• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقاید شیعہ (یونیکوڈ کتاب)

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
کہ
چور کو چور نہ کہو اور ڈاکو کو ڈاکو نہ کہو
اور
غلیظ ترین کافرانہ عقائد کے انبار رکھنے والے کو کافر نہ کہو

شیعہ مذہبی کتب کی ان عبارات اور عقائد و نظریات کو پڑھنے کے بعد صرف یہی ثابت نہیں ہوتا کہ شیعہ کافر ہے بلکہ آپ تسلیم کریں گے کہ
شیعہ کائنات کا بدترین کافر ہے

اور یہ حقیقت آپ پر یقینا روز روشن کی طرج اب واضح ہوچکی ہے کہ ہم
شیعہ کو ’’ کافر کافر شیعہ کافر‘‘ کیوں کہتے ہیں ؟
ہفت روزہ
الا عتصام
جلد۴۲-شمارہ ۲۹--------۲۶ذوالحجۃ ۱۴۱۰ھ-۲۰ جولائی۱۹۹۰ء جمعۃ المبارک
حافظ صلاح الدین یوسف



فسادات کے اسباب و عوامل اور ان کے انسداد کی ضرورت

ماہ محرم الحرام کی آمد آمد کے ساتھ ہی لوگوں کے دلوں کی دھرکنیں تیز ہو جاتی ہیں ۔لوگ اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو جاتے ہیں اورفتنہ و فساد کے مہیب خطرات ملک کے افق پر منڈلانے لگتے ہیں ۔
کیوں ؟
محض اس لئے کہ محرم کے تصور کے ساتھ فتنہ و فساد ایک لازمی چیز بن گئے ہیں ۔مذہبی فساد کے بغیر محرم کا تصورہی نہیں کیا جا سکتا۔
ان مذہبی فسادات کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر کے طورپر محرم سے بہت پہلے سے ’’ امن کمیٹیاں ‘‘ قائم کردی جاتی ہیں شیعہ سنی علماء کے مشترکہ اجتماعات بلاکر ان سے اتحاد کی اپیلیں کی جاتی ہیں اور علماء و ذاکرین حضرات بھی اس کے جواب میں اتحاد و یگانگت کے قائم رکھنے کا عہد کرتے ہیں اورفرقہ وارانہ کشیدگی سے اجتناب کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں ۔
لیکن ا س کے باوجود ہرسال کا مشاہدہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ تنازعات اور مذہبی فسادات کم یا بیش ضرور رونما ہو کر رہتے ہیں ۔ حکومت کی کوششوں کی علی الرغم ملک کا کوئی نہ کوئی حصہ بہرصورت مذہبی تلخیوں اور کشیدگیوں کی آماجگاہ بن کر رہتا ہے اور کہیں نہ کہیں خونی تصادم یا کم از کم سنگ زنی وخشت بازی ضرور ہوتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ محرم اورفسادات لازم و ملزوم کیوں بن گئے ہیں ؟ مسلمانوں کے سال نو کا آغاز ماردھاڑ اورقتل و غارت گری سے کیوں ہوتا ہے؟
اس کی وجہ صرف اورصرف یہ ہے کہ ایک فرقے نے مسلمانوں کے اکابر پرست و شتم اور اصحاب رسولﷺ پر تبرا کرنے کو اپنا مذہبی شعار بنالیا ہے ۔ نیز اپنے سیاسی و تبلیغی مراسم کو عباد ت کا نام دے کر امام باڑوں کی بجائے سڑکوں اورکوچہ و بازاورں میں بجالانے پراصرا رکرنا ہے۔
حالانکہ موٹی سی بات ہے کہ سّب رشتم کسی بھی مذہب کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح سڑکیں اور بازار بھی اگر نوحہ و ماتم اور سینہ کوبی و زنجیر زنی عبادت ہے ۔ مراسم عبادت بجا لانے کی جگہیں نہیں ہیں ۔ مذہبی مراسم کی ادائیگی کے لئے ہر فرقہ و مذہب میں عبادت گاہیں ہی عبادت کے لئے ہوتی ہیں ، نہ کہ کوچہ و بازار اور سڑکیں اور چوراہے۔
اسلام کی مسلمہ شخصیتوں بالخصوص حضرت ابو بکرصدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت عثمانؓ غنی ، حضرت عمرو بن العاصؓ ،حضرت معاویہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ و حفصہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو طعن و تشنیع کا ہدف بنانا اور اس طرح ان مسلمانوں کے دلوں کو چھلنی کرنا جن کے نزدیک ان کی عزت و توقیر دین و ایمان کا حصہ ہے ، ذرا سوچئے ایک ایسے ملک میں اس بدزبانی کا جواز کیوں کرہو سکتا ہے جس کی اکثریت مذکورہ اکابرکو اپنا دینی رہنما و پیشوا سمجھتی ہے اور جن کی عزت و حرمت پر مر مٹنے کو عین سعادت ؟
یہ حضرات کس طرح مسلمانوں کے اکابر کے خلاف خبیث باطنی اوربدزبانی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، اس کا اندازہ کرنے کے لئے ہم آج اپنے سینے پر پتھر رکھ کر ، نقل کفر کفر نہ باشد- کے مصداق صرف ایک مصنف کی کتابوں سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں ۔
یہ مصنف ہے:۔
’’ حجۃ الاسلام مولانا غلام حسین نجفی (فاضل عراق) سرپرست ادارہ تبلیع اسلام و مدرس مدرسہ جامع المنتظر ایچ بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور ‘‘
ان صاحب کی ایک کتاب
’’ سہم مسموم فی جواب نکاح ام کلثوم ‘‘ ہے جو ۴۴۰ صفحات پر مشتمل ہے اس میں حضرت عمرؓ کے بارے میں جو جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ذرا ملاحظہ فرمائیں ۔
٭ شیخ سُو بڈھا خبیث (ص ۱۴۸)
٭ کئی مرتبہ نبی کی نافرمانی کی۔ ہم جناب عمر کو احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے (ص ۲۲)
٭ جناب عمر کی آخری غذا شراب تھی۔
٭ جناب عمر مرض ابنہ یعنی علت للشائخ (…مردانے) میں مبتلا تھے۔
(ص ۲۴۳-۲۴۶-۴۱۶)
٭ جناب عمر نبی کی بیویوں پر آوازے کستا تھا۔
٭ جناب عمر شراب حرام ہونے کے بعد بھی شراب پیتے رہے۔
٭ جناب عمر کا ایمان پر مرنا مشکوک ہے۔
٭ جناب عمر جہنم کا تالا ہے۔
٭ جناب عمراپنی بیوی سے غیر فطری طریقے سے ہم بستری کرتا تھا ۔
(ص ۴۳۲)
٭ جناب عمر اپنی غلط کاریوں کے حساب سے قبر میں بارہ سال کے بعد فارغ ہوئے (۴۳۴)
٭ جناب عمر حالت جنابت میں بھی نماز پڑھا دیا کرتے تھے۔ (ص ۴۳۶)
اسی کتاب میں ام المومنین حضرت عائشہ و حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کی بابت لکھا ہے کہ :-
’’ جناب عائشہ اور جناب حفصہنے جو کردارنوع اور لوط علیہم السلام کی بیویوں نے ان نبیوں کے خلاف ادا کیا تھا وہی کردار جناب عائشہ بنت ابی بکر اور جناب حفصہبنت عمر نے اپنے شوہر پیغمبر اسلام کے خلاف ادا کیا ہے ۔ (ص ۲۰)
’’ جس طرح جناب نوح اورلوط کی بیویاں طیبات میں داخل نہیں اسی طرح جناب عائشہ اور حفصہبھی طیبات میں داخل نہیں ۔ ص ۲۱ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کتاب میں ’’مکار پیشوا ‘‘ کہا گیا ہے ۔ ص ۴۴۰
اس کی ایک دوسری کتاب ہے۔
’’ کیا ناصبی مسلمان ہیں ؟‘‘
اس میں درج ذیل غلاظتیں ملاحظہ ہوں ۔
٭ نبی کریم ﷺ کے بعد صحابہ مرتد ہوگئے تھے۔
’’ صحابیت کی چادرمیں اتنے سوراخ ہیں کہ تمہاری ماں تمام زندگی ٹاکیاں لگاتی رہے تو پوری نہیں آئے گی‘‘۔ (ص ۵۳)
اسی کتاب میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کو بار بارحمار الٰہی اور مولانا منظور نعمانی لکھنؤ کو حلالے کی سٹ لکھا گیا ہے۔
’’ وہابی اہل حدیث عورتیں ہندوؤں کی عورتوں سے بھی زیادہ ملعون ہیں ‘‘۔ (ص ۶۶)
ا س کی ایک اور کتاب ہے۔
’’ قول مقبول فی اثبات و حدیث بنت رسولﷺ‘‘
اس میں حضرت عثمان ؓ غنی کی بابت جو گوہر افشانیاں فرمائی گئی ہیں ، ملاحظہ فرمائیں :۔
٭ جناب عثمان نے مردہ بیوی سے جماع کیا ۔ (ص ۳۲۴)
٭ شہوت کا غلبہ ہوا اوربیماربیوی کو ہم بستری سے قتل کردیا ۔ پس ایسے خلیفہ کو دور سے سلام ہمارے۔ (ص ۴۲۵)
٭ امیہ خاندان کے زیادہ افراد زنا کار تھے ۔ (۴۴۰)
٭ یزید بن معاویہ نے اپنی ماں اور بہنوں سے زنا کیا ۔ (ص ۴۴۳)
یہ اقتباسات تو’’ مشتے از خردارے‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ورنہ ساری کتابیں غلاظتوں اور خباثتوں کی پوٹ ہیں ۔ جب تک ان خباثتوں اور غلاظتوں کا مکمل سد باب نہیں کیا جائے گامحض امن کمیٹیوں سے اور سرکاری درباروں سے ائرکنڈیشنڈ کمروں میں مشترکہ اجتماعات سے فتنہ و فساد کا استیصال نہیں ہو سکتا ۔ یہ طرز عمل تو ع سنک ربستند و سگاں را گزاشتند ……… کاہی آئینہ دار ہے۔
اسی طرح مذہبی جلوسوں کا سلسلہ بھی فتنہ ئو فساد کا بہت بڑا سبب ہے ، محرم میں ماتمی جلوسوں کا کوئی جواز نہیں بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ مطلقاً ہرقسم کے سیاسی و مذہبی جلوسوں پر پابندی ہونی چاہئیے یہ سب جلوس چاہے مذہب کے نا م پر ہوں یا سیاست کے نا م پر ملک میں بگاڑ اور فتنہ و فساد کے سرچشمے ہیں ۔ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے اس میں ایسے جلوسوں کی قطعاً گنجائش نہیں ہو سکتی۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ادوار خیرالقرون میں ان جلوسوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ یہ سب بعد کی پیداوار ہیں ۔ اور ظاہر بات ہے کہ صدیوں بعد ایجاد ہونے والے یہ جلوس اسلام کا حصہ نہیں ہو سکتے کیونکہ اسلام تو وہی ہے جو اللہ نے قرآن کریم میں نازل فرمایا ہے یا پیغمبر اسلام نے فرمایا، یا کرکے دکھایا ہے حتیٰ کہ ائمہ اہل بیت سے بھی ان کا ثبوت مہیا نہیں کیا جا سکتا۔
اس لئے ہم عرض کریں گے کہ جلوسوں والے دن جلوسوں کے راستوں کے مکینوں پریہ پابندی عائد کی جائے کہ وہ اپنے دروازے ، کھڑکیاں بند رکھیں ، حتی کہ چھتوں پر کوئی نہ چڑھے ۔ ان جلوسوں پر ہی پابندی عائد کی جائے تاکہ_____ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
مکینوں اور دکانداروں پر جو پابندی عائد کی جاتی ہے سراسر ظلم ہے ۔ دنیا میں کسی قانون میں اس قسم کی پابندی کا کوئی جواز نہیں ۔ جب کہ جلوسوں پر پابندی ، جن کے ذریعے سے فساد پھیلتا ہے ایک معمول کی کاروائی اور انتظامیہ کی منصبی ذمہ داری ہے ۔ علاوہ ازیں ان جلوسوں کے ذریعے سے نوحہ و ماتم کی جو رسمی کاروائی کرنی مقصود ہوتی ہے وہ امام باڑوں میں بھی ادا کی جاسکتی ہے ۔ اس لئے اس مفروضہ ’’ مذہبی فریضہ ‘‘ کی ادائیگی میں بھی کوئی رکاوٹ واقع نہیں ہوتی ۔
وما علینا الا لبلاغ
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
شیعہ أمل ملیشیا ۔ پاکستان کا ایک خفیہ خط!​
جوکہ ملت جعفریہ کے تمام اکابرین کے نام ارسال کیا گیا اس کی ایک نقل ہماری تنظیم ’’تحفظ اقدار دین اسلام‘‘ (مذہبی تحریک) پارہ چنار صوبہ سرحد کی شاخ کے ہاتھ لگ گیا اور مسلمانان پاکستان کے مطالعے کے لئے پیش خدمت ہے ۔ (جنرل سیکرٹری)




شیعہ أمل ملیشیا پاکستان
۱۱۰
ادرکنی یا علیؑ
پیارے مومن بھائی بہنو! یا علی مدد
شیعیت باقی ودیگر ہمہ رافناکروم

یوں تو ہماری داستان جدوجہد ۱۴۰۰ سال پرانی ہے کبھی کامیابیوں نے ہمارے قدم چومے اور کبھی عارضی ناکامی نے ہمیں جدوجہد کی نئی جہتوں سے واقف کیا،کہیں جان کے نذرانے پیش ہوئے، کہیں ناصبی سنیوں کے سروں کو روند کر شیعان علی نے بہادری کی مثالیں قائم کیں اور دشمنوں کو درس عبرت دیا ۔ ہر چند کہ ہم ہر دو ر میں اقلیت میں رہے لیکن مصروف عمل رہے ۔ نور پنجتن نبی اکرمﷺ کے دور کے فوراً بعد ہی ہم نے اپنی تحریک کی ابتداء کردی تھی ۔ ناصبیوں نے اپنے سردار کو بٹھا دیا لیکن ہماری تحریک جاری رہی ۔ ہم نے زکوٰۃ امام کا حق جانتے ہوئے ’’ اوّل ‘‘ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو اس نے ہم پر تلوار چلائی ۔ ناصبیوں نے مومنین پر ’’ دوم ‘‘ نصب کر دیا اگرچہ ہم اس وقت دب گئے لیکن ہم مٹے نہیں ۔ ہمارے سردار عالی وقار حضر ت بابا شجاع ابولولو نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے تاریخ کا روشن ترین کارنامہ سرانجام دیا ناصبیوں نے اپنا سردار نمبر۳ الثالث ہم پر مسلط کردیا ہم نے حضرت ابن سباح کی روح کی قیادت میں ناصبیوں ہی میں سے ایسے لوگ تلاش کرلئے جو نسلی امتیازات کے حامی تھے اور ان ہی کی مدد سے حضرت امیر مولائے کائنات مولا مرتضی علی علیہ السلام کو ان کا حق دلوایا اور ناصبیوں کو دفع کیا ۔ امام اوّل کے پردہ فرمانے کے بعد پھر ناصبی غالب آگئے الغرض تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر دور کربلا رہا ہے ۔ ہندوستان میں جب مغلوں کا شاہی گھرانہ شیخ سرہند ی کی بیعت ہونا شروع ہوا تو مومنین نے بھانپ لیا کہ میاں ناصبی شریعت آنے والی ہے ۔ لہٰذا مومنین نے نہایت حکمت سے بادشاہوں ،شہزادوں ، امراء اورسپہ سالاروں کے گرد دائرہ تنگ کردیا اور متعہ شریف کی برکت سے محلات اور خواص کے دلوں پر قبضہ کرلیا۔ اور دشمن کی چالوں کو کافی حد تک ناکام بنا دیا۔ ایران میں صفوی حکومت قائم کرکے دشمنوں کی خوب خبر لی ۔ ادھر صلاح الدین ایوبی کے خطرے کو بروقت محسوس کرکے ایک طرف صلیبیوں کے دربار میں سفارت بھیجی اور دوسری طرف خدائی طریقے سے معاملات کو حل کیا ۔ ناہلسی سنی علماء کو لوگوں کے لئے عبرت بنایا ۔ ہندوستان میں سراج الدولہ کو سنی دوستی کی سزا دی ، حیدرآباد دکن کے معاملات کو درست کیا الغرض شیعان علی کی بہار _____ ہر چمن اور ریگزار میں طرح طرح کے پھولوں سے دنیا مہکاتی رہی کہیں معتزلہ کے روپ میں ، کہیں قرامطہ کی شکل میں ، کہیں عبیداللہ المہدی اس کے مالی ہیں ، کہیں حسن بن سباح اس گلشن کے نگہبان ہیں ۔ پچھلی صدی میں غیر منقسم ہندوستان میں سرآغا خان نے ہماری تحریک کو پروان چڑھایا ۔ اپنی حکمت عملی سے تمام سنی نوابوں اور پیشتر سنی علماء کے سردار بن کر ایک شیعہ مملکت بنائی لیکن مودودی وغیرہ کو شک ہوگیا ورنہ سرآغا خان اس ملک کے پہلے گورنر جنزل ہوتے اور معاملہ ہمیشہ کے لئے حل ہو چکا ہوتا۔ اس کا توڑ ہم نے یہ کیا کہ راجہ صاحب محمود آباد کے دوست محمد علی جناح کو سامنے لے آئے اورآغا خان پس منظر سے ہدایات جاری کرتے رہے لیکن جناح آخری دنوں میں سٹھیا گئے اور سنی بن گئے اور یوں اپنی عاقبت خراب کر لی پاکستان بن جانے کے بعد راجہ صاحب نے اس ملک کو مومن حکومت بنانے پر زور دیا تو جناح نہیں مانا ۔ لہٰذا ان کا دھیرے دھیرے حساب کردیا گیا ۔ پھر ناصبی لیاقت علی خاں آیا اور مولوی شبیر احمد عثمانی کے چکر میں آکر ملک کو سنی اسٹیٹ بنانے کی کوشش کی تو اس کا بھی علاج کیا گیا یوں مہم چلتی رہی ۔ بالآخر ہم مومن بھائی اسکندر مرزا کولانے میں کامیاب ہوگئے ۔ لیکن پھر ناصبی غاصب ایوب آگیا ، اس موقعہ پر ۱۹۶۵ء میں بھارت نے ہماری مدد کی لیکن خاطر خواہ کامیابی نہ ملی بہر حال ہم نے ایوب کے خلاف تحریک چلاکر مومن جنرل آغایحییٰ خان کو بٹھایا ان کے مبارک دور میں آغا شاہی صاحب اور دیگر حضرات نے تحریک کی اچھی خدمات انجام دیں لیکن ملک کوشیعہ اسٹیٹ بنانے کیلئے اس وقت یہ رکاوٹ تھی کہ مشرقی پاکستان میں کوئی مومن نہیں تھا اورسنی مجیب ملک کا وزیر اعظم ہونے ہی والا تھا ۔ لہٰذا ہم نے ہندوستان سے مددمانگی اوراس مسئلے کو ہمیشہ کیلئے حل کرلیا ۔ پھر بھٹو صاحب کا تعارف ہم سے حضرت مولا علیؑ کی تلوار کی حیثیت سے کروا کر ان کو استحکام بخشا ۔ ان کے دور میں ہمارا دین خوب پھلا پھولا اورشیعہ دشمن جماعت اسلامی کے لیڈروں اور کارکنوں کو اپنے انجام تک پہنچایا ، آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ اگرآج ڈاکٹر نذیر زندہ ہوتاتو ہم پر کیا گزرتی لہٰذا اس کا بھی پارسل کرنا ضروری تھا۔ اس پورے دور میں آپ نے دیکھا کہ ہمارا کوئی بھائی دلائی کیمپ یا کسی مصائب کا شکار نہیں ہوا ۔ ادھر پھر ناصبیوں نے ۹ ستارے بناکر ناصبی شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا قریب تھا کہ وہ کامیاب ہوجاتے کہ آغاخاں چہارام نے ہماری مدد کی انہوں نے امریکہ سے کہہ کر جنر ل ضیاء الحق کو کرسی پر بٹھا دیا اوریو ں ۹ ستارے ڈوب گئے اوراتنے عرصہ میں ہم پھر اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے ۔ اسکولوں میں ہم اسلامیات کا نصاب علیحدہ کروانے میں کامیاب ہو چکے تھے زکوٰۃ کے نظام سے بھی ہمیں چھوٹ مل گئی ، ہماری مساجد اور اما م بارگاہ کثرت سے تعمیر ہوئے اردو ادب کے نصاب میں میرا نیس اور دبیر کے مرثیے داخل کرائے گئے اور یوں سنی طلباء کی دھیرے دھیرے ذہن سازی کرنے میں بھی ہم کامیاب ہوگئے۔ بڑے بڑے سنی شاعر اورفنکارٹی وی اورریڈیو پر مرثیہ پڑھنے لگے اور عوام الناس کے دلوں میں ہمارے مذہب کی محبت جڑ پکڑ گئی دوسری طرف ایران میں مومن حکومت قائم ہوجانے سے ہمارے حوصلے بلند ہوتے گئے ۔ وہاں سے ریڈیو زاہدان پر برسوں اما م خمینی کی تقاریر اردو پروگرام میں نشر ہوتی رہیں ۔ اور اما م خمینی نے کھل کر کہہ دیا کہ مصر ، ترکی ، سعودی عرب اورپاکستان کی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے اوریہاں مومن حکومت قائم کی جائے ۔ پاکستان میں ایرانی سفارت خانے اورقونصل نے اس سلسلے میں ہماری تحریک کی لاکھوں ڈالر سے امداد کی ۔ ساتھ ہی لٹریچر اور اسلحہ بھی فراہم کیا۔ اب جہاد کا وقت آچکا تھا ہم نے محسوس کیا کہ ضیاء الحق نے ظہور الحسن بھوپالی کو سندھ کا گورنر بنانے کی کوشش شروع کردی ہے ظاہر ہے کہ ایسے سخت ناصبی کے معاملے میں ذرا تغافل نہیں برتا جا سکتا۔ لہٰذا دین کے مفاد میں اس کا سوئچ آف کر دیا گیا ۔ پھر ہم نے دشمن نمبر ۱ احسان الٰہی ظہیر کا معاملہ طے کر دیا دوسری طرف امریکہ نے ایران سے دشمنی شروع کردی جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے بھی شیعوں کے معاملے میں حق تلفی کرنا شروع کردی ۔ پھر سنی علماء کا دباؤ ضیا ء الحق پر بڑھنے لگا ہم نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سربراہ علامہ عارف حسینی سے شکایت کی لیکن ان پر شیعہ سنی اتحاد کا بھوت سوار تھا لہٰذا مجبوراً ہمیں انہیں الوداع کہنا پڑا ۔ یہ ناخوشگوار فرض علامہ کے محافظ ضامن حسین صاحب کو ادا کرنا پڑا جس کے بعد پولیس تشدد سے بچنے کے لئے اورملیشیا کے راز پرپردہ ڈالنے کے لئے انہوں نے خودکشی کرلی۔
ضیا ء الحق ایٹم بم بنا کر ایشا کا مانیٹر بننا چاہتا تھا اور اس صورت میں وہ ایران کے لئے خطرہ بن جاتا۔ لہٰذا ہم نے اسلامک بم کے راز بمعہ دستاویزی ثبوت یورپ اور امریکہ کو پہنچا دیئے۔ جس کے نتیجہ میں کینیڈا اور امریکہ نے ایٹمی تعاون بند کر دیا لیکن یہ شخص نچلا بیٹھنے والا نہیں تھا اس لئے پھر کوششیں شروع کردیں ۔ ہم نے بھارتی اخباری نمائندے کلدیپ نئیر کو تحریک کے ایک ساتھی مشاہد حسین کی معرفت ایٹمی انرجی کمیشن کے سربراہ تک پہنچا دیا اور اس سے راز اگلوا کر طشت از بام کردیئے ۔ پھر نادرپرویز کی سازش سے بھی امریکہ کو باخبر کیا دیا کہ کس طرح وہ ایٹم بم سے متعلق ’’مواد‘‘ منگوار ہا ہے ۔ گویا ہمارے کارکن آپ کے تعاون اور دعائوں کی وجہ سے اپنے مشن سے ایک لمحہ بھی فارغ نہیں بیٹھے۔
امام خمینی مدظلہ کو جب عراق سے فرصت ملی تو سب سے پہلے انہوں نے روس بھارت اور اسرائیل کی مدد سے ’’ ماسٹر پلان ‘‘ بنایا اورہمارے بدترین دشمن ضیاء سامل کاپتہ صاف کردیا اوراس کے ساتھ کئی سنی فوجی جنرلوں کو بھی دور کر دیا اس معرکے میں ہمارے مومن بھائیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا چیف وارنٹ آفیسر جناب (مدیر ایرانی قونصل) جو اس جہاز میں سوار تھے انہوں نے اپنی جان مولا علی کے نام پرقربان کردی ۔پاکستان میں مومن حکومت قائم ہونے پر اس عظیم شہید کی ایک یادگار بنائی جائیگی ایران سے خبر آئی ہے کہ وہاں پران کی ایک شانداریادگار امام علی رضا کے مزار کے پاس قائم کرنے کا پروگرام ہے امام خمینی نے اپنے خصوصی خط میں انہیں لولو ثانی کالقب دیا۔
اسی طرح ’’ آپریشن اوجھڑی کیمپ‘‘ کے سلسلے میں ہمارے تین کمانڈوز اورایک اسرائیلی ریڈیو آفیسر بھی کام آگئے لیکن ان کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا تاحال ان تمام قربانیوں کے بعد اب ہم اس حالت میں آچکے ہیں کہ سینٹ کے قائم مقام چیئرمین جنا ب فضل آغا صاحب کورکمانڈر جناب سید ذاکر علی زیدی صاحب سیکریٹری دفاع جناب سید اجلال حیدر صاحب اور ایسے ہی بے شمار مومن حضرات فوج پولیس اور حکومت کی مشنری میں ہر سطح پر موجود ہیں ۔ بس اب آپ لوگوں کے تعاون اور دعائوں کی ضرورت ہے اب وہ منزل قریب ہے جس کے لئے ہم طویل عرصے سے نسل در نسل کوشاں ہیں آج شہدائے کربلا کی یاد میں اس ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے کسی ناصبی خلیفہ کی یاد یا احترام میں کوئی تعطیل نہیں ہوتی آج سنی ہمارے پرچارسے متاثر ہوکررجب کے کونڈے کھاتے ہیں آپ جانتے ہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ الغرض پورے ملک کے سنیوں کا ذہن کسی نہ کسی درجے میں شیعت سے متاثر ہے یہ تو کامیابی کی منازل کی ابتداء تصور کی جا سکتی ہے۔
صوبہ سندھ میں ہمیں بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ہم نے ایم کیو ایم (MQM)بنا کر مودودیوں ، نورانیوں اوراسود اعظم کا ہمیشہ کیلئے منہ کالاکردیا ہے آپ نے بلدیاتی انتخابات میں دیکھ ہی لیا ہوگا کہ ان تینوں خبیث جماعتوں کو ہم نے خود ایم کیو ایم کے سنی کارکنوں کے ہاتھوں ختم کروادیا ہے ۔ یہ ہماری سیاسی بصیرت کی ایک واضح دلیل ہے ۔ آپ ہم پر پورا اعتمادکریں بھرپور طریقے پرایم کیو ایم میں شامل ہوکر ہنگاموں میں سنی لوگوں کو ختم کریں چاہے وہ کسی جماعت کا ہو کسی صوبے کا ہو کسی زبان کا ہو ان کی جائیداد کو آگ لگائیں آپ بے فکر رہیں کسی کو مہاجر موومنت سے ٹکر لینے کی جرأت نہیں ہوگی اس طرح شیعہ برادری بدنام بھی نہیں ہوگی اورسنی لوگ معاشی طورپر مفلوج بھی ہوجائیں گے آج ہمارے ساتھی جلوسوں میں ہم ان کے اکابر پر تبرا کرتے ہیں کسی کو جرات نہیں جو ہم کو روک سکے لطف کی بات یہ ہے کہ خود سنی لڑکے ہمارے ساتھی جلوسوں کی محافظت کرتے ہیں اس سلسلے میں ہم نے اپنی بہنوں اور بیبیوں کو سنی جوانوں سے متعہ کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس عبادت عظمی کی بدولت کراچی کا ہر سنی مہاجر ذہنی طورپر ہمارا غلام بن چکا ہے یہی تجربہ ہمارے اسلاف مغل بادشاہوں پر بھی کرچکے ہیں اور اس میں وہ کامیاب تھے آج بھی ہم اسی طرح سے کامیاب ہیں ا ور ہماری خواتین کو اس کا بہت اجر ملے گا۔
اس طویل مراسلے کی فرض وغایت یہ ہے کہ اب مایوسی کے دن گئے اب امام الزمان کی بعثت ہونے والی ہے تمام دنیا پر مومن حکومت قائم ہوگی ناصبیوں کی جان پر بن آئیگی آپ لوگ حوصلہ رکھیں ایم کیو ایم کو خوب چندہ دیں ۔ اسلحہ استعمال کرنے کی تریبت حاصل کریں ہر یونٹ میں اپنے مومن بھائی سے مشورہ کریں خاص حالات میں ہمشیری صاحب کھارا در والے سے یا ایرانی قونصل سے یا خانہ فرہنگ ایران کے عملے سے رابطہ قائم کریں ۔
اس خط کے وسیلے سے ہم اپنے مومن بھائی بہنوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت تحریکی انداز میں کریں تاکہ وہ بہترین صفا ت سے آراستہ ہوں جیسے ’’ فلاں ‘‘ کے وقت میں مالک بن نویرہ نے جرات کے ساتھ زکوٰۃ دینے سے انکار کیا جیسے ’’ فلاں فلاں ‘‘ کو ختم کرنے کیلئے ابو لولو نے ہمت کی جیسے ’’ فلاں فلاں فلاں ‘‘ کا مالک بن اشتہ نے کام تما م کیا جیسے اہل بغدا کو سزا دینے کی لئے عظیم ہلاکو خاں کو دعوت حملہ دے کر وزیراعظم ابن حلقی نے کام کردکھایا۔ جیسے ہلاکو خان کے وزیر اعظم نصیر الدین طوسی نے سنیوں کو عقلمندی سے تہہ تیغ کروایا جیسے رشید الدین سنان نے صلاح الدین ایوبی کو ناکوں چنے چبوادئیے جیسے قرامطہ نے ناصبی حاجیوں کی بوٹیاں بکھیردیں جیسے صفوی حکمرانوں نے ایک عرصے تک ایران سے سنی قوم کو نیست ونابود کردیا جیسے بنگال میں میر جعفر نے سیاست دکھائی جیسے دکن میں صادق نے پوری سنی قوم سے انتقام لیا جیسے حسن بن صباح نے دنیا پر دھاک بٹھا دی لہذا آپ ایسے عظیم میسروپیدا کریں یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب آپ دین امامیہ میں راسخ ہوں گے تبرا ، تقیہ ، متعہ ، عزااری پر سختی سے عمل پیرا ہوں گے۔
اس کے علاوہ ہمیں اپنی عظیم روایات کی سختی سے پابندی کرنی چاہئیے بعض روایات دھیرے دھیرے ترک ہورہی ہیں مثلا ً جب بھی سنیوں کو پانی پلائیں تو اس میں تھوک دیا کریں اس کے علاوہ جب سنیوں کو کونڈے کھلائیں تو اسمیں حضرت ابن سبا کا قارورہ ضرور چھڑک دیں اس سے آپ دیکھیں گے کہ خود سنیوں کی نسل سے شیعوں کے محافظ پیدا ہوں گے آقائے منتظری ہے حال ہی میں مقدس قاردہ شریف کے گیلن بڑی تعداد میں پاکستان بھجوائے ہیں اور اب یہ ہرمرکزی امام بارگاہ سے دستیاب ہوسکیں گے۔ آخر ہمارے اسلاف نے کسی حکمت کی بناپر یہ طریقے جاری کئے تھے لہٰذا ان کی بھی سختی سے جاری پابندی کریں ۔

یا علی مدد


امیر الجیوش
شیعہ ا مل ملیشیا پاکستان

مطالبہ :- فقہ جعفریہ نافذ کرو ورنہ پاکستان ہوگا بیروت ثانی
نوٹ:-(۱) چند دنوں میں آپ خوشخبری سنیں گی کہ عثمان کینڈی، وضی مظہر ندوی ، صلاح الدین (تکبیروالا) اور دیگرلوگ اس دنیا میں نہیں رہے ۔
(۲) ’’ لبنان اورفلسطین میں ہماری کامیابیوں کی داستان شائع ہوگئی ہے ۔ اپنے علاقے کے اما م باڑے سے حاصل کریں ۔
(۳) سعودی عرب میں مومن بھائیوں کی خانہ کعبہ پر قبضہ کرنے کی مہم کی ناکامی کے اسباب پرایک تفصیلی رپورٹ بہت جلد ایران سے شائع ہوکر آنے والی ہے اسے پڑھ کر آپ خود اندازہ لگالیں گے کہ اب ایرانی کمانڈوزکا حاجی کے لباس میں سعودی عرب جانا کس قدر دشوار ہوگیا ہے اوراس طرح اب یہ ذمہ داری پاکستانی مومن بھائیوں کو اٹھانی پڑے گی اسی سلسلے میں کفن پرورس دستے تیار کئے جارہے ہیں جو نومبر ۱۹۸۸ء کے اخر میں تربیت کیلئے ایران بھیجے جائیں گے
شکرانہ :- قلبہ پروفیسر سید ذاکر حسین (پرنسپل اسلامک کلچرل اینڈ ریسرچ سینٹر بلاک ۶ فیڈرل بی ایریا نزد آغا خان میٹرنٹی ہوم کراچی کے ہم بے حد مشکور ہیں کہ انکی کاوشوں اور دن رات کی بھاگ دوڑ سے پاکستان میں شیعت کو بام عروج حاصل ہوا اور اسی بنا پرہماری تنظیم شیعہ امل ملیشیا پاکستان میں اپنے قدم کامیابی سے جمانے میں مصروف عمل ہے یہ ملت جعفریہ کے تمام بزرگوں کی کوششوں وقربانیوں کا ثمرہ ہے ۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
آغا خانی مسلک اور اسلام​
آغا خانی مسلک اوراسلام میں جیسا کہ مندرجہ ذیل نکات سے ظاہر ہے کوئی ایک بات بھی مشترک نہیں ہے۔
(۱) توحید :- آغاخانیوں کا کلمہ حضرت علیؓ پر اللہ کے اوتار(نعوذ باللہ) کی حیثیت سے یامان رکھتا ہے یعنی (نعوذ باللہ) علیؓ اللہ ہیں اورآغاخان (نعوذ باللہ) حضرت علیؓ کے اوتار ہیں اور نور خدا وندی کے مظہر ہیں ۔ امام آغا خاں کسی الوہیت میں سی کو شامل کرنا شرک ہے ۔
(۲) رسالت :- نعوذ باللہ ہمارے آخری پیغمبر نبی کریمﷺ کو امام اول علیؓ نے پیر مقرر کیا اور علیؓ نے ان کو نور ہدایت عطا کیا ۔ اور ان کا کام یہ تھا کہ وہ علی کی راہنمائی میں اسلام کی تبلیغ کریں ۔
اس کے بعد ائمہ نے جتنے پیر(حجت) مقرر کئے ہیں سب نبی کریم جناب محمدﷺ کے اوتار ہیں ا ور ہدایت کے مالک ہیں ۔
کبھی کبھی ائمہ پیر (حجت ) کا منصب بھی اپنی ذات میں رکھتے ہیں اور ایسی صورت میں امام شاہ بھی ہوتا ہے پیر بھی اور حجت بھی اسی طرح ا س میں دونوں نور یعنی نور الہٰی اور نور ہدایت ہوتے ہیں اور وہ اللہ اور رسول دونوں کا اوتار ہوتا ہے یہی صورت موجودہ امام کی ہے۔ جو دونوں نور کا مالک ہے اللہ اور رسول دونوں کا اوتار ہے اور اس لئے پیر شاہ کہلاتا ہے ۔ مختصراً موجودہ امام آغاخاں اللہ بھی ہے اور رسول بھی (نعوذ باللہ)
(۳) قرآن :- الف : قرآن پاک کتابی شکل میں صامت ہے یعنی گونگا اوربہرہ جبکہ امام آغا خاں قرآن ناطق ہے لہٰذا آغاخان کے فرامین کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسی قرآن پاک کی۔
ب:- قرآن جو مسلمانوں کے پاس ہے اس کا متن تحریف شدہ ہے اس میں سے دس پارے حذف کردئیے گئے ہیں ا ور اس میں کافی حصہ اضافہ شدہ ہے۔
(۴) قبلہ :- مکہ معظمہ میں بیت اللہ حقیقت میں قبلہ نہیں ہے ۔ اما م آغا خان ہی اس مسلک کے اعتقادات کے مطابق قبلہ ہے ان کا کہنا ہے کہ کیونکہ امام آغاخان میں نور الہیٰ کا حامل ہے لہذا اس کا جسم حقیقت میں قبلہ ہے اور اسی لئے اس کا دیدار ۔ آغاخان کا درشن ہی تمام گناہوں کو زائل کردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی آغاخان اپنے جماعت کے افراد کے پاس آتے ہیں تو دیدار ۔ درشن کی تقریب منعقد کی جاتی ہی اوراس کی سطح حج کے برابر سمجھی جاتی ہے۔
(۵) نماز ۔ صلاۃ ۔ عبادت :- جب اس مسلک میں نہ قبلہ ہے نہ قرآن ہے تو بھی آغا خانیوں کیلئے نماز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اسی لئے آغا خانیوں کے یہاں مساجدیں ہیں لیکن آغا خاں مسلمانوں کو مساجد کی تعمیر کی لئے عطیات دیتا ہے تاکہ اس کو مسلم سمجھا جائے ۔
(۶) رمضان کے روزے :- آغا خانی ماہ رمضان کے فرض روزے نہیں رکھتے برصغیر ہندو پاک میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ اووجایا کھوجا: تقیہ کے تحت ان کا کہنا ہے کہ وہ روزے رکھتے ہیں لیکن ان کے یہاں تاویل کے اعتبار سے روزہ کا مطلب اپنے مسلک کے اصولوں کو مخفی رکھنا ہے اوریہ روزے سال کے ۳۶۵ دنوں پر محیط ہیں ۔
(۷) زکوٰۃ :- زکوٰۃ کی بجائے قومی روحانی عبادتوں کی شکل میں مختلف قسم کی ادائیگیاں ہیں ۔ اس سلسلہ میں ایک تفصیلی کتابچہ آپ کے ہاتھوں میں پہنچ جائے گا ۔ لیکن چند چیزین بطور مثال بیان کی جاتی ہیں ۔
اس وقت تک نجات نہیں ہو سکتی جب تک اپنی کل آمدنی کا دسواں حصہ یعنی (سوند )ادا نہ کیا جائے رویت ہلال پر اس رقم کو متعلقہ جماعت خانہ کے سربراہ کے پاس جمع کرنا لازمی ہے ۔
اس طرح آغا خاں جب پاکستان آتے ہیں ۔ کروڑوں روپیہ مندرجہ بالا روحانی عبادات کی شکل میں کما لیتے ہیں ۔ اس کی تفصیل علیحد ہ شائع کی جارہی ہے۔اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح جو روپیہ سوسال سے جمع ہو رہا ہے وہ آخر کہاں جاتا ہے؟
(۷) حج :- نہ تو آغا خان خود حج کرتے ہیں اور نہ ان کے مرید کیونکہ ان کے اعتقادات کے اعتبار سے آغا خان اللہ بھی ہے اور قبلہ بھی ا س کا دیدار یعنی امام کا درشن حج کے برابر ہے ۔
جماعت خانہ :
آغا خانیوں کی واحد عبادت گاہیں یعنی جماعت خانے کبھی بھی قبلہ رخ ہیں بنائے جاتے اور نہ کبھی ان میں نماز (صلاۃ) ادا کی جاتی ہے او ر نہ ان میں اذان کی آواز آتی ہے ۔ دراصل یہ اس باطنی مسلک کی عبادت کے ٹھکانے ہوتے ہیں لیکن ایک چیز اہم ہے وہ یہ کہ یہ جماعت خانے مریدوں کے لئے ترتیب اور خفیہ سازشوں کے اڈے ہیں ورنہ شمالی علاقہ جات میں آبادی سے غیر متناسب جماعت خانے کیوں بنائے جارہے ہیں ۔
ہر جماعت خانہ میں رضا کاروں کی شکل میں فوجی طاقت موجود رہتی ہے جن میں مرد بھی ہیں اورخواتین بھی ان میں اسکاؤٹ بھی ہیں گرل گائڈ بھی نو عمر فوجی بھی ۔ مختصراً ہر جماعت خانہ میں ضرورت پڑنے پر فوجی طاقت موجود رہتی ہے۔
گرامی قدر ! ہم نے آغا خانیوں کی ابتداء ان کا منفی کردار اور ان کے سابق وجدید عزائم کی نشان دہی کردی ہے اورساتھ ان کے باطل عقائدبھی واضح کردیئے ہیں یہ سب کچھ جو مندرجہ بالا سطور میں بیان کیا گیا ہے مستند کتابوں سے لیا گیا ہے جبکہ اس کا بیشتر حصہ خود اسماعیلیوں کی شائع کردہ تصنیفات سے مستعار ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
اہم سوالات
ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا کوائف کے مطالعہ کے بعد ایک صحیح الفکر اور محب وطن پاکستانی کے ذہن میں جو سوال ابھرتے ہیں وہ یہ ہیں :-
(۱) کیا آغا خان اور ا س کے مرید مسلمان ہیں ؟
(۲) ہمارے عزت مآب صدر محترم ان کے استقبال کیلئے کیوں جاتے ہیں ؟
(۳) آغاخاں کو شاہانہ انداز پرکیوں خوش آمدید کہا جاتا ہے جبکہ ان کا تعلق کسی شاہی خاندان سے نہیں ؟
(۴) کیا یہ صحیح ہے کہ آغا خان کے ذریعہ بھاری اسلحہ و فوجی سازو سامان ایران پہنچ رہا ہے جو عربوں کے خلاف عمومی طور پر اور عراق کے خلاف خصوصی طور پر استعمال ہو رہا ہے ۔
(۵) آغا خان بار بار مشرقی یورپ کے اشتراکی ممالک کے کیوں چکر لگاتے ہیں ؟ کیا اسلحہ حاصل کرنے کیلئے؟ان ممالک میں نہ تو ان کے مرید ہیں اورر نہ سیر گاہیں اگر اسلحہ کے حصول کیلئے نہیں تو غرض کیا ہے؟ اسلحہ کس کے لئے ؟ ایران کے لئے ؟ اور شمالی علاقہ جات میں اپنے مریدوں میں تقسیم کیلئے ؟
(۶) شہزادہ صدالدین کو اقوام متحدہ کا جنرل سیکٹری نامزد کیاگیا ۔ پاکستان نے اس کی نامزدگی کی کیوں حمایت کی ؟
(۷) کیا علامہ احسان الہیٰ ظہیر کو اس لئے قتل کی گیا کہ مرحوم نے ایک کتاب ’’ الاسمٰعیلیہ ‘‘ لکھی تھی؟
آخری سوال

آغا خان کا شمالی علاقوں میں دیہاتی تعاون پروگرام اس نوعیت کا ہے کہ اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ا س پروگرام سے مجموعی طور پر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ آغا خاں کو ان علاقوں پر مکمل اقتدار حاصل ہے اس صورت میں ایک اہم ترین سوال جو ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی اور ایسی حکومت ہے جس نے اپنی حاکمیت اعلیٰ کو اس طرح ادارے یا فرد یا جماعت کو منتقل کر دیا ہو؟ یہ ایسا سوال ہے جس کو پوچھنے کا ہر محب وطن حق رکھتا ہے او یہ بھی اس کا حق ہے کہ اس کا جواب دیا جائے ۔
گرامی قدر ! یہ واضح رہے کہ مغل حکمرانوں نے انگریزوں کو صرف تجارتی حقوق دئیے تھے اور نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ کے بعد حکومت سے ہی ہاتھ نہ دھونا پڑا بلکہ مسلمانان ہند غلامی کی زنجیروں میں کس دئیے گئے اورا ن حکمرانوں کی اولاد ’’ دو گز زمین‘‘ کو ترستی ہوئی مرگئی۔
ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہئیے کہ وہ ہمیں ہر قسم کی آفات ارضی و سماوی سے محفوظ رکھے اور دشمنوں کی ہرقسم کی سازشوں سے بچائے ۔ آمین ۔
فیض اللہ چترالی
۱۸ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۸ھ
بحوالہ ہمارے بھی ہیں مہربان کیسے کیسے
باسمہٖ تعالیٰ

’’ اور کہہ دیجئے کہ حق آیا اور باطل گیا گزر ہوا‘‘
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
آغا خانیوں
میں بیداری کے آثار

(ایک حقیقت پسند اسماعیلی (اکبر علی مہر علی کینیڈا) کے اسماعیلی اداروں کے نام خطوط کا اردوترجمہ)


ناشر

سوادِاعظم اہلِ سنت چترال پاکستان
ملنے کا پتہ :- مکتبہ اہل سنت دارالعُلوم تعلیم القرآن ، سول کوارٹر پشاور صدر
(ترجمہ) جنوری ۱۹۸۶ء

بہ نام ________عزت مآب عہدہ داران انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز ، لندن
اسماعیلیہ ایسوایشن برائے انڈیا ممبئی
ایضاً پاکستان کراچی
ایضاً یورپ پیرس
ایضاً کینیڈا وینکودر
ایضاً امریکہ نیویارک
ایضاً کینیا نیروبی
ایضاً تنزانیہ دارالسلام
ایضاً برطانیہ لندن
موضوع ، ہماری مقدس دعا (عبادات)

محترم/ محترمہ

ہم لوگوں کو جو نہ صرف پیدائشی اسماعیلی ہیں بلکہ اسماعیلیت سے ہمہ تن وابستگی رکھتے ہیں عربی زبان میں اپنی دعا کو یا اس کے چند جملوں کو صحیح سیاق و سبق سمجھنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں ۔

ہمارا یقین ہے کہ دعا ہماری روحانی ترقی کی اساس ہے ہم کو فرمانوں کے ذریعے بار بار یہی تعلیم دی گئی ہے کہ ہمارا بیت الخیال بندگی یعنی مراقبہ قطعی بے سود ہے جب تک کہ ہم دن میں تین مرتبہ پابندی کے ساتھ عربی زبان کی دعا کو اسکے ہر ہر لفظ کے معانی سجھ کر نہ پڑھیں لیکن ہماری روزانہ کی عبادات میں اس وقت تک خشوع و خضوع پیدا نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم عربی زبان میں عباد ات میں جو کچھ کہتے ہیں یا عہدو پیمان کرتے ہیں اس کے متعلق دلائل و براہین سے مطمئن نہ ہوجائیں ۔ لہذا اس کوشش کا مدعا اس چیز کو جو ہم روزانہ پڑھتے ہیں صحیح طور پر سمجھنا ہے۔
ہمیں امید ہے کہ آپ ہماری اس کوشش کا مقصد سمجھتی ہوئے ہمارے اخلاص کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے یہ بالکل واضح، بے لاگ اور پُر خلوص کوشش ہے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو ہونا چاہئیے اس صورت میں ہم یہ سمجھنے میں حق بحانب ہیں کہ آپ بھی اسی خلوص کے ساتھ ہماری مشکلات کو درو کرنے کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوں گے۔
ہم پوری سنجیدگی سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے مندرجہ ذیل پانچ سوالات کے جوابات دئیے جائیں آب کے سیدھے اور سچے جوابات اور وضاحتیں خواہ فرد کی حیثیت سے ہوں یا ادارہ کی طرف سے ہوں یا مجموعی طورپرہوں انتہائی قدرو منزلت کی نگاہوں سے دیکھی جائیں گی ۔ عربی زبان میں ہماری مندرجہ ذیل دعا اور اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ دعا کی اس کتاب کے عین مطابق ہے یعنی حرف بہ حرف لفظ بہ لفظ بالکل وہی ہے جو اسماعیلہ ایسوایشن برائے کراچی پاکستان نے ۲۱ مارچ ۱۹۷۰ء کو شائع کی اور دوسری بار ۱۵ فروری ۱۹۷۶ء کو شائع ہوئی۔
سوال نمبر ۱ : ہم دعا کے پہلے حصہ کو پڑھتے ہیں :
۱لف- (ا) ایاک نعبد وایاک نستعین ترجمہ صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ____دعا کے تیسرے حصہ میں ہم پڑھتے ہیں ۔
(ب) توسّلو عندالمصائب ، یہ مولا کامل حاضر الموجود شاہ کریم الحسینی
ترجمہ :- مصائب کے وقت اپنے خدا (یعنی) موجودہ زندہ (امام) شاہ کریم الحسینی سے مدد طلب کرو _____اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لفظ ایاک جس کے معنی ہیں صرف تیری ہی کی یہ نسبت اس قدیمی اسماعیلی کے لئے تو صحیح ہو سکتی ہے جو صرف تیری سے مراد شاہ کریم کو (نعوذ باللہ) اللہ سمجھتے ہوئے کہتا ہے لیکن بیشتر اسماعیلیوں کے لئے جو اللہ کو ایک علیحدہ ذات سمجھتے ہیں لفظ ایاک کے ان معانی میں تضاد نظر آتا ہے۔
لہذا یہ وضاحت کی جائے کہ دعا کے ان ٹکڑوں میں کس طرح تطبیق قائم کی جائے جبکہ ایک شخص نے صرف پہلا حصہ پڑھا ہے اور وہ حاضر امام کو اللہ نہیں سمجھتا نیز اگر وہ قدیم اسماعیلی ہے تو دعا کے پہلے حصہ میں جس میں اللہ سے دعا کی جاتی ہے کہ علیؓ اور شا کریم الحسینی پر رحمت ہو کس طرح تطبیق ہو سکے گی۔
سوال نمبر ۲ :- دعا کے دوسرے حصہ میں ہم دوبارہ پڑھتے ہیں ۔
۱۔ اللہم یا مولا نامنک مددی و علیک متعمدی ایک نعبد وایک نستعین
ترجمہ :- اے اللہ! او! ہمارے رب تو ہی میرا حامی ہے اور تجھ پر ہی میرا اعتماد ہے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورصرف تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں ۔
دعا کے پانچویں حصہ میں ہم پڑھتے ہیں ۔
۲۔ یا اما م الزماں یا مولانا ان قوتی وانت سعدی و علیک توکلی
ترجمہ : اے امام وقت اے ہمارے رب تو ہی میری طاقت ہے اور تو ہی میرا حامی و ناصر ہے۔
غورکیا جائے کہ (۱) میں رب کے انگریزی لفظ Lordکا Lاور تو اور تیرے انگریزی الفاظ The اور They کا T انگریزی رسم الخط کے اعتبار سے بڑے حروف میں لکھا گیا ہے جبکہ
۲۔ میں انہی الفاظ کی ایل اور ٹی کو چھوٹے میں لکھا گیا ہے (یہ انگریزی رسم الخط سے متعلق ہے اور اس طرح بڑے حروف سے الفاظ کی ابتداء اللہ کے لئے کی جاتی ہے) اگر اللہ اور امام ایک ذات ہیں تو مہربانی فرماکر انہی الفاظ کو ایک جگہ بڑے حروف سے اور دوسری جگہ چھوٹے حروف سے لکھنے میں کیوں تمیز کیا گیا ہے اس کی وضاحت کی جائے اور اگر یہ دونوں علیحدہ ذاتیں ہیں تو مہربانی فرما کر وضاحت کریں کہ (۲) اور (۱) میں لفظ صرف (alone) لکھنا کس حد تک صداقت پر مبنی ہے۔
کیا اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرنا شرک نہیں جو اسلام میں ناقابل معافی گناہ ہے ؟ اس کیلئے آپ کا مدلل جواب کیا ہے؟
سوال ۳ :- دعا کے دوسرے حصہ میں ہم کہتے ہیں کہ وکل شئ واحصینہ فی امام مبین اسماعیل ترجمہ :- اور ہم نے امام حاضر کو ہرچیز کا (علم اور اختیار ) دولیت کر دیا ہے ۔
ترجمہ:-
بزبان انگریزی محمد مارماڈیوک پکھتل ان سب تراجم میں اس آیت
ترجمہ:- بزبان انگریزی این جے داؤد۔ کا ترجمہ بہ تغیرالفاظ یہ ہے۔
ترجمہ:- بہ زبان انگریزی اے جے آر بیری ہم نے ہرچیز کو ایک واضح
ترجمہ:- بہ زبان گجراتی اے، ایس رحمانی کتاب میں ضبط کردیا تھا۔
(شیعی اثنا ء عشری)
ان تمام ترجموں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتلایا جائے کہ ہمارے مندرجہ بالا ترجمہ میں اختیار (axthority) کے لفظ کا جواز کیا ہے ؟ کیا آپ کسی بھی شیعی یہ سنی مسلمان کا اس آیت کا ایسا ترجمہ پیش کر سکتے ہیں جس میں لفظ اختیار (axthority) کو قوسین میں یا بلا قوسین استعمال کیا گیا ہو؟
سوال نمبر ۴
:- دعا کے دوسرے حصہ میں ہم کہتے ہیں : ۔
علی امیر المومنین علی اﷲ ترجمہ: ’’علی امیر المومنین اللہ سے ہے‘‘
انگریزی حرف جار from کے لئے عربی لفظ من ہے علی اللہ میں نہ من ہے اور نہ من کا کوئی متبادل لفظ لہذا آپ اتفاق کریں گے کہ علی اللہ کا انگریزی ترجمہ (form Allah)کسی طرح بھی درست نہ ہوگا۔
آپ کے علم میں ہوگا سلکان محمد شاہ کے زمانہ امامت میں پروفیسر جواد مسقطی مرحو م ہماری عربی زبان میں دعا کے ترجمہ میں پیش پیش رہے تھے واضح رہے کہ پروفیسر موصوف عربی زبان کے مستند عالم تھے ہمارے داعیوں کے استاد رہے ہیں اور مسقط اور مسقط سے باہر اثنا عشری مذہب اس کی تعلیمات سے اچھی واقفیت رکھتے تھے۔ نیز یہ بھی آپ کے علم میں ہوگا کہ پروفیسر موصوف سے ان کے انتقال سے قبل ہمارے حاضر امام نے علی اللہ کے ٹکڑے کی وضاحت کے لئے کہا تھا کیونکہ یہ ٹکڑا ہمارے کلمہ کا بنیادی حصہ ہے جس کا تعلق ایمان کی شہاد ت سے ہے۔
مندرجہ بالا حقائق کے روشنی میں کیا آپ علی اللہ کے لفظ بہ لفظ ترجمہ کی وضاحت کریں گے؟
سوال نمبر ۵ :-
حال ہی میں ہمارے بہت سے اسماعیلی جن کا تعلق کینیڈا سے ہے آغا خان یونیورسٹی کراچی کی افتتاحی تقریب میں پاکستان آئے۔ ان میں کچھ نے ہنزا کی بھی سیر کی ۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ ہنزا ، چترال اور بدخشان میں ہمارے اسماعیلی بھائیوں کو دعائیں اور دعا سے بعد کی تسبیح سے مختلف ہے ۔ ہمیں یہ معلوم ہو کر خوشی ہوئی کہ ہمارے بدخشانی بھائی بیت الخیال گندگی میں ہم سے بہت آگے ہیں انہوں نے روجانی زندگی میں بہت ترقی کی ہے اور بہت زیادہ روشن خیال ہیں ۔
گزشتہ کئی سال سے ہمارے یہ بدخشانی اسماعیلی اپنی تسبیح مندرجہ ذیل طریقہ سے کہتے ہیں اور یہ بات حاضر امام کے علم میں ہے چند سال ہوئے یہ بات حاضر امام کے علم میں لائی گئی تھی لیکن حاضر امام نے خوجہ لیڈروں کی ا س تجویز سے اتفاق نہیں کیا کہ بدخشانی اسماعیلیوں کی تسبیح کو تبدیل کیا جائے۔
۵ ۔ (الف) بدخشانی اسماعیلی کہتے ہیں : یا محمد ۔ یا علی
ہم خوجہ اسماعیلی کہتے ہیں : یا علی ۔ یا محمد (دلیل یہ ہے کہ علیؓ محمدﷺ سے ہیں اوران کے بعد آئے ،
۵۔ (ب) بدخشانی اسماعیلی مانگتے ہیں : صرف ’’ مشکل آسان‘‘
ہم خوجہ اسماعیلی مانگتے ہیں : جو کچھ بھی ہم سوچ سکیں ۔
۵۔ (س) بدخشانی اسماعیلی اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مانگتے ہیں ۔
ہم خوجہ اسماعیلی مولانا حاضر امام کی عبادت کر تے ہیں اورا سی سے مانگتے ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ روزانہ کی عبادت میں ہم آہنگی کے حق میں ہیں ؟
اور اگر آپ ہم آہنگی کے حق میں ہیں تو پہلا قدم کن کو اٹھا کر دوسروں سے مل جانا چاہے؟
محترم/ محترمہ
صرف وہی دعائیں اللہ تبارک و تعالیٰ تک پہنچتی ہیں جو خلو ص نیت اور صمیم قلب سے کی جاتی ہیں ۔ دعا کے الفاظ چاہے عربی میں ہوں یا کسی دوسری زبان میں جب کہ دل و دماغ میں یکسوئی نہ ہو صرف زبان سے ادائیگی کی حدتک ہی رہتے ہیں ۔ اس قسم کی دعائیں صرف عبادت گاہوں تک محدود رہتی ہیں ۔
سخن کز بہر دین گوئی چہ عبرانی چہ سریانی
مکان کز بہر حق جوئی چہ جابلقا چہ جا بلسسا
حکیم سنائیؒ
ہم سنجیدگی سے امید کرتے ہیں کہ آپ ان سوالات کے جوابات اور وضاحتیں قابل قبول ولائل سے دیں گی کیونکہ ان سے جملہ اسماعیلیوں کا مفاد وابستہ ہے۔ ہمارے دین کی اساس عقل پر ہے ۔ یہ ست پنھ (دین جس کی بنیاد سچ پر ہو) ہے اگر آپ کو ان پانچوں سوالات میں سے کسی ایک میں بھی حقیقت نظر آئے تو اس کا ہی جواب پیش کرکے ممنون کریں ۔ آپ کی مکمل خاموشی ، انفرادی ہویا اجتماعی چاہے اس کا سبب کچھ بھی ہو اس خیال کو تقویت بخشے گا کہ ہماری دعاؤں اور تسبیحات میں واقعی تضاد اور تناقص ہے۔
آپ کو ۱۹۸۶ء کا سال مبارک ہو۔
آپ کا تابعدار
Adress. Akber Ali Mehar Ali
P.O Box 82584 Buranaby B.C. VSC 521
CANADA
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
جون ۱۹۸۶ء
ترجمہ
بہ نام
عزت مآب عہدہ داران انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹیڈیز لندن
اسماعلیلیہ ایسوایشن برائے انڈیا ممبئی
ایضاً پاکستان کراچی
ایضاً یورپ پیرس
ایضاً کینیڈا وینکوور
ایضاً امریکہ نیویارک
ایضاً کینیا نیروبی
ایضاً تنزانیہ دارالسلام
ایضاً برطانیہ لندن

موضوع : ہماری مذہبی روایات
محترم /محترمہ
جنوری۱۹۸۶ء ہم لوگوں نے جو پیدائشی اسماعیلی ہیں آپ کو ایک خط لکھا تھا جس میں سنجیدگی سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ ہماری مقدس دعا سے متعلق ہمارے پانچ سوالات کے جوابات دیئے جائیں ۔ اب تک ہمیں نہ انفرادئی طور پر اورنہ کسی ادارہ کی طرف سے کوئی جواب موصول ہے۔
مذہبی روایات کو صحیح تناظر میں خود سمجھنا اور خود سمجھ کر ان کو اپنی اولاد در اولاد تک پہنچانا ایک مقدس فریضہ ہے ہماری خواہش یہی ہے کہ ہم حق اور صرف حق کو اپنی اولاد تک پہنچائیں لیکن ہم شدید تذبذب میں گرفتار ہیں کہ کس طرح اس خواہش کو پورا کریں ۔لہذا ہم سنجیدگی سے گزارش کرتے ہیں کہ ہمارے مندرجہ ذیل پانچ سوالات متعلقہ مذہبی روایا ت و عقائد کے جوابات سے ممنون فرمایا جائے۔
یہ سولات بنیادی نوعیت کے ہیں اورایک دوسرے سے منطقی طور پر وابستہ ہیں ۔ اس مذہب میں جو مذہب حق ہونے کا مدعی ہو کوئی بات بھی اسی نہ ہوئی چاہیئے جو حقیقت پر مبنی نہ ہو۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کے جوابات مدلل ہوں گے اور مبنی بہ حقائق ہوں گے ۔ حسب سابق آپ کی خاموشی زیادہ شکوک و شبہات پیدا کرے گی اور ہمیں اپنی اولاد کے سامنے افسوس کے ساتھ یہ اقرار کرنا ہوگا کہ ہمیں حقیقت معلوم کرنے میں ناکامی ہوئی ہے ہم یہ پھر باور کراناچاہتے ہیں کہ یہ تذبذب انفرادی نہیں ہے اور نہ چند افراد کا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو ہر اسماعیلی باپ اس تذبذب کا شکار ہے اس تذبذب کی بنیاد مندرجہ ذیل فرمان پر ہے۔
فرمان مبارک : بہ زبان گجراتی
ترجمہ :- ’’جس طرح تم اپنے بچوں کو دنیوی تجارت سکھلاتے ہواسی طرح دینی تجارت سکھلاؤ۔‘‘
سلطان محمد شاہ (۱۴ ستمبر ۱۸۹۹۔ زبجیبار)
سوال نمبر ۱ کی تمہید
ہماری مقدس کتابیں
(۱) قرآن پاک کلام الہیٰ
(۲) گنان پیروں اور دیگرافراد کی مذہبی نظمیں
قرآن پاک کے متعلق ہمارے عقائد یہ ہیں ۔
(۱) قرآن پاک، صامت قران ہے
(ب) حاضر امام ، قرآن ناطق ہے
(س) مروجہ قرآن پاک جس میں ۱۱۴ سورتیں ہیں او تیس پارے ہیں نامکمل ہے
(د) اصلی قرآن میں چالیس پارے تھے ۔ باقی دس پارے علیؓ کے گھرانے میں ہیں ۔
مندرجہ ذیل یہی ملاحظہ کیا جائے
(۱) اڑتالیسویں امام سلطان محمد شاہ کا فرمان (گجراتی)
ترجمہ:- ’’ خلیفہ عثمان نے قرآن پاک کے کچھ حصے حذف کردیئے اور کچھ اس میں شامل کردئیے۔ اگر میں اصلی قرآن کی نقل کروں تو مجھے چھ سال لگیں گے ۔ میں وہ بھی تم کو بھیج دوں گا تب تم کو معلوم ہوگا کہ کیا خذف کیا گیا ہے اور کیا شامل کیا گیا ہے‘‘۔ (بہار رحمت صفحہ ۲۶۔۳۰ جولائی ۱۸۹۹ء ربجیبار)
(۲) قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
’’ ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں ‘‘۔ (۱۵/۹)
سوال نمبر۱:-
مندرجہ بالا دونوں بیانات قرآن پاک کی صحت کے متعلق ہیں اوردونوں متضاد ہیں یہ دونوں وعدے علیحدہ علیحدہ ہستیوں نے کئے ہیں ۔ ہم اپنی اولاد سے کیا کہیں کہ ان میں سے کس وعدہ پر اعتبار کریں ؟ اول پر یا دوم پر؟ جواب دیا جائے۔
اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ پہلا وعدہ سچا ہے تو مہربانی فرما کر اس اصلی قرآں کا ایک نسخہ پیش کیا جائے جس کا وعدہ قرآن ناطق (حاضر امام) نے کیا ہے۔
آکر آپ کا جواب یہ ہے کہ دوسرا وعدہ سچا ہے تو ہم کو اپنی اولاد پر یہ واضح کر دینا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ حتمی (خارج عن الخطائ) ہیں اور قرآن پاک صف ایک ہے یعنی مروجہ قرآن پاک جس میں ارشاد ہے : ۔
اور (ان میں سے)جو لوگ کتاب کے پابند ہیں ۔ اور نماز کی پابندی کرتے ہں ہم ایسے لوگون کا جو اپنی اصلاح کریں ۔ ثواب ضائع نہ کریں گے۔‘‘ (۷/۱۷)

دوسرے سوال کی تمہید

’’ مغفرت‘‘
ہم اپنی اسماعلیلی روایات کے مطابق اپنے گناہوں کی مغفرت کیلئے اپنے حاضر امام سے رجوع کرتے کرتے ہیں مندرجہ ذیل عبارات ملاحظہ کیجئے۔
۱۔
اوراللہ کے سوا اور ہے کون جو گناہوں کو بخشتا ہو۔‘‘ (قرآن پاک ۳/۱۳۵)
۲۔ اڑتالیسویں امام سلطان محمد شاہ کافرمان (گجراتی)
ترجمہ:- تم نے اب تک جو گناہ کئے ہیں وہ سب کے سب معاف کرتا ہوں آج کے بعد گناہ نہ کرنا۔ (بہار رحمت ص ۷۹ ۲۲ ستمبر ۱۸۹۹ء بگامویہ، افریقہ)
سوال نمبر۲:- ان عبارتوں کی روشنی میں ہم اپنی اولاد کو کیا سکھائیں ۔
(۱) حاضر امام اللہ ہے وہی آسمانوں اور زمیں کا خالق ہے اور حاضر امام کے علاوہ کوئی اللہ نہیں ہے ان کو ہمیشہ مغفرت کے لئے صرف یا علی بابا کی طرف رجوع کرنا چاہئیے۔ یا
(ب) قرآن پاک کی عبارت کیمطابق حاضر امام اللہ نہیں ہے اور وہ گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا ۔ جواب دیا جائے۔
ہمارے پہلے امام حضرت علیؓ تو فرماتے ہیں ۔
’’ اے میر ے رب! تو خالق ہے اورمیں مخلوق ۔ تو قادر ہے اور میں تیرا بندہ، میں دعا کرنے والا ہوں تو میرا حاکم اعلیٰ ہے اورمیری پناہ ہے تو غفور رہے اور میں گناہ گار۔ (نہجہ البلاغہ ص ۸۹)
تیسرے سوال کی تمہید

(۱) اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ماہ رمضان میں روزے رکھے جائیں جبکہ ہم اسماعیلیوں کے یہاں اللہ کے اس حکم کے خلاف ہے کہ صحیح روزہ تو ہمارے ’’ نفس‘‘ کا ہے لہذا اسماعیلی ما ہ رمضان کے ۳۰ روزوں کے بجائے ۳۶۵ دن نفس کا روزہ رکھتے ہیں ہم بڑے فخر کے ساتھ یہ فرمان پیش کرتے ہیں کہ ایک گدھا بھی روزہ رکھ سکتا ہے اگر اس کا منہ باندھ دیا جائے۔
(۲) مندرجہ بالا اصولوں کے برخلاف ہم سال میں ۱۲ نصف دن کے روزے رکھتے ہیں جن کو ستی مالو روزو ، یا روزہ مندلی نو روزو ۔ کہا جاتا ہے اور تین یا چار روزے پورے دن کے رکھتے ہیں جن کو سکرواری بیج کہا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ہم ان روزوں کو بڑے جشن اور اہتمام سے رکھتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ متفق ہوں گے یہ کھلی منافقت ہے۔
سوال نمبر ۳ :- ان جسمانی روزوں کو (جنہیں اسماعیلی اصطلاح میں گدھوں کا روزہ کہا گیا ہے) کس نے شروع کیا؟

یہ بات ہم کس طرح اپنی اولاد کو سمجھائیں ؟ آخر ان کو رمضان المبارک کے روزوں سے جو حکم الہٰی کے مطابق ہیں کس وجہ سے عنا ہوا؟ اس کے علاوہ سکروادی بیج کے روزے جو ہمارے ہندو اسلاف کے رواد کے مطابق ہیں رکھ کر کیوں جشن منائیں ؟ یہ تو وہی بات ہوئی جیسا کہ قرآن پاک میں ارشادہے : ۔
’’ اور جب فقط اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگون کے دل منقبض ہوتے ہیں جو کہ آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکرآتا ہے تو اس وقت وہ لوگ خوش ہو جاتے ہیں ‘‘۔ (۳۹/۴۵)

چوتھے سوال کی تمہید
’’ اسماعیلی قومی ترانہ‘‘
(۱) ہمارا اسماعیلی قومی ترانہ جو کہ اکثر ہمارے اماموں کی موجودگی میں پیش کیا جاتا ہے ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔
’’ نورسول اللہ سے بنے ہوآغا خاں ‘‘
(۲) قران پاک میں ارشاد ہے
’’ (اور) آپ (یوں بھی) کہہ دیجئے کہ میں تو تم ہی جیسا بشر ہوں ‘‘ ۔
(۱۸-۱۱)
سوال نمبر ۴:-

مندرجہ بالا کی روشنی میں کیا یہ صحیح ہوگا کہ ہم اپنی اولاد سے کہیں محمدﷺ اللہ کے رسول تھے اور دوسرے کسی بھی رسول کی طرح اللہ کے بندے تھے۔ حاضرامام ایک اللہ کے (رسول) بندے سے نکلے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں یا علی بابا کو ایک نبی کے نمائندے کی حیثیت دی گئی ہے مگرانبیاء جو دنیا میں آئے ہیں وہ یا علی بابا کے بھیجے ہوئے نہ تھے۔
کیا آپ کو اس سے اقرار ہے یا انکار؟ جواب دیا دجائے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے : ۔
’’ اور نہ یہ بات بتلادیگا کہ تم فرشتوں کو اور نبیوں کو رب قرار دے لو۔ کیا وہ تم کو کفر کی بات بتلادے گا ؟ بعد اس کے کہ تم مسلمان ہو۔‘‘

سوال نمبر ۵ کی تمہید
’’ عترت رسول‘‘
ہمارے یہاں یہ ایک روایت چلی آتی ہے اوراسی وجہ سے ہمارے ہندو اسلاف خوجہ برادری میں شامل ہوئے وہ یہ ہے کہ ہم اسماعیلی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ روئے زمین پرہر زمانے میں ایک ایسا شخص موجود رہتا ہے جو نسلاً بعد نسل بلافصل زمانہ قدیم سے اسی طرح چلا آتا ہے جس کے آگے ہمیں جسمانی مالی اورفکر ی اعتبار سے سر تسلیم خم کردینا چاہئیے ہمیں اور ہماری اولاد در اولاد کو اس مظہر قدرت کو قیامت تک اس حیثیت سے تسلیم کرنا چاہئیے۔
سوال نمبر۵:-

کیا مندرجہ بالا اسماعیلی روایت یا اعتقاد ابتدائے آفرینش سے تاریخی حقیقت پر مبنی تھا جس بنیاد پر ہمارے اسلاف نے اسے قبول کیا؟
(۱) اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو ہمیں اپنی اولاد سے کہنا چاہئیے کہ وہ حاضر امام کی اس حقیقت پرایمان رکھیں کہ وہ نسبی اعتبار سے دشنودیوتا کے اوتار کرشن کی اولاد میں سے ہیں ۔کیونکہ شیو، وشنو، مہیش، گینش اور دیگر ان سب کے سب خدا (دوسرے درجہ کے دیوتا ہاوردیویاں تھے) جن کو برہما (خالق کائنات ) نے پیدا کیا تھا اسی طرح ہمارا یا علی بابا بھی دوسرے درجہ کا دیوتا ہے جس کو بڑے خدا نے پیدا کیا۔
(۲) اگر آپ کا جواب نفی میں ہے یعنی ارتائے افرینش سے براہ راست اولاد ہونا تاریخی حقیقت نہیں بلکہ مغالطہ ہے تب ہم کو اپنی اولاد کو بتلانا ہوگا کہ اس خوجہ روایت پر بالکل یقین نہ کریں ہمارے اسلاف کو غلط باتیں بتلائیں گئیں کیونکہ وہ تعلیم یافتہ نہ تھے ۔ہمارے بچوں اوران کے بچون کو ان خرافات پربالکل یقین نہ کرنا چاہئیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’ زمین (میں یا) آسمان میں اگر اللہ تعالیٰ کے سوا اور معبود (واجب الوجود) ہوتا تو دونوں درہم برہم ہو جاتے۔‘‘ (۲۱/۲۲)
محترم /محترمہ
ہمارے حاضر امام نے بار بار فرمایا ہے کہ اگر جماعت کے کسی فرد کے دل میں کچھ سوالات ہوں تو اس کو چاہئیے کہ وہ ان کو دبا کر نہ رکھے بلکہ ان کو پیش کرے اور ان سے جواب حاصل کرے ۔ کسی بھی اسماعیلی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حاضر امام (زندہ امام) کی موجودگی میں اپنے دل میں شکوک و شبہات رکھے ۔ اور نہ اس کو زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی اولاد یا دیکراسماعیلیوں کو سوالات دریافت کرنے سے باز رکھے۔ ایک اسماعیلی کا اپنے سوالات کو دبا کر رکھنا اور اسی طرح مرجانا زندہ امام کے مقصد کو فوت کرنا ہے۔
ایک پوری نسل باشعور ہو کر سامنے آئی ہے لہذا ہمیں اخفاء اور راز داری کی دیرینہ راویت کو ترک کرکے کھلے دل سے سامنے آنا چاہئیے ۔ سوالات ضرورو ہونے چاہیں اور اسی طرح جوابات بھی ضرور دینے چاہیں لیکن یہ سب کچھ بامقصد ہو نا چاہئیے۔
یہ سوالات اس خیال سے بھی جائز ہیں کہ جماعت کی طرف سے ان کے جوابات میں اختلاف ہوگا۔ اسماعیلیوں کا ایک گروہ اس کو موافقت کرے گا جبکہ دوسرا گروہ شدت سے مخالفت کرے گا۔ حتی کہ ایک گھر میں میاں بیوی میں دوراہیں ہو سکتی ہیں ایک کہے گا کہ ’’ وہ ہے‘‘ جبکہ دوسرا کہے گا ’’ وہ نہیں ہے‘‘ دونوں گروہ حق پر نہیں ہو سکتے ۔ ان دونوں میں یقینا ایک گروہ غلطی پر مرے گا اوراس سے برابر گنا سرزد ہوتے رہیں گے ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ گروہ کونسا ہوگا اور کیوں ؟ آپ کو اس گروہ سے متعلق شکوک ہوں گے لیکن آپ کو یہ تو صحیح طورپر معلوم ہوگا کہ اس کجروی کا ذمہ دار کون ہوگا اور کیوں ؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے:-
یادرکھو عبادت جوکہ (شرک سے) خالص ہو اللہ ہی کیلئے سزا وار ہے اور جن لوگوں نے خدا کے سوا اور شرکاء تجویز کررکھے ہیں (اور کہتے ہیں ) کہ ہم تو ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ہم کو خدا کا مقرب بنادیں تو ان کے (او ران کے مقابل اہل ایمان کے) باہمی اختلافات کا (قیامت کے روز) اللہ تعالیٰ فیصلہ کردیگا۔‘‘
کیا ہمیں اس ذات کا شکر گزار نہیں ہوناچاہئیے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ۔ ازراہ کرم اپنی خاموشی توڑئیے اور اس سے پہلے کہ موت آئے حقیقت سے پردہ اٹھائیے اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ہدایت دے اور اللہ کے علاوہ دیگر محافظین سے عافیت میں رکھے۔
آپ کا مخلص
Adress Akber Ali Mehar Ali
P.O Box 82584
Buranaby B.C V 5 C 521
CANADA

نوٹ :-
اسماعیلی جماعت کے بہت سے افراد قرآن مجید کی جگہ امام کے فرمان پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن پاک پرمبنی دلائل کافی نہیں ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ فرمان امام جاری کرتا ہے جبکہ امام کا اعلان نبی کریمﷺ نے کیا اورقرآن پاک کے ذریعے محمد ﷺ کو نبوت ملی۔ قرآن پاک کو نظر انداز کردیتے ہیں تو نبی ائمہ اور فرمان خود بخود نظر اندار ہو جائیں گے۔
مہربانی فرماکر کاپیاں بنا کر تقسیم کیجئے حسب سابق ایک نقل حاضر امام کو ایل مونٹ فرانس بھیجی جائے گی اوردوسری نقل چیئر میں انسٹیٹوٹ آف اسماعیلی اسٹڈیز لندن بھیجی جائے گی۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
مرزائیت
شروع ساتھ نام اللہ کے جو بڑا مہربان اور رحیم ہے
تمام تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو سارے جہانوں کا مالک ہے ۔ اور حق شناسوں کیلئے انعام خداوندی ہے ۔درود وسلام تمام و کمال سیدالمرسلین و خاتم النبیین پراور ان کی طیب و طاہرآل و اولاد پر اور صحابہ اور ان پر جنہوں نے ان کا راستہ اختیار کیا اور ان کے نقش قدم پر چلے قیامت کے دن تک۔
قادیانی مذہب (جو فرقہ احمدیہ کے نام سے مشہور ہے)ایک جدید فرقہ ہے۔ اس کی بنیاد ہندوستان میں اس دوران پڑی جب مسلمان اس برصغیر میں برٹش حکومت کے ہوّلے کو اپنے ملک سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ تب انگریزی حاکموں کو مسلمانوں کو تقسیم کرنے اور ان کے آتشیں جوش کو ٹھنڈا کرنے کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ یہ نظر آیا کہ غلام احمد قادیانی نامی ایک شخص کو جس کے پیدائش ایک مسلمان خاندان میں ہوئی تھی ۔ ایک ایسے مذہب کا اعلان کرنے کی طرف متوجہ کریں جو اجماع للمسلمین کے بالکل خلاف ہو ۔ جس کے ذریعہ اسلام کے اصولوں کا بطلان کیا جا سکے اور ان باتوں سے انکار کیا جائے جو اس کے علم میں اس مذہب کا ہی لازمی حصہ تھیں ۔
اس نے دعویٰ کیا کہ وحی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا تھا اور یہ کہ وہ خدا کی طرف سے جہاد کو موقوف کرنے کیلئے بھیجا گیا تھا اور انگریز حاکموں کے ساتھ جو اس کے بیاں کے مطابق ارض ہند پر خدا کی رحمت کے ظہور کے طور پر بھیجے گئے تھے صلح کرنے کے فرض کی دعوت دینے کے لئے مامو ر کیاگیا تھا۔
غلام احمد قایانی کون ہے؟
غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب استقتاء جو ۱۳۷۸ھ میں نصرت پریس ربوہ پاکستان میں طبع ہوئی کے صفحہ ۷۲ پر اپنا تعارف اس طرح کرایا ہے : میرا نام غلام احمد ابن مرزا غلام مرتضی ہے ۔اور مرزا غلام مرتضی مرزا عطا محمد کا بیٹا تھا ‘‘۔ اسی صفحہ پر وہ اپنے بارے میں کہتا ہے : اور میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ ہمارے آباؤ اجدا د مغلیہ نسل سے تھے۔ مگر خدا نے مجھ پر وحی بھیجی کہ وہ ایرانی قوم سے تھے ، نہ کہ ترکی قو م سے۔‘‘ اس کے بعد کہتا ہے ’’ میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ میرے اسلاف میں سے کچھ عورتیں بنی فاطمہ میں سے تھیں ۔ ‘‘ صفحہ ۷۶ پر وہ کہتا ہے ’’ اور میں نے اپنے والد سے سنا ہے اور ان کے سوانح میں پڑھا ہے کہ ہندوستان میں آنے سے پہلے وہ لوگ سمر قند میں رہا کرتے تھے۔‘‘
غلام احمد ۱۸۳۵ء یا ۱۸۳۹ء میں یا شاید ۱۸۴۰ء میں ہندوستان میں پنجاب کے موضع قادیان میں پیدا ہوا ۔ بچپن میں اس نے تھوڑی سی فارسی پڑھی اورکچھ صرف و نحو کا مطالعہ کیا ۔ اس نے تھوڑی بہت طب بھی پڑھی تھی ۔لیکن بیماریوں کی وجہ سے جو بچپن سے اس کے ساتھ لگی تھیں اورجن میں قادیانی اسنائیکلو پیڈیا کے مطابق مالیخولیا (جنون کی ایک قسم ) بھی شامل تھا ، وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکا۔
سیالکوٹ کو منتقلی​
وہ نوجوان ہی تھا کہ ایک دن اسے اس کے گھروالوں نے اپنے دادا کی پنشن وصول کرلانے کیلئے بھیجا، جو انگریزوں نے اس کی انجام کردہ خدمات کے صلے میں اس کے لئے منظورکی تھی۔ اس کام کیلئے جاتے ہوئے اس کا ایک دوست امام الدین بھی غلام احمد کے ساتھ ہو گیا۔ پنشن کا روپیہ وصول کرنے کے بعد غلام کو اس کے دوست امام الدین نے پھسلایا کہ قادیان سے باہر کچھ دیر موج اڑائی جائے ۔ غلام احمد اس کے جھانسے میں آگیا اور پنشن کے روپے تھوڑی ہی دیر میں اڑا دئیے گئے ۔ روپے ختم ہونے پر اس کے دوست امام الدین نے اپنی راہ لی۔ اور غلام کو گھروالوں کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے گھر سے بھاگنا پڑا۔ چنانچہ وہ سیالکوٹ چلاگیا جو اب مغربی پاکستان کے پنجاب کے علاقہ میں ایک شہر ہ سیالکوٹ میں اسے کام کرناپڑا تو وہ ایک کچہری کے باہر بیٹھ کر عوامی محرر (نقل نویس) کا کام کرنے لگا۔ جہاں وہ تقریبا ۱۵ روپے ماہوار کی برائے نام معاوضہ پر عریضوں کی نقلیں تیار کراتا۔
اس کے سیالکوٹ کے قیام کے دوران وہاں ایک شام کا اسکول قائم کیا گیا جہاں انگریزی پڑھائی جاتی تھی ۔ غلام نے بھی اس سکول میں داخلہ لے لیا اور وہاں اس نے بقول خود ایک یا دوانگریزی کتابیں پڑھیں ۔ پھروہ قانون کے ایک امتحان میں بیٹھا لیکن فیل ہوگیا۔
پھر اس نے ۴ سال کے بعد سیالکوٹ میں اپنا کام چھوڑ دیا اور اپنے باپ کے ساتھ کام کرنے چلا گیا جو وکالت کرتا تھا۔
یہی وہ زمانہ ہے جب اس نے اسلام پر مباحثے منعقد کرنے شروع کئے اور بہانہ کیا کہ وہ ایک ضخیم کتاب کی ، جس کا نام اس نے ’’ براہین احمدیہ‘‘ رکھا تھا۔ تالیف کرے گا ۔ جس میں اسلام پر اعتراضات اٹھائے گا۔ تب ہی سے لوگ اسے جاننے لگے۔
حکیم نورالدین بہیروی​
سیالکوٹ میں قیام کے دوران غلام احمد کا واسطہ حکیم نورالدین بہیروی نامی ایک منحرف شخصیت سے پڑا نورالدین کی پیدائش ۱۲۵۸ھ مطابق ۱۸۴۱ء بہیرہ ضلغ شاہ پور میں ہوئی جواب مغربی پاکستان کے علاقہ میں پنجاب میں سرگودھا کہلاتا ہے اس نے فارسی زبان ، خطاطی ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی ۔ ۱۸۵۸ء میں اس کا تقررراولپنڈی کے سرکاری سکول کے فارسی کے معلم کے طور پر ہوگیا۔
اس کے بعد ایک پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر بنا دیاگیا۔ چار سال تک اس جگہ کام کرنے کے ت9ہ ہماضے ملازمت سے استعفی دے دیا او اپناپورا وقت مطالعہ میں صرف کرنے لگا ۔ پھر اس نے رام پور سے لکھنؤ کا سفر کیا جہاں اس نے حکمی علی حسین سے طب قدیم پڑھی ۔ علی حسین کی معیت میں اس نے دو سال گزارے پھر ۱۲۸۵ھ میں وہ حجاز چلا گیا جہاں مدینہ منورہ میں اس کارابطہ شیخ رحمت اللہ ہندی او شیخ عبدالغنی مجددی سے ہوا۔ اس کے بعد وہ اپنے وطن واپس آگیا ۔ جہاں اس نے مناظرہ بازی میں کافی شہرت حاصل کی ۔ پھر اس کا تقرر جنوبی کشمیر کے صوبہ جموں میں بطورطبیب ہوگیا۔ ۱۸۹۲ء میں اسے اس عہدہ سے بر طرف کر دیا گیا۔ جموں میں قیام کے دوران اس نے غلام احمد قادیا نی کے بارے میں سنا ۔ پھر وہ گہرے دوست بن گئے ۔چنانچہ جب غلام نے براہین احمدیہ لکھنی شروع کی تو حکیم نورالدین نے ’’ تصدیق براہین احمدیہ لکھی۔
پھر حکیم نے غلام کو نبوت کا دعویٰ کرنے کی ترغیب دینی شروع کی ۔ اپنی کتاب سیرت المہدی میں صفحہ ۹۹ پر حکیم نے کہا کہ اس وقت اس نے کہا تھا : ’’ اگر اس شخص (یعنی غلام) نے نبی اور صاحب شریعت ہونے کا دعویٰ کیا اورقرآن کی شریعت کو منسوخ کردیا تو میں اس کے اس فعل کی مخالفت نہیں کروں گا۔‘‘
اور جب قادیان گیا تو حکیم بھی اس کے پاس وہیں پہنچ گیا۔ اور لوگوں کی نگاہ میں غلام کا سب سے اہم پیرو بن گیا۔
ابتداء میں غلا م نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔لیکن بعد میں اس نے کہا کہ وہ مہدی معود تھا ۔ حکیم نورالدین نے اسے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرنے کیلئے آمادہ کیا اور ۱۸۹۱ء میں غلام نے دعویٰ کردیا کہ وہ مسیح موعود تھا اور لکھا: ۔
’’ در حقیقت مجھے اسی طرح بھیجا گیا ہے جیسے کہ موسیٰ کلیم اللہ کے بعد عیسیٰ کو بھیجا گیا تھا اور جب کلیم ثانی یعنی محمدﷺ آئے تو اس نبی کے بعد جو اپنے اعمال میں موسیٰ سے مشابہت رکھتے تھے ایک ایسے نبی کو آنا تھا جو اپنی قوت ، طبیعت و خصلت میں عیسیٰ سے مماثلت رکھتا ہو آخر الذکر کا نزول اتنی مدت گزرنے کے بعد ہونا چاہئیے جو موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم کے درمیانی فصل کے برابر ہویعنی چوہودیں صدی ہجری میں ۔
پھر وہ آگے کہتا ہے:
’’ میں حقیقتاً مسیح کی فطرت سے مماثلت رکھتا ہوں اور اسی فطری مماثلت کی بنا پر مجھ عاجز کو مسیح کے نام سے عیسائی فرقہ کو مٹانے کے لئے بھیجا گیا تھا کیونکہ مجھے صلیب کو توڑنے اور خنازیر کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا ۔ میں آسمان سے فرشتوں کی معیت میں نازل ہوا جو میرے دائیں اوربائیں تھے۔‘‘
جیسا کہ خود غلام احمد نے اپنی تصنیف ’’ازالہ ادہام‘‘ میں اعلان کیا نورالدین نے درپردہ کہا کہ دمشق سے جہاں مسیح کا نزول ہونا تھا شام کا مشہور شہر مراد نہیں تھا بلکہ اس سے ایک ایسا گاؤں مراد تھا جہاں یزیدی فطرت کے لوگ سکونت رکھتے تھے۔
پھر وہ کہتا ہے ’’ قادیان کا گاؤں دمشق جیسا ہی ہے ۔ اس لئے اس نے ایک عظیم امر کیلئے مجھے اس دمشق یعنی قادیاں میں اس مسجد کے ایک سفید مینار کے مشرقی کنارے پر نازل کیا دو داخل ہونے والے ہرشخص کے لئی جائے امان ہے (اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے منحرف پیروؤں کے لئے قادیان میں جو مسجد بنائی تھی وہ اس لئے تھی کہ جس طرح مسلمان مسجدالحرام کے حج کے لئے جاتے ہیں اسی طرح اس مسجد کے حج کے لئے آئیں ، اور جس میں اس نے ایک سفید مینارہ تعمیر کیا تھا تاکہ لوگوں کو اس کے ذریعہ یہ باور کرایا جا سکے کہ مسیح کا (یعنی خود اس کا ) نزول اسی مینارہ پر ہوگا۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
اس کا نبی ہونے کا دعویٰ​
غلام احمد نے اپنے گمراہ پیروؤں میں سے ایک شخص کو قادیان میں اپنی مسجد کا پیش امام مقرر کیا تھا جس کا نام عبدالکریم تھا ۔جیسا کہ خود غلام نے بتایا عبدالکریم اس ے دو بازووں میں سے ایک تھا جبکہ حکیم نور الدین دوسرا۔
۱۹۰۰ء میں عبدالکریم نے ایک بار جمعہ کے دوران غلام کی موجودگی میں کہا کہ مرزا غلام احمد کو خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا اور اس پرایمان لانا واجب تھا اور وہ شخص جو کہ دوسرے نبیوں پر ایمان رکھتا تھا۔ مگر غلام پر نہیں وہ در حقیقت نبیوں میں تفریق کرتا تھا ور اللہ تعالیٰ کے قول کی تردید کرتا تھا جس نے مومنین کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
’’ ہم اس کے نبیوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے‘‘۔
اس خطبہ نے غلام کے پیروؤں میں باہمی نزاع پیدا کردیا جو اس کے مجدد ، مہدی معہود اور مسیح موعود ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ لہذا جب انہوں نے عبدالکریم پر تنقید کی تو اس نے اگلے جمعہ کو ایک اور خطبہ دیا اور غلام کی طرف متوجہ ہو کر کہا : ’’میرا عقیدہ ہے کہ آپ اللہ کے رسول اور اس کے نبی ہیں اگر میں غلط ہوں تو مجھے تنبیہ کیجئے۔‘‘اور نماز ختم ہونے کے بعد جب غلام جانے لگا تو عبدالکریم نے اسے روکا ۔ اس پرغلام نے کہا : ’’ یہی میرا دین اور دعویٰ ہے ۔‘‘ پھر وہ گھر میں چلا گیا اوروہاں ہنگامہ ہونے لگا جس میں عبدالکریم اور کچھ اور لوگ ملوث تھے جو شور مچا رہے تھے شور سن کر غلام گھر سے نکلا اور کہا ۔ ’’ اے ایمان والو۱ اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔‘‘
اس کا دعویٰ کہ نبو ت کا دروازہ ابھی تک کھلا تھا
غلام نے واقعی کہا تھا کہ نبو ت کا دروازہ ہنوز کھلا ہوا تھا ۔اس کا اظہار اس کے لڑکے محمود احمد نے جو قادیانیوں کا دوسرا خلیفہ تھا اپنی کتاب حقیقت النبوت کے صفحہ ۲۲۸ پراس طرح کیا تھا : ’’ روز روشن کی طرح یہ واضح ہے کہ باب نبوت ابھی تک کھلا ہوا ہے ۔‘‘ اور انوار خلافت میں صفحہ ۶۲ پر وہ کہتا ہے : حقیقتاً انہوں نے (یعنی مسلمانوں نے) کہا کہ خدا کے خزانے خالی ہوگئے ہیں اورا ن کے ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خدا کی صحیح قدرو قیمت کی سمجھ نہیں ہے ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ بجائے صرف ایک کے ہزاروں نبی آئیں گے۔‘‘ اسی کتاب کے صفحہ ۶۵ پر وہ کہتا ہے ’’ اگر کوئی شخص میری گردن کے دونوں طرف تیز تلواریں رکھ دے اور مجھ سے یہ کہنے کیلئے کہے کہ محمدﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں یقینا کہوں گا کہ وہ کاذب ہے کیونکہ ایسا نہ صرف ممکن بلکہ قطعی ہے کہ ان کے بعد نبی آئیں گے۔‘‘ رسالہ تعلیم کے صفحہ ۱۴ پر خود غلام خود غلام کہتا ہے : ’’ یہ ذرا بھی نہ سوچنا کہ وحی زمانہ پارینہ کا قصہ بن چکی ہے ، جس کا آج کوئی وجود نہیں ہے یا یہ کہ روح القدس کا نزول صرف پرانے زمانے میں ہی ہوتا تھا، آج کل نہیں یقینا اور حقیقتاً میں کہتا ہوں کہ ہر ایک دروازہ بند ہو سکتا ہے مگر روح القدس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہیگا۔‘‘ (مطبوعہ ربوہ،پاکستان ۱۳۸۶ھ )
’’ رسالہ تعلیم‘‘ کے صفحہ ۹ پر وہ کہتا ہے : ’
’ یہ وہ ہی خدائے واحد تھا جس نے مجھ پروحی نازل کی اورمیری خاطر عظیم نشانیاں ظاہر کیں ۔ وہ جس نے عہد حاضر کا مسیح موعود بنایا اس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں نہ زمین میں نہ آسمان پر ۔ اور جو اس پرایمان نہیں لائیگا اس کے حصہ میں بدقسمتی اور محرومیت آئے گی مجھ پرحقیقت میں وحی نازل ہوتی ہے جو آفتاب سے زیادہ واضح اورصریح ہے۔‘‘
اسکا دعویٰ کہ وہ نبی اور رسول ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے
غلام مکتوب احمد (۲)کے صفحہ ۷ اور ۸ پر کہتا ہے: ’’ اس کی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے مجھے ان ناموں سے مخاطب کیا : تم میری حضوری کے قابل ہو، میں نے تمہیں اپنے لئے انتخاب کیا۔‘‘ اور اس نے کہا۔’’ میں نے تمہیں ایسے مرتبہ پر فائز کیا جو خلق کے لئے نام معلوم ہے۔‘‘ اور کہا ’’ اے میرے احمد، تم میری مراد ہو او ر میرے ساتھ ہو اللہ اپنے عرش سے تمہاری تعریف بیان کرتا ہے‘‘ اس نے کہا ’’تم عیسیٰ ہو جس کا وقت ضائع نہیں ہوگا تمہارے جیسا جوہر ضائع ہونے کے لئے نہیں ہوتا تم نبیوں کے حلیہ میں اللہ کے جری ہو ۔‘‘ اس نے کہا ’’ کہو ، مجھے حکم کے مطابق جائے پناہ تعمیر کرو جو تمہاری اطاعت کا عہد کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ کی اطاعت کا عہد کر رہے ہیں خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے‘‘ اس نے کہا ’’ ہم نے تمہیں دنیا میں صرف رحمت بنا کر بھیجا‘‘ غلام کہتا ہے ’’ اس کی برکتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب اس نے دیکھا کہ پادری حد سے زیادہ مفسد ہوگئے ہیں اور کہنے لگے ہیں کہ وہ ملک میں بلند مرتبوں پرپہنچ گئے ہیں تو اس نے ان کی سرکشی کے سیلاب اور تیرگی کے عروج پر مجھے بھیجا ۔‘‘ اس نے کہا ’’ آج تم ہمارے ساتھ کھڑے ہو طاقتور او قابل اعتماد تم جلیل القدر حضوری سے آئے ہو ‘‘ غلام کہتا ہے : ’’ اس نے مجھے یہ کہتے ہوئے پکارا اور مجھ سے کلام کیا : میں تمہیں ایک مفسدین کی قوم کی طرف بھیجتا ہوں میں تمہیں لوگوں کا قائد بناتا ہوں اور تمہیں اپنا خلیفہ مقرر کرتا ہوں عزت کی علامت کے طور پر اور اپنے دستور کے مطابق جیسا کہ پہلے لوگوں کے ساتھ تھا۔‘‘ (مطبوعہ ربوہ ۱۳۸۳ھ طبع پنجم)
غلام کہتا ہے :’’ اس نے مجھے ان ناموں سے مخاطب کیا : میری نظرمیں تم
عیسیٰ ابن مریم کی مانند ہو ۔ او ر تمہیں اس لئے بھیجا گیا تھا کہ تم اپنے رب الاکرم کے کئے ہوئے وعدہ کو پورا کرو حقیقتاً اس کاو عدہ برقرار ہے اور وہ اصدق الصادقین ہے ۔‘‘ اور اس نے مجھ سے کہا کہ اللہ کے نبی عیسیٰ کا انتقال ہوچکا تھا۔ انہیں اس دنیا سے اٹھا لیاگیا تھا اور وہ جاکر مردوں میں شامل ہوگئے تھے اور ان کا شمار ان میں نہیں تھا جو واپس آتے ہیں ۔‘‘ (مکتوب احمد صفحہ۹)
اسی کتاب کے صفحہ ۶۳ اور ۶۴ پر غلام کہتا ہے : ’’ خدا نے مجھے یہ کہتے ہوئے خوشخبری دی : اے احمد، میں تمہاری تمام دعائیں قبول کروں گا ، سوائے ان کے جو تمہارے شرکاء کے خلاف ہوں گی۔ اور ا س نے اتنی بے شمار دعائیں قبول کیں کہ جگہ کی کمی کے باعث ان کی فہرست اور تفصیل کا تو ذکر ہی کیا اس جگہ ان کا خلاصہ بھی نہیں دیا جاسکتا ۔ کیا تم اس معاملے میں میری تردید کر سکتے ہو ؟ یا مجھ سے پھر سکتے ہو ۔؟‘‘
اپنی کتاب ’’ مواہب الرحمن کے صفحہ ۴ پر وہ کہتا ہے : ’’ میرا رب مجھ سے اوپر سے کلام کرتا ہے وہ مجھے ٹھیک طرح سے تعلیم دیتا ہے اور اپنی رحمت کی علامت کے طور پر مجھ پر وحی نازل کرتا ہے میں اس کی پیروی کرتا ہوں ۔‘‘( مطبوع ربوہ ۱۳۸۰ھ )
’’ استفتاء کے صفحہ ۱۲ پر غلام کہتا ہے :’’ میں خدا ی طرف سے بھیجا گیا ہوں ۔‘‘ (مطبوعہ ربوہ ۱۳۷۸ھ)
اسی کتاب کے صفحہ ۱۲ پر وہ کہتا ہے : ’’ خدا نے مجھے نبی کہ کر پکارا۔‘‘
اسی کتاب کے صفحہ ۲۰ پر وہ کہتا ہے : ’’ خدا نے مجھے اس صدی کے مجدد کے طور پر ، مذہب کی اصلاح کرنے ملت کے چہرے کو روشن کرنے ، صلیب کو توڑنے عیسائیت کی آگ کو فرو کرنے اور ایسی شریعت کو جو تمام خلق کیلئے سود مند ہے قائم کرنے ‘ مفسد کی اصلاح کرنے اور جامد کو رواج دینے کے لئے بھیجا ہے میں مسیح موعود اور مہدی معہود ہوں ۔ خدا نے مجھے وحی اور الہام سے سرفراز کیا اور اپنے مرسلین کرام کی طرح مجھ سے کلام کیا ۔ اس نے اپنی ان نشانیوں کے ذریعہ جو تم دیکھتے ہو میری سچائی کی شہادت دی ۔’’ صفحہ ۲۵ پر غلام کہتا ہے :’’ خدا نے مجھ پر وحی بھیجی اور کہا : میں نے تمہارا انتخاب کیا اور تمہیں ترجیح دی ۔کہو‘ مجھے حکم دیا گیا ہے اور امیں یامان لانے والو میں سب سے پہلا ہوں ۔ اس نے کہا کہ میں اپنی توحید اور انفرادیت کے مرتبہ پر فائز کرتا ہو لہذا وقت آگیا ہے کہ تم خو د کو عوام الناس پر خود کو ظاہر کرو اور ان میں خود کو شہر ت دو جو ہر طرف سے آئیں گے ۔ جن کو ہم بذریعہ الہام کہیں گے کہ وہ تمہری پشت پناہی کریں ۔ وہ ہر طرف سے آئیں گے یہی میرے رب نے کہا ہے۔‘‘
غلام نے صفحہ ۲۷ پر بھی کہا : ’’ میرے پاس خدا کی تصدیقات ہیں ۔‘‘
مسیح ناصری ہندوستان میں کے صفحہ ۱۲ اور ۱۳ پر غلام کہتا ہے : ’’ انتہائی ملائمت اور صب کے ساتھ لوگوں کو سچے خدا کی طرف رہبری کرنے کے لئے اور اسلام کے اخلاق معیار کی دوبارہ تعمیر کے لئے اس نے مجھے بھیجا ۔ اس نے مجھے ان نشانیوں سے عزت بخشی جو حق کے متلاشیوں کی تسلی و تشفی اور تیض کیلئے وقف ہوتی ہیں ۔ اس نے حقیتق میں مجھے معجزے دکھائے اور مجھ پر ایسے پوشیدہ امور اور متقبل کے ارز ظاہر کئے جو سجے علم کی بیناد کی تشکیل کرتے ہیں ۔اس نے مجھے ایسے علوم اور معلومات سے سرفراز کیا جن کی تاریکیوں کے بیٹے اور باطل کے حمایتی مخالفت کرتے ہیں ۔‘‘ (مطبوعہ ربوہ )
حمامتہ البشری کے صفحہ ۶۰ پر غلام کہتا ہے : ’’ یہی وجہ ہے جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے مجھے انہیں حالات میں بھیجا جن جالات میں مسیح کو بھیجا تھا ۔ اس نے دیکھا کہ میرا زمانہ اسی کے زمانے جیسا تھا اس نے ایک قوم دیکھی جو اسی کی قوم جیسی تھی اس نے تلے کے اوپر تلا دیکھا اس لئے اس نے عذاب بھیجنے سے قبل مجۃے بۃیجا تاکہ ایک قوم کو تنبیہہ کردوں چونکہ ان ک آباء واجداد متنبہ نہیں کئے گئے تھے اور تاکہ بدکاروں کا راستہ صاف ہو جائے۔‘‘ (مطبوعہ ربوہ ۱۳۷۸ھ) ۔
تحفۃ بغداد کے صفحہ ۱۴ پرغلام کہتا ہے : ’’ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں جو عالی خاندان سے ہوں فی الحقیقت خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں ۔‘‘ (مطبوعہ ربوہ۱۳۷۷ھ ) ۔
خطبات الہامیہ کے صفحہ ۶ پر وہ کہتا ہے :’’ مجھے آب نور سے غسل دیا گیا اور تمام داغوں اور ناپاکیوں سے چشمہ مقدس پر پاک کیا گیا اور مجھے میرے رب نے احمد کہ کر پکاراسو میری تعریف کرو اور بے عزتی نہ کرو۔‘‘
صفحہ ۸ پر وہ کہتا ہے :’’ اے لوگو میں محمدی مسیح ہوں میں احمد مہدی ہوں اورمیرا رب میری پیدائش کے دن سے مجھے قبر میں لٹائے جانے کے دن تک میرے ساتھ ہے ۔ مجھے فنا کردینے والی آگ اورآب زلال دیا گیا میں ایک جنوبی ستارہ ہوں اور روحانی بارش ہوں ۔‘‘
صفحہ ۸۷ پر وہ یہ بھی کہتا ہے : ’’ اسی وجہ سے خدا نے آدم اور مسیح کہ پکارا جس نے میرا خیال ہے مریم کی تخلیق کی اور احمد جو فضیلت میں سب سے آگے تھا یہ اس نے اسلئے کیا تاکہ ظاہر کر سکے کہ اس نے میری روح میں نبیوں کی تمام خصوصیات جمع کردی تھیں ۔‘‘
’’البدر‘‘ مورخہ ۵ مارچ ۱۹۰۸ء میں ایک مضمون کے تحت جس کا عنوان تھا ہمارا دعویٰ کہ ہم رسول و نبی ہیں اس نے لکھا کہ :’’ اللہ کے حکم کے مطابق میں اس کا نبی ہوں اگر میں اس سے انکار کرتا ہوں تو میں گنہگار ہوں اگر خدا مجھے نبی کہتا ہے تو میں اسی کی نفی کیسے کر سکتا ہوں میں اس حکم کی تعمیل اس وقت تک کرتا رہوں گا جب تک اس دنیا سے کنارہ نہ کرلوں ۔‘‘ (دیکھئے مسیح موعود کا خط بنام مدیر اخبار عام لاہور) یہ خط مسیح موعود نے اپنے انتقال سے صرف تین دن پہلے لکھا تھا۔ ۲۳ مئی ۱۹۰۸ء کو اس نے یہ خط لکھا اور ۲۶مارچ ۱۹۰۸ء کو ا س کے انتقال کے دن اس اخبار میں شائع ہوا۔
’’کلمہ فصیل ‘‘(قول فیصل) مصنفہ بشیر احمد قادیانی اور Review lf religionsنمبر ۳ جلد ۴ صفحہ ۱۱ پر شائع شدہ میں یہ عبارت شامل ہے : ’’ اسلامی شریعت نے ہمیں نبی کا جو مطلب بتایا ہی وہ اس کی اجازت نہیں دیتا کہ مسیح موعود استعارتاً نبی ہو بلکہ اس کا سچا نبی ہونا ضروری ہے ۔‘‘ (مطبوعہ ربوہ ۱۳۸۸ھ)
حقیقت النبوۃ مصنفہ مرزا بشیر الدین احمد میں مصنف صفحہ ۱۷۴ پر اپنے منشور میں فرقہ احمدیہ میں داخلہ کی شرائط کے عنوا ن سے اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے : ’’ مسیح موعود (یعنی غلام احمد ) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے اور اللہ کے نبی کا انکار سخت گستاخی ہے جو ایمان سے محرومی کی طرف پہنچا سکتی ہے۔‘‘
بعض دوسرے نبیوں پر اپنی فضیلت کاغرور اور بحث
غلام احمد پر غرور اور تکبر بری طرح چھایا ہوا تھا اس لئے اس نے دل کھول کر اپنی تعریف کی اس نے اپنی کتاب استفتاء میں مندرجہ ذیل عبارت کا حوالہ دیا ہے اور دعویٰ کیاہے کہ اس سے اس طرح خدا نے خطاب کیا :’’ میرے لئے تم میری واحدانیت اور انفرادیت کے بمنزلہ ہو میرے لئے تم میرے عرش کے ہو میرے لئے تم بمنزلہ میرے بیٹے ہو ۔‘‘
احمد رسول العالم الموعود نامی کتاب میں شامل ایک مضمون میں وہ کہتا ہے : ’’حقیقت میں مجھے اللہ القدیر نے خبر دی ہے کہ اسلامی سلسلہ کا مسیح موسوی سلسلہ کے مسیح سے بہتر ہے ۔‘‘ اسلامی سلسلہ کے مسیح سے اس کی مراد بذات خود ہے اسیلئے غلام احمد عیسیٰٰ سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔اس کے دعوؤں میں سے ایک اوریہ ہے کہ خدا نے یہ کہتے ہوئے اس سے کلام کیا :’’ میں نے عیسیٰ کے جوہر سے تمہاری تخلیق کی اور تم اور عیسیٰٰ ایک ہی جوہر سے ہو اورایک ہی ہو ۔‘‘ رحمامتہ البشری سے) وہ کہتا ہے کہ وہ عیسیٰ سے بہتر ہے ۔ رسالہ تعلیم میں صفحہ ۷ پر وہ کہتا ہے اور یقینی طور سے جان لو کہ عیسیٰ کا انتقال ہوگیا ہے اور یہ کہ اسکا مقبرہ سرینگر کشمیر میں محلہ غانیار میں واقع ہے اللہ نے اس کی وفات کی خبر کتاب العزیز میں دی ہے اور مجھے مسیح ناصری کی شان سے انکار نہیں حالانکہ خدا نے مجھے خبر دیہ ے کہ محمدی مسیح ، مسیح ناصرسے بلند مرتبہ ہوگا تاہم میں ن کانہایت احترام کرتاہوں کیوں وہ امت موسوی میں خاتم الخلفاء تھے س طرح میں امت محمدی میں خاتم الخلفاء ہوں جس طرح مسیح ناصری ملت موسوی کا مسیح موعود تھا اسی طرح میں ملت اسلامیہ کا مسیح موعود ہوں ۔‘‘
وہ محمدﷺ پر بھی افضلیت کا دعویٰ کرتا ہے حقیقت النبوۃ ، مصنفہ مرزا بشیر احمد، خلیفہ ثانی کے صفحہ ۲۵۷ پر مصنف کہتا ہے :’’ غلام احمد حقیقت میں بعض اولی العظم رسولوں سے افضل تھے۔‘‘
الفضل جلد ۱۴ شمارہ ۲۹ اپریل ۱۹۲۷ء سے مندرجہ ذیل اقتباس پیش ہے :’’ حقیقت میں انہیں بہت سے انبیاء پر فوقیت حاصل ہے اور وہ تمام انبیاء کرام سے افضل ہو سکتے ہیں ۔‘‘
اسی صحیفہ الفضل کی پانچویں جلد میں ہم پڑھتے ہیں :’’ اصحاب محمدﷺ اور مرزا غلام احمد کے تلامذہ میں کوئی فرق نہیں ۔ سوائے اس کے کہ وہ بعث اول سے تعلق رکھتے تھے اور یہ بعث ثانی سے (شمارہ نمر ۹۲ مئی ۱۹۱۸ئ)
اسی صحیفہ کی تیسری جلد میں ہم پڑھتے ہیں :’’ مرزا محمد ہیں ۔‘‘ وہ خدا کے قول کی تائید کرتا ہے ، اس کا نام احمد ہے ۔‘‘ (انوارِ خلافت ، صفحہ ۲۱) یہ کتاب یہاں تک کہتی ہے کہ غلام کو محمدﷺ پر بھی افضلیت حاصل ہے خطبات الہامیہ صفحہ ۱۷۷) پر خود غلام احمد کہتا ہے : ’’ محمدﷺ کی روحانیت اپنی اجمالی صفات کے ساتھ اس ناکافی وقت میں غایت درجہ بلندی اور اپنے منتہا کو نہیں پہنچتی تھی پھر چھٹے ہزارے میں (یعنی مسیح موعود غلام احمد کے زمانے میں ) اس روحانیت نے اپنے انتہائی عالیشان لباس میں اپنے بلند ترین مظاہر میں اپنی تجلی دکھائی ۔‘‘ اپنے رسالہ اعجاز احمدی ، میں وہ یہ اضافہ کرتا ہے :
’’ ان کیلئے چاند کی روشنی گہنا گئی؟
کیا تمہیں اس سے انکار ہے کہ میرے لئے چاند اورسورج دونوں کو گہن لگا۔‘‘
اس کا دعویٰ کہ اسے خدا کا بیٹا ہونے کا فخر حاصل ہے اور وہ بمنزلہ عرش کے ہے
استفتاء کے صفحہ ۸۲ پرغلام کہتا ہے :’’ تم بمنزلہ میری واحدانیت اور انفرادیت کے ہو ۔ لہذا وقت آگیا ہے کہ تم خود کو عوام میں ظاہر کر دو اور واقف کرادو تم میرے لئے بمنزلہ میرے عرش کے ہو تم میرے لئے بمنزلہ میرے بیٹے کے ہو ۔ تم میرے لئے ایک ایسے مرتبہ پر فائز ہو جو مخلوق کے علم میں نہیں ۔‘‘
اجماع امت محمدؐیہ کہ محمدﷺ خاتم المرسلین تھے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور یہ کہ جو اس سے انکار کرتا ہے ،وہ کافر ہے۔
قرآن پاک ، سنت رسولﷺ اور اجماع امت سے بے پروا غلام احمد دعویٰ کرتا ہے کہ وہ نبی اور رسول ہے شریعت کے یہ تینوں ماخذ اس کے ثبوت میں شہادت دیتے ہیں کہ مصطفیﷺ خاتم النبین اور مرسلین ہیں ۔
خاتم بکسرت پڑھا جائے تو صفت کا اظہار کرتا ہے جو محمدﷺ کو انبیاء میں سب سے آخری بیان کرتی ہے جس کا مطلب ہے کہ آپکے پعد کوئی بھی شخص مقامِ نبوت کو نہیں پہنچ سکتا لہذا اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرتاہے تو وہ ایک ایسی چیز کا مدعی ہے جو اس کی رسائی سے باہر ہے ۔ اسی لفظ کوبفتح تا خاتم پڑھا جائے تو بھی عرب علماء لغت کے مطابق اس کے یہی معنی و تعبیر ہوگی ۔ حقیقت میں مفسرین و محققین نے اس کا یہی مطلب لیاہے اور سنتِ صحیحہ نے بھی اسی کی تصدیق کی ہے امام بخاری کی صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی گئی ہے اور انہوں نے خود رسولﷺ سے سنا ہے ۔ فرمایا : ’’بنی اسرائیل کی رہبری نبیوں کی ذریعہ کی گئی ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرے نبی نے اس کی جانشینی کی لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا‘‘
صحیح بخاری میں ایک دوسری حدیث نقل کی گئی ہے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول خدا سے سنا فرماتے تھے : میری اور مجھ سے قبل آنے والے نبیوں کی مثال اس شخص کے معاملہ جیسی ہے کہ اس نے ایک مکان بنایا خوب اچھا اور خوبصورت لیکن ایک گوشہ میں ایک انیٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ یہ مکان دیکھنے آتے اور مکان کی تعریف و توصیف کرتے مگر کہتے وہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھ دیتے تم ؟ رسول خدا نے کہا وہ اینٹ میں ہوں ۔ اور میں خاتم النبیین ہوں مسلم کی روایت کی مطابق جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اس اینٹ کی جگہ میں ہوں ۔ میں آیا اور انبیاء پر مہر لگادی۔
یہی اجماع المسلمین ہے اور ضرورتاً مذہب کی ایک حقیقت معلومہ بن گیا خاتم النبین کی تفسیر میں امام ابن کثیر کا قول ہے : اللہ تعالیٰ نے ہم سے اپنی کتاب میں کہا ہے جیسا کہ اس کے رسول ﷺنے سنت متواترہ میں کہا کہ اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انہیں جا ن لینے دو کہ اس کے بعد جو کوئی اس مقام کا دعویٰ کرتا ہے وہ کذاب ہے مکار ، فریبی اور دجال ہے الالوسی نے اپنی تفسیر میں کہا : او ر یہ حقیقت کہ وہ (محمدﷺ ) خاتم النبین ہیں قرآن پاک میں بیان کی گئی ہے سنت نے اس کی تصدیق کی ہے اور امت کا بالاتفاق اس پر اجماع ہے ۔ لہذا جو کوئی بھی اسکی برخلاف دعویٰ کرتا ہے وہ کافر ہے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
خاتم النبیین کی قادیانی تفسیر​
رسالہ تعلیم میں صفحہ ۷ پر غلام احمد کہتا ہے : ان کی بعد کوئی نبی نہیں ہوگا سوائے اس کے جس کو بطور جانشینی رواء محمدیہ عطا کی گئی ہو ۔ اس کی ایک دوسری تاویل میں ’’ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا‘‘ والی حدیث کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انکے بعد (یعنی محمدﷺکے بعد) ان کی امت کے علاوہ کسی دوسری امت سے کوئی نبی نہیں ہوگا یہ دوسری تاویل دراصل غلام احمد نے ایک دوسر ے جھوٹے نبی اسحاق الاخرس سے نقل کی ہے جو سفاح کے زمانہ میں ظاہر ہوا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ دو فرشتے اس کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ وہ نبی تھا ا س پر اس نے کہا ’’ یہ کیسے ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کہہ چکا ہے کہ محمدرسول اللہﷺ خاتم النبیین ہیں ؟ ‘‘ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا تم سچ کہتے ہو لیکن اللہ کا مطلب یہ تھا کہ وہ ان نبیوں میں سے آخری تھے جو ان کے مذہب کے نہیں تھے۔
اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے قادیانیوں نے خاتم النبیین کی یہ تفسیر کی کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ محمدﷺ انبیاء کی مہر ہیں تاکہ ان کے بعد آنے والے ہر نبی کی نبوت پران کی مہر تصدیق ثبت ہو اس سلسلہ میں مسیح موعود کہتا ہے : ان الفاظ (یعنی خاتم النبیین) کا مطلب یہ ہے کہ اب کسی بھی نبوت پر ایمان نہیں لایا جا سکتا تاوقتیکہ اس پر محمدﷺ کی مہر تصدیق ثبت نہ ہو جائے اسی طرح ہر وہ نبوت جس پراس کی مہر تصدیق نہیں غیر صحیح ہے۔
’’ملفوظات احمدیہ ‘‘ مرتبہ محمد منظور الہیٰ قادیانی میں صفحہ ۲۹۰ پر درج ہے : ’’ اس سے انکار نہ کرو کہ نبی کریمﷺ انبیاء کی مہر ہیں لیکن مہر سے وہ مراد نہیں جو عام طورسے عوام الناس کی اکثریت سمجھتی ہے کیونکہ یہ مراد نبی کریمﷺ کی عظمت اور ان کی اعلیٰ وارفع شان کے قطعی خلا ف ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ محمدﷺ نے اپنی امت کو نبوت کی نعمت عظمیٰ سے محروم کردیا اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ انبیا کی مہر ہیں اب فی الحال کوئی نبی نہیں ہوگا سوائے اس کے جس کی تصدیق محمدﷺ کریں ۔ ان معنی میں ہمارا ایمان ہے کہ رسول کریمﷺ خاتم النبیین ہیں ۔ (الفضل مورخہ ۲۲ ستمبر ۱۹۳۹ئ) (الفضل ایک روزانہ اخبار ہے جو تقسیم سے پہلے قادیان سے شائع ہوتا تھا۔ اب یہ ربوہ سے شائع ہوتا ہے اور قادیانیوں کا ترجمان ہے)
الفضل مورخہ ۲۲ مئی ۱۹۲۲ء میں ہم پڑھتے ہیں کہ مہر ایک چھاپ ہوتی ہے۔ سو اگر نبی کریمﷺ ایک چھاپ ہیں تو یہ کیسے ہو سکتے ہیں اگر ان کی امت میں کوئی اور نبی نہیں ؟
اس کا دعویٰ کہ انبیاء نے اس کی شہادت دی
وہ دعویٰ کرتا ہے کہ صالح نے اس کی شہادت دی اپنی کتاب مکتوب احمد میں صفحہ ۶۲ پر وہ کہتا ہے : ’’ حقیقتاً صالح نے میری صداقت کی شہادت میری دعوت سے بھی پہلے دی۔ اور کہا کہ وہ ہی عیسیٰٰ مسیح تھا جو آنیو الا تھا۔ اس نے میرا اور میری زوجہ کا
نام بتایا اور اس نے اپنے پیروؤں سے کہا : مجھے میرے رب نے ایسا ہی بتایا ہے لہذا میری یہ وصیت مجھ سے لے لو۔‘‘
 
Top