عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,869
- پوائنٹ
- 157
عقیدہ الولاء و البراء اور محدثین کا منہج
اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں سے تعامل سے ماخوذ،ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
الولاء والبراءکواسلامی عقائد اور ایمانیات کا ایک نہایت اہم مسئلہ ہے جسے سمجھنا،اس پر عمل کرنا او اسکے مطابق لوگوں سے تعامل کرنا ہر صاحب ایمان کا فرض ہے،صحت مند اور مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے اسلامی تعلیمات مسئلہ الولاء والبراء کے ذریعے ہی ظہور پذیر ہو سکتی ہیں،ایک مومن اور مسلمان شخص کے الولاءو البراء کی بنیاد خالصتاً اسلام پر ہوتی ہے،مومن کی انفرادی زندگی ہو یااجتماعی وہ اپنے تعلقات میں ہر صورت اسلام اوراس کی تعلیمات کو ہی ترجیح دیتا ہے،یعنی جو شخص اللہ اور اس کے رسولﷺپر ایمان رکھتا ہے وہ جو بھی ہو ،اس کے ساتھ مولات پر مبنی تعلق رکھنا مومن پر واجب ہے۔ایسے ہی جو شخص جو اللہ اور اس کے رسول کا منکر اور کافر ہے،وہ جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو اس سے لا تعلقی اور برأت کا اظہار فرض ہے اور جس شخص میں بیک وقت ایمان اور فسق وفجور دونوں جمع ہوں،اس کے ساتھ اس کے ایمان کے مطابق مولات اور تعلق رکھنا اور جس قدر اس میں فسق و فجور ہے اسی قدر اس سے اظہار برأت اور بیزاری واجب ہے اور جو شخص ملتِ اسلامیہ کی پرواہ کئے بغیر کفار سے مولاۃ اورمومنوں سے برأت اختیار کرتا ہے،اس کی توحید اورایمان میں خلل ہے۔
اسی لیے یہ محدثین کرام کے عقائدی منہج کا ایک اہم باب ہے، اس کے دو اہم حصے ہیں۔
1:الولاء۔ 2:البراء
الولاء:
شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں’’ الولاء ‘‘کا معنی ہے اہل ایمان کے ساتھ ان کے ایمان کی بنیاد پرالولاءکا لفظ عربی زبان میں محبت،نصرت اور قرب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ایسے ہی محبت کرنے والے،مددگار اور دوست کو کہتے ہیں۔
محبت و الفت
کارخیر میں ان کے ساتھ تعاون
بوقت ضرورت ان کی حسب استطاعت مدد
اللہ کو خوش کرنے کے لیے ان سے میل ملاقات کا اہتمام اور صحبت و رفاقت
ملاقات کے وقت سلام و مصافحہ
کتاب و سنت میں مذکور ان کے حقوق عامہ و خاصہ کی ادائیگی کرنا،وغیرہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ۔ وَ مَنْ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔(سورۃ المائدہ:55،56)
’’تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ اہلِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں۔اور جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ اور اہلِ ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے‘‘
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ١ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ يُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ اُولٰٓىِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ(سورۃ التوبہ:۷۱)
’’مومن مرد اور مومن عورتیں ، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی ، یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم ہو دانا ہے‘‘
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ارشاد نبوی ﷺہے:ایمان کی حلاوت پانے والی تین باتوں میں ایک یہ ہے کہ:
’’أنْ یُحِبَّ اَلْمَرْءَ لَایُحِبُّہُ الَّا لِلَّہِ‘‘آدمی کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے‘‘۔(بخاری:16)
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہﷺنے فرمایا:
" مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ، فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ "(سنن ابی داؤد:۴۰۸۱)
’’جس نے اللہ کے لیے محبت کی،اللہ کے لیے بغض رکھا،اللہ کے لیے عطا کیا اور اللہ کے لیے روکا اس کا ایمان مکمل ہو گیا‘‘
سیدنا ابو ذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ۔(ابو داؤد:۴۵۹۹)
’’افضل ترین عمل اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیےبغض رکھناہے‘‘
اس کے برعکس قطع رحمی کو اللہ تعالیٰ نے موجب جہنم قرار دیا ہے،اہل ایمان کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلقات کو حرام ٹھہرایا ہے۔
البراء
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ۔(سورۃ البقرہ:۱۲۲)براء عربی لغت کی رو سے کسی شۓ سے دوری اختیار کرنے،اس سے جدا ہونے اوربیزاری کا اظہار کرنے کو کہا جاتا ہے۔
’’جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی ان لوگوں سے اظہار بیزاری کردیں گے جنہوں نے ان کی پیروی کی ہوگی‘‘
شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں’’البراء‘‘کفار،مشرکین،منافقین اور اللہ اور اس کے رسولﷺکے دشمنوں کے ساتھ اللہ کی رضامندی کے لیے بغض رکھنے اوران سے دور رہنے اور ان کے خلاف حسب ضرورت اور حسبِ طاقت جہاد کرنےیا اس کے لیے تیار رہنے کو کہتے ہیں۔
اہل کفرونفاق کے ساتھ بغض،لاتعلقی اوران سے بیزاری کا اظہار کرنا کتاب و سنت کی رو سے ایمان کا بنیادی جزو ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ(سورۃ آل عمران:۲۸)
’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یارو مددگار ہرگز نہ بنائیں‘‘
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ(سورۃ الممتحنہ:۱)’’اے ایمان والو!میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ‘‘
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ١ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ٞ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ(سورۃ الممتحنہ:۴)
’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پُوجتے، ہو قطعی بیزار ہیں ،ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ ‘‘
نبی کریمﷺکاارشاد ہے:
’’أوثق عرى الإيمان الحب في الله و البغض في الله‘‘(مصنف ابنِ ابی شیبہ،الطبرانی فی الکبیر،سلسلۃ الصحیحۃ:۱۷۲۸)
’’اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے بغض رکھنا،ایمان کی سب سے بڑی مضبوط کڑی ہے‘‘
لہٰذا اہل ایمان کا فرض ہے کہ کتاب و سنت سے ثابت اس عقیدہ’’البراء‘‘پر عمل پیرا ہوں اوران کے دل میں کفار و مشرکین کے لیے کوئی محبت اور احترام نہ ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ(سورۃ المجادلہ:۲۲)
’’تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی ہے‘‘
مضمون ابھی جاری ہے