• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقيدہ عذابِ قبراور اس كى ضرورى تفصيلات۔قسط دوئم

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عقيدہ عذابِ قبراور اس كى ضرورى تفصيلات۔قسط دوئم
قبر كيا ہے ؟
جيسا كہ ہم قسط اول میں ذكر كرچكے ہيں كہ ميت كے لئے برزخ توظرفِ زمان ہے جبكہ قبر ظرفِ مكان ہے- تمام اہل سنت والجماعت كے نزديك قبر زمين كے اسى حصہ كا نام ہے جس ميں مردے كودفن كيا جاتا ہے- بالفاظِ ديگر مردہ انسان كے مدفن يعنى جائے دفن كو ’قبر‘ كہتے ہيں-
لغت سے استدلال:لغت ميں بهى انسان كے مدفن ہى كو قبر كہا گيا ہے، مثلاً ديكهيں: المنجد مادّہ قبر، مترادفات القرآن: ص٦٢٣، مفردات القرآن اُردو ص٨٢٠، فيروز اللغات ص٥٥٠ اور مصباح اللغات ص٦٥٤ وغيرہ
امام محمد بن اسماعيل بخارى اپنى صحيح ميں قبر كى وضاحت كرتے ہوئے فرماتے ہيں:
وقول اللہ عزوجل: ﴿فأقبره﴾أقبرت الرجل: إذا جعلت له قبرا وقبَّرته: دفنته ﴿كفاتا﴾ يكونون فيها أحياء ويدفنون فيها أمواتا
” (سورئہ عبس ميں) اللہ تعالىٰ كے ارشاد ﴿فَاَقْبَرَه﴾ (كى تشريح يہ ہے كہ يہ عرب كا محاورہ ہے) جب كوئى كسى كے لئے قبر بنائے، تو اس وقت كہتا ہے: أقبرت الرجل ”يعنى ميں نے آدمى كى قبر بنائى“ اور قبَّرتُه كے معنى ہيں:” ميں نے اسے دفن كيا-“ ( سورئہ مرسلات ميں) ﴿كِفَاتًا﴾ كے لفظ (كے معنى يہ ہيں) ”كہ زندگى بهى زمين ہى پر گزاروگے، اور مرنے كے بعد بهى اسى ميں دفن ہوگے-“ (صحيح بخارى،كتاب الجنائز، باب ماجاء في قبر النبي ﷺ وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما)
قرآنِ كريم سے بهى پتہ چلتاہے كہ قبر سے مراد وہى گڑها ہے، جو زمين ميں كهودا جاتاہے:
1 ﴿وَلَا تَقُمْ عَژٰ قَبْرِه﴾ (التوبه:٨٤)
”اور آپ ان (منافقين) ميں سے كسى كى قبر پر كهڑے نہ ہوں-“
2 ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ ژ الْقُبُوْرِ﴾ (الفاطر:٢٢)
”اور آپ ان كو نہيں سنا سكتے جو قبروں ميں ہيں-“
3 ﴿كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ﴾ (الممتحنہ:١٣)
”جيسے كفار اہل قبر سے مايوس ہوچكے ہيں-“
4 ﴿ ثُمَّ اَمَاتَه فَاَقْبَرَه﴾(عبس:٢١)”پهر اسے موت دى، پهر اسے قبر ميں دفن كيا-“
5 ﴿وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثِرَتْ﴾(الانفطار:٤) ”اور جب قبريں اُكهاڑ دى جائيں گى-“
6﴿حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ﴾(التكاثر:٢) ”يہاں تك كہ تم قبريں ديكھ لو-“
7 ﴿أفَلَا يَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا ژ الْقُبُوْرِ﴾(العاديات:٩)
”كيا وہ نہيں جانتا كہ جب قبروں ميں جو كچھ ہے، وہ نكال ليا جائے گا-“
تمام مفسرين كے نزديك بالاتفاق قبر، قبور اور مقابر سے مراد فوت شدہ انسان كى جائے دفن ہى ہے-
احاديث ِنبويہﷺ كى روشنى ميں
جس طرح قرآنِ مجيد ميں لفظ’ قبر‘ كا اطلاق اسى معروف زمينى قبر پر كيا گيا ہے، ايسے ہى بے شمار احاديث ايسى ہيں جن ميں ’قبر‘ كا لفظ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ قبر سے مراد مردہ انسان كا مدفن ہى ہے- ذيل ميں اسى سلسلے كى صرف چند احاديث بيان كى جارہى ہيں:
1 عن أبي هريرة أن رسول الله! قال: ((قاتل الله اليهود اتخذوا قبور أنبياء هم مساجد)) (صحيح بخارى:كتاب الصلاة،رقم:٤٣٧)
” سيدنا ابوہريرہ بيان كرتے ہيں، كہ بے شك رسول اللہ ﷺنے فرمايا: ” يہوديوں كو اللہ تعالىٰ ہلاك كرے، انہوں نے اپنے انبيا كى قبروں كو مساجد (سجدہ گاہ) بنا ليا-“
2 عن جابر قال: ((نهٰى رسول الله!عن تجصيص القبور)) ابن ماجہ،كتاب الجنائز، رقم ١٥٦٢، صححہ البانى)
”سيدنا جابر  بيان كرتے ہيں كہ رسول اللہ ﷺ نے قبروں كوچونا گچ كرنے سے منع فرمايا-“
3 عن أبي هريرة قال: زار النبي ! قبر أمه فبكى وأبكى من حوله فقال: ((استاذنت ربي في أن استغفرلها فلم يؤذن لي واستاذنته في أن أزور قبرها فأذن لي فزوروا القبور فإنها تذكر الموت)) (صحيح مسلم: رقم ٩٧٢)
”سيدناابوہريرہ بيان كرتے ہيں كہ نبى ﷺ اپنى والدہ كى قبر پر تشريف لے گئے، خود بهى روئے اور گردوپيش لوگوں كوبهى رُلا ديا-پهر فرمايا:”كہ ميں نے اپنے ربّ سے اپنى والدہ كے حق ميں استغفار كى اجازت چاہى، ليكن نہ ملى- پهر زيارتِ قبر كى اجازت چاہى تو اجازت مل گئى، چنانچہ قبروں كى زيارت كيا كرو، كيونكہ يہ تمہيں موت ياد دلاتى ہيں-“
لغت ِعرب، قرآنِ مجيد كى آيات اور بے شمار احاديث سے يہ بات اظہر من الشمس ہے كہ قبر سے مراد يہى زمينى گڑها ہے - جب قبر سے مراد يہى زمينى قبر ہے تو پهر ماننا پڑے گا كہ اسى قبر ميں نكيرين آتے ہيں، اسى ميں سوال و جواب ہوتے ہيں، اس كے بعد پهر اسى قبر كو اعمال كے مطابق جنت كا باغ يا جہنم كا گڑها بنا ديا جاتا ہے- اس قبر كے علاوہ كسى اور قبر كا دعوىٰ كرنا، جيسا كہ بعض لوگوں نے ’برزخى قبر‘ كا دعوىٰ كيا ہے، سراسر كتاب و سنت كے منافى ہے اور اتنا بودا اور كمزور ہے، جيسے تارِ عنكبوت-
عذابِ قبر كى دو اقسام
1 دائمى عذاب: اس سے مراد ايسا عذاب ہے جو موت سے لے كر قيامت تك كفار كو ديا جائے گا، جيساكہ اللہ تعالىٰ كا آلِ فرعون كے متعلق ارشاد ہے:
﴿وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْءُ الْعَذَابِ ۔ اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْها غُدُوًّا وَّعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المؤمن:٤٥،٤٦)
”اور آلِ فرعون پر بُرى طرح كا عذاب الٹ پڑا، آگ ہے جس كے سامنے يہ ہر صبح و شام لائے جاتے ہيں اور جس دن قيامت قائم ہوگى (حكم ہوگا كہ )آلِ فرعون كو سخت عذاب ميں ڈال دو-“
ايسے ہى قومِ نوح كے متعلق فرمايا:
﴿مِمَّا خَطِيٓئٰتِهمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوْا لَهمْ مِّنْ دُوْنِ الله أَنْصَارًا﴾ (نوح :٢٥) ”اور وہ لوگ اپنے گناہوں كى وجہ سے ڈبو ديئے گئے پهر آگ ميں داخل كرديئے گئے ہيں پس نہ پايا انہوں نے اپنے لئے اللہ كے سوا كوئى مدد كرنے والا-“
منافقين بهى اس دائمى عذاب ميں مبتلا ہوں گے، جيسا كہ سيدنا ابوہريرہ  سے مروى حديث ميں ہے، اس كے الفاظ يہ ہيں:
((وإن كان منافقا قال سمعت الناس يقولون فقلت مثله لا أدري فيقولان: قد كنا نعلم أنك تقول ذلك. فيقال للأرض التئمي عليه فتلتئم عليه فتختلف فيها أضلاعه فلا يزال فيها معذبا حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك)) (جامع ترمذى: رقم ١٠٧١، حسنہ الالبانى)
”اگر مرنے والامنافق ہو تو وہ(فرشتوں كے سوال كے جواب ميں) كہتا ہے كہ ميں نے لوگوں كو (حضرت محمد ﷺ كے بارے ميں) كچھ كہتے ہوئے سناتها پس ميں بهى وہ كچھ كہتا تها، اس سے زيادہ مجهے كچھ معلوم نہيں- فرشتے كہتے ہيں: ہميں معلوم تها كہ تو جواب ميں يہى كچھ كہے گا- پهر زمين كو (اللہ كى طرف سے) حكم دياجاتا ہے: اسے جكڑ لے- پس قبر اسے جكڑ ليتى ہے اس كى ايك طرف پسلياں دوسرى طرف كى پسليوں ميں پيوست ہوجاتى ہيں اور وہ ہميشہ ہميشہ اسى عذاب ميں مبتلا رہتا ہے، يہاں تك كہ اللہ اسے اس كى قبر سے اُٹها كهڑا كرے گا-“
بعض كبائر كے مرتكب مسلمان بهى قبر كے دائمى عذاب ميں مبتلا رہيں گے، جيسا كہ سيدنا سمرہ بن جندب كى بيان كردہ ايك طويل حديث سے ثابت ہورہا ہے-مكمل حديث كے بيان كرنے سے تو يہ سطور قاصر ہيں، تاہم حديث كا ايك ٹكڑا يہاں درج كيا جاتاہے- آپﷺ نے خواب ميں ديكها كہ ايك شخص سر كے بل ليٹا ہوا تها اور دوسرا شخص ايك بڑا سا پتهر لئے اس كے سر پر كهڑا تها- اس پتهر سے وہ ليٹے ہوئے شخص كے سر كو كچل ديتا تها- جب وہ اس كے سر پر پتهر مارتا تو پتهر سر پر لگ كر دور جاگرتا اور وہ اسے اُٹها كر لاتا- ابهى پتهر لے كر واپس بهى نہيں آتا تها كہ سر دوبارہ درست ہوجاتا- بالكل ويسا ہى، جيسا پہلے تها، واپس آكر وہ اسے مارتا - (نبى كريم ﷺ كے استفسار پر فرشتے نے كہا كہ) ”فرجل علَّمه الله القرآن فنام عنه بالليل ولم يعمل فيه بالنهار يفعل به إلى يوم القيامة“ ( صحيح بخارى:رقم ١٣٨٦)
”يہ وہ انسان تها جسے اللہ نے قرآن كا علم ديا تها ليكن وہ رات كو پڑا سوتا رہتا، دن ميں ان پر عمل نہيں كرتاتها، اسے يہ عذاب قيامت تك ہوتا رہے گا-“
2 وقتى عذاب:حافظ ابن قيم فرماتے ہيں:
”دوسرى قسم كا عذابِ قبر وقتى ہے جو ہلكے گناہ والوں پر ان كے گناہوں كے مطابق ايك مقررہ وقت تك ہوتا ہے اور پهر موقوف ہوجاتا ہے، جيسا كہ گناہ گاروں كو ايك خاص وقت تك جہنم ميں عذاب ہوگا اور پهر موقوف كرديا جائے گا- وقتى عذابِ قبرميت كے لئے دعاے استغفار يا اسكى اولاد كے صدقہ وغيرہ سے بهى موقوف ہوجاتا ہے-“ (كتاب الروح، ص ١٦٥)
عذابِ قبر كى مختلف صورتيں
كفار اور ديگر گناہ گاروں كو قبر ميں ملنے والے عذاب كى مختلف صورتيں ہيں:
1آگ كے لباس اور بستر كا عذاب :
سيدنا براء بن عازب سے مروى لمبى حديث ميں يہ الفاظ بهى ہيں كہ رسول ﷺ نے فرمايا:
”قبر ميں كافر كى روح جب لوٹائى جاتى ہے تو ((ويأتيه ملكان فيجلسانه فيقولان له: من ربك؟ فيقول: هاه هاه لا أدري.قال فيقولان: ما دينك؟ فيقول: هاه هاه لا أدري.قال: فيقولان له: ماهذا الرجل الذي بعث فيكم؟ فيقول: هاه هاه لا أدري؟ فينادي مناد من السمآء: أن كذب فأفرشوه من النار (وألبسوه من النار) وافتحوا له بابا إلى النار فيأتيه من حرِّها وسُمومها، ويُضيَّقُ عليه قبره حتى تختلف فيه أضلاعه، ويأتيه رجل قبيح الوجه قبيح الثياب مُنتن الريح فيقول: أبشر بالذي يسوء ك هذا يومك الذي كنت توعد فيقول: من أنت فوجهك الوجه القبيح يجيء بالشر.فيقول : أنا عملك الخبيث.فيقول: رب لا تقم الساعة)) (مسنداحمد : ٤/٢٨٨، رقم :١٨٧٣٣ بطوله صحّحه الألباني)
”اور كافر كے پاس دو فرشتے آتے ہيں جو اسے بيٹها كر پوچهتے ہيں: ”تيرا ربّ كون ہے؟“ وہ كہتا ہے : ”ہائے افسوس!ميں نہيں جانتا-“ فرشتے پوچهتے ہيں :”تيرا دين كون سا ہے؟“ كافر كہتا ہے : ”ہائے افسوس! ميں نہيں جانتا-“ فرشتے پوچهتے ہيں: ”وہ شخص جو تمہارے درميان مبعوث كئے گئے تهے، وہ كون تهے؟“ كافر كہتا ہے : ”ہائے افسو س! ميں نہيں جانتا-“ آسمان سے منادى كى آواز آتى ہے كہ اس نے جهوٹ كہا ہے- اس كے لئے آگ كا بستر بچها دو، اسے آگ كا لباس پہنا دو، اس كے لئے جہنم كى طرف ايك دروازہ كهول دو-چنانچہ جہنم كى گرم اور زہريلى ہوا اسے آنے لگتى ہے- اس كى قبر اس پر تنگ كردى جاتى ہے، حتىٰ كہ اس كى ايك طرف كى پسلياں دوسرى طرف كى پسليوں ميں پيوست ہوجاتى ہيں- پهر اس كے پاس ايك بدصورت ، غليظ كپڑوں اور بدترين بدبووالا شخص آتا اور كہتا ہے : ”تجهے بُرے انجام كى بشارت ہو، يہ ہے وہ دن جس كا تجھ سے وعدہ كيا گيا تها- كافر كہتا ہے: تو كون ہے؟ تيرا چہرہ بڑا ہى بهيانك ہے- تو (ميرے لئے) برا ئى كا پيغام لے كر آيا ہے، وہ جواب ميں كہتا ہے: ”ميں تيرے اعمال ہوں-“ تب كافر كہتا ہے: اے ميرے ربّ! قيامت قائم نہ كرنا-“
2 لوہے كے ہتهوڑوں سے مارے جانے كا عذاب :
سيدنا انس بن مالك سے مروى ہے كہ نبى اكرمﷺ نے فرمايا:
((العبد إذا وضع في قبره وتُوُلِّيٍَ وذهب أصحابه حتى أنه ليسمع قرع نعالهم،أتاه ملكان فأقعداه فيقولان: ما كنت تقول في هذا الرجل محمد ﷺ؟ فيقول : أشهد أنه عبد الله ورسوله،فيقال: اُنظر إلى مقعدك من النار اَبدلك الله به مقعدا من الجنة)) قال النبي ! ((فيراهما جميعا، وأما الكافر أو المنافق فيقول: لا أدري كنت أقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ثم يضرب بمِطرقة من حديد ضربةً بين أذنيه فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين)) (صحيح بخارى: رقم ١٣٣٨)
”جب بندہ قبر ميں دفن كيا جاتا ہے اور اس كے ساتهى واپس پلٹتے ہيں تو وہ ان كے جوتوں كى آواز سنتا ہے- اس كے پاس دو فرشتے آتے ہيں، اسے بٹهاتے ہيں اور پوچهتے ہيں: ”تو اس آدمى كے بارے ميں كياكہتا تها؟“ (يعنى محمدﷺ كے بارے ميں) بندہ كہتا ہے :”ميں گواہى ديتا ہوں كہ وہ اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہيں-“ پهراسے كہا جاتا ہے: ”ديكھ جہنم ميں تيرى جگہ يہ تهى جس كے بدلے ميں اللہ تعالىٰ نے تجهے جنت ميں جگہ عنايت فرما دى-“ چنانچہ وہ اپنے دونوں ٹهكانے ديكهتا ہے اور كافر يا منافق (منكرنكير كے جواب ميں) كہتا ہے: ”مجهے معلوم نہيں (محمدﷺكون ہيں؟) ميں وہى كچھ كہتا تها جولوگ كہتے تهے- “چنانچہ اسے كہا جاتا ہے: ”تو نے (قرآن و حديث كو)سمجها،نہ پڑها -“ پهر اس كے دونوں كانوں كے درميان لوہے كے ہتهوڑے سے مارا جاتا ہے اور وہ بُرى طرح چيخ اُٹهتا ہے- اس كى آواز جن و انس كے علاوہ آس پاس كى سارى مخلوق سنتى ہے-“
3 قبر كے شكنجے ميں جكڑے جانے كا عذاب:
سيدنا ابوہريرہ سے مروى مكمل حديث پانچ صفحات قبل ذكر ہو چكى ہے، جس ميں ہے كہ
((فيقال للأرض التئمي عليه فتلتئم عليه فتختلف أضلاعه))( ترمذى: ١٠٧١)
”پهر زمين كو (اللہ كى طرف سے) حكم ديا جاتا ہے كہ اسے جكڑلے، پس وہ اسے جكڑ ليتى ہے- اس كى ايك طرف كى پسلياں دوسرى طرف كى پسليوں ميں پيوست ہوجاتى ہيں- الخ“
4سانپوں اور بچهوؤں كے ڈسنے كاعذاب:
سيدنا ابوہريرہ سے مروى ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:
((وإن كان من أهل الشك قال: لا أدري سمعت الناس يقولون شيئا فقلته فيقال له: على الشك حييتَ وعليه متَّ وعليه تُبعث. ثم يفتح له باب إلى النار وتسلط عليه عقارب وتنانين لو نفخ أحدهم على الدنيا ما أنبتت شيئا تنهشه وتوٴمر الأرض فتنضم عليه حتى تختلف أضلاعه)) (مجمع الزوائد:٣/٥٢، الترغيب والترهيب)
”اور مردہ (اللہ اور سول كے متعلق) شك كرنے والوں ميں سے ہو تو وہ (منكر نكير كے سوالوں كے جواب ميں) كہتا ہے: ميں نہيں جانتا- ميں نے لوگوں كو كچھ كہتے سنا تها اور ميں نے بهى وہى بات كہى- اسے كہا جاتا ہے كہ شك پرتوزندہ رہا، شك پر ہى تيرى موت ہوئى اور شك پر ہى تو دوبارہ اُٹهايا جائے گا-پهر اس كى قبر كے لئے جہنم كى طرف سے ايك دروازہ كهول ديا جاتا ہے اور اس پر اس قدر زہريلے بچهو اور اژدها مسلط كرديے جاتے ہيں كہ اگر ان ميں سے كوئى ايك زمين پرپهونك مار دے تو كوئى چيز پيدا نہ ہو- چنانچہ وہ بچهو اور اژدهے اسے كاٹتے رہتے ہيں- زمين كو حكم ديا جاتا ہے كہ اس پر تنگ ہوجا، چنانچہ (زمين اس پراس قدر تنگ ہوجاتى ہے كہ) اسكى ايك طرف كى پسلياں دوسرى پسليوں ميں دہنس جاتى ہيں-“ العياذ باللہ
عالم برزخ كى كيفيت
جيسا كہ گزشتہ سطور ميں بهى يہ بيان كيا جا چكا ہے كہ عالم برزخ ميں ہونے والى سارى كاروائى كا علم ہونا وحى الٰہى كے بغير ممكن نہيں جب يہ وحى الٰہى كے بغير ممكن ہى نہيں تو پهر اس ميں عقل كے گهوڑے دوڑانے كا كيا فائدہ؟لہٰذا جس قدر اللہ تعالىٰ نے اپنے نبى ﷺ كے ذريعے ہميں علم ديا ہے اس پر من وعن بغير كسى تمثيل اور تكييف كے ايمان لانا ہر مسلمان پرواجب ہے-باقى رہى اس كى مكمل كيفيت تو اس سے ہر انسان كوايك نہ ايك دن ضرور واسطہ پڑنے ہى والا ہے-(اللہ رحم كا معاملہ فرمائے)
مرتے وقت ملك الموت روح قبض كرليتے ہيں جيساكہ اللہ تعالىٰ كا ارشاد ہے:﴿قُلْ يَتَوَفّٰكُمْ مَلَكُ الْمَوْتَ الَّذِىْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ﴾(السجدہ:١١) ”كہہ ديجئے! كہ تمہيں ملك الموت فوت كرے گا جو تم پر مقرر كيا گيا ہے پهر تم سب اپنے رب كى طرف لوٹائے جاؤ گے-“
رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:
((الميت تحضر الملائكة فإذا كان الرجل صالحا قالوا اخرجى ايتها النفس الطيبة كانت فى الجسد الطيب اخرجى حميدة والبشرى بروح و ريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها حتى تخرج ثم يعرج بها الى السمآء فيفتح لها فيقال: من هذا؟ فيقولون فلان، فيقال: مرحبا بالنفس الطيبة! كانت فى الجسد الطيب،ادخلى حميدة وأبشرى بروح وريحان ورب غير غضبان فلا يزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها إلى السمآء التى فيها الله عزوجل وإذا كان الرجل السوء،قال: اخرجى ايتها النفس الخبيثة! كانت فى الجسد الخبيث- اخرجى ذميمة وابشرى بحميم و غساق،وآخر من شكله ازواج،فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج، ثم يعرج إلى السمآء فلا يفتح لها فيقال: من هذا؟ فيقال! فلان،فيقال: لا مرحبا بالنفس الخبيثة،كانت فى الجسد الخبيث ارجعى ذميمة فانها لا تفتح لك أبواب السمآء فيرسل بها من السمآء ثم تصير إلى القبر)) (ابن ماجہ، كتاب الزہد، رقم٤٢٦٢ صححہ اللالبانى)
”فرشتے روح قبض كرنے كے لئے جب مرنے والے كے پاس آتے ہيں تو نيك اور صالح ہونے كى صورت ميں فرشتے كہتے ہيں- ”اے پاك روح! تو پاك جسم ميں تهى اب تو جسم سے نكل آ، تو تعريف كے لائق ہے، اللہ كى رحمت سے خوش ہوجا، تيرے لئے جنت كى نعمتيں ہيں، تيرا رب تجھ سے راضى ہے- “ فرشتے مرنے والے كومسلسل ايسے ہى كہتے رہتے ہيں يہاں تك كہ روح جسم سے نكل آتى ہے، پهر جب روح نكل آتى ہے تو فرشتے اسے لے كر آسمان كى طرف چڑہتے ہيں، آسمان كے دروازے اس كے لئے كهولے جاتے ہيں اور پوچها جاتا ہے- ”يہ كون ہے؟“ فرشتے جواب ديتے ہيں ”يہ فلاں آدمى ہے-“جواب ميں كہا جاتا ہے- ”اس پاك روح كے لئے خوش آمديد ہے (دنيا ميں) يہ پاك جسم ميں تهى (اے پاك روح آسمان كے دروازے ميں) خوشى خوشى داخل ہوجا، تيرے لئے اللہ كى رحمت كى بشارت ہے، جنت كى نعمتوں سے خوش ہوجا، اور راضى ہونے والے رب (سے ملاقات) كى تجهے مبارك ہو-“ ہر آسمان كے دروازے سے گزرتے ہوئے اسے مسلسل يہى خوشخبرياں دى جاتى ہيں حتىٰ كہ وہ روح عرش تك پہنچ جاتى ہے- مرنے والا اگر برا آدمى ہو، تو فرشتے كہتے ہيں- ”اے خبيث روح! نكل (اس جسم سے) تو خبيث جسم ميں تهى، نكل اس جسم سے ذليل ہوكر اور بشارت ہو تجهے كهولتے پانى كى، پيپ كى اور بعض دوسرے عذابوں كى- “ فرشتے روح نكلنے تك مسلسل يہى كہتے رہتے ہيں، پهر اسے لے كر آسمان كى طرف جاتے ہيں، آسمان كا دروازہ اس كے لئے نہيں كهولا جاتا- آسمان كے فرشتے پوچهتے ہيں- ”يہ كون ہے؟“ جواب ميں كہا جاتا ہے-”يہ فلاں شخص ہے، آسمان كے فرشتے كہتے ہيں، اس خبيث روح كے لئے، جو خبيث جسم ميں تهى، كوئى خوش آمديد نہيں، اسے ذليل كركے واپس بهيج دو- “ آسمان كے دروازے ايسى خبيث روح كے لئے نہيں كهولے جاتے، چنانچہ فرشتے اسے آسمان سے نيچے پهينك ديتے ہيں اور وہ قبر ميں لوٹ آتى ہے-“
معلوم ہوا كہ موت كے وقت ملك الموت ديگر فرشتوں كے ہمراہ روح كو قبض كرتے ہيں- قبض روح كے ساتھ ہى جسم اور روح ميں جدائى واقع ہوجاتى ہے- اس دوران يہ كہنا سراسر غلط اور بے دليل ہے كہ روح اور جسم كا آپس ميں كوئى رابطہ رہتا ہے-
روح اور جسم كى جدائى كا نام موت ہے- قيامت تك انسان اسى (موت ہى كى) حالت ميں رہے گا- البتہ نكيرين كے سوالات كے وقت كچھ دير كے لئے روح كو جسم ميں لوٹا ديا جاتا ہے- دليل سے ثابت ہے جيسا كہ سيدنا براء بن عازب كى ايك مشہور حديث ميں:وتعاد روحہ فى جسدہ كے الفاظ ہيں- (ابوداود، كتاب السنة، رقم ٤٧٥٣، احمد: ٤/٢٨٧، ٢٨٨ صححہ جماعة من الحفاظ)
اس حديث كے متعلق امام ابن قيم فرماتے ہيں: هذا حديث ثابت مشهور مستفيض صححه جماعة من الحفاظ ولا نعلم أحدا من أئمة الحديث طعن فيه بل رواه فى كتبهم و تلقوه بالقبول وجعلوه اصلا من أصول الدين فى عذاب القبر و نعيمه و مسالة منكر و نكير و قبض الارواح و صعودها الى بين يدى الله ثم رجوعها الى القبر(كتاب الروح: ص٤٦)
” يہ حديث مشہور اور مستفيض ہے حفاظ حديث كى ايك جماعت نے اسے صحيح قرار ديا ہے- ہميں حديث كا كوئى ايسا امام معلوم نہيں جس نے اس پر طعن كيا ہو، بلكہ اسے ائمہ حديث نے اپنى اپنى كتب ميں لائے ہيں اور اسے قبول كركے عذاب و ثواب قبر، نكرين كے سوال و جواب، روحوں كے قبض ہونے اور اسے اللہ تعالىٰ كى طرف لے جانے اور پهر قبر ميں واپس لوٹانے كے سلسلے ميں اصول دين ميں سے ايك اصل قرار ديا ہے-“
شيخ الاسلام ابن تيميہ  فرماتے ہيں: الاحاديث متواتره على عود الروح الى البدن وقت السوال(بحواله شرح الصدور للسيوطى ص١٣٥)”سوالات كے وقت بدن كى طرف روح كے لوٹانے پر متواتر احاديث موجود ہيں-“
حافظ ابوالفرج عبدالرحمن بن احمد المعروف بابن رجب الحنبلى اس سلسلے ميں صحابہ كرام سے چند مرفوع اور موقوف روايات اور سلف كے كچھ آثار بيان كركے يوں فرماتے ہيں:فهؤلا السلف كلهم صرحوا بان الروح تعاد الى البدن عندالسوال و صرج بمثل ذلك طوائف من الفقهاء والمتكلمين من أصحابنا وغيرهم كالقاضى أبى يعلى وغيره (احوال القبور: ص٨٠)
ان سب سلف نے اس بات كى صراحت كى ہے كہ يقيناً پكى بات ہے كہ سوالات كے وقت روح كو بدن كى طرف لوٹايا جاتا ہے اسى طرح ہمارے ساتهيوں ميں سے فقہاء اور متكلمين كى جماعتوں نے بهى صراحت فرمائى ہے جيسے قاضى ابويعلى وغيرہ ہيں-
ياد رہے كہ نكيرين كے سوالات كے وقت روح كا دوبارہ جسم ميں لوٹايا جانا ايك استثنائى صورت ہے اس سے كوئى تيسرى زندگى لاز م نہيں آتى جس طرح دنيا ميں بوقت نيند روح اور جسم كى جدائى كے باوجود انسان كو زندہ ہى كہا جاتا ہے (اور نہ ہى اس سے كئى زندگياں اور كئى موتيں لازم آتى ہيں) اسى طرح عالم برزخ ميں بهى نكيرين كے سوالات كے وقت روح كے جسم ميں لوٹائے جانے كو موت ہى كہيں گے-
سوالات كے وقت اعادہ روح كا يہ مطلب بهى ہرگز نہيں كہ روح اب قيامت تك جسم ميں ہى رہے گى كيونكہ صرف سوالات كے وقت روح كا جسم ميں لوٹايا جانا نص صريح سے ثابت ہے(جيساكہ اوپر بيان ہوچكا ہے) جبكہ كاہميشہ (قيامت تك) جسم ميں رہنا ہى دليل سے ثابت نہيں- دنيا ميں روح اور جسم كااتصال ہے جسے حيات كہا جاتا ہے كوئى استثنائى صورت (جيسے نيند) اس كے لئے مضر نہيں جبكہ برزخ ميں روح اور جسم كا انفصال (جدائى) ہے جسے موت كہا جاتا ہے اس كے لئے بهى كوئى استثنائى صورت جسے نكيرين كے سوالات كے وقت روح كا اعادہ) مضر نہيں-
اسى طرح يہ بهى نہيں كہا جاسكتا كہ بوقت عذاب بهى روح كو جسم ميں لوٹايا جاتا ہے اس لئے كہ بوقت سوالات اعادہ روح نص صريح سے ثابت ہے ليكن بوقت عذاب اعادہ روح پر كتاب وسنت ميں كوئى دليل نہيں البتہ سنن ابوداؤد كى ايك روايت جس ميں ان الفاظ كا اضافہ ہے- فيصر تراباثم تعادفيه الروج تووہ مٹى بن جاتا ہے پهراس ميں روح لوٹائى جاتى ہے- (ابوداؤد، كتاب السنة، رقم ٤٧٥٣) پيش كى جاتى ہے-
ليكن ہمارے سامنے اس روايت ميں دو اشكال ہيں-
1 ابوداودكى جس روايت ميں يہ اضافہ ہے وہ مختصر ہے جبكہ مسنداحمد كى مفصل روايت ميں يہ اضافہ نہيں-
2 ان الفاظ كو امام جرير عن اعمش كہہ كر بيان كرتے ہيں اور اہل علم جانتے ہيں كہ اعمش مدلس ہيں- (ديكهيں الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين ص٤٢)
اور اگر يہ الفاظ بسند صحيح ثابت بهى ہوجائيں تو پهر بهى ديگر دلائل كو مدنظر ركهتے ہوئے ان ميں تطبيق كى يہى صورت سامنے آتى ہے كہ يہ صرف عذاب كے ابتدائى مرحلے كى بات ہے- يعنى يہ سوال جواب كے فوراً بعد ابتدائى دو ضربوں كے وقت كامعاملہ ہے- والله أعلم بالصواب وعلمه أتم وأكمل
امام ابن كثير فرماتے ہيں:
وهم يدخلون جهنم من يوم مماتهم بأرواحهم وينال أجسادهم فى قبورها من حرها وسمومها فإذا كان يوم القيمة مسلكت أرواحهم فى أجسادهم دخلات فى نارجهنم (تفسيرابن كثير:٤/٤٠ بيروت)
”ان (كافروں) كوموت كے دن ہى سے ارواح كے ساتھ دوزخ ميں داخل كيا جاتا ہے اور قبروں ميں ان اجساد كوجہنم كى آگ اور گرم ہوا پہنچتى رہتى ہے پهر جب قيامت قائم ہوگى تو ان كى ارواح كو ان كے اجسام كے ساتھ جوڑ كر ہميشہ كے لئے جہنم كى آگ ميں داخل كردياجائے گا-“
صحيح مسلم اورديگر كتب احاديث ميں يہ روايت بهى موجود ہے كہ ميدان بدر ميں جب اللہ نے مسلمانوں كو فتح سے ہمكنار فرمايا تو رسول اللہﷺ نے كفار كے مقتولين كى لاشوں كو بدر كے ايك كنويں ميں پهينكنے كا حكم ديا پهر آپ ان لاشوں كے پاس گئے تو فرمايا: (( يا فلان بن فلان و يا فلان بن فلان هل و جدتم ما وعدكم الله ورسوله حقا فانى قد و جدت ماوعدنى الله حقا)) (مسلم، كتاب الجنةو نعيمها، رقم :٧٢٢٢)
”اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں، كيا تم نے اللہ اور اس كے رسول كے كئے ہوئے وعدے كو سچا پاليا؟ كيونكہ ميں نے تو اللہ تعالىٰ كے كئے ہوئے وعدے كو سچا پاليا ہے، سيدنا عمر فاروق جو پاس ہى كهڑے تهے فرمانے لگے، يارسول اللہﷺ كيف تكلم اجساد الا أرواح فيها- اے اللہ كے رسول آپ ان جسموں سے كيسے كلام كررہے ہيں جن ميں روحيں نہيں ہيں- تو آپ نے عمر كى يہ بات سن كر يہ نہيں فرمايا كہ ان ميں روحيں موجود ہيں يا ان اجسام كے ساتھ روحوں كا كوئى تعلق ہے- فقط يہ فرمايا كہ: ”ميں جو كچھ كہہ رہا ہوں تم اس كو ان سے زيادہ سننے والے نہيں ہو، البتہ وہ صرف ميرى بات كا جواب دينے كى طاقت نہيں ركهتے يعنى اگرچہ ان ميں روحى نہيں ہيں ليكن ميرى ان باتوں كو وہ تم سے زيادہ سن رہے ہيں-
اس روايت ميں حضرت عمر كے الفاظ كيف تكلم أجساد الارواح فيها سن كر آپ ﷺ كا اس سے انكار نہ كرنا بهى اس بات كى دليل ہے كہ قبر ميں صرف جسم ہوتا ہے جو عذاب ميں مبتلا رہتا ہے روح جہنم ميں سزا بهگتى رہتى ہے-
عالم برزخ كے متعلق جو باتيں وحى الٰہى سے ثابت ہيں ان ميں سے چند ايك ذيل ميں ہم بيان كرتے ہيں:
مرنے كے ساتھ ہى نيك بندوں كى روح جنت ميں چلى جاتى ہے:
1 سيدنا سمرہ بن جندب كى طويل حديث (جس كا بعض حصہ گذشتہ اوراق ميں گزر چكا ہے) جس ميں نبىﷺ نے اپنا خواب بيان فرمايا اس حديث كے آخر ميں يہ بهى ہے كہ آپ1 كو جنت ميں اپنا گهر بهى دكهايا گيا آگے كے الفاظ كچھ اس طرح ہيں: ((فارفع راسك فرفعت راسى فاذا فوقى مثل اسحاب قالا ذاك منزلك فقلت دعانى ادخل منزلى قالا انه بقى لك عمر لم تستكمله فلو استكملت اتيت منزلك)) (بخارى رقم ١٣٨٦)
”جبرئيل عليہ السلام نے كہا: ذرا اپنا سر اوپر اٹهائيے (آپ نے فرمايا) ميں نے جو اپنا سر اٹهايا تو كيا ديكهتا ہوں كہ ميرے اوپر بادل كى مانند كوئى چيز ہے- دونوں (فرشتوں) نے كہا كہ يہ آپ كا مكان ہے اس پر ميں(نبىﷺ) نے كہا مجهے چهوڑ دو تاكہ ميں اپنے گهر ميں داخل ہوجاؤں انہوں نے كہا ابهى آپ كى كچھ عمر باقى ہے جو آپ نے پورى نہيں كى اگر وہ آپ پورى كرليتے تو اپنے مكان ميں آجاتے- “
اس حديث ميں نبىﷺ اور ديگر انبياء كرام كى ارواح كا جنت ميں ہونا معلوم ہوتا ہے يہ ظاہر ہے كہ اب آپﷺ اپنى وہ بقيہ زندگى پورى كرچكے ہيں-
2 جناب سروق كہتے ہيں كہ ہم نے جناب عبداللہ بن مسعود سے اس آيت كے بارے ميں سوال كيا:﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِىْ سَبِيْلِ الله أمْوَاتًا بَلْ اَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهمْ يُرْزَقُوْنَ﴾(آل عمران:١٦٩) ”جو لوگ اللہ كى راہ ميں قتل كرديئے جائيں انہيں مردہ مت سمجهو بلكہ وہ تو اپنے رب كے پاس زندہ ہيں وہ رزق بهى ديئے جاتے ہيں“
سيدنا عبداللہ بن مسعود بيان كرتے ہيں كہ ہم نے اس آيت كے بارے ميں رسول اللہﷺسے پوچها تو آپﷺ نے فرمايا: ”شہداء كى روحيں سبز پرندوں كے قالب ميں ہيں، ان كے لئے عرش الٰہى ميں كچھ قنديليں لٹكتى ہيں، يہ روحيں جنت ميں جہاں چاہيں سير كرتى پهرتى ہيں، پهر ان قنديلوں ميں واپس آجاتى ہيں- ان كے رب نے ان كى طرف ديكها اور پوچها:كيا تمہيں كسى چيز كى خواہش ہے؟ تو انہوں نے كہا ہميں كسى چيز كى خواہش نہيں، ہم تو جہاں چاہيں سير كرتى پهرتى ہيں- اللہ تعالىٰ نے ان سے تين بار يہى سوال كيا- جب انہوں نے ديكها كہ اب جواب ديئے بغير كوئى چارہ نہيں- تو كہا: اے پروردگار! ہم يہ چاہتے ہيں كہ تو ہمارى روحيں واپس (دنيا ميں) لوٹا دے تاكہ ہم تيرى راہ ميں پهر جہاد كريں اور پهر شہيد ہوں- (صحيح مسلم، رقم ١٨٨٧)
3 سيدنا حارث بن سرقہ كى والدہ نبى كريمﷺ كى خدمت ميں حاضر ہوكر عرض كرنے لگى- اے اللہ كے نبى حارثہ كے بارے ميں بهى مجهے كچھ بتائيں جو بدر كى لڑائى ميں ايك نامعلوم سمت سے آنے والے تير كے لگنے سے شہيد ہوگئے تهے كہ اگر وہ جنت ميں ہے تو ميں صبر كرلوں اور اگر وہ كہيں اور ہے تو اس كے لئے خوب اچهى طرح رو تو لوں آپ نے فرمايا: اے اُم حارثہ جنت كے بہت سے درجے ہيں- ((وان ابنك أصاب الفردوس الاعلىٰ)) ”بيشك تيرے بيٹے كو فردو س اعلىٰ ميں جگہ ملى ہے-“ (بخارى، رقم ٢٨٠٩)
4سيدنا كعب بن مالك سے مروى ہے كہ رسول اللہﷺ نے فرمايا: ((إنما نسمة المومن طير يعلق فى شجر الجنة حتى يرجعه الله إلى جسده يوم يبعثه)) (موطا امام مالك، كتاب الجنائز ،رقم ٥٦٦ صححہ البانى)
”بے شك مومن كى روح ايك پرندہ كى طرح ہوتى ہے جنت كے درخت سے كهاتى ہے يہاں تك كہ اللہ تعالىٰ پهر اس كو لوٹا دے گا اس كے بدن كى طرف جس دن اس كو اٹهائے گا (يعنى قيامت كے دن)-“
اس حديث سے عام مومنين كى ارواح كا قيامت تك جنت ميں ہونا ثابت ہوا-
اس قسم كى اور بے شمار ادلہ موجود ہيں جن سے يہ بات ظاہر ہوتى ہے كہ مرنے كے بعد نيك لوگوں كى ارواح جنت ميں چلى جاتى ہے جبكہ اس كے برعكس بُرے لوگوں كى ارواح جہنم ميں ہوتى ہيں-
٥- سيدنا ابوہريرہ سے مروى ہے كہ آنجنابﷺ نے فرمايا:
((لقد رايت رجلا يتقلب فى الجنة فى شجرة قطعها من ظهر الطريق كانت توذى الناس)) (مسلم، رقم ١٩١٤)
”ميں نے ايك شخص كو جنت ميں ديكها كہ وہ جنت ميں مزے اڑا رہا تها محض اس بناء پر كہ اس نے راستہ سے ايك درخت كاٹ كر پهينك ديا تها جو لوگوں كو تكليف ديتا تها-“
سيدہ عائشہ سے مروى ہے كہ رسول اللہﷺ نے فرمايا: (رأيت جهنم يحطم بعضها بعضا ورأيت عمرا يجر قصبه وهو أول من سيب السوائب))
”ميں نے جہنم كو ديكها كہ اس كا بعض حصہ بعض كو كها رہا ہے اور ميں عمرو بن عامر خزاعى كو بهى ديكها كہ وہ اپنى آنتيں اس ميں گهسيٹتا پهر رہا ہے يہى وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے بتوں كے نام پرجانور چهوڑنے كى رسم ايجاد كى تهى- (بخارى رقم ٤٦٢٤)
اسى طرح سيدنا سمرہ بن جندب والى طويل روايت بهى ياد ركهنى چاہئے جس ميں رب العالمين نے اپنے نبى كو برزخى عذاب كى جهلك دكهائى ہے-
جسم قيامت تك زيرزمين قبر ميں عذاب يا راحت ميں مبتلا رہے گا اس پر بهى بے شمار دلائل كتاب و سنت ميں موجود ہيں ليكن ہم صرف چند ايك كے بيان پر ہى اكتفا كريں گے:
((إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشى إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة وإن كان من أهل النار فمن أهل النار فيقال هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة)) (صحيح بخارى رقم ١٣٧٩)
”جب تم ميں سے كوئى شخص مرجاتا ہے تو اس كاٹهكانا اسے صبح و شام دكهايا جاتا ہے - اگر وہ جنتى ہے تو جنت والوں ميں، اور اگر وہ دوزخى ہے تو دوزخ والوں ميں- پهر كہا جاتا ہے كہ يہ تيرا ٹهكانا ہے، يہاں تك كہ قيامت كے دن اللہ تعالىٰ تجهے اٹهائے گا-“
اسى طرح ايك اور حديث ميں ہے كہ سوال و جواب ميں كامياب ہونے كے بعد مومن كو قبر ميں كہا جاتا ہے:
((نم كنومة العروس لا يو قظه الا أحب اهله اليه حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك))(ترمذى رقم ١٠٧١ حسنہ البانى)
”سوجا! نئى نويلى دلہن كى طرح، كہ جسے اس كے گهر والوں ميں سے سب سے زيادہ محبوب ہستى (خاوند) كے علاوہ اور كوئى نہيں جگاتا، حتىٰ كہ اللہ تعالىٰ ہى اسے (روزقيامت) جگائے گا-“
اسى طرح احاديث ميں آتا ہے كہ قبر ميں جنت كى طرف سے ايك كهڑكى كهول دى جاتى ہے، ميت كو جنت كا لباس پہنا ديا جاتا ہے اور اس كے نيچے جنت كا بچهونا بچها ديا جاتا ہے- (مستدرك الحاكم كتاب الايمان ١/٣٨)
ان تمام دلائل سے واضح طور پر ثابت ہوتاہے كہ مردے كا جسم قيامت تك اسى زمين قبرميں بهى ثواب يا عذاب ميں مبتلا رہے گا-
خلاصہ كلام
1اس سارى بحث كاحاصل يہ ہے كہ عذاب قبر برحق ہے اس پر ايمان لاناواجب اور اس كا انكار كفر ہے-
2موت كے ساتھ ہى روح اور بدن ميں انفصال ہو جاتا ہے جو قيامت تك باقى رہے سوالات كے وقت قبر ميں اعادہ روح كى صورت استثنائى ہے جس سے كوئى تيسرى زندگى لازم نہيں آتى-
3روح كا قبر ميں جسم كے اندر قيامت تك موجود رہنا كسى صحيح صريح دليل سے ثابت نہيں نيز اس سے ديگر صريح دلائل كا انكار لازم آئے گا-
4برزخى معاملات كا تعلق امور آخرت سے ہے جنہيں ہمارى عقليں سمجهنے سے قاصر ہيں اور نہ ہى انہيں دنيا معاملات پر قياس كياجا سكتا ہے-
5قيامت كے دن ہى روح كو دوبارہ اس كے جسم ميں لوٹايا جائے گااور پهر حسب ِاعمال جنت يا جہنم مقدر بنے گى-
”يہ حديث ثابت مشہور اور مستفيض ہے حفاظ حديث كى ايك جماعت نے اسے صحيح قرار ديا ہے ہميں حديث كا كوئى ايسا امام معلوم نہيں جس نے اس پر طعن كيا ہو بلكہ اسے ائمہ حديث اپنى اپنى كتب ميں لائے ہيں اور اسے قبول كركے عذاب و ثواب قبر و منكر و نكير كے سوال و جواب، روحوں كے قبض ہونے اور اسے اللہ تعالىٰ كى طرف لے جانے اور پهر قبر ميں واپس لوٹانے كے سلسلے ميں اصل دين ميں سے ايك اصل قرار ديا ہے-“
ہمارے استاد محترم جناب ڈاكٹر ابوجابر عبداللہ دامانوى فرماتے ہيں:
مرنے كے بعد قبر كے سوال و جواب كو بنيادى حيثيت حاصل ہوتى ہے كيونكہ انہى سوالوں پر مرنے والے كے مستقبل كا فيصلہ ہوتا ہے اگر وہ نيك ہوتو اس كے لئے جنت جبكہ نافرمان كے لئے جہنم كا فيصلہ ہوجاتا ہے- شايد يہى وجہ ہے كہ اس اہم موقع پر قبر ميں روح كو بهى لوٹايا جاتاہے- قبر كے سوال و جواب كے بعد روح جنت ياجہنم ميں داخل كردى جاتى ہے اور ميت قبر ميں ہوتى ہے دونوں روح اور جسم كو اپنى اپنى جگہ يا راحت و لذت مل رہى ہے يا وہ عذاب ميں مبتلا رہتے ہيں روح كو جو عذاب ہوتا ہے اسے عذاب جہنم كہتے ہيں اور ميت (جسم) كو جو عذاب ہوتا ہے اسے عذاب قبر كہتے ہيں- نبى ﷺ نے دونوں عذابوں سے پناہ مانگى ہے- عذاب قبر سے بهى اور عذاب جہنم سے بهى بلكہ امت كو بهى نماز ميں ان عذابوں سے پناہ مانگنے كى تلقين فرمائى ہے-عذاب قبر قيامت تك جارى رہے گى جب قيامت برپا ہوگى تو عذاب قبر ختم ہوجائے گا البتہ عذاب جہنم ہميشہ باقى رہے گا جس ميں پهر روح اپنے بدن سميت سزا بهگتے گى- العياذ باللہ-
علامہ ابن كثير فرماتے ہيں:
وهم يدخلون جهنم من يوم مماتهم بارواحهم وينال اجسادهم فى قبورها من حرها و سمومها فاذا كان يوم القيمة مسلكت ارواحهم فى اجسادهپم دخلات فى نار جهنم(تفسير ابن كثير :٤/٤٠ بيروت)
”ان (كافروں) كو موت كے دن ہى سے ارواح كے ساتھ دوزخ ميں داخل كيا جاتا ہے اور قبروں ميں ان اجساد كو جہنم كى آگ اور گرم ہوا پہنچتى رہتى ہے پهر جب قيامت قائم ہوگى تو ان كى ارواح كو ان كے جسموں كے ساتھ جوڑ كر ہميشہ كے لئے جہنم كى آگ ميں داخل كرديا جائے گا-“
كيا قبر ميں ميت كو عذاب نہيں ہوتا؟
سطور بالا ميں ہم كتاب و سنت كى روشنى ميں يہ ثابت كرآئے ہيں كہ مرنے كے بعد روح اور جسم دونوں عذاب ميں مبتلا رہتے ہيں تاہم اس كے باوجود بهى بعض حضرات بڑے شدمد كے ساتھ يہ كہتے ہيں كہ عذاب صرف روح كو ہوتا ہے ميت كے جسم كو عذاب نہيں ہوتا ذيل ميں ہم اختصار كے ساتھ ان كے نظريے كا جائزہ ليتے ہيں-
سب سے پہلے اس مسئلے كو سمجهنا ضرورى ہے كہ منكرين عذاب قبر دو طرح كے ہيں:
١- وہ جوبالكليہ عذاب قبر كے منكر ہيں ان كا نظريہ يہ ہے كہ مرنے كے بعد روح اور جسم كو كوئى عذاب نہيں ہوتا قيامت كے دن ہى عذاب ہوگا، قيامت كے قبل كوئى عذاب نہيں- ان حضرت كے ردّ ميں ان سطور كا راقم ايك مكمل كتاب ”عذاب قبر“ كے نام سے لكھ چكا ہے جو الحمدللہ حال ہى ميں مكتبہ اسلاميہ اردو بازار لاہور كى جانب سے شائع ہوچكى ہے- وللہ الحمد اس كتاب ميں ہم نے رب العالمين كى توفيق سے اس قسم كے منكرين عذاب قبر كے ہر قسم كے اعتراضات اور بناوٹى اصولوں كا دندان شكن جوابات ديئے ہيں- قارئين كے مطالعے كے لئے نہايت مفيد ہے-
٢- وہ جو قبر ميں ميت كے جسم كو ملنے والے عذاب كا انكار كرتے ہيں ان كى بهى آگے دوقسميں ہيں-
(1)جو كہتے ہيں كہ برزخ ميں روح كو ايك نيا جسم ديا جاتا ہے اور پهر اس جسم ميں روح كو عذاب ہوتا ہے يعنى اس دنياوى جسم كو عذاب نہيں ہوتا بلكہ برزخ ميں ايك نئے جسم سميت روح كو عذاب ہوتاہے - يہ حضرات كہتے ہيں-
يہ دنياوى جسم گل سڑ جاتا ہے-
يہ دنياوى جسم ہمارى آنكهوں كے سامنے ہوتا ہے اگر اسے عذاب ہوتا ہے تو پهر ہميں نظر كيوں نہيں آتا يہ اس جسم كو بسااوقات درندے، پرندے كهاجاتا ہيں يا آگ ميں جل كر راكھ بن كر ہواؤں ميں اُڑ جاتا ہے تو عذاب كيسے ہوا-؟
نيز اس طرح كے اور بے تكّے اعتراضات كرتے ہيں ان سب كے ہم نے جوابات اپنى كتاب ”عذاب قبر“ ميں دے ديئے ہيں اس بحث سے يہ سطور قاصر ہيں تاہم ايك بات ضرور ان پوچهنى چاہئے وہ يہ كہ كيا يہ ٹهيك ہے كہ ”كرے كوئى اور بهرے كوئى؟“ يعنى جرم كوئى كمائے جبكہ سزا كسى اور كوملے، گناہ كى لذت يہ جسم اٹهائے جب سزا كى بارى آئے تو اسے چهوڑ كر برزخى جسم پيش كرديا جائے يہ كہاں كا انصاف ہے -
(2)وہ جو برزخى جسم كے تو قائل نہيں ہاں روح كو ہونے والے عذاب كو مانتے ہيں بالفاظ ديگر قبر ميں ميت كو ملنے والے عذاب كا انكار كرتے ہيں اور روح كو ہونے والے عذاب كو مانتے- اسى كو وہ عذاب قبر سے تعبير كرتے ہيں جبكہ يہ نظريہ بهى صحيح نہيں كيوں؟
اس لئے كہ حيات دنياوى ميں نيكى اور بدى كا ارتكاب روح اور بدن كے باہمى اتصال سے عمل ميں آتا ہے- روح بدن كے بغير كوئى كام نہيں كرسكتى اسى طرح خالى بدن بهى روح كے بغير كوئى كام نہيں كرسكتا بلكہ يہ دونوں مل كر بدى يا نيكى كو وجود ميں لاتے ہيں لہٰذا جب نيكى يا بدى روح اور بدن كے باہمى اشتراك سے وجود ميں آئے ہے تو عدل و انصاف كا تقاضا بهى يہى ہے كہ جزا وسزا بهى دونوں كو ملے يہ نہيں كہ صرف روح كو ہى جزا يا سزا دى جائے اور بدن كو يونہى چهوڑ ديا جائے-دوسرى بات يہ كہ اگر عذاب قبر صرف روح پر ہى واقع ہوتا تو پهر اس عذاب كو قبر كى طرف منسوب نہ كيا جاتا كيونكہ قبر ميں تو صرف بدن ہى دفن كيا جاتا ہے روح كو تو دفن ہى نہيں كيا جاتا-
اسى طرح بے شمار احاديث سے بهى ثابت ہے كہ بدن بهى عذاب ميں مبتلا رہتا ہے-مثلاً سيدنا ابوہريرہ سے مروى ايك لمبى حديث ميں ہے كہ آپ1 نے مومن كا سفر آخرت بيان كيا اور پهر كافر كا سفر بيان كركے آخر ميں فرمايا: ثم يقيض عليه قبره حتى تختلف فيه اضلاعه- پهر اس كافر پر اس كى قبر تنگ كردى جاتى ہے يہاں تك كہ اس كى ايك طرف كى پسلياں دوسرى طرف كى پسليوں ميں دہنس جاتى ہيں- (صحيح ابن حبان كتاب الجنائز رقم ٣١٠٣ حسنہ البانى)
يہاں ان صفحات ميں بوجہ طوالت مضمون صرف ايك ہى مثال پر اكتفا كيا جارہا ہے ورنہ كتاب و سنت ميں آپ كى اس طرح كى اور بهى امثلہ مل جائيں گى-
امام ابن قيم فرماتے ہيں:
بل العذاب والنعيم على النفس والبدن جميعا باتفاق اهل السنة والجماعة (كتاب الروح:ص٤٩)
”اہل سنت والجماعت كا اتفاق ہے كہ برزخ ميں عذاب و راحت روح اور بدن دونوں پر وارد ہوتى ہے-“
علامہ جلال الدين سيوطى رقم طراز ہيں:
ومحله الروح والبدن جميعا باتفاق اهل السنة وكذا القول فى النعيم (شرح الصدور ص١٦٤ بيروت)
”اور اس (عذاب) كا محل باتفاق اہل سنت روح اور بدن دونوں ہيں جبكہ راحت اور لذت ميں بهى اہل سنت كا ہى قول ہے-“
(تحریر محمدارشدکمال)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اللہ تعالیٰ محمد اَرشد کمال بھائی کو ... جو ہمارے نہایت قابل قدر ساتھی اور جامعہ رحمانیہ کے قابل فخر طلبہ میں سے ہیں ... یہ تحقیقی مضمون لکھنے پر اور کلیم اللہ حیدر بھائی کو شیئر کرنے پر جزائے خیر عطا فرمائیں!
اور ہم سب کو قبر اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھیں!
:'-(
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top