• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عظمت قرآن

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
فضیلۃ الشیخ علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 28 رجب 1434 کا خطبہ جمعہ بعنوان 'عظمتِ قرآن' ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے اللہ کے ہاں، پیارے پیغمبر ، سابقہ انبیاء ، صحابہ کرام اور جنوں، کے نزدیک قرآن مجید کی عظمت بیان کی، اور بتلایا کہ مسلمان کے ذہن میں عظمتِ قرآن ہوگی تو اسے اپنی شان کا پتہ چلے گا، پھر انہوں تعظیم قرآن کی علامات ذکر کیں جن میں قرآن مجید کا ادب و احترام ، کثرت سے تلاوت ، فہمِ قرآن کیلئے کوشش ، آیاتِ قرآنیہ پرغور فکر ، اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرنا شامل ہے۔

پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے فرمایا: الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (1) الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن اس لئے نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کو ڈرانے والا بن جائے[1]آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ ہی کیلئے ہے، اسکی کوئی اولاد نہیں، اور نہ ہی بادشاہت میں کوئی اسکا شریک ہے، اللہ تعالی نے ہی ہرچیز خاص اندازے کے مطابق پیدا کی [الفرقان: 1، 2]،میں اپنے رب کی تعریف اور لا تعداد شکر کرتا ہوں، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ یکتا ہے اسکی رحمت تمام اشیاء سے وسیع ہے، وہی علیم و قدیر ذات ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ـصلی اللہ علیہ وسلم ـ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی نے انہیں قیامت سے قبل گواہی و خوشخبری دینے والا ، اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا، آپ کو داعی الی اللہ اور ہدایت کا روشن چراغ بنا کر بھیجا، یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد پر اورتمام صحابہ کرام پر اپنی ڈھیروں رحمت نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد!
اللہ تعالی سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے، اللہ کے احکامات کو ضائع مت کرو جو کوئی نعمتِ تقوی سے محروم ہوگیا وہ خسارے میں ہے۔
اللہ کے بندو! قرآن مجید کو اللہ تعالی نے تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ، یہ قرآن مضبوط دین کی جانب رہنمائی کرتا ہے، ہر بھلائی بتلاتا ہے، اور تمام برائیوں سے روکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ لوگو! تمہارے رب کی جانب سے تمہارے پاس نصیحت، دلی بیماریوں کیلئے شفاء، اور مؤمنوں کیلئے ہدایت و رحمت آچکی ہے [يونس: 57]، دوسرے مقام پر فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ اور ہم نے آپکو جہانوں پر رحمت کرتے ہوئے رسول بنایا[الأنبياء: 107]

مسلمان کو قرآن مجید کی عظمت کا پتہ ہو تو یقینا پوری کوشش کرتے ہوئے اسے سیکھنے اور سیکھانے کا اہتمام ، اس پر غور و فکر وتدبر کرے، اور بقدر استطاعت اس پر عمل بھی کرے۔
مسلمان کتنے ہی قرآن مجید کے حقوق ادا کرلے، اللہ کی اس عظیم نعمت پر کتنا ہی شکر ادا کرلے، عبادتِ الہی کتنی ہی کرلےانسان حقیقت میں کوتاہی کا شکار رہتا ہے، لیکن یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ اپنے بندوں کی تھوڑی عبادت بھی قبول کر تے ہوئے مکمل ثواب عنائت فرماتا ہے۔

اے مسلمان!
کیا توں نے اپنے دل میں قرآن مجید کی عظمت اور شان بیٹھا لی ہے؟ کیا اچھی طرح سے تم نے اسکی خیر و برکات اور حقائق و فضائل کو ذہن نشین کر لیا ہے؟
اے مسلم! تمہیں اسوقت تک عظمتِ قرآن کی پہچان نہیں ہو سکتی جب تک اللہ ، اسکے فرشتوں ، انبیاءکرام ، سابقہ امتوں ، جن و انس اور اہل کتاب کے ہاں اسکی عظمت کا نہ پتہ چل جائے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں ہی اسکا مقام سب پر بھاری ہے۔

مسلمانو!
رب العزت نے قرآن مجید کی شان اور رتبہ اسکے مقام کے مطابق بیان کیا، اسکی ہر لحاظ سے تعریف بھی کی، اللہ تعالی نے اپنی کتاب کا ذکر ہر قسم کی اعلی صفات سے کیا تا کہ لوگوں کوقرآن مجید کی عظمت پتہ چل سکے، اور وہ اللہ کی اس عظیم نعمت کو پہچان سکیں، اللہ کی بڑی نعمتیں ایمان اور قرآن ہی ہیں۔
'کلامِ الہی کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسے ہی ہے جیسے باری تعالی کی فضیلت اپنی مخلوق پر'
یہ دیکھیں اللہ تعالی نے قرآن مجید کو 'عینِ حق 'کہا فرمایا: أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وہ کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اس نبی نے خود گھڑ اہے، بلکہ یہ ہی تمہارے رب کی جانب سے حق ہے[السجدة: 3]

کیونکہ 'حق'اس چیز کو کہتےہیں جس میں کوئی تبدیلی نہ ہو، کوئی چیز اسے جھٹلا نہ سکے، کسی قسم کا اس میں نقص نہ آئے اور جھوٹ کی جس میں آمیزش کا امکان بھی نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے: وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ (41) لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ یقینا قرآن ایک غالب کتاب ہے[41] باطل اسکے آگےیا پیچھے سے نہیں آسکتا، یہ تو دانا اورقابل تعریف ذات کی جانب سے نازل شدہ ہے۔ [فصلت: 41، 42] ایک اور جگہ فرمانِ باری تعالی ہے: كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ اس کتاب کی آیات محکم بنائی گئی اور پھر با خبر حکمت والی ذات کی جانب سے اسکی تفصیل بیان کی گئی[هود: 1]، پھر ایک جگہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَقَدْ جِئْنَاهُمْ بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَى عِلْمٍ اور ہم نے انہیں ایسی کتاب عنائت فرمائی جسکی تفصیل ہم ہی نے علم کی بنا پر کی ہے[الأعراف: 52]، اور فرمانِ باری تعالی ہے: تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ یہ حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں [يونس: 1]، ایسے ہی فرمایا:: بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ یہ قرآن بزرگی والی کتاب ہے [البروج: 21]، اسی طرح فرمایا:: هَذَا هُدًى یہ کتاب سراپا ہدایت ہے[الجاثية: 11]، ایسے ہی فرمایا: فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا لہذا تم اللہ اور اسکے رسول اور ہمارے نازل کردہ نور پر ایمان لاؤ[التغابن: 8]، ایسے ہی فرمایا: وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ یہ جو کتاب ہم نے نازل کی ہے نہایت بابرکت ہے[الأنعام: 92]، ایسے ہی فرمایا: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ اور وہ ہمارے ہاں لوحِ محفوظ میں بلند مقام اور حکمت سے پھر پور ہے[الزخرف: 4]

یقینا اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ہر چیز کی تفصیل بیان کی ہے فرمایا: وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا بیان ،ہدایت ،رحمت، اور مسلمانوں کیلئے خوشخبری ہے۔ [النحل: 89]
اور اسے ہمہ قسم کی کمی اور زیادتی سے بھی محفوظ کیا فرمایا: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ یقینا ہم نے ہی ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اسکی حفاظت کے ذمہ دار ہیں[الحجر: 9]

قرآ ن مجید کےمتعدد اسماء و صفات جامعیت معانی پر دلالت کرتے ہیں، جس میں سے ہم نے اپنے خطبہ میں بہت ہی تھوڑے بیان کئے ہیں۔
ایسے ہی قرآن مجید کی فرشتے بھی تعظیم کرتے ہیں، جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: لَكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنْزَلَ إِلَيْكَ أَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا لیکن اللہ تعالی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ بھی آپکی جانب نازل کیا گیا وہ علم کی بنیاد پر کیا، (اس بات کی )گواہی فرشتے بھی دیتے ہیں اگرچہ اللہ کی گواہی ہی کافی ہے۔[النساء: 166]
اسی طرح ایک جگہ فرمایا: فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ (13) مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ (14) بِأَيْدِي سَفَرَةٍ یہ قرآن قابلِ احترام صحیفوں میں ہے[13]جو (مقام میں)بلند اور پاکیزہ ہیں[14]جو نیک فرشتوں کے ہاتھوں میں ہیں[عبس: 13- 15] انہی کے بارےمیں مفسرین نے بتلایا کہ اس سے مراد فرشتے ہی ہیں۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ' تلاوت کرنے والا ماہر قاری قرآن نیکو کار مکرم فرشتوں کے ساتھ ہوگا' بخاری و مسلم

سابقہ انبیاء کرام نے بھی اپنی اقوام کو تعظیمِ قرآن مجید کی تعلیم دی، اسی کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ اور یقینا اس قرآن کا ذکر سابقہ صحیفوں میں بھی موجود ہے۔ [الشعراء: 196]

ابن کثیر رحمہ اللہ اسکی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، 'قرآن مجید کا تذکرہ اور اسکی طرف اشارہ سابقہ تمام انبیاء کی کتب میں موجود ہے، انہوں نے ہر زمانے میں اس کتاب کی بشارت دی، اور اللہ تعالی نے اس پر ان سے وعدہ بھی لیا۔
اسی طرح اللہ تعالی نے فرمایا: قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَكَفَرْتُمْ بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ آپ ان کہیں: یہ بتاؤ کہ اگر یہ اللہ کی جانب سے ہو کیا پھر بھی ایمان نہیں لاؤ گے، جبکہ بنی اسرائیل کے افراد اس جیسی کتاب کے حق میں گواہی دیتے ہوئے ایمان لاچکے ہیں تم پھر بھی تکبر کررہے ہو۔ [الأحقاف: 10]، اسی طرح فرمایا: قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا (107) وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا (108) وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا آپ انہیں کہہ دیجئے، ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جن لوگوں کو تم سے پہلے علم دیا گیا جب ان پر آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ اپنے چہرے کے بل سجدہ ریز ہو جاتے ہیں، [107]اور کہتے ہیں: ہمارا رب پاک ہے اور ہمارے رب کا وعدہ پورا ہونے والاہے [108] اور وہ اپنے چہروں کے بل روتے ہوئے گر پڑتے ہیں، اور یہ (آیات )انہیں خشوع و خضوع میں اور زیادہ کردیتی ہیں [الإسراء: 107- 109]

اسی طرح اللہ تعالی نے حق تسلیم کرنے والے یہود ی عیسائی مذہبی راہنماؤں کے بارے میں فرمایا: وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ اور وہ رسول پر نازل شدہ کلام سن کر حق پہچاننے کی وجہ سے آبدیدہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ : اے ہمارے رب ہمیں گواہوں میں شامل کر لے۔[المائدة: 83]

ایسے ہی جنّوں نے قرآن مجید کی جب تلاوت سنی تو ایمان لے آئے اور تعظیم بھی کی، پھر اپنی قوم میں واپس جاکر انہیں دعوت بھی دی، انہی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ (29) قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ جنوں نے قرآن کی تلاوت سن کر کہا: خاموشی سے سنو!، جب تلاوت مکمل ہوگئی تواپنی قوم کو ڈرانے والے بن کر گئے،[14](واپس جا کر) انہوں نے کہا: اے قوم! ہم نے موسی کے بعد نازل ہونے والی کتاب سنی ہے، جو سابقہ کتب کی تصدیق کے ساتھ ساتھ صراطِ مستقیم کی جانب راہنمائی بھی کرتی ہے۔[الأحقاف: 29، 30] اسی قصہ کے بارے میں مستقل ایک سورت'الجن'بھی نازل کی۔

قرآن مجید ہی کی شان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی سلیم الفطرت انسان کو قرآن مجید کی تلاوت سُنائی تو وہ اسی وقت مسلمان ہوگیا، یہ ہی وجہ تھی کہ قرآن انسانیت کیلئے ہر وقت اور زمانے میں شمعِ ہدایت بن گیا، کیونکہ کہ قرآن مجید کی دلوں پر گرفت بہت مضبوط ، اور ذہنوں پر قوی تاثیر ہے۔

اے مسلمان! جب تم اللہ ، فرشتوں ، رسولوں، سابقہ امتوں، اہل کتاب، صحابہ کرام اور جنوں کے ہاں اس کتاب کا مقام جان لوگے تو تب ہی تمہارے دل میں اس کتا ب کا صحیح مقام پیدا ہوگا۔

چنانچہ اگر تمہارے دل میں اس کتاب کی عظمت وشان اسکے مقام اور اللہ کی رضا کے مطابق پیدا چکی ہو تو اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرو، اور اللہ تعالی سے اس پر دوام طلب کرو، اور پھر قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا رہو، اگر خدانخواستہ قرآن کے شایانِ شان تمہارے دل میں اسکا مقام نہیں تو اللہ سے اس گناہ پر توبہ کرو، اور اس کمی کو پورا کرو، بقیہ زندگی سے فائدہ سے اٹھاؤ؛ کیونکہ دنیا میں ناز و نعم والی زندگی تمہیں جو ملی ہے یا آخرت میں جنت کی نعمتوں کو پاؤ گے یہ سب کچھ اسی قرآن کی وجہ سے ہی ہے، لہذا قرآن کی قدر کرو اسکے شایانِ شان اسکا حق ادا کرو۔

اللہ تعالی نے سید البشر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سے معجزات کے ذریعہ مدد کی تھی جن کی بنا پر بہت سے لوگ ایمان لائے، ان تمام معجزات میں سب سے اہم ترین معجزہ قرآن مجید ہے، فرمانِ رسالت ہے: 'اللہ تعالی نے تمام انبیاء کو کچھ معجزات دئے جن کی بنا پر لوگ ان پر ایمان بھی لائے ، جبکہ مجھے اللہ تعالی نے وحی عنائت فرمائی ، مجھے امید واثق ہے کہ سب سے زیادہ پیروکار بھی میرے ہی ہونگے' اس راویت کو بخاری نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔

قرآن مجید ہر وقت کیلئے عظیم معجزہ ہے ، قیامت تک معجزہ ہی رہے گا، قرآن کریم کا اعجاز اسکے سیاق وبلاغت، قانون سازی، احکامات، عدل، رحمت، حکمت، انسانی ضروریات کی تکمیل ، قیامت کی دیواروں تک بغیر کسی کمی اور زیادتی کے یقینی حفاظت، دلوں پر مضبوط گرفت، پر مشتمل ہے، جن و انس تمام کے تمام مکمل قرآن جیسا ایک اور قرآن یا صرف دس سورتیں لانے سے بھی قاصر ہیں، اس چیلنج کو اللہ تعالی نے یوں بیان کیا: قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا آپ کہہ دیں! جن و انس مل کر اس قرآن جیسا ایک اور قرآن لانا چاہیں تو نہیں لا سکے گے چاہے وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کیوں نہ کر لیں۔ [الإسراء: 88]

دس سورتیں تو دور کی بات ایک سورت بھی نہیں لا سکے اسی لئے تو ایک سورہ کوثر جسکے صرف دس کلمات ہیں اسی نے تمام جنوں اور انسانوں کو عاجز کردیا۔

کفار نے جب مادی نشانیوں کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالی نے انہیں یہ ہی کہا کہ قرآن مجید سب سے بڑی دلیل اور معجزہ ہے، فرمایا: وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِنْ رَبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ (50) أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ اور انہوں نےکہا: اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی اس پر نازل کیوں نہیں ہوئی؟ آپ کہہ دیں: آیات نازل کرنے کا اختیار اللہ کے پاس ہے میں تو صرف کھلے لفظوں میں ڈرانے والا ہوں، [50]کیا اتنا کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے، یقینا اس کتاب میں ایمان لانے والوں کیلئے رحمت اور نصیحت ہے۔ [العنكبوت: 50، 51]، اسی طرح فرمایا: فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ قرآن کے بعد کس بات پر وہ ایمان لائیں گے! [الأعراف: 185]

قرآن مجید نے ہمیشہ ہر زمانے اور علاقے کی تمام انسانی عقلوں کو دلائل و براہین سے مخاطب کیا، جسکی وجہ سے عقل سر تسلیم خم کئے بغیر نہیں رہتی، اور انسان اپنی خوشی سے حق ماننے کیلئے راضی ہوجاتا ہے، پھر حق اور بھلائی سے محبت بھی کرنے لگتا ہے، اور اسے باطل سے نفرت ہو جاتی ہے، یا پھر انسان حق واضح ہونے کے باوجود ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر حق سے اعراض کر لیتا ہے، حالانکہ اس پر حجت قائم ہو چکی ہے، اب حق سے منہ موڑ کر وہ اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچا رہا ہے۔

قرآن مجید نے سمجھدار لوگوں کو سمجھانے کیلئے مختلف اسلوب اختیار کئے ہیں، جو طاقتِ بشری سے ما وراء ہیں، اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا: وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِنْ رَبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ (50) أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ اور انہوں نےکہا: اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی اس پر نازل کیوں نہیں ہوئی؟ آپ کہہ دیں: آیات نازل کرنے کا اختیار اللہ کے پاس ہے میں تو صرف کھلے لفظوں میں ڈرانے والا ہوں، [50]کیا اتنا کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے، یقینا اس کتاب میں ایمان لانے والوں کیلئے رحمت اور نصیحت ہے۔ [العنكبوت: 50، 51]، اسی طرح فرمایا: فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ قرآن کے بعد کس بات پر وہ ایمان لائیں گے! [الأعراف: 185]

قرآن کریم مکلفین کیلئے مفید ترین کتاب ہے، اسی سے اصلاحِ معاشرہ ممکن ہے، اسی سے رحمت و عدل کی فضا پیدا ہوگی، دلوں کی اصلاح ہوگی، خیرو برکات کا حصول ہوگا، قرآن کریم کی تلاوت ، معانی پر غور و فکر، تعلیمات پر عمل ، اجتماعی طور پر قرآنی درس و تدریس سے ہمہ قسم کی تکالیف دور ہوتی ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کایہ ہی طریقہ تھا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق تمام اقوام کو قرآن کی تعلیم دی، عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں تمام گورنروں کو حکم صادر کیا کہ وہ لوگوں کو حدیث کے مقابلے میں قرآن کی تعلیم زیادہ دیں، اور کہا: 'کہیں لوگ قرآن سے دور نہ ہوجائیں'

قرآن ہی انکی زندگی اور وقار کا باعث تھا، فیصلے بھی اسی پر کئے جاتے، انہیں کسی بھی بڑے چھوٹے مسئلے کا حل قرآن مجید ہی میں ملتا، یہ ہی قرآن انکے لئے مشعلِ راہ تھا، ہر اچھی بات پر انکی راہنمائی کرتا، اسی لئے مسلم معاشروں کی اصلاح کیلئے ایک ہی راستہ ہےاور وہ صحابہ کرام کے اس انداز کو اپنانے سے ہی حاصل ہوگا، کسی بھی معاشرے کو قرآن ہی فتنوں کی لپیٹ سے باہر لا سکتا ہے، نفرتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور کسی بھی بحران سے نکلنے کا راستہ ہے۔

علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 'سنو! فتنے ضرور ہونگے' میں نے کہا: تو انکا حل !؟ آپ نے فرمایا: 'قرآن ؛ جس میں سابقہ اقوام کی تاریخ ہے، آنیوالے دنوں کی پیشین گوئی، اور تمہارے معاملات کا حل، یہ ہی کلامِ فیصل ہے، کوئی مذاق نہیں،جس کسی جابر حاکم نے اسے ترک کیا اللہ اسے توڑ کر رکھ دے گا، اور جو کہیں اور نورِ ہدایت تلاش کریگا اللہ اسے گمراہ کردیگا، یہ ہی اللہ کی طرف لے جانے والی مضبوط رسی ہے، یہ ذکرِ حکیم ہے، یہ ہی صراطِ مستقیم ہے، اسی کی بنا پر کوئی گمراہ نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی کوئی زبان اسکی وجہ سےگمراہ ہو سکتی ہے، علماء اسکی تلاوت کرتے کرتے سیر نہیں ہوتے، اسکا نرالا پن ختم نہیں ہو سکتا، یہ قرآن ہے جسکے بارے میں جنوں نےکہا تھا: إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا (1) يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ ہم نے تعجب انگیز قرآن کی تلاوت سنی ہے [1]وہ بھلائی کی جانب راہنمائی کرتا ہے[الجن: 1، 2]جو اسکی بات کرے لوگ اسے سچ کہتے ہیں، جو اس پر عمل کرے وہ اجر پاتا ہے، اور جو اسکے مطابق فیصلہ کرے وہ عدل کرتا ہے، اور جو اسکی دعوت دے اللہ کی طرف سے وہ صراطِ مستقیم پر گامزن ہو جاتا ہے' ترمذی

اگر تمام مسلمان قرآن مجید کے سیکھنے سیکھانے اور اس پر عمل کرنے کا ایسے ہی اہتمام کریں جیسے سلف صالحین نے کیا تھا تو یقینا انکے حالات بہت اچھے ہوں، چار سو اتنی خوشحالی ہو کہ مسلم دشمن قوتیں انہیں دیکھ کر جل بُھن جائیں، اسی لئے مسلمانوں کی زبوں حالی قرآن کریم کی تلاوت، اور اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید کی تلاوت کو بھی عبادت کا درجہ دیا، فرمایا: 'جس نے قرآن کا ایک حرف بھی پڑھا اسے ہر حرف کے پڑھنے پر دس نیکیاں ملے گیں' ترمذی نے ابن مسعود سے روایت کیا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: یا رسول اللہ! اللہ کے ہاں پسندیدہ عمل کیا ہے؟ آ پ نے فرمایا: 'الحال المرتحل' اس نے کہا: یہ حال مرتحل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: 'جو ہر وقت سفر ہو یا قیام قرآن کریم کو شروع سے لیکر آخر تک پڑھتا ہے 'ترمذی

مذکورہ ثواب زبانی یا دیکھ کر پڑھنے والے دونوں افراد کو ملے گا، اسی بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ (29) لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ جو لوگ قرآن کی تلاوت کریں، نماز قائم کریں، اور ہمارے دئے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں یہ ہی لوگ یقینا ایسی تجارت کی امید سے وابسطہ ہیں جس میں کبھی نقصان نہ ہوگا[29]اللہ تعالی انہیں مکمل اجر عنائت کریگا اور اپنے فضل وکرم سے مزید بھی دے گا اس لئے کہ وہ نہایت بخشنے والا اور قدر دان ہے۔ [فاطر: 29، 30]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کواسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو۔

دوسرا خطبہ
تمام تعریفات اللہ کیلئے جو غالب اور بہت زیادہ عنائت کرنے والا ہے، اسی نے قرآن کو نازل کیا، میں اپنے رب کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی کیلئے توبہ اور گناہوں سے بخشش چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ یکتا ہے نہایت رحم کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسکے رسول اور بندے ہیں قیامت کے دن شفاعت کرینگے اور انکی شفاعت قبول بھی کی جائے گی، یا اللہ اپنے بندے اور رسول محمد پر اور تمام صحابہ کرام پر اپنی رحمت نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد!
نیکیوں کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہوئے اسی سے ڈرو اور اس کی نافرمانی مت کرو۔

مسلمانو!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر وصیت کرتے ہوئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر مضبوطی سے کاربند رہنے کا حکم دیا، عالم اسلام کے اس عظیم اجتماع میں آپ نے فرمایا : 'میں تمہارے لئے ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم انکو تھام لو کبھی گمراہ نہیں ہوگے: اللہ کی کتاب، اور میری سنت'

قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے، جو اسے تھام لے قرآن اسے جنت کی جانب لے جا کر ہمہ قسم کے شر سے بچا لے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ بازی میں مت پڑو۔ [آل عمران: 103]، اسی طرح ایک مقام پر فرمایا: وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اور یہ کتاب ہم نے نازل کی نہایت بابرکت ہے، چنانچہ اسی کی پیروی کرو اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔[الأنعام: 155]
جو اللہ تعالی سے محو گفتگو ہو نا چاہے وہ قرآن کی تلاوت کرے۔

اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو[الأحزاب: 56]

جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 'جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں فرمائے گا'
اللهم صل على محمد وعلى آل محمد, كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم, إنك حميد مجيد, اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد, كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم , إنك حميد مجيد.
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تمام خلفائے راشدین سے راضی ہوجا، ہدایت یافتہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا، یا اللہ! تمام تابعین کرام اور انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش، یا اللہ! کفر اور تمام کفار کو ذلیل کردے ، یا اللہ رب العالمین! اپنے دین اور کتاب کا غلبہ فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! مؤمنوں کی مدد فرما، یا اللہ ! ہر جگہ انکی مدد فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، یا اللہ! تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! شام میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! شام میں مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! تیرے علاوہ انکی مدد کرنے والا کوئی نہیں ، یا اللہ ظالموں کے خلاف انکی مدد فرما، یا اللہ ! ان پر زیادتی کرنے والوں کے خلاف انکی مدد فرما، یا اللہ ! ظالموں کی مددکرنے والوں کے خلاف انکی نصرت فرما۔

یا اللہ! ان پر اپنی پکڑ نازل فرما وہ تجھے عاجز نہیں کرسکتے، یا اللہ! ان پر عذاب نازل فرما، یا اللہ ! اپنی قدرت کے نظارے دیکھا، یا اللہ! آنیوالی نسلوں کیلئے انہیں نشانِ عبرت بنا دے، یا اللہ! جلد از جلد اپنا عذاب نازل فرما،یقینا تو اس پر قادر ہے۔

یا اللہ ہر جگہ سے امید ختم ہوچکی ہے صرف تجھ پر بھروسہ ہے ، یا اللہ ہمیں اپنے وطنوں میں امن نصیب فرما، یا اللہ ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔

یا اللہ خادم الحرمین الشریفین کو اپنی رضا کے مطابق کام کی توفیق دے، یا اللہ! اپنی زیر نگرانی اسکی راہنمائی فرما، یا اللہ اسے اپنے ملک و قوم اور تمام مسلمانوں کی خدمت کرنے میں مدد فرما، یا اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ ! انہیں صحت و عافیت عنائت فرما۔

یا اللہ نائب خادم الحرمین کو بھی اپنی رضا کے مطابق توفیق دے، یا اللہ ! دونوں کی راہنمائی فرما، اور دونوں کی قوم ملک اور تمام مسلمانوں کی خدمت پر مدد فرما، توں ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ ! ہمارے حالات درست فرما، یا اللہ! یا حیی !یا قیوم! تیری رحمت کے واسطے سے تیری مدد چاہتے ہیں، یا اللہ ! ہمارے تمام معاملات درست فرما، یا اللہ! حلال کے ذریعے ہمیں حرام سے بچا ، یا اللہ! اپنی اطاعت کے ذریعے ہمیں معصیت سے بچا، یا اللہ! اپنا فضل ہم پر کرتے ہوئے ہمیں کسی اور کا محتاج نہ بنا۔

یا اللہ! ہمارے گناہ معاف فرما، یا اللہ! کمی کوتاہیاں معاف فرما، یا اللہ! یا ارحم الراحمین! ہمارے سارے کے سارے گناہ معاف فرما۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کوشیطان اور شیطانی چیلو سے بچا، یا اللہ تو ہر چیز پر قادرہے۔
یا اللہ ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عنائت فرما، یا اللہ ہمیں آخرت کے عذاب سے بچا۔
یا اللہ! ہمیں ایک لمحہ کیلئے بھی تنہا مت چھوڑ۔

یا اللہ! تمام فوت شدگان کو معاف فرما، یا اللہ! تمام فوت شدگان مسلمانوں کو معاف فرما۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کاحکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے [النحل: 90، 91]

اللہ عز وجل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

مترجم: شفقت الرحمن
لنک
 
Top