- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
عقولِ عشرہ کی حقیقت
لیکن ابن سینا کی طرح متاخرین اہلِ فلسفہ نے ان قدیم فلسفیوں اور پیغمبروں کی تعلیمات کو باہم ملا کر ایک معجون سا بنا دینا چاہا۔ان لوگوں نے کچھ اصول جہمیہ کے اور کچھ معتزلہ کے لے لیے اور ایک ایسا مذہب تیار کیا، جس سے اہلِ مذاہب کے فلسفی خود کو کسی حد تک منسوب کرتے ہیں۔ اس مذہب کی خرابیوں اور تناقضات کا ذکر ایک حد تک ہم نے کسی دوسری جگہ پر کر دیا ہے۔ ان لوگوں نے جب دیکھا کہ سیدناموسیٰ علیہ السلام ، سیدناعیسیٰ علیہ السلام اور جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت چھا رہی ہے۔ ساری دنیا میں ان کی تعلیم کو غلبہ حاصل ہورہا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ان تمام مشنوں پر فوقیت حاصل کرچکاہے۔ جنہوں نے معمورۂ عالم میں گونج پیدا کی ہے اور جب انہوں نے دیکھا کہ انبیاء ملائکہ اور جنوں کا ذکر بھی کرتے ہیں تو انہوں نے اس تعلیم اور اپنے ان یونانی اسلاف کی تعلیم کو جمع کر دینا چاہا جو اللہ تعالیٰ کے اس کے فرشتوں، کتابوں، اس کے پیغمبروں اور یومِ آخرت کے متعلق علم سے اس درجہ دور ہیں کہ ان کی بے علمی کی نظیر ساری مخلوقات میں اور کہیں نہیں ملتی ۔ ان لوگوں نے دس عقول ثابت کرنے کی کوشش کی جن کا نام انہوں نے مجردّات اور مفارقات رکھا۔ اس کی اصل بدن اور روح کی جدائی ہے۔ انہوں نے ان مفارقات کا یہ نام اس لیے قرار دیا کہ وہ مادہ سے جدا اور اس سے خالی (متجرد) ہیں۔ انہوں نے ہر فلک کے لیے روح بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اکثر فلسفی افلاک کو اعراض قرار دیتے ہیں اور بعض ان کو جواہر کہتے ہیں۔ یہ مجردات جن کو ثابت کرنے کے لیے ان لوگوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے۔ ازروئے تحقیق محض ذہنی چیزیں ہیں۔ جن کا کوئی معین وجود نہیں ہے۔ جیسا کہ ارسطو کے پیروئوں نے مجرد اعداد کو ثابت کرنے کی کوشش کی اور جس طرح اصحاب افلاطون نے بھی مثل افلاطونیہ مجردہ کو ثابت کیا ہے اور جیسا کہ انہوں نے صورت سےمجرد ھیولیٰ ثابت کیا ہے اور مادہ مجرد اور خلاء مجرد کو ثابت کیا ہے۔ ان میں جو بھی حاذق فلسفی تھے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ان چیزوں کا وجود ذہنی اور خیالی ہے، خارج میں کوئی وجود نہیں ہے۔
الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ