• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاضر کی تکفیری تحریکوں کا ایک تاریخی جائزہ / حصہ اول/ تکفیری تحریکوں کا آغاز : مصر

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
مصر میں تکفیر کی تحریک


بسم اللہ الرحمن الرحیم​
فتنہ تکفیر و خوارج کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے کہ جتنی اسلام کی ہے۔ کیونکہ یہ فتنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے شروع ہوا اور آج تک کسی نا کسی شکل میں نمودار ہوتا رہتا ہے اور قیامت تک نمودار ہوتا رہے گا، جیسا کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
عصر حاضر میں ایک بار اس فتنہ نے پھر سر اٹھایا ہے اور اس بار بھی اس بنیاد اور وجہ کچھ ایسے لوگ بنے ہیں کہ جن کا دین کے مصادر اور مفاہیم سے دور کا کوئی تعلق نہیں یا پھر اگر ہے بھی تو محض برائے نام اور نا مکمل۔ یاد رہے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خوارج نکلے تو تب بھی ان بنیادوں میں کوئی عالم یا صحابی نہیں تھا، سب منطق اور فلسفہ سے لبریز دماغ تھے اور دلیل و برہان کو بھی اسی منطق و فلسفہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی باطل تاویل گھڑ کر رد کر دیتے تھے اور اگر وہ لا جواب ہو جاتے تو پھر ضد پر اڑ جاتے تھے۔ آج موجودہ دور میں بھی ان کا جدید شکل میں ظہور بھی کچھ ایسی شخصیات کے ہاتھوں ہوا ہے جو پھر پوری اسلامی دنیا میں پھیل چکا ہے اور امت مسلمہ کو دھیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
سلفی وغیرسلفی علماء کا کہنا ہے کہ عصر حاضر میں خوارج کے ظہور کا سبب بھی ایسے ہی منطقی اور فلسفی بنے اور پھر اس کی لپیٹ میں عام مخلص مسلمانوں سمیت کئی اہل علم بھی آئے۔عصر حاضر کے خوارج کی ابتداء کا اگر جائزہ لیں تو اس کی جڑیں مصر تک پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ اور علماء کا ماننا ہے کہ مصر میں تکفیر کی تحریک کا آغاز اخوانی تحریک کے رہنما سید قطب کی تحریروں سے ہوا۔

اس بارے خود ایک مصری عالم یوسف قرضاوی لکھتے ہیں:
'' فی ھذة المرحلة ظھرت کتب الشھید سید قطب ' التی تمثل المرحلة الأخیرة من تفکیرہ ' والتی تنضح بتکفیر المجتمع' وتأجیل الدعوة الی النظام الاسلامی بفکرة تجدید الفقہ وتطویرہ ' واحیاء الاجتھاد' وتدعوا لی العزلة الشعوریة عن المجتمع' وقطع العلاقة مع الآخرین...ویتجلی ذلک أوضح ما یکون فی تفسیر 'فی ظلال القرآن' فی طبعتہ الثانیة وفی 'معالم الطریق' ومعظمہ مقتبس من الظلال.''(أولیات الحرکة السلامیة : ص ١١٠
''اس مرحلے میں سید قطب کی وہ کتابیں سامنے آئیں، جو سید قطب کے فکر کے آخری مرحلے کی نمائندگی کر رہی تھیں اور ان کتابوں میں اسلامی معاشروں تکفیر، نظام اسلامی کے قیام کی دعوت کو مؤخر کرنا اور فقہ اسلامی کی تجدید، تشکیل اور اجتہاد کے احیاء کی دعوت کو مقدم کرنا مترشح ہوتا ہے۔ اسی طرح سید قطب کی یہ کتابیں اسلامی معاشروں سے شعوری علیحدگی اور اپنے کے علاوہ سے قطع تعلقی کی دعوت دیتی ہیں... اور یہ تمام افکار ان کی تفسیر 'فی ظلال القرآن' کے دوسرے ایڈیشن میں وضاحت سے موجود ہیں اور ان کی کتاب 'معالم الطریق' میں بھی ہیں اور اس کتاب کا اکثر حصہ ان کی تفسیر فی ظلا ل القرآن ہی پر مشتمل ہے۔''
شیخ ابو حسام الدین طرفاوی نے بھی اپنی کتاب 'الغلو فی التکفیر'میں تکفیری فکراور تحریک کی بنیاد سید قطب کو قرار دیا ہے.

جہاں تک سعودی سلفی علماء کا سید قطب کے بارے رائے کا معاملہ تو اکثر کبار سلفی علماء سید قطب کو جلیل القدر صحابہ کرام پرطعن، انبیاء کے لیے غیر مناسب کلمات کے استعمالات، وحدت الوجود کے قائل ہونے، حلول کے عقیدے کے مطابق قرآنی آیات کی تفسیر کرنے، صفات باری تعالی میں تحریف، مسلمان معاشروں کی تکفیر، مسئلہ جبر میں جبریہ کی تقلید، کلمہ توحید کی غلط تفسیر، عقیدے میں خبر واحد بلکہ خبر متواتر کابھی انکار، قرآن کو اللہ کی مخلوق قرار دینا، میزان کا انکار، اشتراکیت کا قائل ہونے، روح کو ازلی قرار دینے، بتوں اور قبر پرستی کے شرک کو شرک اکبر نہ سمجھنا، رؤیت باری تعالی، صفت ید، صفت وجہ اور استواء علی العرش کی باطل تاویلات پیش کرنا، صفت کلام سے مراد اللہ کا ارادہ لینا، نبوی معجزات کی توہین اور عقیدہ الولاء و البراء میں غلو سے متہم کرتے ہوئے بدعتی شمار کرتے ہیں

شیخ بن باز رحمہ اللہ نے سید قطب کے صحابہ کے بارے طعن کو سن کر کہا :
یہ خبیث کلام ہے اور سید قطب کی ایسی کتابوں کو پھاڑدینا چاہیے۔ انبیا کے بارے سید قطب کے غیر مناسب کلمات سن کر شیخ بن باز رحمہ اللہ نے ان کے اس فعل کو ارتداد قرار دیا۔اسی طرح استوا علی العرش کے بارے سید قطب کا کلام سن کر شیخ بن باز رحمہ اللہ نے انہیں 'مسکین ضائع فی التفسیر' کا لقب دیا۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے سید قطب کے بارے کہا:

"انہیں نہ تو دین اسلام کے اصولوں کا علم تھا اور نہ ہی فروعات کااور وہ دین اسلام سے منحرف تھے"۔
شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہنے وحدت الوجود کے بارے سید قطب کا کلام سن کر کہا:
"سید قطب نے بہت بڑی بات کی ہے اور یہ اہل سنت و الجماعت کی مخالفت ہے۔
اسی طرح شیخ نے ایک دوسرے مقام پر سید قطب کی تفسیر کے بارے کلام کرتے ہوئے کہا :
ان کی تفسیر کو پڑھنے کی نصیحت نہیں کی جا سکتی"۔
شیخ حماد انصاری نے کہا :
"اگر سید قطب زندہ رہتے تو ان سے توبہ کروائی جاتی اور اگر وہ توبہ نہ کرتے تو ان کو ارتداد کی حد میں قتل کر دیا جاتا"۔
شیخ صالح الفوزان نے کہا :
"سید قطب کو عالم کہنا جائز نہیں ہے ' وہ صرف ایک مفکر ہیں اور اگر سید قطب کی جہالت مانع نہ ہوتی تو ہم ان کے الحادی کلام کی وجہ سے ان کی تکفیر کرتے"۔
شیخ صالح اللحیدان نے کہا:
"ان کی کتابیں اہل سنت کے عقیدے کے مخالف مواد سے بھری پڑی ہیں اور سید قطب عالم دین نہیں تھے"۔
شیخ عبد اللہ الدویش نے سید قطب کی تفسیر میں ان کے بعض اقوال کے بارے فرمایا:
"یہ اہل اتحاد ملحدین کا قول ہے جن کا کفر یہود و نصاری کے کفر سے بڑھ کر ہے۔علمائے ازہرنے سید قطب شہید کی کتاب 'معالم فی الطریق' سے دور رہنے کی تلقین کی ہے" ۔
سعودی سلفی علما میں سے شیخ ربیع المدخلی ' شیخ ابن غدیان ' شیخ محسن العباد' شیخ صالح آل الشیخ وغیرہ نے بھی سید قطب کے افکار و نظریات پر نقد کی ہے۔اوپر بیان کیئے گئے تمام اقوال اور مزید

تفصیلات کے لیے دیکھیں:​


سید قطب کے عقیدے اور منہج کو بدعتی قرار دینے پر سعودی عرب کی فتوی کمیٹی اور ہیئہ کبار العلماء کے رکن شیخ صالح الفوزان کا رسالہ 'براء ة علماء الأمة من تزکیة أھل البدعة والمذمة'کے نام سے موجودہے۔

علاوہ ازیں مدینہ یونیورسٹی کے استاذ شیخ ربیع المدخلی نے بھی کئی ایک کتب میں سید قطب پر رد کیا ہے اور اس بارے ان کی مفصل کتاب'أضواء سلامیة علی عقیدة سید قطب وفکرہ 'ایک معروف کتاب ہے۔

علاوہ ازیں معروف سعودی عالم شیخ عبد اللہ الدویش کی بھی سید قطب کے رد میں کافی تحریریں موجود ہیں جن میں سے'المورد العذب الزلال فی التنبیہ علی أخطأ الظلال'ایک اہم تحریر ہے۔

شیخ ابو عبد الرحمن الراجحی نے سید قطب کے عقائد کے رد میں ایک قصیدہ عربی زبان میں لکھاجو عرب دنیا میں بہت معروف ہوا یہ قصیدہ 'الھائیة فی بیان عقیدة سید قطب البدعیة'کے نام سے مشہور ہے۔

سید قطب فقط ایک مفکر اور ادیب تھا لیکن اسے ایک فقیہ یا مجتہد کے مقام پر فائز کرنا یا عقیدہ جیسے محتاط علم میں اس کو رہنما بنانا خود اس کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور عوام الناس کے ساتھ بھی۔


قابل غور نقطہ:

مصر میں بھی اگرچہ قانون سازی کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے۔1857ء میں مصری حکومت نے ایک فرانسیسی وکیل استاذ مونوری ' جو مصر میں مقیم تھے' کو مختلط عدالتوں کے لیے فرانسیسی قانون سازی کے طرز پر قوانین وضع کرنے کا کام سونپا۔پس استاذ مونوری نے فرانسیسی قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے مصر کے مدنی قوانین' بری و بحری تجارت کے قوانین' دعوی دائر کرنے کے قوانین 'جرائم کی سزا اور ان کی تحقیق کے قوانین وضع کیے۔یہ قانون 'مخلوط قانون مدنی' کے نام سے ٥٧٨١ میں جاری ہوا۔(الاسلام وتقنین الاحکام فی البلاد السعودی:ص٩٤٢(
لیکن مصر کے ظالم حکمرانوں کے ظلم کے خلاف ردعمل کی صورت میں تکفیر کی تحریک کا باقاعدہ آغاز سید قطب شہید کی تحریروں کی روشنی میں بیسیویں صدی عیسوی کی سترکی دہائی میں ہوا

مصر میں تکفیر کا دوسرا مرحلہ


'جماعت المسلمین' سے شروع ہواجنہیں 'جماعة التکفیر والھجرة'کا نام دیا گیا۔ اس جماعت کی ابتداء حسن البناء کی قائم کردہ جماعت'الخوان المسلمون'کے ان راکین سے ہوئی جنہیں حکومت مصر کی طرف سے پابند سلاسل کیا گیااور ان پر معاصر حکام کی طرف سے شدید ظلم و ستم ہوا
١٩٦٧ء میں جیل میں قید اخوانیوں کے لیے جمہوریہ مصر کے صدر جمال عبد الناصر کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ اخوانی کارکنان صدرکی تائید و حمایت کریں ۔ اکثر اخوانی اراکین نے اپنے آپ کو مجبور اور حالت اکراہ میں سمجھتے ہوئے صدر کی تائید کر دی جبکہ نوجوانوں کی ایک جماعت نے اس تائید سے انکار کر دیا اور صدر اور اس کے حواریوں حتی کہ ان اخوانیوں کو بھی مرتد قرار دیا جو صدر کی تائید کر چکے تھے۔نوجوانوں کی اس جماعت نے یہ بھی کہا کہ جو ان مرتدین کو مرتد نہ کہے وہ بھی مرتد ہو جائے گا۔
ان نوجوانوں کے امام اس وقت انجینئر علی اسماعیل تھے۔ علی اسماعیل نے بعد میں اپنے افکار اور نظریات سے توبہ کر لی ۔

ان کے بعد شکری مصطفی نے ان نوجونواں کی قیادت سنبھال لی اور تنظیم کو بیعت کی بنیادوں پر منظم کیا۔ شکری مصطفی کے دور میں اس جماعت کے افکار و نظریات میں تشدد اور بھی بڑھ گیا اور جو بھی جماعت سے علیحدہ ہوتا تو اس کو وہ ایک طرف تو جسمانی سزا دینا اپنا حق سمجھتے تھے اور دوسری طرف اس کی تکفیر بھی کرتے تھے
٣٠مارچ ١٩٧٨ء کوحکومت مصر کی طرف سے شکری مصطفی اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔

شکری مصطفی کے بعد اس جماعت کی قیادت ماہر عبد اللہ زناتی نے سنبھال لی۔
اس جماعت کے بنیادی عقائد میں تکفیر اور ہجرت شامل ہے۔ تکفیر کے اصول کے تحت یہ ان حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں جو اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ۔ یہ حکمرانوں کے علاوہ ان مسلمان معاشروں کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو اپنے حکمرانوں کے فیصلوں پر راضی ہوں یا انہیں ووٹ دیں یا کسی طرح سے بھی ان کے ساتھ تعاون کریں۔ یہ ان علماء کی بھی تکفیر کرتے ہیں جو شریعت کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے مسلمان حکمرانوں کی تکفیر نہیں کرتے۔ یہ جماعت تمام مسلمانوں کے لیے اپنے امام سے بیعت کو واجب قرار دیتی ہے جس مسلمان تک ان کے امام کی دعوت پہنچ جائے اور وہ اس کی بیعت نہ کرے تو اس مسلمان کی بھی وہ تکفیر کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ان کی جماعت میں شامل ہونے کے بعد نکل جائے تو وہ بھی ان کے نزدیک مرتد اور واجب القتل ہے۔ اپنے ہجرت کے اصول کے تحت انہوں نے تمام اسلامی معاشروں کو دور جاہلیت کے معاشرے قرار دیا اور ان سے قطع تعلقی کا حکم جاری کیا ۔ اس جماعت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ موجودہ اسلامی معاشروں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہیں ہے کیونکہ یہ جاہلی معاشرے ہیں اور جاہلی معاشرے کو اللہ کے رسول نے ایمان کی دعوت دی لہذا ان مسلمان معاشروں کو بھی مکہ کے جاہلی معاشرے پر قیاس کرتے ہوئے صرف ایمان کی دعوت دینی چاہیے۔ اس جماعت کے بعض اکابرین کو پھانسی چڑھا دیا گیا، بعض نے اپنے افکار سے رجوع کر لیا اور بعض مختلف علاقوں اور بلاد اسلامیہ میں منتشر ہو کر اپنا یہ فکر پھیلانے لگ گئے۔ (الموسوعة المیسرة ' جماعات غالیة ' جماعة التکفیر والھجرة(


تیسرا مرحلہ ،مصر میں تکفیر کی اس تحریک کا زوال


میں الاخوان کے مرشد عام شیخ حسن الھضیبی سے شروع ہوا ۔ انہوں نے 'دعاة لا قضاة'کے نام سے کتاب لکھی اور اس میں اخوانیوں کو مسلمان معاشروں اور عمومی تکفیر سے منع کیا۔ انہوں نے اپنی تحریک کے اراکین میں اس بات کو اجاگر کیا کہ ہم داعی ہیں نہ کہ قاضی۔ شیخ نے یہ واضح کیا کہ اخوانیوں کا اصل کام لوگوں کی اصلاح ہے نہ کہ ان پر فتوے لگانا اور ان کے کفر کے فیصلے جاری کرنا۔

علامہ قرضاوی نے اپنی کتاب'ظاھرة الغلو فی التکفیر'میں اس کتاب کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ اس کتاب نے اخوانیوں کو ان کے صحیح منہج اور کام کا احساس دلایا۔​


اختتامیہ حصہ اول

اسکے بعد اس فکر کے لوگ باہمی انتشار اور افتراق کا شکار ہوتے چلے گئے اور روس کے خلاف جہاد کے اختتام کے بعد ۱۹۸۸ میں ایمن الظواہری اور انکی جماعت "مصری اسلامک جہاد" کے اراکین نے افغانستان کا رخ کیااور وہاں اپنی اس زہریلی فکر و نظریات کے فروغ کے کھلے مواقع تھے۔اور پھر یہاں بیٹھ کر انہوں نے مصر میں اپنی مسلح کاروائیوں کو جاری رکھا اور بعد ازا پاکستان میں ۱۹۹۵ میں مصری سفارتخانے پر بھی حملہ کروایا تھا۔۔۔
( مضمون جاری ہے)
 
Top