• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاضر کی تکفیری تحریکوں کا ایک تاریخی جائزہ / حصہ دوم/ سعودی عرب

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
سعودی عرب میں تکفیر کی تحریک/حصہ دوم
سعودی حکمران خاندان آل سعود کی بعض اسلامی ممالک کے خلاف امریکی حکومت کو لاجسٹک سپورٹ اور اڈوں کی فراہمی اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں بعض اہل علم اور دینی طبقات کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار ہوا۔
سعودی حکمرانوں نے اس رد عمل کے نتیجے ایسے دینی عناصر کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کر دیا یا ملک بدر کر دیا یا جبر و اکراہ کے ساتھ یک طرفہ شرائط منواتے ہوئے اپنی سابقہ حیثیت پر برقرار رکھا۔ اس ظلم کے نتیجے میں خاندان آل سعود کی تکفیر کی تحریک شروع ہو گئی۔ اس تکفیر کی تحریک میں زیادہ تر جہادی تحریکوں سے متعلق نوجوان یا تیسرے درجے کے علماء شامل ہیں۔

اسامہ بن لادن اس بارے کہتے ہیں:
''میرا اگلا پیغام اہل حل و عقد اور حق گو علماء کے نام ہے...یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مجاہدین نے ابھی تک مکہ و مدینہ کی سر زمین پر قائم حکومت کے خلاف قتال شروع نہیں کیا۔اگر اس قتال کا آغاز ہوا تو اس کا سب سے پہلا نشانہ اس علاقے کے حکام اور کفر کے امام(یعنی آل سعود) بنیں گے۔ فی الحال ہم صرف صلیبی اتحاد کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔''(اے اللہ! صرف تیرے لیے:ص ٨٥۔٨٦)

ماہر بن ظافرالقحطانی کہتے ہیں:

[FONT=_pdms_saleem_quranfont]''أفتی بن لادن شیخ المفتین ألم تروا أنھم حکموا غیر شرع أحکم الحاکمین فکانوا بہ من الکافرین.''
[/FONT]
(حوار مع أھل التکفیر قبل التفجیر : ص٢
“مفتی اعظم اسامہ بن لادن نے یہ کہتے ہوئے فتوی دیاہے: کیا تم یہ نہیں دیکھتے کہ سعودی حکمرانوں نے أحکم الحاکمین کی شریعت کے خلاف فیصلے کیے ہیں پس اس وجہ سے وہ کافر ہیں”۔

سعودی حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف یہ ردعمل اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ جہادی عناصر اب اس حکومت کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے ' بحث مباحثے یا مکالمے تک کے قائل نہیں ہیں

ڈاکٹر حمدعثمان کہتے ہیں :
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]''ھذا التصور لھؤلاء المرتدین الذین أخذوا مقعد الحاکم الشرعی فی بلاد المسلمین یجعل الحوار معھم مستحیلا أصلا ولا حوار مع المرتدین شرعا وسیاسة لا بالسیف والقتال فی سبیل اللہ.''[/FONT]( بذل النصح والتذکیر لبقایا المفتونین بالتکفیر والتفجیر : ص
١٥
'' یہ ان سعودی مرتدین کا نقطہ نظر ہے جنہوں نے مسلمان ممالک میں شرعی امام کے منصب پر قبضہ کر لیا ہے اور ایسے مرتدین کے ساتھ dialogue بالکل بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ مرتدین کے ساتھ نہ تو شرعاً dialogue درست ہے اور نہ ہی سیاستہ ً،بلکہ ان کے ساتھ ایک ہی معاملہ درست ہے اور وہ جہاد اور قتال فی سبیل اللہ ہے۔''
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]'' لیعلم الجمیع أن علیھم ذا أرادوا منا أن نتراجع عن مبادئنا التی من أجلھا خلقنا و بھا أمرنا و من أجلھا دماء نا سفکنا فیلخرجوا محمدا من قبرہ لیقول لنا : لا تخرجوا المشرکین من جزیرة العرب لیخرجوہ لیقول : لا تجاھدوا المشرکین من جزیرة العرب لیخرجوہ لیقول : انکم مخطئون متطرفون رھابیون لا بدلکم أن تتراجعوا و تتوبوا' عندھا فقط سنسمع ونطیع لہ.''(صحیفة القبس الکویتیة' العدد ١١١٣٧' ٢٤ ربیع الأول' ١٤٢٥ھ[/FONT]
'' ان سب کو یہ معلوم ہو جانا چاہیے کہ اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے ان اصولوں اور مبادیات سے رجوع کریں جن کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے اور جن کا ہمیں پابند بنایا گیاہے اور جن کی خاطر ہم نے اپنا خون بہایا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ محمد کو قبر سے نکالیں تاکہ وہ ہمیں یہ کہیں: تم مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نہ نکالو ۔اور وہ محمد کو قبر سے نکالیں تاکہ وہ ہمیں یہ کہیں: تم جزیرہ عرب کے مشرکوں سے جہاد نہ کرو تاکہ تم انہیں یہاں سے نکال دو۔ اور وہ محمد کو قبر سے نکالیں تا کہ وہ ہمیں کہیں: تم خطار کار ' افراط و تفریط کا شکار اور دہشت گرد ہو۔ تمہارے لیے یہ لازم ہے کہ تم اپنے موقف سے رجوع کرو اور اللہ کی جناب میں توبہ کرو تو تب ہم محمد کی بات کو سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔''

انتہائی اہم
بلاشبہ شیخ اسامہ بن لادن اور جہادی تحریکوں کے رہنماؤں کی امریکہ اور یورپین ممالک کے ظلم و کفرکے خلاف قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور کافرانہ ریاستوں کے خلاف ان کے اعمال و افعال کو ہمیشہ جمہور علماء کی تائید حاصل رہی ہے لیکن جب سے ان حضرات نے اپنے فتاوی کا رخ امریکہ اور یورپ سے موڑ کر مسلمان حکمرانوں کی طرف بالعموم اور سعودی شاہی خاندان کی طرف بالخصوص کیا ہے' اس وقت سے یہ علماء کے ہاں ایک متنازع شخصیت بن گئے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے اس عمل کو تقریباً جمیع سلفی علماء ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اس جہاد کو فساد قرار دیتے ہیں۔

تکفیر کے بارے القاعدہ کے لٹریچر پر سلفی علماء کا تبصرہ
سعودی عرب کے بارے سعودی سلفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ وہاں دوسرے اسلامی ممالک کی طرح سوائے انتظامی معاملات کے کوئی باقاعدہ وضعی قانون نافذ نہیں ہے بلکہ قرآن وسنت کو سپریم لاء کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی سلفی علماء کی اکثریت قانون سازی کے عمل ہی کو حرام قرار دیتی ہے' چاہے وہ فقہ حنبلی یا فقہ حنفی ہی کے مطابق کیوں نہ ہو۔ اورسعودی حکمرانوں کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ وہ اہل توحید میں سے ہیں اور توحید الوہیت کو نافذ کرنے والے ہیں۔

شیخ بن باز رحمہ اللہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے لٹریچر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]''أما ما یقوم بہ الآن محمد المسعری وسعد الفقیہ و أشباھھما من ناشری الدعوات الفاسدة الضالة فھذا بلا شک شر عظیم وھم دعاة شر عظیم وفساد کبیر والواجب الحذر من نشراتھم والقضاء علیھا واتلافھا وعدم التعاون معھم فی أی شیء یدعواا لی الفساد والشر والباطل والفتن لأن اللہ أمر بالتعاون علی البر والتقوی لا بالتعاون علی الفساد والشر ونشر الکذب ونشر الدعوات الباطلة التی تسبب الفرقة واختلال الأمن ا لی غیر ذلک؛ ھذا النشرات التی تصدر من الفقیہ أو من المسعری أو من غیرھما من دعاة الباطل ودعاة الشر والفرقة یجب القضاء علیھا واتلافھا وعدم الالتفات الیھا ویجب نصیحتھم وارشادھم للحق وتحذیرھم من ھذا الباطل ولا یجوز لأحد أن یتعاون معھم فی ھذا الشر ویجب أن ینصحوا وأن یعودواا لی رشدھم وأن یدعوا ھذا الباطل و یترکوہ ونصیحتی للمسعری والفقیہ وابن لادن وجمیع من یسلک سبیلھم أن یدعوا ھذا الطریق الوخیم وأن یتقوا اللہ ویحذروا نقمتہ وغضبہ وأن یعودواا لی رشدھم وأن یتوبوا الی اللہ مما سلف.''[/FONT](مجموع فتاوی ومقالات : جلد٩' ص
١٠٠
''فساد اور گمراہی پر مبنی افکار و دعوت پھیلانے والوں میں سے محمد المسعری اور سعد الفقیہ جیسے لوگ بھی شامل ہیں جواپنی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔بلاشبہ ان کی دعوت ایک بہت بڑا شر ہے اور یہ لوگ بھی ایک بڑے شر اور فتنے و فساد کے داعی ہیں۔پس یہ لازم ہے کہ ان کی تحریروں سے بچا جائے اور ان کے نظریات کے خلاف فیصلہ کیا جائے اور ان کی کتابوں کو تلف کیا جائے اور ان کے ساتھ ہر اس کام میں عدم تعاون کیا جائے جو فتنے، فساد، باطل اور شر کی طرف لے کر جانے والاہے۔کیونکہ اللہ تعالی نے نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا حکم دیا ہے اور فساد، شر، جھوٹ کی اشاعت اورایسے باطل افکار جو تفرقے اور امن و امان کی خرابی وغیرہ کا سبب بنتے ہوں، کی اشاعت سے منع فرمایا ہے۔ یہ تحریریں جو سعد الفقیہ اور مسعری وغیرہ، جو شر،باطل اور امت میں تفرقے کے داعی ہیں، کی طرف سے شائع ہوتی ہیں، ان تحریروں کے خلاف فتوی دینااور ان کو تلف کرنا اور ان کی طرف عدم التفات واجب ہے۔اور ان لوگوں کو نصیحت کرنا اور ان کی حق بات کی طرف رہنمائی اور ان کو ان باطل افکار سے ڈرانا بھی ایک شرعی فریضہ ہے۔کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اس شرمیں تعاون کرے اور ان لوگوں پر یہ لازم ہے کہ وہ نصیحت حاصل کریں اورہدایت کے رستے کی طرف پلٹ آئیں اور اس باطل کو چھوڑ دیں۔مسعری، فقیہ اور اسامہ بن لادن اور جوشخص بھی ان کے رستے کو اختیار کرے، کو میری (یعنی شیخ بن باز کی)نصیحت یہ ہے کہ وہ اس گندے رستے کو چھوڑ دیں اور اللہ سے ڈریں اور اللہ کے انتقام اور غضب سے بچیں اور رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آئیں اور جوکچھ ہو چکا اس سے اللہ کی جناب میں توبہ کریں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کے ساتھ احسان کا وعدہ فرمایا ہے۔''

شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور عیوب کے بارے رائج لٹریچر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]''ولقد انتشر فی الآونة الآخیرة نشرات تأتی من خارج البلاد وربما تکتب فی داخل البلاد ' فیھا سب ولاة الأمور والقدح فیھم ولیس فیھا ذکر أی خلصة من خصال الخیر التی یقومون بھا وھذہ بلا شک من الغیبة و ذا کانت من الغیبة فقراء تھا حرام وکذلک تداولھا حرام ولا یجوز أن یتداولھا ولا أن ینشرھابین الناس وعلی من رآھا أن یمزقھا أو یحرقھا لأن ھذہ تسبب الفتن تسبب الفوضی تسبب الشر ولقد حذر مفتی ھذہ المملکة شیخنا عبد العزیز بن باز وفقہ اللہ ورحمہ بالدنیا والآخرة.''(فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص [/FONT]
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]٢١[/FONT]
''آج کل مملکت عربیہ اور دوسرے ممالک سے کچھ ایسی چیزیں نشر ہو رہی ہیں جن میں سعودی حکمرانوں کو بر ابھلا کہا جاتا ہے اور ان پر طعن کیا جاتا ہے اور ان نشریات میں ان کی کسی ایسی بھلائی یا اچھی خصلت کا تذکرہ تک نہیں ہوتا، جسے وہ قائم کرتے ہیں اور یہ بلاشبہ غیبت میں شامل ہے۔ پس جبکہ یہ غیبت ہے تو اس کا پڑھنا بھی حرام ہے اور اسی طرح اس کا آگے پھیلانا بھی حرام ہے۔
ایسی نشریات کا پھیلانا یا ان کو عوام الناس کے مابین عام کرنا جائز نہیں ہے اور جو بھی شخص ایسی نشریات دیکھے وہ انہیں پھاڑ دے یا پانی میں بہا دے کیونکہ یہ فتنے، شر اور انتشار کا سبب بنتی ہیں اور مملکت عربیہ کے مفتی اعظم شیخ بن باز اس بارے متنبہ کر چکے ہیں کہ ان نشریات کو پھاڑ دینا چاہیے۔ اللہ شیخ پر دنیا اور آخرت میں رحم فرمائے۔

شیخ صالح الفوزان، اسامہ بن لادن کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے بارے فرماتے ہیں:
'' السوال:
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]لایخفی علیکم تاثیر أسامہ بن لادن علی الشباب فی العالم ' فالسوال ھل یسوغ لنا أن نصفہ أنہ من الخوارج لا سیما أنہ یؤید التفجیرات فی بلادنا وغیرھا؟[/FONT]
الجواب:
[FONT=_pdms_saleem_quranfont] کل من اعتق ھذا الفکر ودعا لیہ وحرض علیہ فھو من الخوارج بقطع النظر عن اسمہ وعن مکانہ فھذہ قاعدة أن کل ما دعا الی ھذا الفکر و ھو الخروج علی ولاة الأمور وتکفیر واستباحة دماء المسلمین فھو من الخوارج.''[/FONT](فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص
٢٥
''سوال:
آپ پر نوجوان نسل میں اسامہ بن لادن کی شخصیت کی تاثیر مخفی نہیں ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم ان کو خوارج میں شمار کریں خاص طورپر اس وجہ سے کہ وہ ہمارے ممالک اور اس کے علاوہ مسلمان ممالک میں خود کش دھماکوں کی تائید کرتے ہیں۔
جواب:
جس کا بھی یہ فکر ہو اور جو بھی اس فکر کا داعی ہو اور اس کی لوگوں کو ترغیب دے تو خوارج میں سے ہے ، چاہے اس کا نام یا اس کا مقام کچھ بھی ہو۔ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس فکر کا داعی ہو یعنی مسلمانوں حکمرانوں کے خلاف خروج ، ان کو کافر قرار دینے اور مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھتا ہو تو وہ خارجی ہے۔''

شیخ عبد العزیز آل الشیخ' اسامہ بن لادن کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے بارے فرماتے ہیں:
السوال :
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]ھل یجوز أن یقال أن ابن لادن ضال وھل یجوز للمسلمین الذین لیس عندھم علم کاف أن یستمعوا الی خطابتہ فی الأنترنت؟[/FONT]
الجواب:
[FONT=_pdms_saleem_quranfont] یا اخوانی ھؤلاء ھم سبب الشر والفساد وھم لا شک ضالون فی طریقتھم.'' [/FONT](فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ١٨'
-١٩
سوال:
کیا یہ جائز ہے کہ یہ کہاجائے کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کا فتوی دینے کی وجہ سےاسامہ بن لادن ایک گمراہ آدمی ہے اور کیا جاہل مسلمانوں کے لیے یہ درست ہے کہ وہ انٹرنیٹ وغیرہ پر اس کےایسےخطابات سنیں جو مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ا ن کے خلاف خروج پر ابھارتے ہوں؟
جواب:
میرے بھائیو! یہ لوگ شر و فساد کی جڑ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہیں کہ یہ گمراہ ہیں۔''

[FONT=_pdms_saleem_quranfont]ہیئہ کبار العلماء [/FONT]نے بھی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے قائلین کو متنبہ اورخبردار کیا ہے۔
شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں:
السوال :
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]لماذا لا تصدر فتاوی من کبار العلماء تحذر من رؤوس الخوارج مثل بن لادن والفقیہ والظواھری حتی لا یغتر بھم کثیر من الناس?. [/FONT]
الجواب :
[FONT=_pdms_saleem_quranfont] ظھر من ھیئة کبار العلماء عدة قرارات بالتندید من ھذہ الأعمال و أصحابھا .'' [/FONT]( فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر :ص
٢٥
سوال:
کبار علماء کی طرف سے ایسے فتاوی جاری کیوں نہیں ہوتے جن میں خارجیوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن، سعد الفقیہ اور ایمن الظواہری وغیرہ کے بارے لوگوں کی رہنمائی کی جائے تا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت دھوکے کا شکار نہ ہو جائے۔
جواب:
ہیئہ کبار العلماء کی طرف سے ان اصحاب اور ان کے اعمال و افعال کی مذمت میں کئی ایک قرار دادیں پاس ہو چکی ہیں۔''

شیخ صالح اللحیدان، اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کی تحریک کے بارے فرماتے ہیں:
السوال:
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]''ما موقف المسلم من تنظیم القاعدة ومنھجھا الذی یتزعمہ أسامة بن لادن.[/FONT]
الجواب:
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]لا شک أن ھذا التنظیم لا خیر فیہ ولا ھو فی سبیل صلاح وفلاح...ثم ھذا التنظیم ھل نظم لقتال الکفار وخراجھم من بلاد الاسلام والتوجہ الی البلاد التی ترزح تحت دول غیرا سلامیة لنشر الدین فیھا أو ھذہ القاعدة تحت الشعوب فی أوطانھا علی الخروج علی سلطانھا لیحصل بذلک سفک دماء وھدار حقوق وتدمیر منشآت واشاعة خوف.''[/FONT](فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص
٣٠
سوال:۔
'' ایک مسلمان کی القاعدہ نامی تنظیم اور اس کے منہج کے بارے کیا رائے ہونی چاہیے جس کی سربراہی جناب اسامہ بن لادن فرما رہے ہیں؟
جواب:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس تنظیم میں کوئی خیر نہیں ہے اور نہ ہی یہ اصلاح اور فلاح کے رستے پر ہے... سوال یہ ہے کہ کیا یہ تنظیم کفار سے قتال اور ان کافروں کو مسلمان ممالک سے نکالنے یا ان اسلامی ممالک کی طرف توجہ دینے کے لیے کہ جو کافر حکومتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تاکہ ان میں دین اسلام کی نشر و اشاعت کی جائے، منظم کی گئی ہے یا اس تنظیم القاعدہ کا اصل کام مسلمان ممالک میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج ہے تاکہ اس سے دونوں طرف سے مسلمانوں کا خون بہے،حقوق تلف ہوں، تنصیبات تباہ ہوں اور مسلمان معاشروں میں خوف و ہراس پھیل جائے۔''

ان فتاوی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی مسلمان حکمرانوں کی تکفیراور ان کے خلاف خروج کی تحریک کو سلفی اہل علم کے طبقے میں ذرہ برابر بھی اہمیت حاصل نہیں ہے۔

بعض مجاہدین کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے خلاف تھے یہاں تک انہیں أیمن الظواہری کی صحبت نصیب ہوئی اور أیمن الظواہری نے ان میں یہ تکفیری فکر کی بنیاد ڈالی، اس کی گواہی شیخ عبد اللہ عزام کے اہل خانہ نے دی ہے
.
شیخ عبد اللہ عزام رحمہ اللہ نے جہاد افغانستان کے حق میں تو فتوی دیا تھا لیکن وہ مسلمان ممالک میں مسلمان حکومتوں کے خلاف جہاد کے سخت مخالف تھے۔شروع میں شیخ اسامہ بن لادن ' شیخ عزام کے افکار سے متاثر تھے اور ان کے شاگرد بھی رہے۔شیخ عبد اللہ عزام رحمہ اللہ نے۱۹۸۴ میں 'مکتب الخدمات للمجاھدین' نامی ادارے کی پشاور میں بنیاد رکھی اور اسامہ بن لادن کو افغان مجاہدین کی خدمت کی دعوت دی۔شیخ اسامہ نے اس دعوت کو قبول کیا۔ لیکن 1988ءمیں شیخ عبد اللہ عزام رحمہ اللہ اوراسامہ بن لادن کے مابین اختلاف کا آغاز ہوا اور اسی سال اسامہ بن لادن افغانستان چلے گئے جہاں انہوں نے ڈاکٹر ایمن الظواہری سے تعلق قائم کر کے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی۔ ایمن الظواہری سے تعلق قائم ہونے کے بعد شیخ اسامہ بن لادن پر تکفیری اثرات غالب آگئے۔شروع میں شیخ بن لادن بھی اپنے استاذ شیخ عبد اللہ عزام کی طرح مسلمان حکمرانوں کی تکفیر یا ان کے خلاف خروج کے قائل نہ تھے لیکن بعد میں یہی اسامہ بن لادن تکفیر میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے بعض مجاہدین کی بھی تکفیر شروع کر دی۔ شیخ عبد اللہ عزام رحمہ اللہ اور اسامہ بن لادن کے ان اختلافات کی تفصیل شیخ عزام کی اہلیہ اور ان کے داماد شیخ عبد اللہ انس الجزائری نے بیان کی ہیں۔شیخ عبد اللہ انس الجزائری؎80ءکی دہائی میں شمالی افغانستان میں عرب مجاہدین کے قائد بھی رہے ہیں۔ان دونوںحضرات کے تفصیلی انٹرویوز درج ذیل ویب سائیٹس پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں:
[FONT=_pdms_saleem_quranfont]جريدة البينة الجديدة
زوجة الشيخ عبدالله عزام:قتل مسعود وصمة كبرى في تاريخ ابن لادن | دنيا الوطن[/FONT]


أیمن الظواہری مصری ہیں اور 'جماعة التکفیر والھجرة'سےمتاثر ہیں۔

کیا کبھی سوچا آپ نے؟

یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ تکفیر کی تحریک کے اکثر قائدین یا تو دینی و شرعی علوم سے ناواقف ہیں یا پھرغیر معروف علماء میں سے ہیں۔
مثلاً محمد المسعری ایک میڈیکل ڈاکٹر، سعد الفقیہ فزکس میں پی۔ایچ۔ڈی، ایمن الظواہری سرجری میں ایم ۔اے، اسامہ بن لادن سعودی نظام تعلیم کے مطابق ثانوی یعنی ایف۔اےپاس , علی اسماعیل انجینئر اور سید قطب ایک ادیب ہیں وغیرذلک۔

ان علما میں سے ایک ابو بصیر طرطوسی)حال مقیم برطانیہ( ہیں۔ان حضرت نے شیخ الازہر علامہ سید طنطاوی' مصری عالم دین سید رمضان بوطی اور علامہ یو سف قرضاوی کی تکفیر کی ہے ۔مسلمان علما ءکی تکفیر کے سلسلے میں ان کی کتاب 'قوافل زنادقةالعصر' اور' لماذا کفرت الشیخ یوسف القرضاوی' کا مطالعہ کریں ۔انہوں نے اپنے مقالہ 'هيئة كبار العلما والسیاسة 'میں کبار سعودی علما اور فتاوی اللجنةالدائمة پر بھی انتہائی سطحی طعن کیاہے۔

ان کی اتباع میں آج کاپاکستانی جہادی نوجوان شیخ بن باز ' شیخ صالح العثیمین اور شیخ صالح الفوزان جیسے جلیل القدر ائمہ اہل سنت کو سرکاری اور درباری مولوی قرار دیتا ہے۔


ان کی نادر تحقیقات کا خلاصہ یہ بھی ہے کہ،

محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ جہمیہ اور مرجئہ میں سے تھے۔

اپنی اس تحقیق کا اظہار انہوں نے اپنے مقالے 'مذاہب الناس فی الشیخ محمد ناصر الدین الالبانی' میں کیا ہے۔ان کی کتاب
'زنادقةالعصر' کے مطابق تقریبا آدھی سے زیادہ امت کافر قرارپاتی ہے۔ اور یہ صاحب خود لندن میں برطانوی طاغوتی حکومت کی زیرسرپرستی 'مستامن' کی اصطلاح کا حیلہ کر کے امن کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ،

7، 7 کے لندن دھماکوں کا شروع میں شیخ طرطوسی صاحب نے شدت سے انکار کیا تھااور اسے ایک شرمناک فعل قرار دیا ۔
واضح رہے کہ کوئی بھی شخص برطانیہ میں اس وقت تک داخل اور مقیم نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ ان کے طاغوتی آئین یا قانون کو سپریم لاء نہ مان لے اور اس بات کا اقرار نہ کر لے کہ وہ ان کے ملک میں قیام کے دوران ان کے طاغوتی قانون کا فرمانبردار ہو گا۔

ان بنیادوں کو سامنے رکھیں اور شیخ ابو بصیر کے منہج تکفیر کو استعمال کریں تو سب سے پہلے خود شیخ کی تکفیر لازم آتی ہے کیونکہ مسلمان ممالک کے قوانین میں تو کفر اور اسلام دونوں موجود ہیں جس وجہ سے ان کا کفر علماء کی ایک جماعت کے ہاں مشتبہ اور اختلافی امر ہے جبکہ برطانیہ اور امریکہ کے آئین یا قانون کے کفر اور طاغوت ہونے میں تو کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے لہذا قطعی طور پر ثابت شدہ کفریہ آئین اور قانون کی تابعداری کا حلف اٹھانے والا اور انہیں سپریم لا ماننے کااقرار کرنے والا شخص شیخ ابو بصیر طرطوسی کی نظر میں کافر کیوں
نہیں ہے؟ ابو بصیرطرطوسی صاحب اپنے اس کفریہ فعل کی تاویل پیش کرسکتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ پھر شیخ قرضاوی ' طنطاوی ' بوطی یا مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی تاویلات کیوں قابل قبول نہیں ہیں؟ شیخ طرطوسی کے تکفیر کے فتاوی کے لیے دیکھیں:حق تو یہ تھا کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے یہ حضرات کبار علماء کے فتاوی اور نصائح کو قبول کرتے لیکن اس کا جواب آل تکفیر کی طرف سے یہ آیا کہ انہوں نے کبار سلفی علماء کو علماء ماننے سے ہی انکار کر دیا۔

أیمن الظواہری نے کہا :

''[FONT=_pdms_saleem_quranfont]قال شیخنا علامة زمانہ أیمن الظواھری المصری فابن باز وابن عثیمین أسماء براقة من استمع الیھا کان من الجاھلین فأعرضوا عنھم تکونوا سالمین فالسمع والطاعة للمضحین المجاھدین لا لعملاء السلطان المداھنین.'' [/FONT](حوار مع أھل التکفیر قبل التفجیر : ص
٢
''علامة الزمان جناب شیخ أیمن الظواہری مصری نے یہ کہا ہے کہ بن باز اور بن عثیمین تو درحقیقت خوشنما نام ہیں جو بھی ان کو سنے گا وہ جہلاء میں سے ہو جائے گا پس تم ان سے اعراض کرو تاکہ تمہار ا فکر صحیح رہے اور اصل اطاعت ان مجاہدین کی کرو جو قربانی دینے والے ہیں نہ کہ ان علماء کی جو درباری مولوی ہیں اور دین کے معاملے میں مداہنت کرنے والے ہیں۔''

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حقیقی عالم دین یا تو وہ ہے جو جیل میں ہے یا پھر میدان جنگ میں. )یا پھر برطانیہ میں جیسے طرطوسی صاحب(۔ اس کے علاوہ ہم کسی کو عالم دین ہی نہیں مانتے۔ عالم کی یہ تعریف ہمارے خیال میں ایک بدعی تعریف ہے جس کے نتیجہ میں ایک عامی کو بھی حقیقی عالم دین بننے کا سنہری موقع حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ وہ توحید حاکمیت پر چند کتابیں یا فوٹو کاپی کئے گئے صفحات پڑھ کر حکمرانوں کے کفر کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیں۔ اب تو ظاہری وضع قطع کی بھی اتنی اہمیت نہیں رہی ہے )جیسا کہ سید قطب اور حسن البناء وغیرہ (بلکہ امام بننے کی اصل شرط حکمرانوں کی تکفیر ہے اور آپ آج تکفیر شروع کر دیں کل سے لوگ آپ کو امام کہنا شروع کر دیں گے۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔آمین!\
جاری ہے ۔۔ ۔ ۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
مگر یہاں پر جو زمینی حقائق ہیں اُن پر بھی کچھ تبصرہ کریں۔۔۔
جو لوگ اَن ملکوں میں پیدا ہوئے۔۔۔ وہ آخر کیوں اِن کے خلاف ہوگئے؟؟؟۔۔۔
سعد فقیہ یا بن لادن وغیرہ کی آپ نے بات کی اس لئے یہ سوال آپ سے پوچھا۔۔۔
جب ایران، عراق کی جنگ ہورہی تھی تو تمام اسلامی ریاست کے علماء نے یہ فتوٰی جاری کرنے کا فیصلہ کیا کہ شیعہ کو کافر قرار دے دیا جائے۔۔۔
لیکن وہ فتوٰی بیچ میں ہی کیوں روک دیا گیا؟؟؟۔۔۔ بعد میں ہوتیوں کو جو شیعہ ہیں موجودہ شیخ العریفی نے کافر قراردے دیا؟؟؟۔۔۔
تیسری بات جو شیعہ مملکت میں موجود ہیں وہ کافر تو ہیں مگر شہریت کیوں نہیں منسوخ کی گئی۔۔۔ ان حقائق کو جانتے بوجھتے کے وہ ایران کے سپورٹ پر یہ سب کررہے ہیں۔۔۔ افغانستان کی جنگ امریکہ کی جنگ نہیں تھی۔۔۔ یہ جنگ خوارج اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی جنگ تھی۔۔۔اب اس خالی جگہ کو عقلمند لوگ پُر کرسکتے ہیں۔۔۔ پوری دنیا میں ساری اسلامی ریاستیں متاثر ہوئیں۔۔۔ اینٹ سے اینٹ بج گئی نسلیں تباہی وبربادی کے دہانے پر پہنچ گئے۔۔۔ مگر!۔۔۔۔
 
Top