• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہِ حیات فی القبور و حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی القبر ( حصہ سوئم)

شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
اسلام علیکم ! الحمد اللہ میں حیات فی القبور کے سلسے میں دو حصے پیش کر چکا ہوں ۔۔ ایک حصہ عقائد و نظریات پر ۔۔ اور دوسرا حصہ وفات الانبیاء علیہم السلام پر !!

اب تیسرا حصہ میں یہاں پیش کر رہا ہوں ۔۔۔
"نفیِ اعادہِ روح "


جیسا کہ میں نے پہلے حصے میں بیان کیا تھا کہ ہمارے فریقین کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہر انسان ، چاہے نبی ہو یا غیر نبی ، بشمولِ مشرکین و کفار ، سب کی طرف ان کی ارواح لوٹا دی جاتی ہیں قیامت سے پہلے ، انہیں قیامت سے پہلے ہی قبر میں زندہ کر دیا جاتا ہے ۔۔

جبکہ اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ " قدرت کا اصول اور قانون یہ ہے کہ جس کی روح بوقتِ موت جسدِ عنصری سے نکل گئی تو وہ عادۃً واپس اس جسم میں نہیں لوٹائی جاتی، صرف قیامت میں ، نفخئہِ ثانیہ کے وقت ، جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تب ارواح کی واپسی ہو گی اور تب ہی مردوں کو زندہ کیا جائے گا "

اب اس پر میں کچھ دلائل پیش کروں گا ۔۔ جتنی میری تحقیق ہے ۔۔!!

قرآن سے دلائل :

آیت نمبر1 : سورۃ زمر آیت زمر 42

اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ

اللہ ہی سب کی روحیں قبض کرتا ہے ان کی موت کے وقت اور ان کی بھی جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا ہوتا ان کی نیند (کی حالت) میں پھر ان جانوں کو تو وہ روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہوتا ہے اور دوسری جانوں کو وہ چھوڑ دیتا ہے ایک مقررہ مدت تک بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ف۳

I)اللہ ھی قبض کرتا ھے ان جانوں کو جن کا وقت موت آگیا ھے۔ان کی موت کے وقت ،اور ان جانوں کو بھی کہ جن کی موت نہیں آئی ان کے سونے کے وقت ،کہ حیات رہتی ھے ادراک نہیں رہتا،اور موت میں دونوں چیزیں نہیں رہتیں۔جن پر موت کا حکم آچکا ہو ان کی روحوں کو جسم میں آنے سے روک لیتا ھے اور جن کی موت کا وقت نہیں آیا ایک معیاد تک رہا کر دیتا ھے کہ بدن میں تصرف کرنے لگتی ھیں۔

بیان القران ۔ سورۃ زمر ۴۲

Ii) اللہ ھی قبض کرتا ھے ان جانوں کو جن کا وقت موت آگیا ھے۔ ان جانوں کو بھی جن کو موت نھیں آئی ۔ اور جن کو موت نھیں آئی ان میں ایک حیثت حیات کی باقی رہ جاتی ھے مگر ادراک نہیں رہتا،موت کی صورت میں نہ ادراک رھتا ھے نہ حیات۔پھر اس معطل کے بعد جن پر موت کا حکم فرما چکا ھے ان جانوں کو روک لیتا ھے،اور باقی جانوں جو نیند کی وجہ سے معطل ہوئی تھیں ان کی موت کا وقت نہیں آیا ایک مدت معین کے بعد واپس بدن میں بدستور سابق تصرفات کرنے لگتی ھیں۔۔۔ـ

تفسیر معارف القران ص ۵۶۱ ج ۷

Iii) اللہ جانوں کو قبض کرتا ھے۔ان کی موت کے وقت اس سلب روح میں نہ حیات جسمانی باقی رہتی ھے ،نہ شعور نہ ادراک۔اور ان جانوں کو بھی جن کی موت نہیں آئی ان کے سونے کے وقت ،مگر یہ سلب روح صرف جزوئی ہوتا ھے جس سے حیات جسمانی جوں کی توں رھتی ھے لیکن شعور باقی نہیں رہتا۔پھر وہ ان جانوں کو تو روک لیتا ھے جن پر موت کا حکم ھو چکا ھو اور باقی روحیں ایک معیاد معین کے بعد بدستور تصرفات جسمی میں مصروف ھو جاتی ھیں۔۔۔۔

تفسیر ماجدی۔سورۃ زمر ۴۲

سید نعمان آلوسی رحمہ اللہ علی فرماتے ہیں کہ جسموں سے روح کا قبض کیا جانا دو صورتوں میں آ رہا ہے ۔ایک ہے موت کے وقت اور ایک ہے نیند کے وقت۔ روح کا تعلقِ تصرف بدن سے ختم ہو جاتا ہےموت کے وقت ظاہر سے بھی اور باطن سے بھی ۔ اور حالتِ نیند میں تعلق ظاہری ختم ہوتا ہے باطنی نہیں ۔

تفسیر روح المعانی )بیروتی) جز 24 صفحہ 358


بہت سے مفسرین حضرات نے لکھا اسی آیت کی تفسیر میں کہ موت کے وقت جو روحیں قبض کر لی جاتیں ہیں وہ روک لی جاتیں واپس نہیں کی جاتیں صرف قیامت کے روز ہی اعادہ ارواح ہو گا۔

تفسیر خارزن جلد 4 صفحہ 57
تفسیر رازی جلد 7 صفحہ 266
تفسیر ابوالسعود جلد 2 صفحہ 462
معالم التنزیل صفحہ 776 (فلا یردھا الی الجسد)
تفسیر تبصیر الرحمان جلد 2 صفحہ 218 ( ۔۔۔ الی یوم القیمہ ۔ قیامت کے روز ہی وپس لوٹائی جائیں گی)
تفسیر مظہری جلد 8 صفحہ 218 (ولا یر دھا الی البدن حتٰی ینفخ نفخہ البعث ۔ ان اجسام کیطرف ارواح واپس نہیں لوٹائی جاتیں جب تک قیامت کا وقت نہ آجائے 'نفخہ ثانیہ' ۔۔)
تفسیر محاسن التاویل للقاسمی صفحہ 5143 ( ای فلا یردھا بدنھا الی یوم القیمۃ۔۔۔ قیامت کے دن ہی ارواح واپس لوٹائی جائیں گی)

یہاں کتنا صاف ارشاد کر دیا گیا ہے کہ جن پر موت آئی ان کی ارواح کے لیئے "امساک" ہے ۔۔۔ فَیُمۡسِکُ
۔۔
آیت نمبر2: سورۃ واقعہ آیت 43-94

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ 83۝ۙوَاَنْتُمْ حِيْـنَىِٕذٍ تَنْظُرُوْنَ 84۝ۙوَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ 85؀فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْنِيْنَ 86۝ۙتَرْجِعُوْنَهَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 87؀فَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ 88۝ۙفَرَوْحٌ وَّرَيْحَانٌ ڏ وَّجَنَّتُ نَعِيْمٍ 89؀وَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ 90۝ۙفَسَلٰمٌ لَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ 91۝ۭوَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِيْنَ الضَّاۗلِّيْنَ 92۝ۙفَنُزُلٌ مِّنْ حَمِيْمٍ 93۝ۙوَّتَصْلِيَةُ جَحِــيْمٍ 94 ؀

پھر کس لیے روح کو روک نہیں لیتے جب کہ وہ گلے تک آ جاتی ہے۔ اورتم اس وقت دیکھا کرتے ہو۔ اور تم سے زیادہ ہم اس کے قرب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے۔ پس اگر تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے۔ تو تم اس روح کو کیوں نہیں لوٹا دیتے اگر تم سچے ہو۔ پھر اگر وہ مرنے والا مقربین میں سے ہوگا۔ تو (اس کے لیے) راحت اور خوشبو میں اور عیش کی باغ ہیں۔ اور اگر وہ داہنے والوں میں سے ہے۔ تو اے شخص تو جو داہنے والوں میں سے ہے تجھ پر سلام ہو۔ اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے۔ تو کھولتا ہوا پانی مہمانی ہے۔ اور دوزخ میں داخل ہونا ہے۔

پھر کس لیے روح کو روک نہیں لیتے جب کہ وہ گلے تک آ جاتی ہے ۔اورتم اس وقت دیکھا کرتے ہو کس طرح روح کا نزول ھو رہا ھے۔اور تم سے زیادہ ہم اس کے قرب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے کہ ھم کس قدر قریب ھیں۔تو اے منکرو اگر تم خدا کی باتوں کو جھٹلاتے ھو اور تم کسی کے قابو میں نہیں ھو تو کیوں نھیں تم یس روح کو پھیر لیتے اگر تم سچے ہو کہ یہ روح جو بدن سے پرواز کر رھی ھے اس کو بدن کی طرف لوٹا دو،اور یہ ظاھرھے کہ دنیا کی کوئی طاقت جان نکلنے کے بعد دوبارہ روح کو نہیں لوٹا سکتی ۔۔ھر ایک کو اس کی عمل کا بدلہ ضرور ملے گا۔۔۔اگر یہ ٱلۡمُقَرَّبِين (انبیاء،اولیاء،صدیقین،کامل متقی) میں سے ھے تو راحت ھی راحت،آرام ھی آرام ھے۔اگر وَأَمَّآ إِن كَانَ مِنۡ أَصۡحَـٰبِ ٱلۡيَمِين ، أَصۡحَـٰبِ ٱلۡيَمِين میں سے ھے تو تب بھی جنت کی نعمتیں ھیں۔ اگر وَأَمَّآ إِن كَانَ مِنَ ٱلۡمُكَذِّبِينَ ٱلضَّآلِّينَ ، مکذبین میں سے ھے تو مرتے ھی عذاب کی سختیاں شروع ھو جائیں گی۔
تفسیر معارف القران ص ۱۱۵ ج ۷


یہاں وہ احوال بیان ہو رہے ہیں جو موت کے وقت سکرات کے وقت دنیا کی آخری ساعت میں انسانوں کے ہوتے ہیں کہ یا تو وہ اعلیٰ درجہ کا اللہ کا مرقب ہے یا اس سے کم درج کا ہے جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا ۔ یا بالکل بدنصیب ہے جو اللہ سے جاہل رہا اور راہ حق سے غافل رہا ۔ فرماتا ہے کہ جو مقربین بارگاہ الٰہی ہیں، جو احکام کے عامل تھے، نافرمانیوں کے تارک تھے انہیں تو فرشتے طرح طرح کی خوشخبریاں سناتے ہیں ۔ جیسے کہ پہلے براء کی حدیث گذری کہ رحمت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں اے پاک روح پاک جسم والی روح چل راحت و آرام کی طرف چل کبھی نہ ناراض ہونے والے رحمن کی طرف ۔ روح سے مرد راحت ہے اور ریحان سے مراد آرام ہے۔ غرض دنیا کے مصائب سے راحت مل جاتی ہے ابدی سرور اور سچی خوشی اللہ کے غلام کو اسی وقت حاصل ہوتی ہے وہ ایک فراخی اور وسعت دیکھتا ہے اس کے سامنے رزق اور رحمت ہوتی ہے وہ جنت عدن کی طرف لپکتا ہے۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں جنت کی ایک ہری بھری شاخ آتی ہے اور اس وقت مقرب اللہ کی روح قبض کی جاتی ہے۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں مرنے سے پہلے ہی ہر مرنے والے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی ہے (یا اللہ ! ہمارے اس وقت میں تو ہماری مدد کر ہمیں ایمان سے اٹھا اور اپنی رضامندی کی خوشخبری سنا کر سکون و راحت کے ساتھ یہاں سے لے جا آمین) گو سکرات کے وقت کی احادیث ہم سورہ ابراہیم کی آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ 27؀ۧ) 14-ابراھیم:27)، کی تفسیر میں وارد کر چکے ہیں لیکن چونکہ یہ ان کا بہترین موقعہ ہے اس لئے یہاں ایک ٹکڑا بیان کرتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ حضرت ملک الموت علیہ السلام سے فرماتا ہے میرے فلاں بندے کے پاس جا اور اسے میرے دربار میں لے آ میں نے اسے رنج راحت و آرام تکلیف خوشی نا خوشی غرض ہر آزمائش میں آزما لیا اور اپنی مرضی کے مطابق پایا بس اب میں اسے ابدی راحت دینا چاہتا ہوں جا اسے میرے خاص دربار میں پیش کر۔ ملک الموت پانچ سو رحمت کے فرشتے اور جنت کے کفن اور جنتی خوشبوئیں ساتھ لے کر اس کے پاس آتے ہیں گو ریحان ایک ہی ہوتا ہے لیکن سرے پر بیس قسمیں ہوتی ہیں ہر ایک کی جداگانہ مہک ہوتی ہے سفید ریشم ساتھ ہوتا ہے جس میں مشک کی لپٹیں آتی ہیں، الخ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت فروح رے کے پیش سے تھی۔ لیکن تمام قاریوں کی قرأت رے کے زبر سے ہے یعنی فروح مسند میں ہے حضرت ام ہانی نے رسول مقبول علیہ السلام سے پوچھا کیا مرنے کے بعد ہم آپس میں ایک دوسرے سے ملیں گے؟ اور ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا روح ایک پرند ہو جائے گی جو درختوں کے میوے چگے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہو اس وقت اپنے اپنے جسم میں چلی جائیگی، اس حدیث میں ہر مومن کے لئے بہت بڑی بشارت ہے۔ مسند احمد میں بھی اس کی شاہد ایک حدیث ہے جس کی اسناد بہت بہتر ہے اور متن بھی بہت قوی ہے اور صحیح روایت میں ہے شہیدوں کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں، ساری جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی رہتی ہیں اور عرش تلے لٹکی ہوئی قندیلوں میں آ بیٹھتی ہیں۔

تفسیر ابن کثیر از سورۃ واقعہ آیت نمبر 83 تا 94

آیت نمبر 3: سورۃ فجر آیت 27-30

ٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ 27؀ڰارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً 28؀ۚفَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ 29؀ۙ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ 30؀ۧ


ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح۔ اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں شامل ہو۔ اور میری جنت میں داخل ہو۔

I-ترجمہ و تفسیر مولانا عبدالماجددریابادی رحمہ اللہ علیہ۔۔ اے اطمینان والی روح۔! اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش پھر تو میرے خاص بندوں میں شامل ھو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔یہ بشارت ھر مومن کو عین اس وقت ملے گی جو وقت اس مادی جسم سے انقطاع روح کا ھو گا۔اس کا مصداق ھر مومن، انبیاء اکرام و اولیاء کاملین ھوتے ھیں۔

Ii-شاہ ولی اللہ قدس سرہ، ازالۃ الخفاء میں بیان کرتے ھیں کہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آیت يَـٰٓأَيَّتُہَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَٮِٕنَّة تلاوت کی اور اس مجلس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر بوقت وفات فرشتہ تم سے یہی کہے گا اور يَـٰٓأَيَّتُہَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَٮِٕنَّة کہ کر تمہیں مخاتب کرے گا
(الدر المنشور ۵۱۳۔۸)

3- یایتھا النفس المطمئنة، یہاں مومن کی روح کو نفس مطمئنہ کے لقب سے خطاب کیا گیا ہے۔ مطمئنہ کے لفظی معنے ساکنہ کے ہیں۔ مراد وہ نفس ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اسکی اطاعت سے سکون وقرار پاتا ہے اسکے ترک سے بے چینی محسوس کرتا ہے اور یہ وہی نفس ہوسکتا ہے جو ریاضات ومجاہدات کرکے اپنی بری عادات اور اخلاق ذیلہ کو دور کرچکا ہو۔ اطاعت حق اور ذکر اللہ اسکا مزاج اور شریعت اسکی طبیعت بن جاتی ہے اس کو خطاب کرکے فرمایا گیا ارجعی الی ربک یعنی لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف، لوٹنے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکا پہلا مقام بھی اب کے پاس تھا اب وہیں واپس جانیکا حکم ہورہا ہے، اس سے اس روایت کی تقویت ہوتی ہے جس میں یہ ہے کہ مومنین کی ارواح انکے اعمالناموں کے ساتھ علیین میں رہیں گی اور علیین ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے سایہ میں کوئی مقام ہے۔ کل ارواح انسان کا اصلی مسقرد وہی ہے وہیں سے روح لا کر انسان کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور پھر موت کے بعد وہیں واپس جاتی ہے۔
اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے ایک روز یہ آیت یایتھا النفس المطمئنة آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھی تو صدیق اکبر جو مجلس میں موجود تھے کہنے لگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کتنا اچھا خطاب اور اکرام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سن لو فرشتہ موت کے بعد آپ کو یہ خطاب کریگا
تفسیر معارف القرآن


آیت نمبر 4 : سورۃ مططفین آیت 19

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّيُّوْنَ 19؀ۭ


اور آپ کو کیا خبر کہ علیّین کیا ہے

حضرت ابن عباسؓ نے حضرت کعبؒ سے سجین کا سوال کیا تو انہوں نے فرمایا وہ ساتوین زمین ھے جہاں کافروں کی روحیں ھیں۔اور علیّین کے سوال کے جواب میں فرمایا یہ ساتواں آسمان ھے اس میں مومئنین کی روحیں ھیں۔

تفسیر ابن کثیر ص ۵۳۱ ج ۵ (مکتبہ اسلامیہ)

Ii-اس آیت کی تفسیر میں بیان ھے کہ۔حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھے ک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

تفسیر معارف القرآن ص ۶۹۷ ج ۸

Iii-اعلٰی علیین جس کو رفیق اعلٰی سے بھی تعبیر کیاجاتا ھے خاص مقربین کا مقام ھے اور اسکا عبور روحانی مفارقت جسم کی بعد روح کو حاصل ھوتا ھے کہ فرشتے مقربین کی ارواح کو اعلٰی علیین میں لے جاتے ھیں۔

تفسیر المنان ص ۲۸۸ ج ۵


آیت نمبر 5: سورۃ تکویر آیت 7

۝اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ Ǻ۝۽وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ Ą۝۽وَاِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ Ǽ۝۽وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ Ć ۝۽وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ Ĉ۝۽وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ Č۝۽وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ Ċ۝

جب سورج لپیٹ لیا جائے گا (۱) جب تارے بےنور ہو جائیں گے (۲) اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے (۳) اور جب بیانے والی اونٹنیاں بےکار ہو جائیں گی (۴) اور جب وحشی جانور جمع اکٹھے ہو جائیں گے (۵) اور جب دریا آگ ہو جائیں گے (۶اور جب روحیں (بدنوں سے) ملا دی جائیں گی

یہ سب قیامت کے احوال بیان کیئے جا رہے ہیں کہ کیا کیا ہو گا ۔ تفاسیر میں صرف روح کے حوالے سے نقل کر رہا ہوں ۔


پھر روحیں چھوڑی جائیں گی اور ہر روح اپنے جسم میں آ جائے گی یہی معنی ہیں آیت ( وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ Ċ۝۽) 81-التكوير:7) یعنی روحیں جسموں میں ملا دی جائیں گی اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ مومنوں کا جوڑا حوروں سے لگایا جائیگا اور کافروں کا شیطانوں سے
تفسیر ابن کثیر ص ۵۱۴ ج ۵

Ii- ووقتیکہ ارواح رابا جساد جمع کردہ شود(جس وقت کہ روحوں کو جسموں کے ساتھ جمع کیا جائے گا)

ترجمہ فارسی مسمیٰ بہ فتح الرحمن

Iii-اور جب روحوں کو جسموں کے ساتھ جوڑ دیا جائے

تفسیر عثمانی از سورۃ تکویر

iv-اور جب روحیں بدنوں سے ملا دی جائیں گی اور تمام مردے زندہ ھو جائیں گے،یہ نفخحہ ثانیہ کے بعد کے احوال میں سے پہلا حال ھے

تفسیر جواھر القران ص ۱۳۴۸ ج ۳ سورۃ تکویر

آیت نمبر 6: سورۃ جاثیہ آیت 26:

قُلِ اللّٰهُ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 26؀ۧ

آپ کہہ دیجئے! اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مار ڈالتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔

آیت نمبر7: سورۃ الحج 6، 7:

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّهٗ يُـحْيِ الْمَوْتٰى وَاَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ Č۝ۙ وَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُوْرِ Ċ۝

یہ سب کچھ اس واسطے کہ اللہ وہی ہے محقق اور وہ جلاتا ہے (زندہ کرتاہے) مردوں کو اور وہ ہر چیز کر سکتا ہے ، اور یہ کہ قیامت آنی ہے اس میں دھوکا نہیں اور یہ کہ اللہ اٹھائے گا قبروں میں پڑے ہوؤں کو ف٢
( ترجمہ عثمانی )

ف۴۔ یہ اس کا کمال ذاتی ہے ۔ ف۵۔ یہ اس کا کمال فعلی ہے ۔ف۶۔ یہ اس کا کمال وصفی ہے ، اور یہ تینوں کمالات مل کر امور مذکورہ کی علت ہیں کیونکہ اگر کمالات ثلثہ میں سے ایک بھی غیر متحقق ہوتا تو ایجاد نہ پایا جاتا۔

ف۷۔ یہ امور مذکورہ کی حکمت ہیں، یعنی ہم نے وہ تصرفات مذکورہ اس لئے ظاہر کئے کہ اس میں منجملہ اور حکمتوں کے ایک حکمت اور غایت یہ تھی کہ ہم کو قیامت کا لانا اور مردوں کو زندہ کرنا منظور تھا، تو ان تصرفات سے ان کا امکان لوگوں پر ظاہر ہوجاوے گا۔

تفسیر بیان القرآن حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی

آیت نمبر 8: سورۃ حج 66
وَهُوَ الَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ ۡ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ 66؀

اور وہ اللہ وہی ہے جس نے تم سب کو زندگی بخشی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے اور دے گا پھر وہی تمہیں (قیامت میں) زندہ کرے گا پھر بھی یہ انسان اس کا ناشکرا اور نافرمان ہے؟ واقعی یہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے

آیت نمبر 9: سورۃ طہٰ آیت 55 :

مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى 55؁


اس زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب (١) کو نکال کھڑا کریں گے۔

آیت نمبر 10: سورۃ اعراف آیت 57

وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ۭ حَتّٰى اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۭكَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 57؀

اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ خوش کر دیتی ہیں (١) یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں (٢) تو ہم اس بادل کو کسی خشک سرزمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں (٣) یوں ہی ہم مردوں کو نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم سمجھو (٤)۔

۔ اب یہاں بیان ہو رہا ہے کہ رزاق بھی وہی ہے اور قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر دینے والا بھی وہی ہے ۔ پس فرمایا کہ بارش سے پہلے بھینی بھینی خوش گوار ہوائیں وہی چلاتا ہے (بشرا) کی دوسری قرأت مبشرات بھی ہے ۔(-------- )یک اور آیت میں ہے رحمت رب کے آثار دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو وہ جلا دیتا ہے وہی مردہ انسانوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ (-------- )جیسے آیت (وایتہ لھم الارض) میں بیان ہوا ہے پھر اس سے پانی برسا کر اسی غیر آباد زمین کو سر سبز بنا دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہم مردوں کو زندہ کر دیں گے حالانکہ وہ بوسیدہ ہڈیاں اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل گئے ہوں گے ۔ قیامت کے دن ان پر اللہ عزوجل بارش برسائے گا چالیس دن تک برابر برستی رہے گی جس سے جسم قبروں میں اگنے لگیں گے جیسے دانہ زمین پر اگتا ہے ۔ یہ بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے ۔ قیامت کی مثال بارش کی پیداوار سے دی جاتی ہے ۔

تفسیر ابنِ کثیر


آیت نمبر 11: سورۃ روم آیت نمبر 11

اَللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ . 11؀

خدا ہی خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے وہی اس کو پھر پیدا کرے گا(بروزِقیامت) پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔

فرمان باری ہے کہ سب سے پہلے مخلوقات کو اسی اللہ نے بنایا اور جس طرح وہ اس کے پدبا کرنے پر اس وقت قادر تھا اب فناکر کے دوبارہ پدرا کرنے پر بھی وہ اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ قادر ہے تم سب قایمت کے دن اسی کے سامنے حاضر کئے جانے والے ہو۔

تفسیر ابنِ کثیر

اللہ تعالی خلقک و اول بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی اس کو پیدا کرے گا پھر(پیدا ہونے کے بعد) اس کے پاس (حساب کتاب کے لئے) لائے جاؤ گے اور جس روز قیامت قائم ہو گی( جس میں اعادہ مذکور ہنے والا ہے) اس روز مجرم (یعنی کافر) لوگ (باز پرس کے وقت) حیرت زدہ رہ جائیں گے(یعنی کوئی معقول بات ان سے نہ بن پڑیگی۔

تفسیر معارف القرآن

God originates creation, in other words, He produces the creation of mankind, then He will reproduce it, that is, the creation of them, after their death, then to Him you shall be returned (read turja‘una; or yurja‘una, ‘they shall be returned’).

تفسیرِ جلالین

آیت نمبر 12: سورۃ کہف 99

وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰهُمْ جَمْعًا 99۝ۙ

(اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کرلیں گے

اور ہم اس روز(یعنی جب اس دیوار کے انہدام کا یوم موعود آئے گا اور یاجوج وماجوج کاخروج ہو گا تو اس روز ہم ) ان کی یہ حالت کریں گےکہ ایک میں ایک گڈ مڈ ہو جائیں گے۔کیونکہ یہ کثرت سے ہوں گے اور بیک وقت نکل پڑیں گے اور سب ایک دوسرے سےآگے بڑہنے کی فکر میں ہوں گے) اور (یہ قیامت کے قریب زمانہ میں ہو گا پھر بعد چندے قیامت کا سامان شروع ہو گا ایک بار اول صور پھونکا جائے گا جس سےتمام عالم فنا ہو جائے گا پھر) صور (دوبارہ ) پھونکا جائے گا (جس سے سب زندہ ہو جائیں گے) پھر ہم سب کو ایک ایک کرکے (میدان حشر میں) جمع کر لیں گے اور دوزخ کو اس روز کافروں کےسامنے پیش کردیں گے جن کی آنکھوں پر (دنیا میں)ہماری یاد سے(یعنی دین حق کےدیکھنے سے) پردہ پڑا ہوا تھا اور (جس طرح یہ حق کو دیکھتے نہ تھے اسی طرح اس کو )وہ سن بھی نہ سکتے تھے (یعنی حق کو معلوم کرنےکےذرائع دیکھنے اور سننے کےسب راستے بند کررکھے تھے)

تفسیر معارف القرآن

آیت نمبر 14: سورۃ زخرف 11

وَالَّذِيْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ ۚ فَاَنْشَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا ۚ كَذٰلِكَ تُخْـرَجُوْنَ 11؀

اور جس نے اتارا آسمان سے پانی ایک خاص اندازے کے ساتھ پھر جلا اٹھایا ہم نے اس کے ذریعے مردہ (اور ویران پڑی) زمین کو اسی طرح نکالا جائے گا تم لوگوں کو (تمہاری قبروں سے)

ف٣ یعنی ایک خاص مقدار میں جو اس کی حکمت کے مناسب اور اس کے علم میں مقدور تھی۔
ف٤ یعنی جس طرح مردہ زمین کو بذریعہ بارش زندہ اور آباد کر دیتا ہے۔ ایسے ہی تمہارے مردہ جسموں میں جان ڈال کر قبروں سے نکال کھڑا کرے گا۔

تفسیرِ عثمانی

and Who sent down water from the heaven in measure, that is to say, in the measure that you require thereof and did not send it down in a deluge, and We revived with it a dead land. Thus — like this revivification — will you be brought forth, from your graves, alive;

تفسیرِ جلالین

آیت نمبر 15: سورۃ بقرہ 28

كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀


تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا۔ پھر تمہیں مار ڈالے گا پھر زندہ کرے گا (١) پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کفار جو کہیں گے آیت ( رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ) 40۔غافر:11) اے اللہ دو دفعہ تو نے ہمیں مارا اور دو دفعہ جلایا ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے ۔ اس سے مراد یہی ہے جو اس آیت (وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ) 2۔ البقرۃ:28) میں ہے مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپوں کی پیٹھ میں مردہ تھے یعنی کچھ بھی نہ تھے۔ اس نے تمہیں زندہ کیا یعنی پیدا کیا پھر تمہیں مارے گا یعنی موت ایک روز ضرور آئے گی پھر تمہیں قبروں سے اٹھائے گا۔ پس ایک حالت مردہ پن کی دنیا میں آنے سے پہلے پھر دوسری دنیا میں مرنے اور قبروں کی طرف جانے کی پھر قیامت کے روز اٹھ کھڑے ہونے کی۔ دو زندگیاں اور دو موتیں

تفسیر ابنِ کثیر

ف۷ یعنی اجسام بےجان کہ حس و حرکت کچھ نہ تھی۔ اول عناصر تھے اس کے بعد والدین کی غذا بنے، پھر نطفہ، پھر خون بستہ پھر گوشت۔
ف۸ یعنی حالات سابقہ کے بعد نفخ روح کیا گیا جس سے رحم مادر اور اس کے بعد دنیا میں زندہ رہے۔
ف۹ یعنی جب دنیا میں وقت مرنے کا آئے گا۔
ف۱۰ یعنی قیامت کو زندہ کئے جاؤ گے حساب لینے کے واسطے۔
ف۱۱ یعنی قبروں سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے روبرو حساب و کتاب کے واسطے کھڑے کئے جاؤ گے۔


تفسیرِ عثمانی

How do you, people of Mecca, disbelieve in God, when you were dead, semen inside loins, and He gave you life, in the womb and in this world by breathing Spirit into you (the interrogative here is either intended to provoke amazement at their [persistent] unbelief despite the evidence established, or intended as a rebuke); then He shall make you dead, after your terms of life are completed, then He shall give you life, at the Resurrection, then to Him you shall be returned

تفسیرِ جلالین

بھلا کیوں کر ناشکری کرتے ہو اللہ کے ساتھ (کہ اس کے احسانات کو بھلا دیتے ہو اور غیروں کا کلمہ پڑہتے ہو) حالانکہ ( اس پر دلائل واضحہ قائم ہیں کہ صرف ایک اللہ ہی مستحق عبادت ہے مثلا یہ کہ ) تھے تم بے جان (یعنی نطفہ میں جان پڑنے سے پہلے)سو تم کو جاندار کیا پھر تم کو موت دیں گے پھر زندہ کریں گے(یعنی قیامت کے دن) پھر انہی کے پاس لے جائے جاؤگے (یعنی میدان قیامت میں حساب کتاب کے لئے حاضر کئے جاؤگے)

تفسیر معارف القرآن

آیت نمبر 16 : حٰم سجدۃ (فصلت)آیت 39

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۭ اِنَّ الَّذِيْٓ اَحْيَاهَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى ۭ اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 39؀


اور (اے بندے یہ) اسی کی قدرت کے نمونے ہیں کہ تو زمین کو دبی ہوئی (یعنی خشک) دیکھتا ہے جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو شاداب ہو جاتی اور پھولنے لگتی ہے تو جس نے زمین کو زندہ کیا وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے بیشک وہ ہرچیز پر قادر ہے

آیت نمبر 16: سورۃ عبس 21،22

ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ 21؀ۙ۔ ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ اَنْشَرَهٗ 22؀ۭ۔

پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا۔پھر جب چاہے گا اسے زندہ کر دے گا۔

یعنی جس نے ایک مرتبہ جِلایا اور مارا۔ اسی کو اختیار ہے کہ جب چاہے دوبارہ زندہ کر کے قبر سے نکالے۔ کیونکہ اس کی قدرت اب کسی نے سلب نہیں کرلی۔ (العیاذ باللہ) بہرحال پیدا کر کے دنیا میں لانا، پھر مار کر برزخ میں لے جانا، پھر زندہ کر کے میدان حشر میں کھڑا کر دینا، یہ امور جس کے قبضہ میں ہوئے کیا اس کی نصیحت سے اعراض وانکار اور اس کی نعمتوں کا استحقار کسی آدمی کے لئے زیبا ہے۔

تفسیرِ عثمانی

آیت نمبر 18: سورۃ مجادلہ 6آیت :

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا ۭ اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَنَسُوْهُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ Č۝ۧ

جس دن ان سب کو اللہ قبروں سے اٹھائے گا پھر ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے جس کو اللہ نے یاد رکھا ہے اور وہ بھول گئے ہیں اور اللہ کے سامنے ہر چیز موجود ہے

آیت نمبر 19: سورۃ مجادلہ آیت 18:

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ 18؀

جس دن اللہ ان سب کو قبروں سے اٹھائے گا تو اس کے سامنے بھی ایسی ہی قسمیں کھائیں گے جیسی کہ تمہارے سامنے کھاتے ہیں اور سمھجھ رہے ہیں کہ ہم رستے پر ہیں خبردار بیشک وہی جھوٹے ہیں۔

آیت نمبر 20: سورۃ ق آیت 41-44

وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ 41؀ۙ۔يَّوْمَ يَسْمَعُوْنَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوْجِ 42؀۔اِنَّا نَحْنُ نُـحْيٖ وَنُمِيْتُ وَاِلَيْنَا الْمَصِيْرُ 43؀ۙ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۭ ذٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيْرٌ 44؀۔

اور توجہ سے سنیئے جس دن پکارنے والا پاس سے پکارے گا،جس دن وہ ایک چیخ کو بخوبی سنیں گے یہ دن قبروں سے نکلنے کا ہوگا۔بے شک ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔جس دن ان پر سے زمین پھٹ جائے گی لوگ دوڑتے ہوئے نکل آئیں گے یہ لوگوں کا جمع کرنا ہمیں بہت آسان ہے۔

آیت نمبر 21: سورۃ زمر آیت 68:

وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ 68؀

اور صور پھونک دیا جائے گا پس آسمانوں اور زمین والے سب بےہوش ہو کر گر پڑیں گے (١) مگر جسے اللہ چاہے (۲) پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے (۳)

آیت نمبر 22: سورۃ روم 40

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ۭ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 40؀ۧ


اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں روزی دی پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے معبودوں میں سے کبھی کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کچھ بھی کر سکے وہ پاک ہے اور ان کے شریکوں سے بلند ہے

آیت نمبر 23: سورۃ العمران آیت 49:

وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢ ا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ 49؀ۚ


اور اس کو بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گا بیشک میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانیاں لے کر آیا ہوں کہ میں تمہیں مٹی سے ایک پرندہ کی شکل بنادیتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں اور وہ اللہ کے حکم سے اڑتا جانور ہو جاتا ہے اور مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کردیتا ہوں اور اللہ کے حکم سے مردے زندہ کرتا ہوں اور تمہیں بتا دیتا ہوں جو کھا کر آؤ اور جواپنے گھروں میں رکھ کر آؤ اس میں تمہار لیے نشانیاں ہیں اگر تم ایماندار ہو۔

آیت نمبر 24: سورۃ : سورۃ مریم 15 (حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں)


وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا 15۝ۧ


اوران کو الله تعالیٰ کا سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن کے وہ انتقال کریں گے اور جس دن (قیامت میں) زندہ ہو کر اٹھائے جاویں گے۔ (ف۵)


ترجمہ بیان القرآن

ف۵۔ وہ عنداللہ ایسے وجیہ و مکرم تھے کہ ان کے حق میں من جانب اللہ یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ان کو اللہ تعالی کا سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن وہ انتقال کریں گے اور جس دن قیامت میں زندہ ہوکر اٹھائے جاویں گے ۔


تفسیر بیان القرآن

ف٧ اللّٰہ جو بندہ پر سلام بھیجے محض تشریف و عزت افزائی کے لیے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس پر کچھ گرفت نہیں۔ یہاں (يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا) 19۔مریم:15) سے غرض تعمیم اوقات و احوال ہے۔ یعنی ولادت سے لے کر موت تک اور موت سے قیامت تک کسی وقت اس پر خوردہ گیری نہیں۔ خدا کی پکڑ سے ہمیشہ مامون و مصؤن ہے۔


تفسیر عثمانی


آیت نمبر 25: سورۃ مریم آیت 33(حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں)


وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا 33؀


حضرت عیسٰیؑ فرماتے ھیں کہ مجھ پر اللہ تعلٰی کی طرف سے سلام و رحمتی ھے جس دن میں پیدا کیا گیا، (دنیا میں) جس روز میں مروں گا (یعنی) قبر میں اور جس روز زندہ کر کے اٹھایا جائوں گا۔


حضرت عیسٰی کی زندگی کے تین حال ھیں۔
۱۔ دنیا میں زندہ
۲۔ قبر میں میت (جب زمیں پر نازل ھو کر دنیا کی زندگی ختم کر کے قبر میں دفن ھوں گے)
۳۔ آخرت میں زندہ ھونا


تفسیر قرطبی ص ۴۱۴۳ ج

الحمد اللہ قرآن مجید سے کوئی 25 آیات اس عقیدے پر پیش کر دی ہیں کہ "جن پر موت آجاتی ہے انہیں بروزِ قیامت ہی زندہ کیا جائے گا ، قیامت سے پہلے ان کے اجساد میں ارواح نہیں لوٹائی جاتیں،صرف نفخئہ ثانیہ میں روح کا اعادہ ہو گا "

ہدایت کے لیئے قرآن مجید کی ایک آیت بھی کافی ہے ۔۔ اللہ سب کو ہدایت دے اور سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے (اٰمین)

اب انشاء اللہ جلد ہی اس سلسے کے چوتھے حصے کے ساتھ حاضر ہوں گا ! "حیات الانبیاء و حیات و شھداء فی الجنت (روحانی) "

دعاؤں میں یاد رکھئیے گا ۔۔ اللہ نگہبان
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186

عذاب قبراور اس کی نعمتیں حق ہیں جو کہ جسم اور روح ان کا وقوع دونوں پر ہے -
میرا ایک عجیب وغریب سوال ہے وہ یہ ہے کہ میرا اعتقاد ہے جب انسان مر جاتا ہے تو وہ سن نہیں سکتا جیسا کہ اس کا جسم نافع نہیں رہتا لیکن حدیث کے مطابق عذاب قبر ہوتا ہے تو کیا اس کا یہ معنی تو نہیں کہ جسم ابھی زندہ ہے ؟
اور ایسے ہی قرآن میں آیا ہے کہ شہید مرتے نہیں اور اسی طرح مسلم شریف کی احادیث میں یہ آیا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جہل اور امیہ اور دوسروں کے جسموں کو مخاطب کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے سوال کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ مردے آپ کی کلام کو سنیں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ وہ سنتے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے ۔
آپ سے گذارش ہے کہ مہربانی فرماتے ہوئے میرے سوال کا جواب تفصیل کے ساتھ دیں

الحمدللہ
1- سوال میں جو یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ مردے زندوں کی کلام بالکل نہیں سنتے یہ بات صحیح اور حق ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
< جو لوگ قبروں میں ہیں آپ انہیں نہیں سنا سکتے > فاطر / 22
اور فرمان باری تعالی ہے :
< بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے > الروم / 52
2- اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ عذاب قبر اور برزخی زندگی کا وجود ہے اور ایسے ہی میت کی حالت کے اعتبار سے اس قبر میں نعمتیں اور راحت بھی ملتی ہے اس کے دلائل ذکر کۓ جاتے ہیں :
آل فرعون کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی < فرمان ہو گا > فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو > غافر / 46
اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ آل فرعون صبح اور شام عذاب پر پیش کۓ جاتے ہیں حالانکہ وہ مر چکے ہیں اور اسی آیت سے علماء کرام نے عذاب قبر کا ثبوت لیا ہے ۔
یہ آیت کریمہ اہل سنت والجماعت کی عذاب قبر کے متعلق سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں > تفسیر ابن کثیر (4/ 82)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا مانگا کرتے تھے :
< اللہھم انی اعوذبک من عذاب القبر واعوذبک من فتنۃ المسیح الدجال واعوذبک من فتنۃ المحیا والممات اللھم انی اعوذبک من الماثم والمغرم >
( اے اللہ میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اور مسیح الدجال کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں اور اے اللہ گناہ اور قرض سے میں تیری پناہ پکڑتا ہوں )صحیح بخاری حدیث نمبر (798) صحیح مسلم حدیث نمبر (589)
اور حدیث میں شاہد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے اور یہی عذاب قبر کے اثبات کی دلیل ہے اور عذاب قبر کی مخالفت کرنے والوں میں معتزلہ اور کچھ دوسرے گروہ ہیں جن کی مخالفت کچھ وزن نہیں رکھتی ۔
3- اور وہ حدیث جس میں بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشرکوں کے جسموں کا مخاطب کرنے کا ذکر ہے تو یہ خاص ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالی نے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لۓ زندہ کر دیا تھا تا کہ انہیں ذلیل کرے اور ذلت وغیرہ دکھائے ۔
ا – عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے اور کہنے لگے وہ جو اللہ تعالی نے تمہارے ساتھ وعدہ کیا تھا کیا اسے تم نے سچا پایا ہے ؟ پھر اس کے بعد فرمانے لگے کہ بے شک اب میں جو کہہ رہا ہوں وہ سن رہے ہیں :
صحیح بخاری حدیث نمبر (3980) صحیح مسلم حدیث نمبر (932)
ب – ابو طلحہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایسے جسموں کے ساتھ بات کر رہے ہیں جن کی روحیں ہی نہیں ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو > قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں زندہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول سنایا تا کہ انہیں حسرت اور ندامت اور ذلت کا سامنا کرنا پڑے –
صحیح بخاری حدیث نمبر (3976) صحیح مسلم حدیث نمبر (2875) دیکھیں فتح الباری (7/ 304)
تو اس حدیث سے شاہد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کنویں والوں کو ان کی تحقیر اور تذلیل کے لۓ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام سنائی اور اس سے یہ استدلال کرنا کہ میت سب کچھ سنتی ہے صحیح نہیں یہ کنویں والوں کے ساتھ خاص ہے لیکن کچھ علماء میت کا سلام سننا استثناء کرتے ہیں جو کہ صحیح دلیل کی محتاج ہے ۔
4- علماء کا صحیح قول یہی ہے کہ عذاب قبر روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
آئمہ سلف کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر اور اس کی نعمتیں میت کی روح اور جسم دونوں کو حاصل ہوتی ہیں اور روح بدن سے جدا ہونے کے بعد عذاب یا نعمت میں ہوتی ہے اور بعض اوقات جسم سے ملتی بھی ہے تو دونوں کو عذاب یا نعمت حاصل ہوتی ہے ۔
تو ہم پر یہ ضروری ہے کہ جو اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی ہے ہم اس پر ایمان لائیں اور اس کی تصدیق کریں ۔
الاختیارات الفقہیۃ (ص 94)
اور ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اس مسئلہ کے متعلق شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا اور ان کے جواب کے الفاظ ہمیں یاد ہیں انہوں نے فرمایا :
اہل سنت والجماعت اس پر متفق ہیں کہ عذاب اور نعمتیں بدن اور روح دونوں کو ہوتی ہے روح کو بدن سے جدا ہونے کی شکل میں بھی عذاب اور نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور بدن سے متصل ہونے کی شکل میں بھی تو بدن سے روح کے متصل ہونے کی شکل میں روح کو عذاب اور نعمت کا اس حالت میں حصول دونوں کو ہوتا ہے جس طرح کہ روح کا بدن سے منفرد ہونے کی شکل میں ہے ۔
ائمہ سلف کا مذہب :
مرنے کے بعد میت یا تو نعمتوں میں اور یا پھر عذاب میں ہوتی ہے ۔ جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتا ہے روح بدن سے جدا ہونے کے بعد یا تو نعمتوں میں اور یا عذاب میں ہوتی اور بعض اوقات بدن کے ساتھ ملتی ہے تو بدن کے ساتھ عذاب اور نعمت میں شریک ہوتی اور پھر قیامت کے دن روحوں کو جسموں میں لوٹایا جائے گا تو وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف نکل کھڑے ہوں گے جسموں کا دوبارہ اٹھنا اس میں مسلمان اور یہودی اور عیسائی سب متفق ہیں- الروح ( ص / 51- 52)
علماء اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ انسان خواب میں بعض اوقات یہ دیکھتا ہے کہ یہ کہیں گیا اور اس نے سفر کیا یہ پھر اسے سعادت ملی ہے حالانکہ وہ سویا ہوا ہے اور بعض اوقات وہ غم وحزن اور افسوس محسوس کرتا ہے حالانکہ وہ اپنی جگہ پر دنیا میں ہی موجود ہے تو بزرخی زندگی بدرجہ اولی مختلف ہو گي جو کہ اس زندگی سے مکمل طور پر مختلف ہے اور اسی طرح آخرت کی زندگی میں بھی ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اگر یہ کہا جائے کہ میت کو قبر میں اپنی حالت پر ہی دیکھتے ہیں تو پھر کس طرح اس سے سوال کیا جاتا اور اسے بٹھایا اور لوہے کے ہتھوڑوں سے مارا جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے بلکہ اس کی مثال اور نظیر عام طور پر نیند میں ہے کیونکہ سویا ہوا شخص بعض اوقات کسی چیز پر لذت اور یا پھر تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرتے اور اسی طرح بیدار شخص جب کچھ سوچ رہا ہوتا یا پھر سنتا ہے تو اس کی لذت اور یا تکلیف محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اس کا مشاہدہ نہیں کرتا اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتے اور انہیں وحی کی خبر دیتے تھے لیکن حاضرین کو اس کا ادراک نہیں ہوتا تھا تو یہ سب کچھ واضح اور ظاہر ہے – شرح مسلم ( 71/ 201)
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے :
اور سوئے ہوئے شخص کو اس کی نیند میں لذت اور تکلیف ہوتی ہے جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتی ہے حتی کہ یہ ہوتا ہے کہ نیند میں اسے کسی نے مارا تو اٹھنے کے بعد اس کی درد اپنے بدن میں محسوس کرتا ہے اور نیند میں یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کوئی اچھی سی چیز کھائی ہے تو اس کا ذائقہ اٹھنے کے بعد اس کے منہ میں ہوتا ہے اور یہ سب کچھ پایا جاتا اور موجود ہے ۔
تو اگر سوۓ ہوئے شخص کے بدن اور روح کو یہ نعمتیں اور عذاب جسے وہ محسوس کرتا ہے ہو سکتیں ہیں اور جو اس کے ساتھ ہوتا ہے اسے محسوس تک نہیں ہوتا حتی کہ کبھی سویا ہوا شخص تکلیف کی شدت یا غم پہنچنے سے چیختا چلاتا بھی ہے اور جاگنے والے اس کی چیخیں سنتے ہیں اور بعض اوقات وہ سونے کی حالت میں باتیں بھی کرتا ہے یا قرآن پڑھتا اور ذکر واذکار اور یا جواب دیتا ہے اور جاگنے والا یہ سب کچھ سنتا اور وہ سویا ہوا اور اس کی آنکھیں بند ہیں اور اگر اسے مخاطب کیا جائے تو وہ سنتا ہی نہیں ۔
تو اس کا جو کہ قبر میں ہے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے اور فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں ؟
اور دل قبر کے مشابہ ہے تو اسی لۓ غزوہ خندق کے دن جب عصر کی نماز فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھرے گا اور دوسری روایت کے لفظ ہیں < ان کے دلوں اور قبروں کو آگ سے بھرے > اور ان کے درمیان اس قول میں تفریق کی گئی ہے ۔
< جب قبروں جو ہے نکال لیا جائے گا اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی >
اور اس کے امکان کی تقریر اور تقریب ہے ۔
یہ کہنا جائز نہیں کہ جو کچھ میت عذاب اور نعمتیں کو حاصل کرتی ہے وہ اسی طرح کہ سونے والا حاصل کرتا ہے بلکہ یہ عذاب اور نعمتیں اس سے زیادہ کامل اور حقیقی ہیں لیکن یہ مثال امکانی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور اگر سائل یہ کہے کہ میت قبر میں حرکت تو کرتی نہیں اور نہ ہی مٹی میں تغیر ہوتا ہے وغیرہ حالانکہ یہ مسئلہ تفصیل اور شرح چاہتا ہے یہ اوراق اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔
اور اللہ تعالی زیادہ علم رکھتا ہے ۔
اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے – آمین
مجموع الفتاوی ( 4/ 275 – 276 )
واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
فرقہ عثمانيہ جسکے باني مسعود الدين عثماني صاحب ہيں انکے ملتان ميں معروف مناظر مشتاق الرحمن اور انکے معاون محمد زبير ,اور جماعت اہل حديث کے محترم شیخ محمد رفيق طاہر صاحب مدرس جامعہ دار الحديث محمديہ ملتان اور انکے معاون محمد سرور ۔ موضوع : کيا قبرو برزخ ميں مردہ کي روح اسکے جسم ميں لوٹتي ہے ؟ اور کيا اعادہ روح کا عقيدہ کتاب وسنت کے خلاف ہے يا موافق دوران مناظرہ اس بات کو تسليم کيا گيا کہ مرنے کے بعد روح جسم ميں لوٹ آتي ہے ليکن فرقہ عثمانيہ کا عقيدہ ہے کہ يہ اعادہ قيامت کے دن ہوگا ہے جبکہ جماعت اہل حديث کا عقيدہ ہے کہ يہ اعادہ قيامت سے قبل ہي ہو جاتا ہے اور عثماني مناظر کي جانب سے محمد رفيق طاہر کے سوال کا جواب نہ آنے پر مناظرہ کا دوسرا راؤنڈ شروع کر ديا گيا جس ميں انکے معاون محمد سرور نے عثماني مناظر سے اس بات پر گفتگو کي کہ کيا اعادہ روح کا عقيدہ رکھنا شرک ہے جبکہ عثماني مناظر اور انکي تمام تر ذريت برزخ ميں ايک نيا جسم دے کر اس ميں روح لوٹانے کي قائل ہے ۔ جس پر عثماني مناظرين کي جانب سے کوئي جواب نہ بن پڑا بہر حال ايک فائدہ يہ ہوا کہ اس مناظرے ميں فرقہ عثمانيہ کي جانب سے مناظر صاحب کا جو معاون تھا اللہ نے اسکو عقيدہ اہل السنہ والجماعۃ کي حقانيت سمجھا دي اور اسي طرح جن احباب کي خاطر يہ مناظرہ رکھا گيا تھا اللہ نے انہيں بھي صراط مستقيم سجھا دي ۔ فللہ الحمد والمنۃ
ڈاؤن لوڈ مناظرہ
http://ia700200.us.archive.org/19/items/e3adaErooh/Munazara.mp3
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
جبکہ اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ " قدرت کا اصول اور قانون یہ ہے کہ جس کی روح بوقتِ موت جسدِ عنصری سے نکل گئی تو وہ عادۃً واپس اس جسم میں نہیں لوٹائی جاتی، صرف قیامت میں ، نفخئہِ ثانیہ کے وقت ، جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تب ارواح کی واپسی ہو گی اور تب ہی مردوں کو زندہ کیا جائے گا "
یعنی جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تب مردوں کی ارواح کی واپسی ان کے اجسام میں ہوگی اس سے پہلے نہیں !!!!

لیکن میں جب صحیح بخاری کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب مردے کو دفن کرنے کے بعد اس کے عزیز واقاریب واپس جارہے ہوتے ہیں تو مردہ جوکہ سن نہیں سکتا ان کی جوتوں کی معولی آواز بھی سن رہا ہوتا ہے اور ایسی دوران فرشتے آکر اس کو اٹھاتے ہیں اور اس سے سوالات کرتے ہیں اور مردہ ان سوالوں کو سنتا بھی ہے اور جواب بھی دیتا ہے نہ حیرت کی بات
غلط جواب پر اس مردے کو فرشتے مارتے بھی ہیں اور اس مار کی تکلیف سے مردہ چلاتا بھی ہے اب جب کہ مردہ سن نہیں سکتا تو اس کو مارنا کیا معنی رکھتا ہے اور جو سن نہیں سکتا اس کا چلانا بھی کیا معنی رکھتا ہے

أن رسول صلى الله عليه وسلم قال : إن العبد إذا وضع في قبره ، وتولى عنه أصحابه ، وإنه ليسمع قرع نعالهم ، أتاه ملكان ، فيقعدانه فيقولان : ما كنت تقول في هذا الرجل ، لمحمد صلى الله عليه وسلم ، فأما المؤمن فيقول : أشهد أنه عبد الله ورسوله ، فيقال له : انظر إلى مقعدك من النار ، قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة ، فيراهما جميعا . قال قتادة وذكر لنا : أنه يفسح في قبره ، ثم رجع إلى حديث أنس ، قال : وأما المنافق والكافر فيقال له : ما كنت تقول في هذا الرجل ؟ فيقول : لا أدري ، كنت أقول ما يقول الناس ، فيقال : لا دريت ولا تليت ، ويضرب بمطارق من حديد ضربة ، فيصيح صيحة ، يسمعها من يليه غير الثقلين .
الراوي: أنس بن مالك المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1374
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ از داؤد راز


انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے (منکر نکیر) اس کے پاس آتے ہیں ‘ وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کا ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اس کی قبر خوب کشادہ کر دی جائے گی۔ (جس سے آرام و راحت ملے) پھر قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنی شروع کی ‘ فرمایا اور منافق و کافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ‘ میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تو نے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
یعنی جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تب مردوں کی ارواح کی واپسی ان کے اجسام میں ہوگی اس سے پہلے نہیں !!!!

لیکن میں جب صحیح بخاری کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب مردے کو دفن کرنے کے بعد اس کے عزیز واقاریب واپس جارہے ہوتے ہیں تو مردہ جوکہ سن نہیں سکتا ان کی جوتوں کی معولی آواز بھی سن رہا ہوتا ہے اور ایسی دوران فرشتے آکر اس کو اٹھاتے ہیں اور اس سے سوالات کرتے ہیں اور مردہ ان سوالوں کو سنتا بھی ہے اور جواب بھی دیتا ہے نہ حیرت کی بات
غلط جواب پر اس مردے کو فرشتے مارتے بھی ہیں اور اس مار کی تکلیف سے مردہ چلاتا بھی ہے اب جب کہ مردہ سن نہیں سکتا تو اس کو مارنا کیا معنی رکھتا ہے اور جو سن نہیں سکتا اس کا چلانا بھی کیا معنی رکھتا ہے

أن رسول صلى الله عليه وسلم قال : إن العبد إذا وضع في قبره ، وتولى عنه أصحابه ، وإنه ليسمع قرع نعالهم ، أتاه ملكان ، فيقعدانه فيقولان : ما كنت تقول في هذا الرجل ، لمحمد صلى الله عليه وسلم ، فأما المؤمن فيقول : أشهد أنه عبد الله ورسوله ، فيقال له : انظر إلى مقعدك من النار ، قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة ، فيراهما جميعا . قال قتادة وذكر لنا : أنه يفسح في قبره ، ثم رجع إلى حديث أنس ، قال : وأما المنافق والكافر فيقال له : ما كنت تقول في هذا الرجل ؟ فيقول : لا أدري ، كنت أقول ما يقول الناس ، فيقال : لا دريت ولا تليت ، ويضرب بمطارق من حديد ضربة ، فيصيح صيحة ، يسمعها من يليه غير الثقلين .
الراوي: أنس بن مالك المحدث:البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 1374
خلاصة حكم المحدث: [صحيح]

ترجمہ از داؤد راز


انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے (منکر نکیر) اس کے پاس آتے ہیں ‘ وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کا ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اس کی قبر خوب کشادہ کر دی جائے گی۔ (جس سے آرام و راحت ملے) پھر قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنی شروع کی ‘ فرمایا اور منافق و کافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ‘ میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تو نے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔
لیکنن جناب جب میں قرآن پڑھتا ہوں تو مجھے نظر آتا ہے کہ وہی مردہ صرف ایک بوٹی مارنے کیوجہ سے اٹھ کر بتا دیتا ہے کہ مجھے فلاں نے قتل کیا ہے ۔یہ تو ایک مثال ہے اس طرح کی ٥ مثالیں قرآن میں ہیں ۔اور ہاتھ وغیرہ بھی قیامت والے دن بولیں گے جب کہ ان کی زبان نہیں ہے ۔ جناب اصل میں ہم اللہ تعالیٰ پر صحیح ایمان نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب فرشتے مارتے ہیں تو مردہ چیختا ہے یہ تو روح کے بغیر نا ممکن ہے ۔جناب نا ممکن کو جو ممکن بنائے وہی تو ہمارا رب ہے میرے خیال میں اس کی سمجھ آ جانی چاہئے ۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
میرےخیال میں اس باب میں اہل سنت نے نصوص شرعیہ کو سامنے رکھتےہوے جوعمومی قاعدہ بیان کیاہے اس کےمطابق اس مسلہ کابہتر حل مل سکتاہے وہ یہ ہےکہ امورغائب کو حقیقت پر محمول کرتے ہوے ان کا وہی معنی مراد لیاجاناچاہیے جیسے جیسے نصوص میں آیاہےلہذا عالم برزخ میں جہاں جہاں جسم ورح کا اتصال ثابت ہے وہاں وہاں ماننا چاہیے او رجس وقت یا جگہ کی صراحت نہی آئی ہمیں بھی وہاں خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔اور رہی بات یہ کہ اس مسلے کی اہمیت تو وہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کیونکہ یہ ہمارے عقائد کا مسلہ ہے لیکن اس مسلے پر مجلس مناظرہ کاانعقاداورپھر لوگوں کا اس میں بہت دلچسپی سے شرکت کرناقابل صد افسوس ہےاس سے امت کی ذہنی وفکری اپروچ کااحساس ہوتاہے اسی طرح کے حالات تھے جب بغداد پہ ہلاکو نےحملہ کیاتھاتو مسلم علماباہمی طور پر اس پر مناظرہ کررہے تھے کہ سوئی کے ناکے سےاونٹ گزرسکتاہےیانہیں؟؟
 
شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
بھائی پھر بات وہیں چلی جاتی ہے "عذاب و ثواب" پر ۔۔ سب سے پہلے تو آپ اس بات کو تسلیم کریں کہ روح جسم سے نکلنے کے بعد اپنے مستقر میں ٹھہرائی جاتی ہے ، روح پر نعمتیں یا اذیتیں (اعمال کے مطابق) ہوتی ہیں ، بوقتِ قیامت اسے اس کئ جسم میں ڈالا جاتا ہے قرآن کی واضح آیت موجود ہے ۔۔

رہی بات جوتوں کے آؤاز سننے کی تو یہ بھی برزخی حیات کا معاملہ ہے جسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، اور اگر جس کی قبر نہیں بن سکی کہیں سمندر وغیر میں غرق ہو گیا تو اس کی قبر ہی نہیں تو فرشتے کہاں سے آئیں گے ؟؟ کیا وہ ان سوالات سے بچ جائے گا ؟؟ نہیں نہیں ،،، عذاب و ثواب ہونا ہے ، وہ برحق ہے ۔۔ تو یہ عقلی دلیل بھی واضح کرتی ہے کہ اصل معاملہ روح کے ساتھ ہے ۔۔۔ جسم کے ساتھ لازم و ملزوم نہیں ۔۔۔ تو یہ آواز سننا بھی قانون میں نہیں آتا ۔۔ اگر قانون ہوتا تو ان کے لیئے یہ قانون لاگو ہی نہ ہوا جن کو قبر نصیب نہ ہوئی
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اسلام علیکم ! الحمد اللہ میں حیات فی القبور کے سلسے میں دو حصے پیش کر چکا ہوں ۔۔ ایک حصہ عقائد و نظریات پر ۔۔ اور دوسرا حصہ وفات الانبیاء علیہم السلام پر !!

اب تیسرا حصہ میں یہاں پیش کر رہا ہوں ۔۔۔
"نفیِ اعادہِ روح "


جیسا کہ میں نے پہلے حصے میں بیان کیا تھا کہ ہمارے فریقین کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہر انسان ، چاہے نبی ہو یا غیر نبی ، بشمولِ مشرکین و کفار ، سب کی طرف ان کی ارواح لوٹا دی جاتی ہیں قیامت سے پہلے ، انہیں قیامت سے پہلے ہی قبر میں زندہ کر دیا جاتا ہے ۔۔

جبکہ اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ " قدرت کا اصول اور قانون یہ ہے کہ جس کی روح بوقتِ موت جسدِ عنصری سے نکل گئی تو وہ عادۃً واپس اس جسم میں نہیں لوٹائی جاتی، صرف قیامت میں ، نفخئہِ ثانیہ کے وقت ، جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تب ارواح کی واپسی ہو گی اور تب ہی مردوں کو زندہ کیا جائے گا "

اب اس پر میں کچھ دلائل پیش کروں گا ۔۔ جتنی میری تحقیق ہے ۔۔!!

قرآن سے دلائل :

آیت نمبر1 : سورۃ زمر آیت زمر 42

اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ

اللہ ہی سب کی روحیں قبض کرتا ہے ان کی موت کے وقت اور ان کی بھی جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا ہوتا ان کی نیند (کی حالت) میں پھر ان جانوں کو تو وہ روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہوتا ہے اور دوسری جانوں کو وہ چھوڑ دیتا ہے ایک مقررہ مدت تک بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں ف۳

I)اللہ ھی قبض کرتا ھے ان جانوں کو جن کا وقت موت آگیا ھے۔ان کی موت کے وقت ،اور ان جانوں کو بھی کہ جن کی موت نہیں آئی ان کے سونے کے وقت ،کہ حیات رہتی ھے ادراک نہیں رہتا،اور موت میں دونوں چیزیں نہیں رہتیں۔جن پر موت کا حکم آچکا ہو ان کی روحوں کو جسم میں آنے سے روک لیتا ھے اور جن کی موت کا وقت نہیں آیا ایک معیاد تک رہا کر دیتا ھے کہ بدن میں تصرف کرنے لگتی ھیں۔

بیان القران ۔ سورۃ زمر ۴۲

Ii) اللہ ھی قبض کرتا ھے ان جانوں کو جن کا وقت موت آگیا ھے۔ ان جانوں کو بھی جن کو موت نھیں آئی ۔ اور جن کو موت نھیں آئی ان میں ایک حیثت حیات کی باقی رہ جاتی ھے مگر ادراک نہیں رہتا،موت کی صورت میں نہ ادراک رھتا ھے نہ حیات۔پھر اس معطل کے بعد جن پر موت کا حکم فرما چکا ھے ان جانوں کو روک لیتا ھے،اور باقی جانوں جو نیند کی وجہ سے معطل ہوئی تھیں ان کی موت کا وقت نہیں آیا ایک مدت معین کے بعد واپس بدن میں بدستور سابق تصرفات کرنے لگتی ھیں۔۔۔ـ

تفسیر معارف القران ص ۵۶۱ ج ۷

Iii) اللہ جانوں کو قبض کرتا ھے۔ان کی موت کے وقت اس سلب روح میں نہ حیات جسمانی باقی رہتی ھے ،نہ شعور نہ ادراک۔اور ان جانوں کو بھی جن کی موت نہیں آئی ان کے سونے کے وقت ،مگر یہ سلب روح صرف جزوئی ہوتا ھے جس سے حیات جسمانی جوں کی توں رھتی ھے لیکن شعور باقی نہیں رہتا۔پھر وہ ان جانوں کو تو روک لیتا ھے جن پر موت کا حکم ھو چکا ھو اور باقی روحیں ایک معیاد معین کے بعد بدستور تصرفات جسمی میں مصروف ھو جاتی ھیں۔۔۔۔

تفسیر ماجدی۔سورۃ زمر ۴۲

سید نعمان آلوسی رحمہ اللہ علی فرماتے ہیں کہ جسموں سے روح کا قبض کیا جانا دو صورتوں میں آ رہا ہے ۔ایک ہے موت کے وقت اور ایک ہے نیند کے وقت۔ روح کا تعلقِ تصرف بدن سے ختم ہو جاتا ہےموت کے وقت ظاہر سے بھی اور باطن سے بھی ۔ اور حالتِ نیند میں تعلق ظاہری ختم ہوتا ہے باطنی نہیں ۔

تفسیر روح المعانی )بیروتی) جز 24 صفحہ 358


بہت سے مفسرین حضرات نے لکھا اسی آیت کی تفسیر میں کہ موت کے وقت جو روحیں قبض کر لی جاتیں ہیں وہ روک لی جاتیں واپس نہیں کی جاتیں صرف قیامت کے روز ہی اعادہ ارواح ہو گا۔

تفسیر خارزن جلد 4 صفحہ 57
تفسیر رازی جلد 7 صفحہ 266
تفسیر ابوالسعود جلد 2 صفحہ 462
معالم التنزیل صفحہ 776 (فلا یردھا الی الجسد)
تفسیر تبصیر الرحمان جلد 2 صفحہ 218 ( ۔۔۔ الی یوم القیمہ ۔ قیامت کے روز ہی وپس لوٹائی جائیں گی)
تفسیر مظہری جلد 8 صفحہ 218 (ولا یر دھا الی البدن حتٰی ینفخ نفخہ البعث ۔ ان اجسام کیطرف ارواح واپس نہیں لوٹائی جاتیں جب تک قیامت کا وقت نہ آجائے 'نفخہ ثانیہ' ۔۔)
تفسیر محاسن التاویل للقاسمی صفحہ 5143 ( ای فلا یردھا بدنھا الی یوم القیمۃ۔۔۔ قیامت کے دن ہی ارواح واپس لوٹائی جائیں گی)

یہاں کتنا صاف ارشاد کر دیا گیا ہے کہ جن پر موت آئی ان کی ارواح کے لیئے "امساک" ہے ۔۔۔ فَیُمۡسِکُ
۔۔
آیت نمبر2: سورۃ واقعہ آیت 43-94

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ 83۝ۙوَاَنْتُمْ حِيْـنَىِٕذٍ تَنْظُرُوْنَ 84۝ۙوَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ 85؀فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْنِيْنَ 86۝ۙتَرْجِعُوْنَهَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 87؀فَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ 88۝ۙفَرَوْحٌ وَّرَيْحَانٌ ڏ وَّجَنَّتُ نَعِيْمٍ 89؀وَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ 90۝ۙفَسَلٰمٌ لَّكَ مِنْ اَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ 91۝ۭوَاَمَّآ اِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِيْنَ الضَّاۗلِّيْنَ 92۝ۙفَنُزُلٌ مِّنْ حَمِيْمٍ 93۝ۙوَّتَصْلِيَةُ جَحِــيْمٍ 94 ؀

پھر کس لیے روح کو روک نہیں لیتے جب کہ وہ گلے تک آ جاتی ہے۔ اورتم اس وقت دیکھا کرتے ہو۔ اور تم سے زیادہ ہم اس کے قرب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے۔ پس اگر تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے۔ تو تم اس روح کو کیوں نہیں لوٹا دیتے اگر تم سچے ہو۔ پھر اگر وہ مرنے والا مقربین میں سے ہوگا۔ تو (اس کے لیے) راحت اور خوشبو میں اور عیش کی باغ ہیں۔ اور اگر وہ داہنے والوں میں سے ہے۔ تو اے شخص تو جو داہنے والوں میں سے ہے تجھ پر سلام ہو۔ اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہوں میں سے ہے۔ تو کھولتا ہوا پانی مہمانی ہے۔ اور دوزخ میں داخل ہونا ہے۔

پھر کس لیے روح کو روک نہیں لیتے جب کہ وہ گلے تک آ جاتی ہے ۔اورتم اس وقت دیکھا کرتے ہو کس طرح روح کا نزول ھو رہا ھے۔اور تم سے زیادہ ہم اس کے قرب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے کہ ھم کس قدر قریب ھیں۔تو اے منکرو اگر تم خدا کی باتوں کو جھٹلاتے ھو اور تم کسی کے قابو میں نہیں ھو تو کیوں نھیں تم یس روح کو پھیر لیتے اگر تم سچے ہو کہ یہ روح جو بدن سے پرواز کر رھی ھے اس کو بدن کی طرف لوٹا دو،اور یہ ظاھرھے کہ دنیا کی کوئی طاقت جان نکلنے کے بعد دوبارہ روح کو نہیں لوٹا سکتی ۔۔ھر ایک کو اس کی عمل کا بدلہ ضرور ملے گا۔۔۔اگر یہ ٱلۡمُقَرَّبِين (انبیاء،اولیاء،صدیقین،کامل متقی) میں سے ھے تو راحت ھی راحت،آرام ھی آرام ھے۔اگر وَأَمَّآ إِن كَانَ مِنۡ أَصۡحَـٰبِ ٱلۡيَمِين ، أَصۡحَـٰبِ ٱلۡيَمِين میں سے ھے تو تب بھی جنت کی نعمتیں ھیں۔ اگر وَأَمَّآ إِن كَانَ مِنَ ٱلۡمُكَذِّبِينَ ٱلضَّآلِّينَ ، مکذبین میں سے ھے تو مرتے ھی عذاب کی سختیاں شروع ھو جائیں گی۔
تفسیر معارف القران ص ۱۱۵ ج ۷


یہاں وہ احوال بیان ہو رہے ہیں جو موت کے وقت سکرات کے وقت دنیا کی آخری ساعت میں انسانوں کے ہوتے ہیں کہ یا تو وہ اعلیٰ درجہ کا اللہ کا مرقب ہے یا اس سے کم درج کا ہے جن کے داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا ۔ یا بالکل بدنصیب ہے جو اللہ سے جاہل رہا اور راہ حق سے غافل رہا ۔ فرماتا ہے کہ جو مقربین بارگاہ الٰہی ہیں، جو احکام کے عامل تھے، نافرمانیوں کے تارک تھے انہیں تو فرشتے طرح طرح کی خوشخبریاں سناتے ہیں ۔ جیسے کہ پہلے براء کی حدیث گذری کہ رحمت کے فرشتے اس سے کہتے ہیں اے پاک روح پاک جسم والی روح چل راحت و آرام کی طرف چل کبھی نہ ناراض ہونے والے رحمن کی طرف ۔ روح سے مرد راحت ہے اور ریحان سے مراد آرام ہے۔ غرض دنیا کے مصائب سے راحت مل جاتی ہے ابدی سرور اور سچی خوشی اللہ کے غلام کو اسی وقت حاصل ہوتی ہے وہ ایک فراخی اور وسعت دیکھتا ہے اس کے سامنے رزق اور رحمت ہوتی ہے وہ جنت عدن کی طرف لپکتا ہے۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں جنت کی ایک ہری بھری شاخ آتی ہے اور اس وقت مقرب اللہ کی روح قبض کی جاتی ہے۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں مرنے سے پہلے ہی ہر مرنے والے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ جنتی ہے یا جہنمی ہے (یا اللہ ! ہمارے اس وقت میں تو ہماری مدد کر ہمیں ایمان سے اٹھا اور اپنی رضامندی کی خوشخبری سنا کر سکون و راحت کے ساتھ یہاں سے لے جا آمین) گو سکرات کے وقت کی احادیث ہم سورہ ابراہیم کی آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ 27؀ۧ) 14-ابراھیم:27)، کی تفسیر میں وارد کر چکے ہیں لیکن چونکہ یہ ان کا بہترین موقعہ ہے اس لئے یہاں ایک ٹکڑا بیان کرتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ حضرت ملک الموت علیہ السلام سے فرماتا ہے میرے فلاں بندے کے پاس جا اور اسے میرے دربار میں لے آ میں نے اسے رنج راحت و آرام تکلیف خوشی نا خوشی غرض ہر آزمائش میں آزما لیا اور اپنی مرضی کے مطابق پایا بس اب میں اسے ابدی راحت دینا چاہتا ہوں جا اسے میرے خاص دربار میں پیش کر۔ ملک الموت پانچ سو رحمت کے فرشتے اور جنت کے کفن اور جنتی خوشبوئیں ساتھ لے کر اس کے پاس آتے ہیں گو ریحان ایک ہی ہوتا ہے لیکن سرے پر بیس قسمیں ہوتی ہیں ہر ایک کی جداگانہ مہک ہوتی ہے سفید ریشم ساتھ ہوتا ہے جس میں مشک کی لپٹیں آتی ہیں، الخ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت فروح رے کے پیش سے تھی۔ لیکن تمام قاریوں کی قرأت رے کے زبر سے ہے یعنی فروح مسند میں ہے حضرت ام ہانی نے رسول مقبول علیہ السلام سے پوچھا کیا مرنے کے بعد ہم آپس میں ایک دوسرے سے ملیں گے؟ اور ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا روح ایک پرند ہو جائے گی جو درختوں کے میوے چگے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہو اس وقت اپنے اپنے جسم میں چلی جائیگی، اس حدیث میں ہر مومن کے لئے بہت بڑی بشارت ہے۔ مسند احمد میں بھی اس کی شاہد ایک حدیث ہے جس کی اسناد بہت بہتر ہے اور متن بھی بہت قوی ہے اور صحیح روایت میں ہے شہیدوں کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں، ساری جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی رہتی ہیں اور عرش تلے لٹکی ہوئی قندیلوں میں آ بیٹھتی ہیں۔

تفسیر ابن کثیر از سورۃ واقعہ آیت نمبر 83 تا 94

آیت نمبر 3: سورۃ فجر آیت 27-30

ٓاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ 27؀ڰارْجِعِيْٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً 28؀ۚفَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ 29؀ۙ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ 30؀ۧ


ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح۔ اپنے رب کی طرف لوٹ چل تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں شامل ہو۔ اور میری جنت میں داخل ہو۔

I-ترجمہ و تفسیر مولانا عبدالماجددریابادی رحمہ اللہ علیہ۔۔ اے اطمینان والی روح۔! اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش پھر تو میرے خاص بندوں میں شامل ھو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔یہ بشارت ھر مومن کو عین اس وقت ملے گی جو وقت اس مادی جسم سے انقطاع روح کا ھو گا۔اس کا مصداق ھر مومن، انبیاء اکرام و اولیاء کاملین ھوتے ھیں۔

Ii-شاہ ولی اللہ قدس سرہ، ازالۃ الخفاء میں بیان کرتے ھیں کہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آیت يَـٰٓأَيَّتُہَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَٮِٕنَّة تلاوت کی اور اس مجلس میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر بوقت وفات فرشتہ تم سے یہی کہے گا اور يَـٰٓأَيَّتُہَا ٱلنَّفۡسُ ٱلۡمُطۡمَٮِٕنَّة کہ کر تمہیں مخاتب کرے گا
(الدر المنشور ۵۱۳۔۸)

3- یایتھا النفس المطمئنة، یہاں مومن کی روح کو نفس مطمئنہ کے لقب سے خطاب کیا گیا ہے۔ مطمئنہ کے لفظی معنے ساکنہ کے ہیں۔ مراد وہ نفس ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اسکی اطاعت سے سکون وقرار پاتا ہے اسکے ترک سے بے چینی محسوس کرتا ہے اور یہ وہی نفس ہوسکتا ہے جو ریاضات ومجاہدات کرکے اپنی بری عادات اور اخلاق ذیلہ کو دور کرچکا ہو۔ اطاعت حق اور ذکر اللہ اسکا مزاج اور شریعت اسکی طبیعت بن جاتی ہے اس کو خطاب کرکے فرمایا گیا ارجعی الی ربک یعنی لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف، لوٹنے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکا پہلا مقام بھی اب کے پاس تھا اب وہیں واپس جانیکا حکم ہورہا ہے، اس سے اس روایت کی تقویت ہوتی ہے جس میں یہ ہے کہ مومنین کی ارواح انکے اعمالناموں کے ساتھ علیین میں رہیں گی اور علیین ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے سایہ میں کوئی مقام ہے۔ کل ارواح انسان کا اصلی مسقرد وہی ہے وہیں سے روح لا کر انسان کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور پھر موت کے بعد وہیں واپس جاتی ہے۔
اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے ایک روز یہ آیت یایتھا النفس المطمئنة آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھی تو صدیق اکبر جو مجلس میں موجود تھے کہنے لگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کتنا اچھا خطاب اور اکرام ہے۔ آپ نے فرمایا کہ سن لو فرشتہ موت کے بعد آپ کو یہ خطاب کریگا
تفسیر معارف القرآن


آیت نمبر 4 : سورۃ مططفین آیت 19

وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّيُّوْنَ 19؀ۭ


اور آپ کو کیا خبر کہ علیّین کیا ہے

حضرت ابن عباسؓ نے حضرت کعبؒ سے سجین کا سوال کیا تو انہوں نے فرمایا وہ ساتوین زمین ھے جہاں کافروں کی روحیں ھیں۔اور علیّین کے سوال کے جواب میں فرمایا یہ ساتواں آسمان ھے اس میں مومئنین کی روحیں ھیں۔

تفسیر ابن کثیر ص ۵۳۱ ج ۵ (مکتبہ اسلامیہ)

Ii-اس آیت کی تفسیر میں بیان ھے کہ۔حضرت کعب بن مالکؓ کی روایت ھے ک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (انما نسمۃ المومین من طائر یعلق فی شجر الجنۃ حتی یرجعہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ)۔(رواہ مالک و نسائی بسند صحیح)

مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں معلق رھے گی، یھاں تک کہ قیامت کے روز اپنے جسم میں پھر لوٹ آئے گی۔

تفسیر معارف القرآن ص ۶۹۷ ج ۸

Iii-اعلٰی علیین جس کو رفیق اعلٰی سے بھی تعبیر کیاجاتا ھے خاص مقربین کا مقام ھے اور اسکا عبور روحانی مفارقت جسم کی بعد روح کو حاصل ھوتا ھے کہ فرشتے مقربین کی ارواح کو اعلٰی علیین میں لے جاتے ھیں۔

تفسیر المنان ص ۲۸۸ ج ۵


آیت نمبر 5: سورۃ تکویر آیت 7

۝اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ Ǻ۝۽وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ Ą۝۽وَاِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ Ǽ۝۽وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ Ć ۝۽وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ Ĉ۝۽وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ Č۝۽وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ Ċ۝

جب سورج لپیٹ لیا جائے گا (۱) جب تارے بےنور ہو جائیں گے (۲) اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے (۳) اور جب بیانے والی اونٹنیاں بےکار ہو جائیں گی (۴) اور جب وحشی جانور جمع اکٹھے ہو جائیں گے (۵) اور جب دریا آگ ہو جائیں گے (۶اور جب روحیں (بدنوں سے) ملا دی جائیں گی

یہ سب قیامت کے احوال بیان کیئے جا رہے ہیں کہ کیا کیا ہو گا ۔ تفاسیر میں صرف روح کے حوالے سے نقل کر رہا ہوں ۔


پھر روحیں چھوڑی جائیں گی اور ہر روح اپنے جسم میں آ جائے گی یہی معنی ہیں آیت ( وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ Ċ۝۽) 81-التكوير:7) یعنی روحیں جسموں میں ملا دی جائیں گی اور یہ معنی بھی بیان کیے گئے ہیں کہ مومنوں کا جوڑا حوروں سے لگایا جائیگا اور کافروں کا شیطانوں سے
تفسیر ابن کثیر ص ۵۱۴ ج ۵

Ii- ووقتیکہ ارواح رابا جساد جمع کردہ شود(جس وقت کہ روحوں کو جسموں کے ساتھ جمع کیا جائے گا)

ترجمہ فارسی مسمیٰ بہ فتح الرحمن

Iii-اور جب روحوں کو جسموں کے ساتھ جوڑ دیا جائے

تفسیر عثمانی از سورۃ تکویر

iv-اور جب روحیں بدنوں سے ملا دی جائیں گی اور تمام مردے زندہ ھو جائیں گے،یہ نفخحہ ثانیہ کے بعد کے احوال میں سے پہلا حال ھے

تفسیر جواھر القران ص ۱۳۴۸ ج ۳ سورۃ تکویر

آیت نمبر 6: سورۃ جاثیہ آیت 26:

قُلِ اللّٰهُ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 26؀ۧ

آپ کہہ دیجئے! اللہ ہی تمہیں زندہ کرتا ہے پھر تمہیں مار ڈالتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔

آیت نمبر7: سورۃ الحج 6، 7:

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّهٗ يُـحْيِ الْمَوْتٰى وَاَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ Č۝ۙ وَّاَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُوْرِ Ċ۝

یہ سب کچھ اس واسطے کہ اللہ وہی ہے محقق اور وہ جلاتا ہے (زندہ کرتاہے) مردوں کو اور وہ ہر چیز کر سکتا ہے ، اور یہ کہ قیامت آنی ہے اس میں دھوکا نہیں اور یہ کہ اللہ اٹھائے گا قبروں میں پڑے ہوؤں کو ف٢
( ترجمہ عثمانی )

ف۴۔ یہ اس کا کمال ذاتی ہے ۔ ف۵۔ یہ اس کا کمال فعلی ہے ۔ف۶۔ یہ اس کا کمال وصفی ہے ، اور یہ تینوں کمالات مل کر امور مذکورہ کی علت ہیں کیونکہ اگر کمالات ثلثہ میں سے ایک بھی غیر متحقق ہوتا تو ایجاد نہ پایا جاتا۔

ف۷۔ یہ امور مذکورہ کی حکمت ہیں، یعنی ہم نے وہ تصرفات مذکورہ اس لئے ظاہر کئے کہ اس میں منجملہ اور حکمتوں کے ایک حکمت اور غایت یہ تھی کہ ہم کو قیامت کا لانا اور مردوں کو زندہ کرنا منظور تھا، تو ان تصرفات سے ان کا امکان لوگوں پر ظاہر ہوجاوے گا۔

تفسیر بیان القرآن حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی

آیت نمبر 8: سورۃ حج 66
وَهُوَ الَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ ۡ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ 66؀

اور وہ اللہ وہی ہے جس نے تم سب کو زندگی بخشی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے اور دے گا پھر وہی تمہیں (قیامت میں) زندہ کرے گا پھر بھی یہ انسان اس کا ناشکرا اور نافرمان ہے؟ واقعی یہ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے

آیت نمبر 9: سورۃ طہٰ آیت 55 :

مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى 55؁


اس زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب (١) کو نکال کھڑا کریں گے۔

آیت نمبر 10: سورۃ اعراف آیت 57

وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ۭ حَتّٰى اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۭكَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ 57؀

اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ خوش کر دیتی ہیں (١) یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں (٢) تو ہم اس بادل کو کسی خشک سرزمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں (٣) یوں ہی ہم مردوں کو نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم سمجھو (٤)۔

۔ اب یہاں بیان ہو رہا ہے کہ رزاق بھی وہی ہے اور قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر دینے والا بھی وہی ہے ۔ پس فرمایا کہ بارش سے پہلے بھینی بھینی خوش گوار ہوائیں وہی چلاتا ہے (بشرا) کی دوسری قرأت مبشرات بھی ہے ۔(-------- )یک اور آیت میں ہے رحمت رب کے آثار دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو وہ جلا دیتا ہے وہی مردہ انسانوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ (-------- )جیسے آیت (وایتہ لھم الارض) میں بیان ہوا ہے پھر اس سے پانی برسا کر اسی غیر آباد زمین کو سر سبز بنا دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہم مردوں کو زندہ کر دیں گے حالانکہ وہ بوسیدہ ہڈیاں اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل گئے ہوں گے ۔ قیامت کے دن ان پر اللہ عزوجل بارش برسائے گا چالیس دن تک برابر برستی رہے گی جس سے جسم قبروں میں اگنے لگیں گے جیسے دانہ زمین پر اگتا ہے ۔ یہ بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے ۔ قیامت کی مثال بارش کی پیداوار سے دی جاتی ہے ۔

تفسیر ابنِ کثیر


آیت نمبر 11: سورۃ روم آیت نمبر 11

اَللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ . 11؀

خدا ہی خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا ہے وہی اس کو پھر پیدا کرے گا(بروزِقیامت) پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔

فرمان باری ہے کہ سب سے پہلے مخلوقات کو اسی اللہ نے بنایا اور جس طرح وہ اس کے پدبا کرنے پر اس وقت قادر تھا اب فناکر کے دوبارہ پدرا کرنے پر بھی وہ اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ قادر ہے تم سب قایمت کے دن اسی کے سامنے حاضر کئے جانے والے ہو۔

تفسیر ابنِ کثیر

اللہ تعالی خلقک و اول بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی اس کو پیدا کرے گا پھر(پیدا ہونے کے بعد) اس کے پاس (حساب کتاب کے لئے) لائے جاؤ گے اور جس روز قیامت قائم ہو گی( جس میں اعادہ مذکور ہنے والا ہے) اس روز مجرم (یعنی کافر) لوگ (باز پرس کے وقت) حیرت زدہ رہ جائیں گے(یعنی کوئی معقول بات ان سے نہ بن پڑیگی۔

تفسیر معارف القرآن

God originates creation, in other words, He produces the creation of mankind, then He will reproduce it, that is, the creation of them, after their death, then to Him you shall be returned (read turja‘una; or yurja‘una, ‘they shall be returned’).

تفسیرِ جلالین

آیت نمبر 12: سورۃ کہف 99

وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰهُمْ جَمْعًا 99۝ۙ

(اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کرلیں گے

اور ہم اس روز(یعنی جب اس دیوار کے انہدام کا یوم موعود آئے گا اور یاجوج وماجوج کاخروج ہو گا تو اس روز ہم ) ان کی یہ حالت کریں گےکہ ایک میں ایک گڈ مڈ ہو جائیں گے۔کیونکہ یہ کثرت سے ہوں گے اور بیک وقت نکل پڑیں گے اور سب ایک دوسرے سےآگے بڑہنے کی فکر میں ہوں گے) اور (یہ قیامت کے قریب زمانہ میں ہو گا پھر بعد چندے قیامت کا سامان شروع ہو گا ایک بار اول صور پھونکا جائے گا جس سےتمام عالم فنا ہو جائے گا پھر) صور (دوبارہ ) پھونکا جائے گا (جس سے سب زندہ ہو جائیں گے) پھر ہم سب کو ایک ایک کرکے (میدان حشر میں) جمع کر لیں گے اور دوزخ کو اس روز کافروں کےسامنے پیش کردیں گے جن کی آنکھوں پر (دنیا میں)ہماری یاد سے(یعنی دین حق کےدیکھنے سے) پردہ پڑا ہوا تھا اور (جس طرح یہ حق کو دیکھتے نہ تھے اسی طرح اس کو )وہ سن بھی نہ سکتے تھے (یعنی حق کو معلوم کرنےکےذرائع دیکھنے اور سننے کےسب راستے بند کررکھے تھے)

تفسیر معارف القرآن

آیت نمبر 14: سورۃ زخرف 11

وَالَّذِيْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ ۚ فَاَنْشَرْنَا بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا ۚ كَذٰلِكَ تُخْـرَجُوْنَ 11؀

اور جس نے اتارا آسمان سے پانی ایک خاص اندازے کے ساتھ پھر جلا اٹھایا ہم نے اس کے ذریعے مردہ (اور ویران پڑی) زمین کو اسی طرح نکالا جائے گا تم لوگوں کو (تمہاری قبروں سے)

ف٣ یعنی ایک خاص مقدار میں جو اس کی حکمت کے مناسب اور اس کے علم میں مقدور تھی۔
ف٤ یعنی جس طرح مردہ زمین کو بذریعہ بارش زندہ اور آباد کر دیتا ہے۔ ایسے ہی تمہارے مردہ جسموں میں جان ڈال کر قبروں سے نکال کھڑا کرے گا۔

تفسیرِ عثمانی

and Who sent down water from the heaven in measure, that is to say, in the measure that you require thereof and did not send it down in a deluge, and We revived with it a dead land. Thus — like this revivification — will you be brought forth, from your graves, alive;

تفسیرِ جلالین

آیت نمبر 15: سورۃ بقرہ 28

كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀


تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا۔ پھر تمہیں مار ڈالے گا پھر زندہ کرے گا (١) پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کفار جو کہیں گے آیت ( رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ) 40۔غافر:11) اے اللہ دو دفعہ تو نے ہمیں مارا اور دو دفعہ جلایا ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے ۔ اس سے مراد یہی ہے جو اس آیت (وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ) 2۔ البقرۃ:28) میں ہے مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپوں کی پیٹھ میں مردہ تھے یعنی کچھ بھی نہ تھے۔ اس نے تمہیں زندہ کیا یعنی پیدا کیا پھر تمہیں مارے گا یعنی موت ایک روز ضرور آئے گی پھر تمہیں قبروں سے اٹھائے گا۔ پس ایک حالت مردہ پن کی دنیا میں آنے سے پہلے پھر دوسری دنیا میں مرنے اور قبروں کی طرف جانے کی پھر قیامت کے روز اٹھ کھڑے ہونے کی۔ دو زندگیاں اور دو موتیں

تفسیر ابنِ کثیر

ف۷ یعنی اجسام بےجان کہ حس و حرکت کچھ نہ تھی۔ اول عناصر تھے اس کے بعد والدین کی غذا بنے، پھر نطفہ، پھر خون بستہ پھر گوشت۔
ف۸ یعنی حالات سابقہ کے بعد نفخ روح کیا گیا جس سے رحم مادر اور اس کے بعد دنیا میں زندہ رہے۔
ف۹ یعنی جب دنیا میں وقت مرنے کا آئے گا۔
ف۱۰ یعنی قیامت کو زندہ کئے جاؤ گے حساب لینے کے واسطے۔
ف۱۱ یعنی قبروں سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے روبرو حساب و کتاب کے واسطے کھڑے کئے جاؤ گے۔


تفسیرِ عثمانی

How do you, people of Mecca, disbelieve in God, when you were dead, semen inside loins, and He gave you life, in the womb and in this world by breathing Spirit into you (the interrogative here is either intended to provoke amazement at their [persistent] unbelief despite the evidence established, or intended as a rebuke); then He shall make you dead, after your terms of life are completed, then He shall give you life, at the Resurrection, then to Him you shall be returned

تفسیرِ جلالین

بھلا کیوں کر ناشکری کرتے ہو اللہ کے ساتھ (کہ اس کے احسانات کو بھلا دیتے ہو اور غیروں کا کلمہ پڑہتے ہو) حالانکہ ( اس پر دلائل واضحہ قائم ہیں کہ صرف ایک اللہ ہی مستحق عبادت ہے مثلا یہ کہ ) تھے تم بے جان (یعنی نطفہ میں جان پڑنے سے پہلے)سو تم کو جاندار کیا پھر تم کو موت دیں گے پھر زندہ کریں گے(یعنی قیامت کے دن) پھر انہی کے پاس لے جائے جاؤگے (یعنی میدان قیامت میں حساب کتاب کے لئے حاضر کئے جاؤگے)

تفسیر معارف القرآن

آیت نمبر 16 : حٰم سجدۃ (فصلت)آیت 39

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنَّكَ تَرَى الْاَرْضَ خَاشِعَةً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاۗءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ ۭ اِنَّ الَّذِيْٓ اَحْيَاهَا لَمُحْىِ الْمَوْتٰى ۭ اِنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 39؀


اور (اے بندے یہ) اسی کی قدرت کے نمونے ہیں کہ تو زمین کو دبی ہوئی (یعنی خشک) دیکھتا ہے جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو شاداب ہو جاتی اور پھولنے لگتی ہے تو جس نے زمین کو زندہ کیا وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے بیشک وہ ہرچیز پر قادر ہے

آیت نمبر 16: سورۃ عبس 21،22

ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ 21؀ۙ۔ ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ اَنْشَرَهٗ 22؀ۭ۔

پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا۔پھر جب چاہے گا اسے زندہ کر دے گا۔

یعنی جس نے ایک مرتبہ جِلایا اور مارا۔ اسی کو اختیار ہے کہ جب چاہے دوبارہ زندہ کر کے قبر سے نکالے۔ کیونکہ اس کی قدرت اب کسی نے سلب نہیں کرلی۔ (العیاذ باللہ) بہرحال پیدا کر کے دنیا میں لانا، پھر مار کر برزخ میں لے جانا، پھر زندہ کر کے میدان حشر میں کھڑا کر دینا، یہ امور جس کے قبضہ میں ہوئے کیا اس کی نصیحت سے اعراض وانکار اور اس کی نعمتوں کا استحقار کسی آدمی کے لئے زیبا ہے۔

تفسیرِ عثمانی

آیت نمبر 18: سورۃ مجادلہ 6آیت :

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا ۭ اَحْصٰىهُ اللّٰهُ وَنَسُوْهُ ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ Č۝ۧ

جس دن ان سب کو اللہ قبروں سے اٹھائے گا پھر ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے جس کو اللہ نے یاد رکھا ہے اور وہ بھول گئے ہیں اور اللہ کے سامنے ہر چیز موجود ہے

آیت نمبر 19: سورۃ مجادلہ آیت 18:

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ 18؀

جس دن اللہ ان سب کو قبروں سے اٹھائے گا تو اس کے سامنے بھی ایسی ہی قسمیں کھائیں گے جیسی کہ تمہارے سامنے کھاتے ہیں اور سمھجھ رہے ہیں کہ ہم رستے پر ہیں خبردار بیشک وہی جھوٹے ہیں۔

آیت نمبر 20: سورۃ ق آیت 41-44

وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّكَانٍ قَرِيْبٍ 41؀ۙ۔يَّوْمَ يَسْمَعُوْنَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۭ ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوْجِ 42؀۔اِنَّا نَحْنُ نُـحْيٖ وَنُمِيْتُ وَاِلَيْنَا الْمَصِيْرُ 43؀ۙ۔ يَوْمَ تَشَقَّقُ الْاَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۭ ذٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيْرٌ 44؀۔

اور توجہ سے سنیئے جس دن پکارنے والا پاس سے پکارے گا،جس دن وہ ایک چیخ کو بخوبی سنیں گے یہ دن قبروں سے نکلنے کا ہوگا۔بے شک ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔جس دن ان پر سے زمین پھٹ جائے گی لوگ دوڑتے ہوئے نکل آئیں گے یہ لوگوں کا جمع کرنا ہمیں بہت آسان ہے۔

آیت نمبر 21: سورۃ زمر آیت 68:

وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ 68؀

اور صور پھونک دیا جائے گا پس آسمانوں اور زمین والے سب بےہوش ہو کر گر پڑیں گے (١) مگر جسے اللہ چاہے (۲) پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے (۳)

آیت نمبر 22: سورۃ روم 40

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ۭ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ 40؀ۧ


اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں روزی دی پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے معبودوں میں سے کبھی کوئی ایسا ہے جو ان کاموں میں سے کچھ بھی کر سکے وہ پاک ہے اور ان کے شریکوں سے بلند ہے

آیت نمبر 23: سورۃ العمران آیت 49:

وَرَسُوْلًا اِلٰى بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ڏ اَنِّىْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۙ اَنِّىْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَيْــــَٔــةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًۢ ا بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ ۚ وَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِيْ بُيُوْتِكُمْ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ 49؀ۚ


اور اس کو بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گا بیشک میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نشانیاں لے کر آیا ہوں کہ میں تمہیں مٹی سے ایک پرندہ کی شکل بنادیتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں اور وہ اللہ کے حکم سے اڑتا جانور ہو جاتا ہے اور مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کردیتا ہوں اور اللہ کے حکم سے مردے زندہ کرتا ہوں اور تمہیں بتا دیتا ہوں جو کھا کر آؤ اور جواپنے گھروں میں رکھ کر آؤ اس میں تمہار لیے نشانیاں ہیں اگر تم ایماندار ہو۔

آیت نمبر 24: سورۃ : سورۃ مریم 15 (حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں)


وَسَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا 15۝ۧ


اوران کو الله تعالیٰ کا سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن کے وہ انتقال کریں گے اور جس دن (قیامت میں) زندہ ہو کر اٹھائے جاویں گے۔ (ف۵)


ترجمہ بیان القرآن

ف۵۔ وہ عنداللہ ایسے وجیہ و مکرم تھے کہ ان کے حق میں من جانب اللہ یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ان کو اللہ تعالی کا سلام پہنچے جس دن کہ وہ پیدا ہوئے اور جس دن وہ انتقال کریں گے اور جس دن قیامت میں زندہ ہوکر اٹھائے جاویں گے ۔


تفسیر بیان القرآن

ف٧ اللّٰہ جو بندہ پر سلام بھیجے محض تشریف و عزت افزائی کے لیے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس پر کچھ گرفت نہیں۔ یہاں (يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوْتُ وَيَوْمَ يُـبْعَثُ حَيًّا) 19۔مریم:15) سے غرض تعمیم اوقات و احوال ہے۔ یعنی ولادت سے لے کر موت تک اور موت سے قیامت تک کسی وقت اس پر خوردہ گیری نہیں۔ خدا کی پکڑ سے ہمیشہ مامون و مصؤن ہے۔


تفسیر عثمانی


آیت نمبر 25: سورۃ مریم آیت 33(حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں)


وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا 33؀


حضرت عیسٰیؑ فرماتے ھیں کہ مجھ پر اللہ تعلٰی کی طرف سے سلام و رحمتی ھے جس دن میں پیدا کیا گیا، (دنیا میں) جس روز میں مروں گا (یعنی) قبر میں اور جس روز زندہ کر کے اٹھایا جائوں گا۔


حضرت عیسٰی کی زندگی کے تین حال ھیں۔
۱۔ دنیا میں زندہ
۲۔ قبر میں میت (جب زمیں پر نازل ھو کر دنیا کی زندگی ختم کر کے قبر میں دفن ھوں گے)
۳۔ آخرت میں زندہ ھونا


تفسیر قرطبی ص ۴۱۴۳ ج

الحمد اللہ قرآن مجید سے کوئی 25 آیات اس عقیدے پر پیش کر دی ہیں کہ "جن پر موت آجاتی ہے انہیں بروزِ قیامت ہی زندہ کیا جائے گا ، قیامت سے پہلے ان کے اجساد میں ارواح نہیں لوٹائی جاتیں،صرف نفخئہ ثانیہ میں روح کا اعادہ ہو گا "

ہدایت کے لیئے قرآن مجید کی ایک آیت بھی کافی ہے ۔۔ اللہ سب کو ہدایت دے اور سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے (اٰمین)

اب انشاء اللہ جلد ہی اس سلسے کے چوتھے حصے کے ساتھ حاضر ہوں گا ! "حیات الانبیاء و حیات و شھداء فی الجنت (روحانی) "

دعاؤں میں یاد رکھئیے گا ۔۔ اللہ نگہبان

السلام علیکم :

شیخ @اسحاق سلفی بھائی اس تحریر کے مطالق کہہ رہا تھا -
 
Top