• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ توحید ہی سرمایہ حیات ہے

شمولیت
نومبر 23، 2011
پیغامات
493
ری ایکشن اسکور
2,479
پوائنٹ
26
عبدالعزیز محمد السلمان

نظر ثانی و اضافہ
ڈاکٹر عبداللہ سلفی​

توحید ہے بندے کا یہ جاننا ، ماننا اس کو دل میں بٹھا ئے رکھنا اور اس پر یقین اور ایمان پانا کہ اس کا رب منفرد تریں ہے اور یہ کہ کمال کی صفت اس کے رب کے سوا کہیں پائی ہی نہیں جاتی ۔ بندے کا خدا کو یہ مقام دینا کہ خوبی اور عظمت اور کمال کا وہ تنہا مالک ہے اور یہ اعتقا د رکھنا کہ اس میں نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ اس کا کوئی مثل اور نہ اس کا کوئی شبیہ اور یہ کہ جب وہ ایسی عظیم ہستئ ہے کہ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں.
تو پھر وہ یکتا اللہ ہےیعنی الوہیت ایک اسی کو سزاوار ہے اور عبادت تنہااسی کا حق ہے ۔ جہاں کی ہر ہر ہستی صرف اور صرف اس کی بندگی کی پابندہے اور ایک اسی کی عبادت اس سے ہر حالت میں مطلوب ۔
توحید ربو بیت کیا ہے ؟
بندے کے دل میں اس بات کا جاگزیں ہو جانا کہ اللہ وحد ہ لاشریک ہی وہ رب ہے جو اکیلا ہی سب جہانو ں کو وجود میں لانے والا ہے اور اکیلا ہی ان کی ضرورت کا سب سامان کرنے والا اور اکیلا ہی ان کے ایک ایک معاملے کو چلانے والا ۔ بندے کا اس بات کو دل سے تسلیم کرنا کہ اللہ واحد لا شریک ہی وہ ذات ہے جس نے ہر مخلوق کو پالا ہے اپنی نعمتوں سے البتہ اپنی مخلوق میں سے خواص کو جو کہ انبیاء اور ان کے پیروکار ہیں ،پالا ہے صحیح عقائد سے پاکیزہ اخلاق سے نافع علوم سے اور صالح اعمال سے ۔

توحید الوہیت کیا ہے ؟
اس بات کا علم اور ادراک اور شعور کہ بندگی اور تعظیم کے سب رویے ایک اللہ وحدہ لا شریک کیلئے ہی سزاوار ہیں ۔بندے کا یہ اعتراف کرنا کہ ہر مخلوق کی گردن میں ایک اللہ ہی کی عبودیت کا قلادہ ہے اور یہ کہ عبادت کو ایک اسی کیلئے خاص کیا جانا ہے ۔ دین یعنی پرستش اور تسلیم و انقیاد کو ایک اسی کیلئے خالص کر کے رکھا جانا ہے ۔ توحید کی اس قسم کو توحید عبادت بھی کہا جاتا ہے ۔

توحید اسماء و صفات کیا ہے ؟
یہ ہے خدا کی بابت کچھ ایسے تصور کا دل کے اندر بیٹھ جانا کہ صرف اور صرف وہی ہے جو مطلق کمال رکھتا ہے اور یہ کہ اس کا یہ کمال ہر ہر جہت سے ہے عظمت جلال کبریائی جبروت و ملکوت جمال اور پاکیزگی کے خالص ترین پیرائے ایک اسی کیلئے سزا وار ہیں۔ جس کی صورت کوئی ہو سکتی ہے تو وہ یہ کہ اپنی ذات کی بابت وہ آپ ہی جو بات کہہ دے یا اس کا رسول کہہ دے اس کی ذات کی بابت بس اتنی ہی بات کی جائے اور بس اسی کا اثبات کیا جائے وہ اس کے نام ہوں اس کی صفات ہوں ان ناموں اور صفتوں کے مفہومات اور متعلق احکام ہیں صرف کتاب و سنت سے لیئے جائیں گے ۔
تمام انبیا کرام نے جس بنیاد ی نقطے کو اپنی دعوت کا موضوع بنایا وہ عقیدہ توحید تھا۔ اللہ تعالی نے شریعت و دین کی تفصیلات سمجھانے سے پہلے اس قضیے و مقدمے کو چھیڑا ۔عقیدہ توحید کو اعمال کی قبولیت کا معیار قرار دیا اور اخروی نجات کیلئے بنیادو اساس بتلایا ۔ عقیدہ توحید اسلامی شخصیت کے تمام عناصرکی جان اور قوت و زندگی کا سر چشمہ ہے ۔
عقیدہ توحید کے تین بنیادی پہلو( عقلی ،حسی ،کرداری )

عقیدہ توحید کے تین بنیادی پہلو ہیں ۔
عقیدہ توحید کے عقلی پہلو :
یہ ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ عقیدہ توحید کس قدر علمی ، منظم جامع اورحقیقت سے قریب تر ہے ۔عقیدہ توحید عقلی اعتبار سے کس قدر صحیح ہے اور کس قدر غلط ہے ؟ اس کو تسلیم کرنے سے کوئی علمی تضاد یا کاروٹ تو پیش نہیں آئی۔
عقیدہ توحید کا حسی پہلو :
یہ ہے ہم اس بات پر غورکریں کہ عقیدہ توحید کا ہمارے احسا سات و تاثرات سے کیا تعلق ہے ؟ کیا یہ صرف عقل کی ہی تسکیں کرتا ہے یا اس سے دل و دماٖغ کی دنیا بھی ہلچل محسوس کرتی ہے ۔کیا یہ صرف فلسفہ ہے یا محبتو ں و تفر توں کا جیتا جاگتا کرب و اضطراب کا سمندر رب ہی ہے ؟
عقیدہ توحید کا کردار ی پہلو:
یہ ہے ہم اس بات پر غور کریں کہ عقیدہ توحید کا ہمارے عمل و کردا ر سے کیا تعلق ہے؟ کیا اس کا صرف مان لینا کافی ہے یا یہ زندگی کے تمام امور کی کوئی جہت بھی متعین کرتا ہے ؟ کیا یہ صرف اقرار و اعتراف کا مطالبہ کرتا ہے یا کوئی کام بھی ذمہ لگا تا ہے ۔
عقیدہ سرمایہ حیات

عقیدہ توحید کے عقلی پہلو کے بارے میں :
ہم علی وجہ البصیرت یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ عقیدہ نظام کائنات انسانیت کی ابتدا ء و انجام مقصد و جود کون ومکان موت کے بعد والی زندگی کے متعلق ایسے بیانات دینا ہے جو ساری دنیا میں سب سے بہتر عقلی اور منظم تصورات ہیں دنیا کی کوئی تہذیب نظام دین کائنات خالق کائنات اور موت و حیات کے بارے میں ایسی عمدہ توحید پیش نہیں کر سکتے جو اسلامی عقیدہ توحید پیش کرتا ہے ہمیں عقیدہ توحید سے محبت صرف اس وجہ سے ہے کہ یہ باقی تمام فلسفوں کی بنسبت انسانی عقل کی زیادہ سے زیادہ تسکین کرتا ہے ۔
عقیدہ توحید کے حسی پہلو کے بارے میں :
ہم یہ کہیں گے کہ عقیدہ توحید صرف عقلی لحاظ سے ہی مظبوط نہیں بلکہ اس کا ہماری زندگی سے بڑا گہرا ربط ہے ۔ عقیدہ توحید کوئی ریاضی کا فارمولہ نہیں کہ جو اپنی جگہ بالکل درست ہو لیکن ا س کا دل و دماغ پر کوئی اثر نہ ہو حقیقت یہ ہے کہ عقیدہ توحید کی اپنی ایک لذت اور حلاوت ہے عقیدہ توحید دل میں ایک طلاطم پیدا کرتا ہے ایک ذمہ داری کا احساس دلاتا ہے عقلی شعوری محبت پیدا کرتاہے روحانی تسکین سے بہر ہ ور کرتا ہے عقیدہ توحید سب سے بڑی محبت کا حق دا ر اللہ تعالی کی ذات کو قرار دینا ہے اور سب سے بڑی نفرت کا مستحق طاٖغوت کو گردانتا ہے ۔
عقیدہ توحید کے کرداری پہلو کے بارے میں :
ہم یہ کہیں گے کہ عقیدہ توحید صرف عقل و حواس کی ہی تسکین کا نام نہیں بلکہ یہ ایک خاص کردار پر اکسانا ہے۔ ایک خاص رویہ و عمل پر محبور کرتا ہے اگر عقیدہ توحید کا مطلوب کردار ادا نہ کیا جائے تو بسا اوقات انسان توحید کا علمبردار نہیں رہ سکتا ۔یعنی بعض علمی امور ایسے ہیں کہ ان کا تعلق عقیدہ توحید سے لازم ملزوم کا ہے۔
اللہ تعالی کسی نقل و حرکت کسی محنت و کوشش کا رنامہ زندگی کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں جو عقیدہ توحیدکے پس منظر میں نہ کیا جائے عمل اور کارنامہ زندگی وہی مقبول ہے جس میں اللہ تعالی کے علاوہ اور کسی کہ رضا و خوشنودی مطلوب نہ ہو ۔عمل مصروفیت اور تھکاوٹ وہی اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے جو آخرت کے ذخیرے کیلئے بجا لائی گئی بظاہر دنیوی زندگی کہ روٹی کپرا مکان کے حصول کی محنت بھی آخرت کی طلب اطاعت الہی و عبادت و بندگی کرنے والے جسم کی بقاکی کوشش ہے ۔
ہم اپنے اس مضمون میں فقط توحید کے حسی و قلبی پہلو کو ہی بیان کریں گے ۔
محبت اور زندگی کے ہر ہر جز و پر محیط ہے :

زندگی کا ہر عمل اپنے پس منظر میں کوئی نہ کوئی محرک رکھتا ہے زندگی کی بھاگ دوڑ شب و روزکی مصروفیات کے پس منظر میں ایک خاص قلبی و طنعی رحجان ہوتا ہے جو ہمارے تمام اعمال کو کنٹرول کرتا ہے ہماری ذہنیت طرز فکر انداز غور و فکر ہماری زندگی کے تمام چھوٹے بڑے عمل کو ایک خاص رخ دینا ہے جو کہ ہماری ذہنیت کے عین مطابق ہوتا ہے ۔
زندگی کے تمام اعمال کو ایک خاص سمت میں چلانے والی قوت محرکہ ذہنیت اور طرز فکر دراصل کوئی نہ کوئی محبت اور نفرت ہوتی ہے جو تمام اعمال زندگی کو منظم کرتی ہے ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی محبت یا لالچ کی خاطر مصروف عمل ہے اور کسی نہ کسی نفرت یا خوف کی خاطر بچنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ہمارا ہر عمل کسی خاص چیز فرد گروہ قوم ذات کی محبت سے متاثر ہو کر وجود میں آتا ہے یا کسی خاص چیز فرد گروہ قوم ذات سے بغض و نفرت سے متاثر ہو کر کسی عمل سے اجتناب کرنا ہے ۔
محبت اور نفرت زندگی کے ہر شعبے میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔ہمیں کن نظر یات سے لگاؤہے اور جب نظریات کو ہم لغو قرار دیتے ہیں ادب تعلیم و تعلم میں ہم کس زاویے کو پسند کرتے ہیں اورکون سے رحجانات ہمارے لئے ناپسند ہیں عائلی زندگی طرز معاشرت گھرکی آرائش و زیبائش میں ہمارے میلانات کیا ہیں صحت تفریحات خانگی زندگی ورزش اور حجم خانہ کے حوالے سے ہمارے تاثرات کیا ہیں کھیل لباس بول چال اور نامور پسند یدہ سیاستدان و اداکاروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور کیا کہتے ہیں ملکی و عالمی سطح کی سیاسی و فوجی کشمکش میں آپ کو دلچسپی لینی چاہئے یا ایک محدود گھر بار کی ہی زندگی میں مصروف رہنا چاہیے یہ تمام امور ہماری محبتوں نفرتوں پسند و نا پسند کے عکاس ہوتے ہیں اور ان تمام میلانات رحجانات پسند و نا پسند کے بیچ میں ہے فقط ایک ہی بہت بڑی محبت اور ایک ہی بہت بڑی نفرت ہوتی ہے جس کو نظریہ حیات (آئی ڈیالوجی ) کہتے ہیں ۔
نظریہ حیات سے محبت، زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے

زندگیوں کی چہل پہل زندہ لوگوں کی نقل و حرکت مصروفیات سے بھر پور افراد کہ سب سے بڑی ضرورت ان کا اپنا اپنا نظرہی حیات ہے جو ہر شخص کو اپنی اپنی جان مال عزت و آبرو سے بھی پیارا ہے۔
ایک شخص خوارک کے بغیر کئی دنوں تک زندگی گزار لے گا پانی نہ ملے تو بھی دن زندہ رہ لے گا ہوا کے بغیر بھی چند لمحات زندہ رہ لے گا لیکن یہ کبھی گوارہ نہ کرے گا کہ فقط ایک لمحہ کیلئے اپنے نظریہ حیات کو بدل لے فقط ایک لمحے کے لئے اپنی زندگی کی سب سے بڑی وفاداری بے وفائی میں بدل لے اور کبھی دوسرے لمحے بھی وفادار بن جائےوفاداری کی تبدیلی ایک ایسا سوہان روح قدم ہے کہ انسان یہ تو گوارہ کر سکتا ہے کہ اس کی دماغ کی رگ بھی جائے حرکت قلب بند ہو جائے سانس کی ڈوری منقطع ہو جائے لیکن یہ کبھی گوارہ نہ کرے گا کہ فقط چند لمحات کیلئے وفاداری کے قلبی رحجانات نفرت میں بدل دے اور کچھ وقت کے بعد وفادار بن جائے جو لوگ سیاسی پارٹیوں قومو ں اور وطن سے وفاداری توڑ لیتے ہیں در حقیقت وہ وفاداری توڑتے نہیں بلکہ وہ قلبی طور پر شروع سے ہی اپنی ذات سے باوفاہوتے ہیں اور اس کو پوج رہےہوتے ہیں تو ان کی اپنی ذات سے وفاداری نہیں ٹوٹتی اور قوم سے محبت سیای پارٹی کے منشور اتفاق فقط ایک دھوکہ ہوتا ہے ۔
ایک مواحد انسان کبھی یہ گوارہ نہیں کرے گا کہ ایک لمحے کیلئے توحید کو چھوڑ دے اور پھر دوسرے لمحے توحید اپنا لے چاہے اسے دنیا کی بادشاہت ملتی ہو ایک مشرک انسان کبھی یہ نہیں چاہئے گا کہ ایک لمحہ کیلئے اپنے محبوب ترین الہ کو چھوڑ دے اور پھر اس کو اپنا لے چاہے اس کو جتنا بڑا لالچ دیا جائے ایک سیکولر کبھی دین پرست نہیں ہو سکتا چاہے چند لمحو ں کا مطالبہ ہو اور ایک دین پرست کبھی سیکولر نہیں ہوسکتا۔
ایک قوم پرست کبھی وسیع النظر غیر جانبدار محب انسانیت نہیں ہو سکتا اور محب انسانیت کبھی قوم پرست نہیں ہو سکتا چاہے چند گھڑیوں کا تقاضا ہو تمام مذاہب و ادیا ن سے دوستی کا دم بھر نے والا سیکولر انسان کسی ایک مذیب میں راسخ العقیدہ نہیں ہو سکتا اور راسخ العقیدہ مسلمان کبھی تمام مذاہب کو برابر قرار نہ دے گا ۔
آخرت کا یقین کرنے والا ایک لمحے کیلئے بھی آخرت کا انکار نہیں کر سکتا اور دنیا کو ہی کل زندگی کا اول و آخر ماننے والا یقین آخر ت پر راسخ العقیدہ نہیں ہو سکتا ۔
مادی سوچ کا حامل کبھی روحانی طرز فکر نہیں اپنا سکتا اور روحانی طرز فکر کا انسان کبھی مادی سوچ کو پسند نہ کر یگا ۔
اپنی ذات کا وفا دار کبھی ملک و قوم کی خاطر جان دینے کا تہیہ نہیں کرسکتا اور ملک و قوم کا سچا وفادار ملک و قوم سے ٖغداری کر کے اپنی جان کا ہی بھلا سوچے ،یہ محال ہے جھوٹے دعوؤں کا امکان اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن عین دل کی وفاداری ازخود بدلنا انسان کے انسانی وجود کی موت ہے اور جو وقتی اور طوفانی جذبات کے تحت کبھی اپنےنظریہ حیات سے معمولی سے بھی بغاوت کر بیٹھتے ہیں ان کا شمار نہ زندوں میں ہوتا ہے اور نہ مردوں میں وہ ایک لمحے کے اندر سینکڑوں دفعہ مرتے ہیں اور سینکڑو ں مرتبہ جیتے ہیں ضمیر کی خلش نفس کی ملامت ذہن کا اخلاقی ددبا ؤ اس قدر زیادہ ہو تا ہے کہ زندگی کی کوئی بڑی سے بڑی خوشی لطیف نہیں دیتی جس نفس کی تسکین کیلئے نظریہ حیات سے بغاوت کی وہی نفس کچھو کے لگا تا ہے اور ادھ موا کر دیتا ہے ۔
نظریہ حیات سے محبت انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے ایک انسان اور حیوان کے درمیان فرق بھی اتنا ہے کہ انسانوں کا ایک مستقل طرز فکر طرز زندگی اور نظریہ حیات ہوتا ہے جبکہ حیوان غور فکر سے ہی عاری ہوتا ہے نطریہ حیات سے عارضی طوت پر وفاداری منقطع کر نا ایک محال امر ہے البتہ ایک نظریہ حیات کو مکمل طور پر ترک کے دوسرے نظریہ حیات کو مستقل طور پر ہمشہ کیلئے اپنا لینا ممکن ہو تا ہے مثلا کبھی کبھار ایک مشرک ہدایت الہی پر ہمیشہ کیلئے شرک کو ترک کر دیتا ہے سیکولر ہمیشہ کیلئے دین پرست بن جاتا ہے قوم پرست ہمشیہ کیلئے قوم پرستی سے تائب ہو جاتا ہے ۔
میرا نظریہ حیات
۔۔۔عقیدہ توحید دین پرستی آخرت طلبی میر ی زندگی کی بقا کی سب سے بڑی ضرورت ہے میں اگر آپ کو چلتا پھرتا نظر آ رہا ہوں تو فقط اس سہارے پر کہ میں اللہ کا وفادار بن کر زمین کی سطح پر رینگ رہا ہوں اللہ کی وفاداری سے تعلق منقطع کرنا میری رگ حیات کو کاٹ دینے کے مترادف ہے اللہ کے نام سے مٹ کر کسی کےنام پر زندگی گزارنا مجھے قبول نہیں اس کے بدلے مجھے زندہ دفن کر دینا زیادہ محبوب ہے اللہ تعالی مجھے ہمیشہ فکری انتشار عقیدہ کے بگاڑ ذہنی و قلبی تعفن سے محفوظ رکھے ۔
ہماری تمام محبتوں اور فعلیتوں کا مرکز عقیدہ تو حید ہے
انسانیت کا خالق اور مالک اللہ تعالی ہے اس نے انسانیت کی تخلیق فقط اس لئے کی ہے کہ لوگ فقط اسی کی عبادت کریں اس کے سامنے بندگی عجزو انکسار اور محبت و خشیت کا اظہار کریں اور کسی کیلئے اللہ کے حقوق کو روا نہ سمجھیں اسی چیز کا پیغام لے کر انبیا ء اپنی امتوں کی طرف بھیجے گئے تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت یہی تھی اور اسی بنیاد پر خیرو شر نیکی اور بدی توحید و شرک کے معرکے بپا ہوئے اور اسی بنیاد پر ہم کہیں گے کہ ہماری تمام تر محبتوں اور فعلیتوں کا مرکز عقیدہ توحید ہے ۔
عقیدہ توحید ہماری زندگی کا مرکز ومحور ہے کہ ہماری زندگی کے تمام چھوٹے بڑے کام صرف اور صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی طلب کے سات متعلق ہی ہماری زندگی کا اولین مقصد نہ تو دنیا طلبی ہے اور نہ ہی کسی مادی فائدے کا حصول ۔
عقیدہ توحید ہماری ہمارے بچوں اور ہمارے اہل خانہ کی دنیوی اور اخروی فلاح کا ضامن ہے اور ہماری اہل خانہ سے محبت فقط اللہ کی خاطر ہے ۔
عقیدہ توحید کے احیاء کیلئے ہماری سیاست اور دعوت ہے۔
عقیدہ توحید کہ خاطر ہم یورپ کی مادیت پرست تہذیب سے نفرت کرتے ہیں ۔
عقیدہ توحید کی وجہ سے ہم تمام عالمی ادیان ہندومت یہودیت عیسائیت سے برات کا اظہار کرتے ہیں ۔
برادری کے اندر اور رشۃ داروں کے انداز اور رشۃ داروں کے اندر ہمارے تعلقات اور ناطے فقط اللہ کی رضا اور عقیدہ توحید پر مبنی ہیں ہماری خندہ پیشانی بھی اللہ کی اجازت سے ہے اور ہماری سرد مہری بھی ہم زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح کی بنیاد عقیدہ توحید کو مانتے ہیں جو تحریکیں توحید کی بنیاد پر اصلاح تذکیر اور انقلاب کیلئے کوشاں ہیں ہمیں ان سے محبت ہے اور جو قومیت نسل زبان کے اشتراک پر اکٹھے ہوتی ہیں ہم ان سے جدا ہیں جو گروہ جس قدر عقیدہ توحید سے قریب ہے اسی قدر اس سے ہماری محبت ہے جو گروہ جس قدر عقیدہ توحید سے دور ہے اسی قدر ہم اس سے بیزار ہیں۔
ہماری دعوت اور زندگی کی جدوجہد کا ماحاصل عقیدہ توحید ہے چاہے ہم دکان پر بیٹھیں یا کھیتوں میں ہل چلائیں کالج و سکول میں تدریس کریں یا بازار میں ریڑھی لگا ئیں۔
ہماری تعلیم و تربیت عقیدہ توحید سے وابستہ ہے ہمارے نزدیک نظام تعلیم کا اولین مقصد وہ موحد پید ا کرنا ہے جو زندگی کے ہر شعبہ کو اللہ کی رضا کی روشنی میں دیکھے ۔
ہماری سیاست و معیشت اللہ کے تصور سے خالی نہیں ہو سکتی ۔
ہماری عبادت اور اللہ سے تعلق کے تمام افعال عقیدہ توحید سے وابسۃ ہیں عقیدہ توحید ہماری قلبی روحانی ظاہری جسمانی باطنی تمام قوتوں کا مرکز و محور ہے ہمیں وہ کمزور اور نحیف انسان محبوب ہے جو اپنے دنیوی معاملات میں اگرچہ پھو ہڑ اور گنوار ہے لیکن و پانچ وقت اللہ کے حضور سرجھکاتا ہے اور وہ شخص جو انتہائی شائستہ اور مجلسی آداب کا خیال رکھنے والا ہے لیکن اللہ کے ہاں سر جھکانے کیلئے تیار نہیں ہمیں کسی طرح محبوب نہیں ہو سکتا ۔
درود سلام محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر​

کتابچے کی پی ڈی ایف فائل کا لنک: عقیدہ توحید ہی سرمایہ حیات ہے
 
Top