• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ اہلسنت والجماعت

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بندے کا اپنے اعمال پراختیار و قدرت

ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو قدرت اور اختیار دے رکھا ہے ،چنانچہ اسی قدرت و اختیار کی وجہ سے ہی بندہ کوئی کام انجام دیتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بندے کے صاحب اختیار ہونے کے دلائل

اس بات کے دلائل کہ بندے کے کام اس کی قدرت ق اختیار انجام پاتے ہیں ۔مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی دلیل
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی ہے:
نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ ۠ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ
ترجمہ: تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو (سورۃ البقرۃ،آیت 223)
اور فرمایا:
وَلَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً
ترجمہ: اگر ان کا ارادہ جہاد کے لئے نکلنے کا ہوتا تو وہ اس سفر کے لئے سامان کی تیاری کر رکھتے (سورۃ التوبہ،آیت46)
مذکورہ دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو مکمل ارادہ مشئیت کا مالک ٹھہرایا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
دوسری دلیل
اللہ تعالیٰ نے بندوں کو امرونواہی کا مکلف ٹھہرایا ہے،اگر بالفرض وہ اختیاروقدرت کے مالک نہ ہوتے تو ایسی چیزوں کا مکلف کرنا ان کے حق میں تکلیف لا یطاق شمار ہوتااور یہ ایسی چیز ہے جو درج ذیل آیت میں مذکور اللہ تعالیٰ کی حکمت و رحمت اور اس کی سچی خبر کے منافی ہے۔ارشاد ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۭ
ترجمہ: اللہ تعالٰی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا (سورۃ البقرۃ،آیت 286)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
تیسری دلیل
اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکوکاروں کو نیکی کی تعریف اور برے لوگوں کو برے اعمال کی مذمت کرنا اور پھر ان میں سےہر ایک کو جس کا وہ مستحق ہے بدلہ دینا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ صاحب اختیار و قدرت ہے۔
اگر بندے کے اعمال و افعال اس کے دائرہ قدرت و اختیار میں نہ ہوتے تو اچھے اعمال بجا لانے والے کی تعریف بے کار اور لغو اور برے کی برائی کا بدلہ اس پر ظلم و زیادتی قرار پاتا،جبکہ اللہ تعالیٰ لغو باتوں اور ظلم و زیادتی سے پاک اور مبرا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
چوتھی دلیل
اللہ تعالیٰ نے (ہر دور اور ہر قوم میں) درج ذیل مقصد کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے۔چنانچہ ارشاد گرامی ہے:
رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا ١٦٥؁
ترجمہ: ہم نے انہیں رسول بنایا، خوشخبریاں سنانے والے اور آگاہ کرنے والے تاکہ لوگوں کی کوئی حجت اور الزام رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللہ تعالٰی پر رہ نہ جائے اللہ تعالٰی بڑا غالب اور بڑا باحکمت ہے۔(سورۃ النساء،آیت165)
اگر بندوں کے اعمال ان کے ارادہ و اختیارسے نہ ہوتے تو رسولوں کو بھیجنے سے ان کی حجت باطل نہ ہوتی۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
پانچویں دلیل
ہر کام کرنے والا کام کرتے یا چھوڑتے وقت اپنے آپ کو ہر قسم کے جبرو اکراہ سے آزاد محسوس کرتا ہے چنانچہ وہ محض اپنے ارادے سے کھڑا ہوتا ہے ،بیٹھتا ہے،آ جاتا ہے،سفر اور اقامت اختیار کرتا ہے اور کسی کا کوئی دباؤ محسوس نہیں کرتا۔
بلکہ حقیقت میں وہ ان کاموں میں جنہیں وہ اپنی مرضی و اختیار یا کسی دباؤ یا اکراہ کے نتیجے میں آتا ہے ،فرق محسوس کرتا ہے۔
اسی طرح شریعت نے بھی احکام کے اعتبار سے ان دو طرح کے اعمال (اختیار و اکراہ)کے درمیان فرق کیا ہے۔چنانچہ حقوق اللہ کے متعلق بندہ جو اعمال اکراہ یا دباؤ میں آکر کر گزرتا ہے،اس پر کوئی مواخذہ اورگرفت نہیں ہوتی۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
معصیت اور نافرمانی پر تقدیر کا سہارا غلط ہے

ہمارےخیال میں کسی گناہ گار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے گناہ پر اللہ تعایٰ کی تقدیر کو حجیت پکڑے،کیونکہ گناہ گار معصیت کا اقدام کر تے وقت با اختیار ہوتا ہے اور اسے اس بات کا قطعا علم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں یہی مقرر کر رکھا ہے،کیونکہ نوشتہ تقدیر کا علم،اعمال کے واقع ہونے کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ
ترجمہ: ؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا (سورۃ لقمان،آیت 34)
پھر ایسی چیز سے دلیل پکڑنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ،اقدام کرتے وقت جس کا علم خود دلیل پکڑنے والے کو حاصل نہیں ہوتا،جس کو بطور عذر کے اس کام کے اقدام پر جواز کے لیے پیش کر رہا ہے؟چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دلیل کو اپنے ذیل کے ارشاد سے باطل قرار دیا ہے:
سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا ۭقُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا ۭاِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ ١٤٨؁
ترجمہ: یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالٰی کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کر سکتے اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہو چکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا آپ کہیے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے ظاہر کرو تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل پچو سے باتیں بناتے ہو۔(سورۃ الانعام،آیت148)
ہم قضا و قدر کو حجت بنا کر معصیت کا ارتکاب کرنے والے سے کہیں گے تم تقدیر پر اعتماد کر کے عبادت و اطاعت کا راستہ کیوں نہیں اختیار کرتے؟یہ سمجھ کر کے اللہ تعالیٰ نے تمہارے حق میں یہی لکھا ہے ۔اس لحاظ سے معصیت اور اطاعت میں کوئی فرق نہیں ہے،کیونکہ فعل کے صادر ہونے سے قبل لا علمی میں یہ دونوں آپ کے لیے برابر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے صحابہ کر یہ خبر دی ہے کہ :
ما منكم من أحد إلا وقد كتب مقعده من الجنة ومقعده من النار ‏"‏‏.‏ فقالوا يا رسول الله أفلا نتكل فقال ‏"‏ اعملوا فكل ميسر
ترجمہ: تم میں سے ہر شخص کی جگہ جنت یا دوزخ میں اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کی کیا ہم عمل ترک کر کے اپنے لکھے ہوئے پر بھروسہ نہ کر لیں۔فرمایا نہیں،عمل کرو ،کیونکہ جو شخص جس کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس کے لیے اس کام کو آسان بنا دیا گیا ہے۔(بخاری ،کتاب التفسیر)
اسی طرح ہم قضا و قدر کو دلیل بنا کر گناہ کرنے والے سے کہیں گے اگر تم مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ رکھتے ہو اور تمہاری نظر میں اس کے دو ہی راستے ہوں اور آپ کو کوئی با عتماد آدمی خبر دے کہ ان دو راستوں میں سے ایک راستہ دشوار گزار اور خطرناک ہےاور دوسرا راستہ آسان ،پُر امن اور محفوظ ہے،تو یقینا تم دوسرا راستہ اختیار کرو گے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ یہ کہتے ہوئے پہلے خطرناک راستے پر چل نکلیں کہ میری تقدیر میں یہی لکھا ہے اور اگر ایسا کریں گے تو لوگ آپ کو احمق اور بے وقوف سمجھیں گے۔
اور اسی طرح ہم ایسے شخص سے یہ سوال کریں گے کہ اگر آپ کو دو ملازمتوں کی پیشکش کی جائے ،ان میں ایک بڑی تنخواہ والی ہو تو ظاہر ہے کہ آپ کم تنخواہ والی کی بجائے بڑی تنخواہ والی کو حاصل کرنا زیادہ پسند کریں گے،اسی طرح آخرت کے اعمال کے سلسلے میں تقدیر کو سہارا بنا کر کم اجرت والی چیز کو آپ کیوں اختیار کرتے ہیں؟
اور ہم اسے یہ بھی کہیں گے جب تمہیں کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو علاج معالجہ کے لیے ہر طرح کے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہو ،آپریشن اور تلخ دوائیں استعمال کرنے کی مصیبتیں جھیلتے ہو تو پھر اس طرح کی کاوش و کوشش معصیت سے بیمار دل کے علاج ومعالجہ کے لیے کیوں نہیں کرتے؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شر کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی جا سکتی

ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت و حکمت کے سبب شر کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جا سکتی۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
والشر ليس اليك
ترجمہ: "(اے اللہ) تیری طرف شر (منسوب) نہیں ہو سکتا۔"(صحیح مسلم)
چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں شر کا پہلو قطعا موجود نہیں،اس لیے کہ وہ (تقدیر) اللہ تعالیٰ کی حکمت و رحمت سے صادر ہوتی ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شر قضاء میں نہیں مقتضیات میں سے ہے

البتہ تقدیر کے مقتضیات و نتائج میں شر واقع ہوتا ہے (جو لوگوں سے صادر ہوتے ہیں) اس کی دلیل دعائے قنوت کا وہ جملہ ہے جو آنحضرت ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو سکھایا تھا،وہ یہ ہے:
وقنى شر ما قضيت
" (اے اللہ) مجھے اس بُری چیز کے شر سے محفوظ رکھ جس کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے۔"(1)
اس میں رسول اللہ ﷺ نے شر کی اضافت قضا و قدر کے مقتضی کی طرف فرمائی ہے،نیز تقدیر کے مقتضیات میں سے بھی شر خالص نہیں ہوتا،بلکہ بعض اعتبار سے شر ہوتا ہےاور بعض اعتبار سے خیر ،یا وہ ایک جگہ شر پر ہوتا ہے تو دوسری جگہ خیر۔
چنانچہ روئے زمین کی مصیبتیں مثلا قحط سالی،بیماری،غریبی اور خوف و خطر جیسی چیزیں شر شمار کی جاتی ہیں،لیکن بعینہ یہی چیزیں بعض دوسرے مقامات پر کسی اور نقطہ نظر سے خیروبرکت تصور کی جاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ 41؀
ترجمہ: خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالٰی چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں (سورۃ الروم،آیت 41)
اسی طرح چور کے ہاتھ کاٹنے اور شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کی سزا بظاہر چور اور زانی کے حق میں ہاتھ کٹ جانے اور جان کے چلے جانے کی وجہ سے شر نظر آتی ہیں،لیکن یہی چیز ان دونوں کے لیے دوسرے پہلو سے خیر اور بھلائی کا سبب ہے۔کیونکہ یہ سزا ان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔نیز اللہ تعالیٰ ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سزا کو جمع نہیں فرمائے گا (بشرطیکہ دل سے توبہ کی ہو)۔
نیز یہ سزا اس اعتبار سے بھی خیر ہے کہ اس سے دوسرے انسانوں کی جان ،مال،عزت و آبرو اور نسب کی حفاظت ہوتی ہےاور یہ خیر کا بہت بڑا پہلو ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) مصنف نے حوالہ زکر نہیں کیا۔(محمد ارسلان)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
فصل ھشتم
عقیدہ کے عظیم الشان فوائد و ثمرات

عظیم الشان اصولوں پر مبنی یہ بلند پایہ عقیدہ اپنے معتقدین کے لیے بہت سے عظیم الشان ثمرات کا حامل ہے۔
 
Top