• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقائد میں تأویل ، تفویض ، اہل سنت کا موقف

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
تقریبا ایک سال پہلے انٹرنیٹ پر مولانا سعید احمد پالن پوری صاحب کی ایک تحریر پڑھی تھی جس کا عنوان تھا :
’’ اصلی سلفی اور آج کے سلفی ‘‘
جس میں مفید باتیں بھی تھیں لیکن بہت ساری باتیں قابل اعتراض بھی تھیں ۔ اس مختصر تحریر کے اندر مولانا اپنے مخصوص انداز میں کافی ساری باتیں زیر بحث لائیں ہیں مثلا :
عقائد میں اختلاف کب شروع ہوا ؟
معتزلہ وغیرہ کی عقائد میں کیا غلطیاں تھیں ؟
اس زمانے کے علماء بالخصوص حنابلہ نے صحیح عقیدے کادفاع کیسے کیا ؟
اشاعر و ماتریدیہ نے عقدی مباحث کی گتھیاں کیسے سلجھائیں ؟
متأخرین حنابلہ (سلفیوں ) کا غلو اور اشاعرہ و ماتریدیہ سے اختلاف
صفات میں تأویل کرنے کا جواز اور عدم جواز کے قائلین کا تشدد
پھر آخر میں انہوں نے کہا اشاعرہ و ماتریدیہ اور حنابلہ (متقدمین سلفی ) سب برحق ہیں البتہ آج کل کے سلفی غلو کی وجہ سے جادہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں ۔
پھر انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ فقہی مذاہب میں سے صرف مذاہب اربعہ حق پر ہیں ۔
اور اس طرح کی ملتی جلتی بہت ساری اس طرح کی آراء انہوں نے پیش کیں ۔
خیال آیا کہ ان کی اس تحریر کا جائزہ لینا چاہیے اور جو جو باتیں قابل اعتراض ہیں ان کی وضاحت کرنی چاہیے ۔
چنانچہ چند دنوں کے اندر اندر اختصار کے ساتھ دو مضمون سپردِ فورم کیے تھے :
مولانا سہارنپوری نے متأخرین حنابلہ یعنی سلفیوں پر جو غلو کا الزام لگایا تھا اس کو ثابت کرنے کے لیے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک من گھڑت حکایت کا سہارا لیا تھا اس مضمون میں اسی حکایت مصنوعہ و مزورہ کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
اہل حدیث حضرات جب احادیث کی تحقیق کرتے ہیں اور ضعیف احادیث کا ضعف واضح کرتے ہیں تو کچھ لوگ ان کو معتزلہ کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح معتزلہ اپنی عقل کی نبیاد پر حدیثوں کو قبول و رد کرتے تھے اسی طرح تم اپنے مخالف احادیث کو رد کرتے ہو ۔ مولانا پالن پوری صاحب نے بھی یہی اعتراض اہل حدیث پر کیا ہے ۔ بالا چند سطور میں اسی بات کی حقیقت کوواضح کرنے کی کوشش کی گئ ہے کہ کون احادیث کو معتزلہ کی طرح رد کرتا ہے ؟
یہ تو مختصر سی دو بحثیں تھیں جو چند گھنٹوں میں مکمل ہوگئیں اور اسی وقت فورم پر لگادی گئیں ۔
باقی چونکہ کافی پیچیدہ مسائل تھے لہذا فیصلہ کیا کہ خوب مطالعہ کرنے کےبعد کچھ لکھا جائے اور تقریبا ایک مہینہ تک کافی ساری کتابیں کھنگال بھی لیں تھیں لیکن بہر صورت معلومات کمیت و کیفیت میں اسقدر نہ تھیں کہ جن سے کوئی دوسرا بھی پڑھ کر نتیجہ پر پہنج سکے ۔ اور ویسے بھی چونکہ راقم خود ابھی طالب علمی مراحل سے گزر رہا ہے اس لیے ان تمام مباحث کو جن کا ذکر پالن پوری صاحب نے ایک مختصر مضمون میں چھیڑ دیا تھا اسی طرح کے مختصر مقالے میں سمیٹنا مشکل ہی ناممکن نظر آرہا تھا ۔
دوسری طرف مسئلہ یہ ہے آئے روز کسی نہ کسی علمی بحث میں کافی مطالعہ کرنا پڑ جاتا ہے ۔ اور ویسے بھی خیر سے طبیعت اس طرح کی ہے کہ وقت کو منظم و مرتب کرکے اس کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی بالکل بھی عادت پیدا نہیں ہورہی چار دن کسی ایک موضوع پر مطالعہ کیا پھر اس کو طاق نسیاں میں رکھ کر ایک نئے موضوع کے پیچھے پڑنے کی خواہش انگڑائیاں لینا شروع کردیتی ہے ۔ اسی طرح طالب جامعی کے لیے اساتذہ کی طرف سے بھی کافی بحوث کا مطالبہ رہتا ہے جس کی وجہ سے جو کام چند دن کے لیے رک گیا سمجھیں پکا پکا رک گیا ۔
یہی حال اس مضمون ’’ اصلی سلفی اور آج کے سلفی ‘‘ کے جائزے کا ہوا ہے ۔ کہ ایک سال پہلے جو کچھ کیا جوں کا توں پڑا ہوا ہے ۔ اور ابھی تک کوئی امید نہیں کہ مزید اس سلسلے میں کچھ کر پاؤں گا لہذا سوچا جو کچھ ہوگیا ہے اس کی کانٹ چھانٹ کرکے قارئین کی نذر کردینا چاہیے ۔

آئندہ سطور میں تأویل کی تعریف ، مختلف اطلاقات ، اس کے نقصانات ، حکم اور اس سے ملتے جلتے چند الفاظ پر مشتمل کچھ معلومات پیش خدمت ہیں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
تأویل کی تعریف

تأویل کا لغوی معنی :
لفظ '' أول '' کا اصل معنی ہے '' الرجوع إلی الأصل'' کسی چیز کا اپنی اصل کیطرف لوٹنا اور موئلا بمعنی مرجع ( ٹھکانا ) استعمال بھی اسی وجہ سے ہے ۔ کسی آدمی کی '' آل '' کو بھی اسی وجہ سے اس کا نام دیا جاتا ہے چونکہ وہ اپنے خاندان کے لیے مرجع ہوتاہے ۔
یہاں دو چیزیں قابل غور ہیں لوٹنا اور اصل کیطرف لوٹنا ان دو معنوں کا مجموعہ تأویل ہے ۔ گویا کسی لفظ کی تأویل کا مطلب ہےکہ اس کو اس کے اصلی معنی پر محمول کرنا ۔
مزید تفصیل کے لیے مقاییس اللغۃ لابن فارس ، مفرادات القرآن للراغب اور دیگر کتب لغت ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔
تأویل کا اصطلاحی معنی :
اصطلاحی طور پر اس کے تین اطلاقات ہیں
تأویل بمعنی تفسیر (متکلم کی کلام کی وضاحت و تشریح کرنے کی کوشش کرنا )جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہم علمہ التأویل ۔ علماء کہتے ہیں اس سے مراد تفسیر ہے ۔ اور ابن جریر طبر ی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں القول فی تأویلہ کذا ....
کسی چیز کی حقیقت اس کی تأویل ہوگی ( عند السلف ) مثلا لفظ ویل کی حقیقت جہنم کی ایک وادی ویل ہے ۔ خواب کی تعبیر کو تأویل بھی اسی معنی میں کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں یہ معنی کثرت سے موجود ہے ۔
تأویل کے یہ دو اطلاق متقدمین کے ہاں رائج ہیں تأویل کا ایک تیسرا اطلاق متأخرین کے ہاں بھی مشہور ہوا ہے(التدمریۃ ص 91۔92 ) اور وہ ہے :
کسی لفظ کے دو محتمل معانی میں سے مرجوح معنی کو راجح معنی پر ترجیح دینا کسی دلیل کی بنیاد پر ۔ ( عند المتأخرین ) جب تأویل مذمت کے سیاق میں ہو تو یہی تیسر ا اطلاق مراد ہوتا ہے ۔ اور نصوص صفات میں تأویل سے مراد بھی یہی تأویل ہے ۔ جیسا کہ ظاہر ہے اس صورت میں تأویل کی صحت کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں ۔
تأویل کی شروط :
1۔ لفظ اس مؤول معنی کا احتمال رکھتا ہو ۔
2۔ مرجوح کو راجح پر ترجیح دینے کی دلیل ہونا چاہیے ۔
تأویل ، تفسیر ، تفویض میں قدر مشترک اور فرق کیا ہے ؟
تأویل اور تفسیر :

تأویل کے مختلف اطلاقات میں یہ بات گزرچکی ہےکہ تأویل کے مختلف اطلاقات ہیں جن میں سے ایک بمعنی تفسیر ہے ۔
تأویل او رتفویض :

دونوں جگہ صرف اللفظ عن المعنی الظاہر ہوتا ہے البتہ تأویل میں مصروف إلیہ معنی کی تحدید ہوتی ہے جبکہ تفویض میں اس کی تحدید نہیں ہوتی گویا تاویل دونوں جگہ ہے ایک جگہ اجمالا (تفویض )دوسری جگہ تفصیلا(تأویل ) ہے ۔ ( منہج أہل السنۃ ومنہج الأشاعرۃ ص 601 )
صفات باری تعالی کے حوالے سے گمراہ فرقے دو طرح کے ہیں ( عقیدۃ ابن کثیر بین التأویل و التفویض من المقدمۃ )
مشبہ
اور
معطلہ
پھر معطلہ کی آگے بہت ساری قسمیں مثلا تفویض بھی تعطیل کی ایک قسم ہے اسی طرح بعض صفات کا انکار( تعطیل ) اور بعض کا اثبات جیسا کہ اشاعر و ماتریدیہ ہیں اسی طرح معتزلہ بھی معطلہ میں سے ہیں کیونکہ وہ اسماء کا اثبات اور صفات کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں سمیع بلا سمع اور بصیر بلا بصر وغیرہ
یہ سب تعطیل کی اقسام ہیں بعض تعطیل کلی او ربعض تعطیل جزئی ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
تفویض کیا ہے ؟

بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ تعطیل اور تشبیہ کی درمیانی صورت نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مشبہہ کی طرح اللہ کی صفات کو مخلوق سے تشبیہ بھی نہیں دیتے اور معطلہ کی طرح ان کا سرے سے انکار بھی نہیں کرتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ نصوص میں اللہ کی صفات بیان ہوئی ہیں اور ہم اسکا اقرار کرتے ہیں لیکن ان کا معنی کیا ہے یہ ہم اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ ان صفات کا معنی کیا ہے یعنی صفات ہیں لیکن معنی کا پتہ نہیں ۔ اس کو تفویض کہتے ہیں ۔ تفویض کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کو کسی کے سپرد کرنا گویا یہ صفات کے معانی اللہ کے سپرد کردیتے ہیں ۔
نصوص ِصفات کے بارے میں تفویض کا یہ موقف بھی ٹھیک نہیں کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی تعطیل ہے اس وجہ سے سلف صالحین سے یہ منقول نہیں ہے ۔
سلف صالحین کا مذہب تفویض نہیں تھا یہ بات چند نکات میں سمجھی جا سکتی ہے :
تفویض کا مطلب ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ایسی باتیں بھی بتاتے رہے ہیں جن کا معنی ہی نہیں جانتےتھے ۔
یعنی ایسے الفاظ یا کلمات جن کا کوئی معنی ہی نہیں ان کی تبلیغ کا معنی ہی کیا رہ جاتا ہے ؟ مطلب اللہ کی قرآن مجید میں بہت ساری صفات بیان ہوئی ہیں مثلا غفور ، رحیم ، علیم ، حکیم ، سمیع ، بصیر ان کا قرآن میں نازل کرنے کا کوئی مقصد ہے جابجا اللہ تعالی آیات کے آخر میں ان کو لاتے ہیں کیا یہ سب کچھ بغیر کسی فائدہ کے ہے ؟
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وأما الصنف الثالث: وهم أهل التجهيل: فهم كثير من المنتسبين إلى السنة وأتباع السلف. يقولون: إن الرسول صلى الله عليه وسلم لم يكن يعرف معاني ما أنزل الله عليه من آيات الصفات، ولا جبريل يعرف معاني تلك الآيات، ولا السابقون الأولون عرفوا ذلك. وكذلك قولهم في أحاديث الصفات: إن معناها لا يعلمه إلا الله، مع أن الرسول تكلم بهذا ابتداءً، فعلى قولهم تكلم بكلام لا يعرف معناه. ( الحمویۃ ص 286 )
ایک اعتراض اور اس کا جواب
اگر یہاں کوئی حروف مقطعات کو لے کر اعتراض کرے کہ ان کے الفاظ کی تبلیغ کی گئی ہے لیکن معنی کا کسی کو پتہ نہیں ہے ۔
جواب
یہ اعتراض ٹھیک نہیں ہے اس کی دو وجہیں ہیں :
أولا :نصوص صفات اور حروف مقطعات میں فرق ہے کیونکہ ان کے سرے سے ایسے کوئی معنی ہے ہی نہیں جو مخلوق کے علم میں ہو مثلا الم ، طہ ، یس وغیرہ الفاظ کا کوئی معنی ہی نہیں اور نہ ہی یہ مخلوق کے علم میں کسی معنی کے لیے وضع کیے گئے ہیں بلکہ ان کو اللہ تعالی نے بطور معجزہ کے قرآن میں اتارا ہے کہ ہے کوئی ہے جوان کے معنی جان سکے گویا کوئی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں مخلوق سمجھ ہی نہیں سکتی
ثانیا :یہ کہ حروف مقطعات کے بارے میں سلف سے منقول ہے کہ ان کے معانی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا جبکہ نصوص أسماء و صفات کے بارے میں سلف میں سے کسی سے بھی منقول نہیں کہ ان کے معنی کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی کوئی جان سکتا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ ایسی باتیں ان کے ہاں بالکل واضح تھیں کہ جب سمیع ، بصیر بولا جائے گا تو اس کا معنی کیا ہوگا ۔ اگر معاملہ حروف مقطعات والا ہوتا تو ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین سے منقول ہوتا کہ کہ ان نصوص کا کوئی معنی نہیں ۔
اگر تسلیم کر بھی لیا جائے کہ قرآن میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا جاننا کسی کے بس کی بات نہیں تو نصوص صفات اس میں شامل نہیں کیونکہ اس سے تعطیل الذات( الخالق) عن الصفات لازم آتی ہے جو کہ محال ہے ۔
اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ سلف صالحین صحابہ کرام و تابعین بعض قرآنی آیات کو بغیر سمجھ بوجھ کے پڑھتے رہے حالانکہ ابو عبد الرحمن سلمی بیان کرتےہیں کہ ہم نے جن أصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن پڑھا ہے( جیسا کہ عثمان بن عفان و عبد اللہ بن مسعود) وہ کہا کرتے تھے کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک آگے سبق نہیں پڑھتے تھے جب تک اس میں علم و عمل سے متعلق تما م باتیں سیکھ نہ لیتے۔ ( فضائل القرآن للفریابی رقم 169 )
سلف سے وار د بعض اقوال بھی اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ معنی سمجھے بغیر صرف الفاظ پر ایمان رکھتے تھے مثلا امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے :
الاستواء غير مجهول، والكيف غير معقول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة ( الأسماء والصفات للبیہقی رقم 867 )
استواء معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت ہماری سمجھ سے بالا ہے ۔ اس پر ایمان لانا واجب اور اس ( کی کیفیت ) کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ۔
یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ امام مالک استواء کا معنی جانتے تھے البتہ اس استواء کی کیفیت کیا تھی یہ نہیں جانتے تھے ۔ لہذا اس قول سے صفات کی نفی مراد نہیں لی جا سکتی کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ انہوں نے خود الاستواء کو غیر مجہول یعنی معلوم کہا ہےاور اس کا اثبات کیا ہے ۔ دوسری بات کسی چیز کی کیفیت کی بات اس وقت ہوتی ہے جب اس کا اثبات ہو جب کسی چیز کا اثبات ہی نہ ہو یعنی وجود ہی نہ تو اس کی کیفیت کیا ہے کیا نہیں یہ بات کرنا تو ویسے ہی لا یعنی فعل ہے ۔ تو گویا امام مالک صفت استواء کا اثبات کرنا چاہتے ہیں لیکن کیفیت کے بارے میں لا علمی کا اعتراف کر رہے ہیں ۔
اس کی مثال یوں سمجھیں :
آپ کسی کپڑا فروش کے پاس جاتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں کہ آپ کے پاس سردیوں کے لیے کپڑے ہیں اگر وہ ہاں میں جوا ب دے گا تو پھر اگلی بات بھی چلے گی کہ ان کا رنگ کیسا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ لیکن اگر وہ پہلے ہی آپ کو کہہ دے کہ میرے پاس کپڑے ہی نہیں ہیں تو ظاہر ہے کیسے ویسے تک بات آئے گی ہی نہیں ۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیفیت کا سوال وجود کے بعد ہے ۔ اور کیفیت کی نفی سے نفی وجود لازم نہیں ۔ واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
عقائد میں تأویل کا حکم :

علامہ معلمی نے ایک کتاب لکھی ہے '' حقیقۃ التأویل '' یہاں ان کے کلام کا خلاصہ اپنے الفاظ میں پیش خدمت ہے :
عقائد میں تأویل کرنا اللہ اور اس کے رسول کی کیطرف جھوٹ منسوب کرنے کے مترادف ہے ۔
پھر مزید تفصیل کے ساتھ انہوں نے بات سمجھانے کی کوشش کہ ہےکہ
جولوگ تأویل کرتے ہیں درحقیقت وہ کتاب وسنت پر اپنی عقل اور فلسفیوں کے بنائے ہوئے اصولوں کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اس طرح غلطی واقع ہوتی ہے کیونکہ انسانی عقل کی کام کرنے کی ایک حد ہے جیساکہ آنکھ کی بصارت کی ایک حد ہے ، جس طرح ایک حد کے بعد آنکھ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اسی طرح عقل بھی ایک حد تک کام کرتی ہے اس کے بعد بے بس ہو جاتی ہے ۔
جب عقل بے بس ہو جاتی ہے تو دو صورتیں ہیں یاتو انسان اپنی بے بسی کا اعتراف کر لے یا پھر تعلی و کبر کی وجہ سے اپنی عقل کی بے بسی کا اعتراف نہ کرے بلکہ وہ چیزیں جو عقل کی اس خاص حد سے بالا ہیں ان کا انکار کردے( یا ان کو ان کے اصل مکان سے ہٹا کر اپنی عقل کے اندر لانے کی کوشش کرے ظاہر ہے ایسی صورت میں وہ چیز کو کما حقہ نہیں سمجھ سکے گا ) جو شخص اپنی بے بسی کا اعتراف کر لیتا ہے اور قرآن وسنت کی بتائی ہوئی بات کو جو ں کا توں مان لیتا ہے وہ حق پر ہے ، اس کے علاوہ سب خسارہ ہی خسارہ ہے اور ایسی صورت میں وہ جو کچھ بھی کرے گا ظاہر ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی مراد یا مقصود نہیں ہو سکتا ، کیونکہ اس طرح حق تلاش کرنے کو مقصود شرعی قرار دینا تکلیف ما لا یطاق کے قبیل سے ہے ۔
اللہ تعالی کی صفات کی حقیقت و کنہ جاننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ انسان کے بس میں نہیں ہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان اسی چیز کا تصور کر سکتا ہے :
جس کو وہ محسوس کر سکتا ہے مثلا دیکھنا یا چھونا یا سننا وغیرہ
یا اس طرح کی کسی چیز کو محسوس کر کے اس پر قیاس کر ے
اللہ کی صفات ان امور میں سے ہیں جن میں یہ دونوں چیزیں انسان کے لیے مفقود ہیں یعنی نہ تو ہم نے اللہ کو دیکھا ، سنا ہے اور نہ ہی اللہ جیسا کوئی ہے کہ ہم نے اس کو دیکھا یا سنا ہو لہذا پتہ چلا ہے کہ ہم اللہ کی صفات کی حقیقت کو نہیں پاسکتے ۔ جو ایسا دعوی کرتا ہے وہ جھوٹا ہے یا پھر مجنون ہے ۔
مثال کے طور پر ایک اندھا آدمی ہے اس کو رنگوں کے بارے میں معلومات نہیں ہیں اب اس کو کوئی کہے کہ فلاں چیز سفید ہے تو باری باری انہیں چیزوں کا نام لےگا جو اس کی حس سے اس کو معلوم ہیں مثلا کہے گا یہ کوئی ملائم چیز ہوگی ، کوئی کڑوی چیز ہوگی ، کوئی لمبی چیز ہو گی ، کوئی چوڑی چیز ہوگی ۔۔۔۔۔ الغرض باری باری تمام محسوسات کا ذکر کرے گا ۔ لیکن یہ کبھی بھی نہیں کہے گا کہ یہ رنگ کی ایک خاص قسم ہے ۔ جب ہم اس کی ان سب باتوں کا نفی میں جواب دیں گے تو وہ کہے گا یہ کوئی چیز ہوہی نہیں سکتی ۔
اب دیکھیں کسی چیز کو محسوس نہ کرنے کی وجہ سے اس نے دو رائے اختیار کی ہیں کہ اگر سفید رنگ کی کوئی چیز ہے تو وہ مذکورہ اشیاء میں سے کوئی ایک ہوگی ۔
اور اگر مذکورہ اشیاء میں سے کچھ بھی نہیں تو درحقیقت وہ چیز ہے ہی نہیں
ایک تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے وہ کہنے والے کی بات پر اعتبار کر لے اور سفید رنگ کا وجود تسلیم کرلے اور اس کی حقیقت کیا ہے اس کے بارے میں لا علمی کا اظہار کرے ۔
اسی طرح اللہ کی صفات کی حقیقت کے بارے میں بھی ہمیں نہیں بتایا گیا اب یہاں بھی تین قسم کے لوگ ہیں
کچھ نے کہا کہ یہ مخلوق کی صفات کی طرح صفات ہیں انہوں نے صفات کی حقیقت کو اپنی محسوسات کا پابند بنا دیا ۔(جیساکہ اندھا اپنی محسوسات پر قیاس کرکے غلطی کر رہا تھا )
کچھ نے کہا نہیں یہ صرف الفاظ ہیں ان کی حقیقت کوئی نہیں کیونکہ صفات کے ثبوت سے مخلوق سے تشبیہ لازم آتی ہے اور ایسا ہو نہیں سکتا لہذا صحیح بات یہ ہے کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے ۔( جیساکہ اندھے کو جب ہر دفعہ نفی میں جواب ملا تو اس نے انکار ہی کردیا )
اور کچھ نے کہا صفات ہیں جس طرح اللہ کی ذات کے لائق ہیں ہمیں صفات کے وجود کے بارے میں شریعت نے بتایا ہے لہذا ان پر ایمان رکھتے ہیں ان کی حقیقت سے باخبر نہیں کیا لہذا اس سے لاعلمی کا اعتراف کرتے ہیں ۔
پہلے قسم کے لوگ مشبہہ کہلائے کیونکہ انہوں نے اللہ کی صفات کے بارے میں اپنی محسوسات کی پابندی کرتے ہوئے مخلوق اور خالق کو تشبیہ دے دی اور کہا جس طرح ہمارا ہاتھ ہے اسی طرح اللہ کا ہاتھ ہے (نعوذ باللہ )کیونکہ ان کے ذہن میں مخلوق کے ہاتھ کے سوا ہاتھ کا کوئی اور توتصور ہے ہی نہیں ۔
دوسری قسم کے لوگ معطلہ کہلائے کیونکہ انہوں نے صفات کا انکار کرتے ہوئے ان نصوص کے بارے میں جن میں اللہ کی صفات بیان ہوئی تھیں ان کی تعطیل یعنی معانی کا انکار کردیا کیونکہ ان کے نزدیک اس طرح خالق و مخلوق کی تشبیہ لازم آتی ہے اور ایسا محال ہے ۔ گویا انہوں نے اپنے محسوسات کا پابند ہو کر پہلے خالق و مخلوق کو تشبیہ دی ( مشبہہ کی طرح ) اور پھر اس کو محال قرار دے کر صفات کا ہی انکار کردیا ۔ ( اور مشبہ سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئے )
جبکہ تیسرا موقف اہل سنت و الجماعت سلف صالحین کا موقف ہے کہ انہوں نے صفات کا اقرار تو کیا ہے لیکن بغیر تشبیہ کے اس لیے انہیں صفات کی تعطیل کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کیا اصلاح کی خاطر تأویل کرنا جائز ہے ؟

اگر آپ صفات کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کے موقف کی صحت اور دیگر گروہوں کی گمراہی کوسمجھ چکے ہیں تو اس سوال کا جواب بالکل بھی مشکل نہیں ہے کہ تأویل کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ اس سے یاتو اللہ کی صفات کا انکار لازم آتا ہے یا مخلوق کے ساتھ تشبیہ لازم آتی ہے اور یہ دونوں چیزیں حرام ہیں اللہ کا ارشاد ہے
لیس کمثلہ شیء وهو السميع البصير
اور اصلاح کے نام پر لوگوں کو قرآن وسنت سے دور کرنا یہ کسی بھی صورت اصلاح کا باعث نہیں بن سکتا جیساکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ
ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ و سنۃ رسولہ
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمسک بالکتاب والسنۃ گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہے اسی طرح اس بات کی طرف بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ اگر تمسک بالکتاب والسنۃ نہ کیا تو گمراہی ہی گمراہی ہے نام چاہے اس کا اصلاح ہی کیوں نہ رکھ لیں ۔
ذیل میں ہم نصوصِ صفات میں تأویلات کے چند مفاسد ذکر کرتے ہیں :

اولا :
تأویل شرک و بدعت کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے ۔ کیونکہ اہل شرک و بدعت کا رد ہم اسی طرح کرتے ہیں کہ تم لوگ قرآن وسنت کی نصوص کی من مانی تشریح کرتے ہو لیکن یہی کام اگر ہم خود شروع کردیں گے تو ہم میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا ۔ اہل کلام نے جب نصوص صفات میں تأویل کو جائز سمجھا ہے تو فلسفیوں نے اس کو دیگر نصوص شریعت مثلا یوم آخرت اور عذاب قبر وغیرہ میں بھی لاگو کردیا اور کہا کہ کوئی عذاب قبر نہیں اور مرنے کے بعد جب ہڈیاں مٹی میں مل کر ختم ہو جائیں گی تو کوئی دوبارہ نہیں اٹھایا جائیگا اور جتنی نصوص میں بعث و نشور کا ذکر ہے اس سے مراد صرف روح بغیر جسم کے ۔ اورقرامطہ و باطنیہ ( صوفیوں ) نے رہتی ہوئی کسر بھی نکال دی اور کہا کہ نصوص شریعت میں کوئی ظاہر واہر نہیں ہے اصل مراد تو یہاں ایک باطنی اور پوشیدہ معنی ہے( ساڈی دل وچ ای مسیت اے ( ہماری دل میں ہی مسجد ہے ) گویا الوہیت سے متعلقہ نصوص متکلمین و فلاسفہ نے مل کر ظاہر سے پھیر دیں ، آخرت وغیرہ کے متعلق نصوص کا فلسفیوں نے تیا پانچا کردیا اور اوامر و نواہی وغیرہ کے متعلقہ نصوص صوفیوں کے ہتھے چڑھ گئیں تو پھر نصوص شریعت میں پیچھے ظاہر پر رہ کیا گیا ہے ؟ إنا للہ وإنا إلیہ رجعون ۔
ثانیا :
تأویل سے حلاوت ایمان و ایقان ختم ہوجاتی ہے اور آدمی دین کے بارے میں طرح طرح کے شکوک وشبہات کا شکار ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ جب قرآن وسنت کے ظاہر معانی کی بجائے اپنی عقل کے مطابق معنی نکالنے کی کوشش کریں گے تو ذہن میں کھٹکا رہے گا کہ ہو سکتا ہے یہ نہیں کوئی اور معنی مراد ہو ۔
ثالثا : تأویل اختلاف کا سبب بنتی ہے ۔ چونکہ تأویل میں قرآن وسنت کو اپنی عقل کے پیچھے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ تمام لوگوں کی عقل ایک جیسی نہیں ہو سکتی لہذا جب ہر کوئی اپنی عقل کے مطابق تأویل کرے گا تو اختلاف کا جنم لینا بدیہی امر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بدعتی لوگ قرآن وسنت کو چھوڑ کر آج تک کسی چیز پر اکھٹے نہیں ہوئے ۔
رابعا :
تأویلات سے نصوص شریعت کی ہیبت ختم ہو جاتی ہے کیونکہ جو چاہتا ہے جس طرح چاہتا ہے قرآن کی کسی آیت یا حدیث رسول سے اپنا من مانا مطلب نکال لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہی اصلا مراد ہے تم تو ظاہر ی معنی کے پیچھے لگے ہوئے ہو ، کوئی دوسرا آکر اپنا مقصد نکالنا شروع کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ عقل کا تقاضا تو یوں ہے ۔۔۔۔۔ اور یوں نصوص شریعت کا ادب و احترام بالائے طاق رکھ کر ان کو کھیل بنانے کی سعی لا حاصل کی جاتی ہے ۔
خامسا :
تأویل کا اعتقاد رکھنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام و تابعین عظام کے بارے میں سوء ظن لازم آتا ہے کہ انہوں نے نصوص کے حقیقی معانی لوگوں سے چھپا کر رکھے کیونکہ اگر انہوں نے اس طرح کی کوئی تأویل کی ہوتی تو ضرور ہم تک پہنچتی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی صفت کی تأویل ثابت ہے ؟ کیا صحابہ کرام سے کسی بھی صفت کی تأویل ثابت ہے ؟ ہر گز نہیں ۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
حضر حیات صاحب : تاویل کے مفاسد سے مستفاد خلاصہ یہ نکلا (1)شرک وبدعت کے مترادف ، (2) ایمان کے حلاوت وایقان کو ختم کرنے والا (3) نصوص شریعت کی ہیبت کا قاتل ،(4) سوء ظن کا ملزِم
اس پر چند طالبعلمانہ سوالات اٹھ رہے ہیں
نمبر1) قرآن وحدیث سے اس کی ممانعت پر صحیح نصوص پیش کی جائے ۔
نمبر 2)ایک لفظ ہے "وجہ" اس کا اصل حقیقی معنی چہرہ ہے۔
کل شیئ ھالک الا وجہہ سے آپ حضرات اللہ کے صفت وجہ کو ثابت کرتے ہیں اور ساتھ میںلا کوجوہنا کا ضمیمہ بھی لگاتے ہیں جس سے آپ مشبہ میں شامل نہ ہو جائے ۔
تو امام بخاری رحمہ اللہ کے بارےکیا یہ سارے احکام لگیں گے یا نہیں اس لئے کہ انہوں نے صحیح بخاری میں صریح تاویل کیا ہے حوالہ پیش ہے : جلد 4: صفحہ : 1787
{ كل شيء هالك إلا وجهه } / 88 / إلا ملكه ويقال إلا ما أريد به وجه الله
الكتاب : الجامع الصحيح المختصر-----المؤلف : محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي--------الناشر : دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت-----الطبعة الثالثة ، 1407 - 1987-----تحقيق : د. مصطفى ديب البغا أستاذ الحديث وعلومه في كلية الشريعة - جامعة دمشق
اس نص میں وجہ سے مراد ملک (بادشاہی ) لی ہے ،تو کیا امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں آپ کا اور آپ متذکرہ بالا اکابرین کا وہی حکم مان لے جو اس سے پہلے ابن حجر اور امام نووی رحمہم اللہ کے بارے میں آپ کے قول سے لازم بین کے طور پر سامنے آیا تھا اور جو آپ اوپر چار مفاسد بیان کئے ہیں ۔
 
شمولیت
نومبر 16، 2013
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
61
پوائنٹ
29
جزاکم اللہ خیرا خضر بھائی بہت خوب
وقاص بھائی : یعنی آپ حضر بھائی کاامام بخاری رحمہ اللہ کو
(1)شرک وبدعت کے مترادف ، (2) ایمان کے حلاوت وایقان کو ختم کرنے والا (3) نصوص شریعت کی ہیبت کا قاتل ،(4) سوء ظن کا ملزِم
مرتکب بنانے پر جزاکم اللہ اور بہت خوب کی داد دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابتسامہ
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
وقاص بھائی : یعنی آپ حضر بھائی کاامام بخاری رحمہ اللہ کو

مرتکب بنانے پر جزاکم اللہ اور بہت خوب کی داد دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابتسامہ

جناب تھوڑا سا صبر کر لیا کریں کیوں اتنا اور ہو جاتے ہیں آپ لوگ۔۔۔
ابھی خضر بھائی کو اپنی بات تو مکمل کر لینے دیجئے پھر آپ کو جو بھی اعتراض ہو وہ آپ اخلاقیات کو سامنے رکھتے ہوئے کر سکتے ہیں
 
Top