتہ شناسی کا مطلب تو یہ ہوا کہ شعائر اسلام کا تعین قرآن و سنت کی نصوص سے نہیں بلکہ فاسق مسلم اکثریت کے اعمال سے ہونا چاہئے۔
جزاک الله - متفق -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
٭خروج کی اجازت دینے والے علما کے نزدیک بھی اس کی اجازت چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے:
اوّل: خروج تب کیا جائے جب بگاڑ بڑی نوعیت کا ہو ، یعنی جب حکمران کھلے بندوں واضح احکامات شریعہ کی دھجیاں بکھیرنے لگیں، اسلامی نظام اطاعت معطل ہو کر غیر اسلامی نظام اطاعت غالب آچکا ہو۔ دوسرے لفظوں میں خروجِ امارة ضالہ و کفر کے خلاف کرنا چاہئے۔ فقہاے کرام نے جواز خروج کی جس شرط پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ شریعتِ اسلامی کا معطل ہوجانا ہی ہے:
٭علامہ شامی فرماتے ہیں:
''تین چیزوں سے دارالاسلام دارلحرب میں تبدیل ہوجاتا ہے، اہل شرک کے احکام کے اجرا سے، اس شہر کے دارالحرب سے متصل ہونے سے، امن اسلام کے خاتمے سے۔''11
٭امام یوسف و محمد کے نزدیک کسی علاقے میں مذکورہ اُمور میں سے صرف کفریہ احکامات کا اجرا ہی اسے دارالحرب بنانے کےلئے کافی ہے ۔
٭امام سرخسی فرماتے ہیں:'' احکام اسلام کے اجرا کے بغیر دارالحرب دارالاسلام میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔''12
٭علامہ علاؤ الدین کاسانی فرماتے ہیں:''ہمارے علما میں اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ دارالکفر اسلامی احکامات ظاہر ہونے سے دارالاسلام میں تبدیل ہوتا ہے۔''13
٭شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:'' اگر کوئی ایسا شخص حکمران بن جائے جس میں تمام شروط نہ پائی جائیں تو اس کی مخالفت میں جلدی نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ اس کی مخالفت سے ملک میں لڑائی جھگڑے اور فساد پیدا ہوں گے ... لیکن اگر حکمران کسی اہم دینی امر کی مخالفت کرے تو اس کے خلاف قتال جائز بلکہ واجب ہوگا، اس لئے کہ اب اس نے اپنی افادیت ختم کردی اور قوم کے لئے مزید فساد و بگاڑ کا سبب بن رہا ہے لہٰذا اس کے خلاف قتال جہاد فی سبیل اللہ کہلائے گا۔''14
٭علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ''جب دین (نظم اطاعت) غیر اللہ کےلئے ہوجائے تو قتال واجب ہو جاتا ہے، چنانچہ جو لوگ اسلام کے واضح و متواتر احکامات و قوانین کی پابندی نہیں کرتے ان سے قتال کے واجب ہونے پر میں علماے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں جانتا ۔''15
جزاک الله - متفق -
 
شمولیت
جولائی 04، 2015
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
6
عصر حاضر میں خروج کا مسئلہ اور شبہات کا جائزہ

زاہد صدیق مغل
ماہنامہ 'ساحل'سے متعارف ہونے والے کراچی کے فکری حلقے کے نمائندہ جناب زاہد صدیق مغل نے زیر نظر مضمون میں جمہوریت کا تجزیہ وتردید کرتے ہوئے خلافتِ اسلامیہ کے درجات متعین کئے ہیں۔ اُنہوں نے فی زمانہ خروج کی تحریکوں کی وجۂ جواز، اُمت ِمسلمہ پر باطل نظاموں کی حکومت کو قرار دیا ہے کہ جب تک اسلامی نظام قائم نہیں ہوگا،اس وقت تک مسلمان تکفیر و خروج کےاسلامی سیاسی تصور سے استدلال کرکے اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔اس سلسلے میں خروج کے شرعی جواز کے دلائل تفصیلا ً پیش کرتے ہوئے،اُن کی رائے ہے کہ ان پر خروج کی بجائے جہاد کا لفظ بولنا زیادہ موزوں ہے کیونکہ خروج دراصل کسی اسلامی ریاست کے خلاف ہوتا ہے۔فی زمانہ مسلمانوں کی موجودہ ریاستوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اُنہوں نے خروج کے لفظ کو خلط ِمبحث قرار دیا ہے ۔ ایک مستقل طرزِ فکر ہونے کے ناطے ان کا استدلال بہر حال قابل توجہ ہے۔ یہ مضمون تکفیر وخروج پر جاری اس پہلے مذاکرے کا اہم حصہ ہے جس کی نشاندہی ادارتی صفحات میں کی گئی ہے۔مدیر
اول بات خروج اسلامی حکومت کے خلاف ہوتا ہے جمہوری حکومت کے خلاف نہیں۔۔۔۔
جس چیز کی شریعت کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں اس کے خاتمے کیلئے جدوجہد دعوت اور جہاد سے ہوتی ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اول بات خروج اسلامی حکومت کے خلاف ہوتا ہے جمہوری حکومت کے خلاف نہیں۔۔۔۔
جس چیز کی شریعت کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں اس کے خاتمے کیلئے جدوجہد دعوت اور جہاد سے ہوتی ہے۔
متفق
 
Top