• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ الولاء و البراء اور محدثین کا منہج،ڈاکٹرحافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
عقیدہ الولاء و البراء اور محدثین کا منہج
ڈاکٹرحافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ
اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں سے تعامل سے ماخوذ،ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ​

الولاء والبراءکواسلامی عقائد اور ایمانیات کا ایک نہایت اہم مسئلہ ہے جسے سمجھنا،اس پر عمل کرنا او اسکے مطابق لوگوں سے تعامل کرنا ہر صاحب ایمان کا فرض ہے،صحت مند اور مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے اسلامی تعلیمات مسئلہ الولاء والبراء کے ذریعے ہی ظہور پذیر ہو سکتی ہیں،ایک مومن اور مسلمان شخص کے الولاءو البراء کی بنیاد خالصتاً اسلام پر ہوتی ہے،مومن کی انفرادی زندگی ہو یااجتماعی وہ اپنے تعلقات میں ہر صورت اسلام اوراس کی تعلیمات کو ہی ترجیح دیتا ہے،یعنی جو شخص اللہ اور اس کے رسولﷺپر ایمان رکھتا ہے وہ جو بھی ہو ،اس کے ساتھ مولات پر مبنی تعلق رکھنا مومن پر واجب ہے۔ایسے ہی جو شخص جو اللہ اور اس کے رسول کا منکر اور کافر ہے،وہ جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو اس سے لا تعلقی اور برأت کا اظہار فرض ہے اور جس شخص میں بیک وقت ایمان اور فسق وفجور دونوں جمع ہوں،اس کے ساتھ اس کے ایمان کے مطابق مولات اور تعلق رکھنا اور جس قدر اس میں فسق و فجور ہے اسی قدر اس سے اظہار برأت اور بیزاری واجب ہے اور جو شخص ملتِ اسلامیہ کی پرواہ کئے بغیر کفار سے مولاۃ اورمومنوں سے برأت اختیار کرتا ہے،اس کی توحید اورایمان میں خلل ہے۔
اسی لیے یہ محدثین کرام کے عقائدی منہج کا ایک اہم باب ہے، اس کے دو اہم حصے ہیں۔
1:الولاء۔ 2:البراء
الولاء:

الولاءکا لفظ عربی زبان میں محبت،نصرت اور قرب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ایسے ہی محبت کرنے والے،مددگار اور دوست کو کہتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں’’ الولاء ‘‘کا معنی ہے اہل ایمان کے ساتھ ان کے ایمان کی بنیاد پر
محبت و الفت
کارخیر میں ان کے ساتھ تعاون
بوقت ضرورت ان کی حسب استطاعت مدد
اللہ کو خوش کرنے کے لیے ان سے میل ملاقات کا اہتمام اور صحبت و رفاقت
ملاقات کے وقت سلام و مصافحہ
کتاب و سنت میں مذکور ان کے حقوق عامہ و خاصہ کی ادائیگی کرنا،وغیرہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ۔ وَ مَنْ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ۔(سورۃ المائدہ:55،56)
’’تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ اہلِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں۔اور جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ اور اہلِ ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے‘‘
وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ١ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ يُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ اُولٰٓىِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ(سورۃ التوبہ:۷۱)
’’مومن مرد اور مومن عورتیں ، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی ، یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم ہو دانا ہے‘‘
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ارشاد نبوی ﷺہے:ایمان کی حلاوت پانے والی تین باتوں میں ایک یہ ہے کہ:
’’أنْ یُحِبَّ اَلْمَرْءَ لَایُحِبُّہُ الَّا لِلَّہِ‘‘آدمی کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے‘‘۔(بخاری:16)
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہﷺنے فرمایا:
" مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ، فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ "(سنن ابی داؤد:۴۰۸۱)
’’جس نے اللہ کے لیے محبت کی،اللہ کے لیے بغض رکھا،اللہ کے لیے عطا کیا اور اللہ کے لیے روکا اس کا ایمان مکمل ہو گیا‘‘
سیدنا ابو ذررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْحُبُّ فِي اللَّهِ وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ۔(ابو داؤد:۴۵۹۹)
’’افضل ترین عمل اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیےبغض رکھناہے‘‘
اس کے برعکس قطع رحمی کو اللہ تعالیٰ نے موجب جہنم قرار دیا ہے،اہل ایمان کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلقات کو حرام ٹھہرایا ہے۔
البراء

براء عربی لغت کی رو سے کسی شۓ سے دوری اختیار کرنے،اس سے جدا ہونے اوربیزاری کا اظہار کرنے کو کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ۔(سورۃ البقرہ:۱۲۲)
’’جب وہ لوگ جن کی پیروی کی گئی ان لوگوں سے اظہار بیزاری کردیں گے جنہوں نے ان کی پیروی کی ہوگی‘‘
شریعت اسلامیہ کی اصطلاح میں’’البراء‘‘کفار،مشرکین،منافقین اور اللہ اور اس کے رسولﷺکے دشمنوں کے ساتھ اللہ کی رضامندی کے لیے بغض رکھنے اوران سے دور رہنے اور ان کے خلاف حسب ضرورت اور حسبِ طاقت جہاد کرنےیا اس کے لیے تیار رہنے کو کہتے ہیں۔
اہل کفرونفاق کے ساتھ بغض،لاتعلقی اوران سے بیزاری کا اظہار کرنا کتاب و سنت کی رو سے ایمان کا بنیادی جزو ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ(سورۃ آل عمران:۲۸)
’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یارو مددگار ہرگز نہ بنائیں‘‘
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ(سورۃ الممتحنہ:۱)’’اے ایمان والو!میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ‘‘
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ١ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ٞ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ(سورۃ الممتحنہ:۴)
’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اُس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم خدا کو چھوڑ کر پُوجتے، ہو قطعی بیزار ہیں ،ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ ‘‘
نبی کریمﷺکاارشاد ہے:
’’أوثق عرى الإيمان الحب في الله و البغض في الله‘‘(مصنف ابنِ ابی شیبہ،الطبرانی فی الکبیر،سلسلۃ الصحیحۃ:۱۷۲۸)
’’اللہ کے لیے محبت کرنا اور اللہ کے لیے بغض رکھنا،ایمان کی سب سے بڑی مضبوط کڑی ہے‘‘
لہٰذا اہل ایمان کا فرض ہے کہ کتاب و سنت سے ثابت اس عقیدہ’’البراء‘‘پر عمل پیرا ہوں اوران کے دل میں کفار و مشرکین کے لیے کوئی محبت اور احترام نہ ہو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ(سورۃ المجادلہ:۲۲)
’’تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی ہے‘‘
مضمون ابھی جاری ہے​
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
ان کے مشوروں اور نصائح کو خاطر میں نہ لائیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِيْعُوا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِيْن۔(سورۃ العمران:۱۴۹)
’’اے ایمان والوں،اگر تم کافر کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں تماری ایڑیوں کے بل پلٹا دیں گے(یعنی تمہیں مرتد بنا دیں گے)پھر تم نامراد ہو جاؤ گے‘‘
اپنی نجی،قومی اور معاشرتی زندگی میں ان کی خواہشات کا احترام نہ کریں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ لَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍؔ۔(سورۃ البقرہ:۱۲۰)
’’اگر اُس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارےلیے نہیں ہے‘‘
ان کی طرف کسی قسم کا میلان اور رجحان نہ رکھیں۔

فرمایا:
وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۔(سورۃ ھود:۱۱۳)
’’ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے اورکہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی‘‘
کفریہ معاشروں کا استحسان کی نظر سے نہ دیکھیں،ان کی تعریف نہ کریں،ان کے ساتھ تعلقات میں مداہنت سے کام نہ لیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَدُّوْا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ۔(سورۃ القلم:۹)’’وہ تو چاہتے ہیں کہ اگر آپ نرم رویہ اختیار کریں تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں‘‘
ان کے اعتقادات و افکار،عبادت،دینی شعائر،تہذیبی و ثقافتی روایات،عبادات و اطوار ، اوربودوباش،لباس رہنے سہنے اور خوردونوش کے طریقوں میں ان کی مشابہت اختیار نہ کی جائے۔ان کی عیدوں(کرسمس وغیرہ) اوردیگر مذہبی رسوم و رواج اور تہواروں میں شرکت بھی اسی مشابہت کا حصہ ہے۔

فرمایا:وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَيِّنٰتُ وَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌۙ۔(سورۃآل عمران:۱۰۵)
’’کہیں تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنہوں نےیہ روش اختیار کی وہ اُس روز سخت سزا پائیں گے‘‘
ہمارے ہادی و رہنما محمد مصطفیﷺنے فرمایا:
’’مَنْ تَشَبَّہ بِقَوْم فَھُوَمِنْھُمْ‘‘جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہو جائے گا۔(سنن ابی داؤد:۴۰۳۱)
کفار پر اعتماد،انہیں اپنے امورومعاملات میں شریک کرنا،اپنی پالیسیوں میں ان سے راہنمائی حاصل کرنا،انہیں اپنا رازدان بنانا ان سب امور سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ اَوْلِيَآءَ حَتّٰى يُهَاجِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْهُمْ وَ اقْتُلُوْهُمْ حَيْثُ وَجَدْتُّمُوْهُمْ وَ لَا تَتَّخِذُوْا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَّ لَا نَصِيْرًاۙ(سورۃ النساء:۸۹)
’’وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہو جاؤ تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہو جائیں ۔ لہٰذا اُن میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ جب تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کر کے نہ آجائیں ، اور اگر وہ ہجرت سے باز رہیں تو جہاں پاؤ انہیں پکڑ لو اور قتل کرو اور ان میں سے کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ‘‘
بلاد کفار میں سکونت اختیار نہ کریں اور بلاضرورت وہاں جانے سے پرہیز کریں۔مجبوری اور دینی مصلحت اس سے مستثنیٰ ہے۔
نبی کریمﷺکا ارشاد ہے:
’’أَنَا بَرِيءٌ مِنْ كُلِّ مُسْلِمٍ يُقِيمُ بَيْنَ أَظْهُرِ الْمُشْرِكِينَ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ؟ قَالَ : لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا‘‘
’’میں ہر اس مسلمان سے بیزار ہوں جو مشرکین کے درمیان سکونت پذیر ہے،صحابہ نے پوچھا:اے اللہ کے رسول کیوں؟آپﷺنے فرمایا:ان دونوں کی آگ ایک دوسرے کو نہ دیکھے‘‘(ان کے گھر ایک دوسرے سے دور ہوں)(ابوداؤد:۲۶۴۵،ترمذی)
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
اہل بدعت حضرات کے ساتھ تعلقات میں محدثین کا منہج
حضرات محدثین کرام نے پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ اہل بدعت سے تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔کتاب و سنت کے دلائل سے اس کی حدودوقیود بیان کی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْۤ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ(سورۃ الانعام:۶۸)
’’جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کررہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں‘‘
اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ وَ اَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰى سَمْعِهٖ وَ قَلْبِهٖ وَ جَعَلَ عَلٰى بَصَرِهٖ غِشٰوَةً فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۔(سورۃ الجاثیہ:۲۳)
’’پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اُس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اُس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اُسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟‘‘
وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا۔(سورۃ الکھف:۲۸)
’’اور اس کا کہا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے‘‘
وَ اِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰۤى اَوْلِيٰٓـِٕهِمْ۠ لِيُجَادِلُوْكُمْ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْهُمْ۠ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَؒ۔(سورۃ الانعام:۱۲۱)
’’شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں۔ لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کر لی تو یقینا تم مشرک ہو‘‘
وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللّٰهِ يُكْفَرُ بِهَا وَ يُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِهٖۤ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ(سورۃ النساء:۱۴۰)
’’اللہ اس کتاب میں تم کو پہلے ہی حکم دے چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ اللہ کی آیات کے خلاف کفر بکا جارہا ہے اور اُن کا مذاق اُڑایا جارہا ہے وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں ۔اب اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بھی انہی کی طرح ہو‘‘
بدعت اور اہل بدعت کی تقسیم
بدعت کبری:
بدعت کبری کے مرتکب اہل بدعت کے ساتھ تعلقات کا حکم عام اہل بدعت سے مختلف ہے،اس سے مراد وہ لوگ ہیں ۔
جنہوں نے عقائد و ایمانیات میں طائفہ منصورہ کے ساتھ اختلاف کیا،کتاب وسنت کی صحیح و صریح نصوص کی من مانی تاویلیں کیں۔ذاتی آراء اور خواہش نفس کو سامنے رکھ کران کے معانی متعین کیے۔انہوں نے سلف امت صحابہ و تابعین سے ماثور عقائد کونہ صرف پسِ پشت ڈالا بلکہ ان کی اہانت اور گستاخی کا ارتکاب بھی کیا۔بدعت کبری صرف کبیرہ گناہوں میں ایک گناہ ہی نہیں ہے اور نہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی کوئی جزوی معصیت اور نافرمانی ہے۔بلکہ یہ بدعت اسلام اور دین و شریعت کے خلاف ایک متوازی دین اور خود ساختہ شریعت ہے،جس کے کئی رنگ ہیں اور اس کا ہر اسلوب اور منہج الحاد کی مختلف شکلوں کا ترجمان ہے۔اسلام کا لیبل تو اس پر صرف اسے مسلمانوں میں ترویج و اشاعت کے لیے لگایا گیا ہے
ان اہل بدعت میں کوئی مشرکین کا ہمنواء ہے،تو کوئی یہودی افکار کا ترجمان اور کوئی نصاری کے عقائد سے متاثر جبکہ اکثر کے اصول و ضوابط یونان اور فارس کے فلاسفہ ملحدین اور مجوس کے افکار و خیالات کا چربہ ہیں۔مثلاً
قدریہ کی طرف سے الہ العالمین اور رب کائنات کے قائم کردہ تقدیری نظام کا انکار اور اس کی تدبیر اور انتظام پر حرف گیری
جبریہ کا خلق افعال العباد کا انکار
روافض کا خلفاء ثلاثہ سے اظہار برات اور صحابہ کے بارے میں نفاق کا عقیدہ اور مسلمانوں کی متفق علیہ کتب حدیث کے بالمقابل اپنی اصول اربعہ اور قرآن کے بارے میں تحریف و تشکیک کے نظریات جہمیہ،معتزلہ اور غالی مرجئہ وغیرہ کا قرآن و سنت کی بے شمار ایسی نصوص کا نکاریا ان کی تحریف و تاویل اور اس باب میں ہوائے نفس کی پرستش۔وغیرہ وغیرہ
اس حال میں کفر تک پہنچنے والے اہل بدعت کے بارے میں یہ رائے قائم کرنا کہ ان کے ساتھ ولاءوبراءکا حکم کفار کے ساتھ ولاءوبراء کی طرح ہے اور یہ کتاب و سنت میں مذکور حقیقی اسلام کے خلاف ایک متوازی دین ہے،اس لیے ان سے اختلاط نہیں رکھنا چاہیے،بلکہ ان سے الگ تھلگ رہنا چاہیے۔کیا اس میں کوئی مبالغہ ہے؟حضرات محدثین کا ان اہل بدعت کے بارے میں یہی نظریہ ہے۔
محدثین کے اس منہج تعامل مع الناس کے بارے میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری کی چند تصریحات بطور اصول اور نمونہ پیشِ خدمت ہیں فرماتے ہیں:
’’باب ما یکرہ من التعمق والتنازع فی العلم و الغلو فی الدین والبدع‘‘(بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب و السنہ)
’’علم میں باہم اختلاف اور تعمق کی کراہت کے بارے میں اوردین میں غلو اور بدعتوں کی کراہت کے بارے میں‘‘اس باب میں امام صاحب نے بنیادی دلیل وہی آیت پیش فرمائی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کا مخاطب کیا ہے۔فرمایا:
يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ(سورۃ النساء:۱۷۱)
’’اے اہل کتاب!اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر سوائے حق کے کچھ نہ کہو‘‘
ایک اور باب میں فرمایا:
’’اِثْمُ مَنْ آوَی محدِثاً‘‘’’بدعتی کی پذیرائی کا گناہ‘‘اس میں بدعتی پراللہ،فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت کی حدیث ذکر کی۔
ایک اورباب میں فرمایا:
’’ اِثْمُ مَنْ دَعَا اِلَی ضَلَالَۃ أَوْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّئَۃً‘‘’’اس بدعتی شخص کے گناہ کا بیان جس نے گمراہی کی دعوت دی یا برا طریقہ اختیار کیا۔
اس میں قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا ہے۔
لِيَحْمِلُوْۤا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ مِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ اَلَا سَآءَ مَا يَزِرُوْنَؒ۔(سورۃ النحل:۲۵)
’’اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ قیامت کے دن یہ لوگ اپنے پورے بوجھ کے ساتھ ان کے بوجھ اُٹھانے میں بھی حصہ دار ہونگے،جنہیں بے علمی سے گمراہ کرتے رہے،دیکھو تو کیسا برا بوجھ اٹھا رہے ہیں‘‘
ان مثالوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ محدثین کا منہج اہل بدعت کے ساتھ تعلقات اور ان کے بارے میں رائے قائم کرنے کے سلسلے میں کیا ہے؟اور اس کی بنیاد کتنے واضح اور صحیح دلائل ہیں؟
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’احذروا من الناس صنفین:صاحب ھوی فتنتہ ھواہ و صاحب دنیا أعجبتہ دنیاہ‘‘
’’دو قسم کے لوگوں سے بچیں،ایک ہواوہوس کا پجاری جسے اس کی خواہشات نے اسے فتنہ میں مبتلا کر رکھا ہے،دوسرا دنیا پرست جو اپنی دنیا پر ہی خوش ہے‘‘
عصر حاضر میں اسلام کا نام استعمال کرنے اور اس کے پردے میں کفر کی نشرواشاعت کرنے والے باطل فرقوں کا حکم کفار کا ہے۔
جیسےالبابیہ،بہائیہ،قادیانیت،اشتراکیت،سوشلزم،علمانیت،قومیت،استشراق،وحدۃ الوجود،حلول و اتحاد،مادیت پرستی،روشن خیالی،وحدت ادیان،برابری کی بنیاد پر مکالمہ بین المذاہب وغیرہ
یہ اہل بدعت نام کی حد تک بدعتی ہیں،اصلاً یہ سب کفر کی شکلیں ہیں۔جیسے نفاق اور کفر میں لفظی فرق ہے،اصل میں دونوں ایک ہی ہیں۔ان تمام بدعتوں کے دُعاۃ شر کھلے بندوں ہر قسم کے ذرائع ابلاغ میں کفر کی نشرواشاعت میں مصروف ہیں۔بدعت کی اس نوع کے کفر اور اس کے مرتکبین کے کفار ہونے میں کسی تردد کی ضرورت نہیں ہے۔اہل ایمان کو ان کے فریب سے نکالنا،ان کی سازشوں سےآگاہ رکھنا،ان کا حکم بیان کرنا،ممکن ہو تو انہیں نصیحت کرنااور حق کی دعوت دینا،استطاعت ہوتو ان سے بحث کرکے حق واضح کرنا،بصورت دیگر ان سے مکمل قطع تعلقی اور اظہار بیزاری حضراتِ محدثین کا عقائدی منہج ہےجس کی پیروی ان کی جماعت اہل الحدیث و السنہ کا فرض منصبی ہے۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
بدعت صغری:
بدعت صغریٰ اور اس کا ارتکاب کرنے والے اہل بدعت کا حکم مختلف ہے۔یہ وہ بدعت ہے جو کفر تک نہیں پہنچتی ۔اس مین وہ لوگ آتے ہیں جو فہم کتاب و سنت میں اجتہادی غلطیوں کا شکار ہیں،کفر کے آلہ کار نہیں ہیں۔کتاب و سنت کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں مگر حق و صواب کی رسائی میں لغزش کا شکار ہیں۔یہ لوگ فاسق و فاجر اور اہل معاصی مسلمانوں کی طرح ہیں۔ان سے محبت و بغض ان کے ایمان و اتباع کے مطابق ہوگا۔انہیں خارج عن الملۃ کافر قرار دینا۔ان سے قطع تعلقی کرنا،ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے فتوے دینا اہل السنہ و الجماعۃ کا طریقہ نہیں ہے
اہل علم نے ہمیشہ ان کے ساتھ افہام و تفہیم،مکالمہ بالدلیل اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا راستہ اختیار کیا ہے۔ان کی نصیحت اور خیر خواہی کو اپنا فرض سمجھا ہے،فقہی مذاہب اور مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر اور مدارسِ فقہ کی اجتہادی غلطیاں،ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدعات صغریٰ کا یہی حکم ہے۔کلمہ اخلاص پر اجتماع اور وحدت امت کا یہی تقاضا ہے۔اہل بدعت کی متعلق اہل علم و فضل کے فتاوی میں بعض اوقات جو تضادات نظر آتے ہیں اس کی وجہ اہل علم کا فکری اختلاف نہیں ہے بلکہ بدعت اور اہل بدعت میں تفاوت اور فرق ہے۔
جیسے ایمان کے کچھ بنیادی اور اساسی اجزاء ہیں جن کے بغیر ایمان کا وجود ہی معدوم ہوجاتا ہے اور کچھ تحسینی اعمال ہیں جن کے عدم وجود سے عدم ایمان لازم نہیں آتا۔ایسے ہی کچھ اعتقادات اوراعمال اصل کفر ہیں اور کچھ کفردون کفر ہیں۔ان کی تفصیلات آئمہ حدیث کی کتب الایمان با لخصوص صحیح بخار ی کی کتاب الایمان میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
توجہ طلب نکتہ:
جہاں تک کفر ساز،تکفیر کے شائقین،اجتہادی خطاؤں پر مبنی بدعات اور معاصی کے بارے میں کفر کے فتوے لگانے والے اور ان کے مرتکب کوخارج عن الملۃ کافر قرار دینے والے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کرنے والے جاہل مفتیوں کا تعلق ہے،تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بزم علم میں ایسے لوگوں کا تذکرہ اہل علم کے وقار اور شان کے منافی ہے۔اس کے دو سبب ہو سکتے ہیں۔حماقت یا تجارت۔اس قسم کے احمق اور تاجر تمام دینی گروہوں اور فقہی مذاہب میں موجود ہیں۔ایسے لوگوں کا وجود خود ایک فتنہ اور اہل ایمان کی آزمائش ہے۔
بدعات کی یہ تقسیم محدثین کرام کی تصریحات کے استقرار پر مبنی ہے،جسکی وضاحت علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال کے شروع میں رواۃ کی جرح و تعدیل کے اصول کے ضمن میں کی ہے۔جو نہایت معقول اور معتدل ہےاور کبار آئمہ حدیث کےطرز عمل کی آئینہ دار اور ترجمان ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی آراء و فتاوی میں اعتدال کا یہی اسلوب نمایا ں ہے۔جبکہ کتاب و سنت کے صحیح فہم اور نصوص سے تمسک اور حق کے لیے غیر ت میں وہ ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے فتاوی اور فیصلے اہل بدعت کے لیےخوفناک میزائلوں سے کم نہیں ہیں۔طلبہ اگر محدثین کرام کے اس منہج اعتدال کا تتبع کریں اور سلف صالحین سے منقول سلیقہ اختلاف کو اپنائیں تو بزم علم و فکر میں بہار آسکتی ہے۔اور اس خزاں رسیدہ شجرۂ علم کی کونپلیں پھوٹ سکتی ہیں اور الفت و محبت کے پھول مہک سکتے ہیں۔اہل علم کو معاشرے میں ان کا صحیح مقام مل سکتا ہے اور دعوت و تبلیغ کا دائرہ وسیع تر ہو سکتا ہے۔
 

ابوعیینہ

مبتدی
شمولیت
جنوری 17، 2012
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
281
پوائنٹ
0
اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں سے تعامل سے ماخوذ،ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
،تکفیر گروپ مختلف لوگوں کو استعمال کرتے رہتے ہیں آج کل وہ شفیق الرحمن صاحب کو استعمال کر رہے ہیں یہاں تک کہ کتاب خود تکفیر لکھ کر نام ٹائٹل پر شفیق الرحمن لکھ دیتے ہیں ،فانا ککی وانا الیہ راجعون
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں سے تعامل سے ماخوذ،ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
،تکفیر گروپ مختلف لوگوں کو استعمال کرتے رہتے ہیں آج کل وہ شفیق الرحمن صاحب کو استعمال کر رہے ہیں یہاں تک کہ کتاب خود تکفیر لکھ کر نام ٹائٹل پر شفیق الرحمن لکھ دیتے ہیں ،فانا ککی وانا الیہ راجعون
وَ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْاهُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔(سورۃ المائدہ:۸)
’’کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو ، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘
اہل بدعت اور معاصر اسلامی تحریکوں کے ساتھ تعامل
کتاب و سنت اور فہم سلف کی روشنی میں
از ڈاکڑ سید شفیق الرحمن حفظہ اللہ
تقدیم
شیخ القرآن السید عبدالسلام رستمی حفظہ اللہ
مدیر:الجمامعۃ العربیہ پشاور
شیخ الحدیث محمد رفیق اثری حفظہ اللہ(دارالحدیث جلال پور پیروالا)
سماحۃ الشیخ ابو عمر عبدالعزیز نورستانی حفظہ اللہ(مدیر:الجمامعۃ الاثریہ پشاور)
فضیلۃ الشیخ ڈاکڑ عبدالرشید اظہر رحمۃ اللہ(مکتب سعودی عرب،اسلام آباد)
شیخ الحدیث حافظ الیاس اثری حفظہ اللہ(مرکز العلوم الاثریہ گوجرانوالا)
شیخ الحدیث پروفیسر محمد سعید کلیروی حفظہ اللہ(فاضل مدینہ یو نیورسٹی)(مبعوث وزارۃ الشئون الاسلامیہ والاوقاف والدعوۃ والارشاد،بالریاض)
شیخ الحدیث محمد عباس انجم گوندلوی حفظہ اللہ(جامع مسجد صدیقیہ گوجرانوالا)
ان شاءاللہ۔۔۔۔ابو عینیہ صاحب،اس دوائی سے آپ کازخم جلد مندمل ہو جائے گا،
اور جوالزام آپ نے شفیق الرحمن حفظہ اللہ کے حوالے سے لگایا ہے۔۔اس کی دلیل آپ پر لازم ہے۔۔
 
Top