• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ طائفہ منصورہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حاکمیت ِالٰہی:
14) جس طرح خلق و تخلیق کی صفت اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے، اسی طرح مخلوق میں حکم اور فیصلے کا استحقاق بھی اسی کو حاصل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی نے مخلوق تخلیق فرمائی ہے اور وہی سب سے زیادہ یہ علم رکھتا ہے کہ اس کی مخلوق کے لیے کون سی شے مناسب اور موزوں ہے۔پرورد گارِ عالم کا امر، تکوینی اور تشریعی، ہر دو پہلوؤں کو محیط ہے۔ جس طرح تکوین و تقدیر کے دائروں میں حکم و فیصلے کا اختیار صرف اللہ عزوجل ہی کو حاصل ہے، یعنی وہ اس کائنات کا مدبر ہے اور اپنی حکمت کے تحت جو چاہتا ہے، فیصلے فرماتا ہے، اسی طرح ہم تشریع و تحکیم میں بھی اسی کو یکتا قرار دیتے ہیں۔ ہم اس کے حکم و فیصلے میں کسی کو شریک و دخیل مانتے ہیں اور نہ ہی اس کی عبادت میں کسی کو حصہ دار ٹھیراتے ہیں۔، لہٰذا اللہ رب العزت کی مخلوق اور بادشاہی میں صرف اسی کا حکم نافذ ہوگا، اس کے سوا ہر ایک کا حکم و امر باطل ، مردود اورمسترد کیے جانے کے لائق ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (الاعراف54:7)
’’ خبرداررہو اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔ ‘‘

پس حلال وہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے حلت کی سند عطا کی ہے اور حرام وہ ہے، جسےاللہ نے حرمت سے متصف کیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِۭاَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (یوسف12:40)
’’ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘

اللہ سجانہ و تعالیٰ ہی بر حق شریعت ساز ہے، ہم اس کے سوا ہر شریعت ساز سے اظہار براء ت کرتے، اس کے خلاف اعلان بغاوت کرتے اور اسے کافر ٹھہراتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی رب کے خواہش مند ہیں، نہ اس کے سوا کسی کو اپنا کار ساز مانتے ہیں اور نہ ہی اسلام کے سوا کسی دین کے طالب ہیں۔ جو اللہ عزوجل کے علاوہ کسی دوسرے کو حَکَم و فیصل اور قانون ساز تسلیم کرتا، شریعت الٰہی کے منافی اس کے قوانین کی پیروی کرتا اور تشریع و تقنین میں اس کی موافقت کرتا ہے، گویا وہ غیر اللہ کو رب قرار دیتا اور اسلام کے سوا کسی اور دین کا طلبگار ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـِٕہِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْۚوَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَ (الأنعام:121:6)
’’شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں، تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں، لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کر لی، تو یقینا تم مشرک ہو۔‘‘

نیز فرمایا:
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ (التوبۃ31:9)
’’انہوں نے اللہ کے سوا اپنے فقیہوں اور راہبوں کو رب بنا ڈالا۔‘‘

٭ اسی کا حکم عدلِ مطلق اورحق ِ مطلق ہے۔ وہی سب سے اچھا، سب سے خوبصورت اور سب سے زیادہ مفید و نافع ہے۔ اسی کی پیروی لازم ہے، اس کے مخالف ہر شے باطل اور مردود ہے، نیز وہ جاہلیت کا فیصلہ ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ (المائدہ50:5)
’’ تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں،ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘

نیز ارشاد ِ ربانی ہے:
وَاللہُ يَقْضِيْ بِالْحَقِّۭوَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ لَا يَقْضُوْنَ بِشَيْءٍ (المومن 20:40)
’’ اور اللہ ٹھیک ٹھیک بے لاگ فیصلہ کرے گا۔ رہے وہ جن کو ( یہ مشرکین ) اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں وہ کسی چیز کا بھی فیصلہ کرنے والے نہیں ہیں۔‘‘

٭ ہم الوہیت، ربوبیت اور اسماء و صفات میں اللہ رب العزت کی توحید و یکتائی کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ ہم اس کے قائل نہیں ہیں کہ تحاکم یا حاکمیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید، چوتھی یا پانچویں قسم کی توحید ہے۔ ہمارا اعتقاد تو یہ ہے کہ اس کے بعض پہلو تو حید الوہیت میں داخل ہیں، بعض توحید ربوبیت میں اور بعض کا تعلق توحید اسما ء و صفات سے ہے۔
توحید حاکمیت کی اہمیت
٭ ہم توحید کے اس پہلو کی اہمیت پر زور دیتے ہیں اور اس کا بہ طور خاص تذکرہ کرتے ہیں کیونکہ ہمارے اعتقاد کی رو سے عصرِ حاضر میں امت مسلمہ اسی جہت سے فتنے کا شکار ہے کہ حاکمیت میں اللہ رب العزت کی وحدانیت و یکتائی اور توحید کی مخالفت کی جارہی ہے اور اللہ عزوجل کے حکم و شریعت سے روگردانی کر کے طاغوت کے فیصلوں اور قوانین کو اپنایا جا رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دین برحق:
٭ ہم اس امر پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔ یہی تمام انبیا ء و رسل علیہم السلام کا دین ہے۔ یہی سیّدناابراہیم علیہ السلام کی ملت ہے، جو یکسو تھے اور کبھی بھی شرک سے آلودہ نہ تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ
’’ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ ‘‘

نیز فرمایا:
وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْہُۚوَھُوَفِي الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ(آل عمران 85:3)
’’ اس اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نا مراد رہے گا۔ ‘‘

15) پیغمبروں یا آسمانی مذاہب کے مابین جو اختلاف تھا وہ صرف شریعتوں میں تھا، عقائد اور اصول میں کوئی فرق نہ تھا۔اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًاۭوَلَوْ شَاۗءَ اللہُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ(المائدہ 48:5)
’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی۔ اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بھی بنا سکتا تھا، لیکن اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عقیدہ توحید کے اثرات و ثمرات:
توحید کی بہ دولت موحد، جنت میں داخل ہو گا اور جہنم سے نجات پائے گا، جیسا کہ سیدنامعاذ بن جبل رحمہ اللہ سے مروی حدیث میں ہے کہ بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ اگر وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھیرائیں، تو وہ انھیں دوزخ سے بچا کر جنت کا داخلہ عطا فرمائے۔

عقیدہ توحید سے رب کریم کی تعظیم و اجلال کا احساس دل میں پیدا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کمال و جلال سے روشناس ہوتا ہے اور اسے ہر نوع کی شبیہ و نظیر سے منزہ اور پاک قرار دیتا ہے۔

تصور توحید سے ان لوگوں کی جہالت و حماقت سے بھی آگاہی ہوتی ہے، جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں، نیز عبادت اور حکم و تشریع (قانون سازی) میں انھیں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھیراتے ہیں۔

کچھ لوگ اللہ رب العزت کی بعض صفات میں، خود اپنے آپ ہی کو اس کا ساجھی سمجھتے ہیں، حالانکہ کہ نہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلق و تخلیق میں شریک تھے اور نہ کائنات کی ملکیت و رزق اور تدبیر و انتظام ہی میں ان کا کوئی حصہ ہے۔ عقیدہ توحید سے ان کے تصوراتِ باطلہ بھی یکسر منہدم ہو جاتے ہیں۔

عقیدہ توحید سے حریت فکر و نظر نصیب ہوتی ہے اور انسان مخلوق کی غلامی و بندگی سے نجات پاتا ہے۔

توحید کے نتیجے میں انسان دنیا و آخرت میں شجاعت و استقامت کی نعمت سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ ایک شخص جو مختلف الاغراض آقاؤں کی بندگی کرتااور انھیں پکارتا ہے، کسی سے ڈرتا اور کسی سے امیدیں وابستہ کرتا ہے، یہ کسی طور اس شخص کی مانند نہیں ہو سکتا، جو اپنے رب کو تنہا و یکتا گردانتا ہے، اسی کا خوف رکھتا اور اسی سے امیدیں باندھتا ہے۔ وہ رب ذوالجلال ہی کو اپنے قصد واردہ کا مرکز و محور قرار دیتا اور اسی کی عبادت بجا لاتا ہے۔

اے اللہ! اے اسلام اور مسلمانوں کے آقا! ہمیں اپنی توحید پر ثابت قدم رکھنا، تا آنکہ ہم تجھ سےتیری رضا کی سعادت حاصل کرسکیں!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فرشتے


ہم فرشتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ فرشتے اللہ کے مقر ب بندے ہیں، وہ اس کے آگے بات میں پہل نہیں کرتے اور اس کی حیثیت سے لرزاں رہتے ہیں۔ وہ شب و روز اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، ذرا دم نہیں لیتے۔

ہم فرشتوں سے محبت و دوستی رکھتے ہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے لشکر ہیں اور اہل ایمان کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ جو لوگ فرشتوں سے بغض و نفرت کااظہار کرتے ہیں، ہم ان سے دشمنی رکھتے ہیں۔

فرشتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں جبریل (روح الامین)، میکائیل اور اسرافیل (جن کے ذمہ صور پھونکنا ہے) شامل ہیں۔ اسی طرح اور بھی بہت ہیں، مثلاً: عرش اٹھانے والے، ملک الموت(موت کا فرشتہ) ،منکر نکیر، مالک (دارو غۂ جہنم) رضوان (دربان جنت)، ملک الجبال(پہاڑوں کا فرشتہ)، الکرام الکاتبین، ان کے علاوہ بھی لاتعداد ہیں، جنھیں اللہ کے سوا کوئی شمار نہیں کر سکتا۔

واقعہ معراج کے ضمن میں، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ آسمان میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے ’بیت المعمور‘ لایا گیا، جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور جوایک مرتبہ نمازپڑھ کروہاں سے نکلتاہے، دوبارہ کبھی واپس نہیں آتا۔ (بخاری:۳۸۸۷،مسلم:۱۶۴)

ام المومینن سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
خُلِقَتِ الْمَلَائِکَۃُ مِنْ نُّوْرٍ، وَّ خُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ، وَّخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لکُمْ. (مسلم:5314)
’’فرشتے نور سے پیدا کیے گئے، جنوں کی تخلیق شعلہ آتش سے ہوئی اور آدم علیہ السلام کی پیدائش اس چیز سے ہوئی، جو تمھیں بتا دی گئی، یعنی مٹی۔‘

کبھی کبھار اللہ کے حکم سے فرشتہ انسانی روپ بھی دھار لیتا ہے، جیسا کہ قصہ مریم رضی اللہ عنہا اور حدیث جبریل میں ہے کہ جنابِ جبریل علیہ السلام نےرسول اللہ ﷺ سے اسلام، ایمان اور احسان کے بارے میں دریافت کیا تھا۔

رہی فرشتوں کی حقیقی شکل و صورت، تو اس سے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ وہ فرشتوں کو پیغام رساں بناتا ہے، جن کے دو دو، تین تین اور چار چار پر ہوتے ہیں، وہ خلق میں جو چاہے اضافہ کر دیتا ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ احادیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو ان کی اصل صورت میں دیکھا، تو ان کے چھ سو (600) پر تھے، جنھوں نے افق کو ڈھانپ رکھا تھا۔

ایمان با لملائکہ کے ثمرات و فوائد:
فرشتوں پر ایمان سے قلب و ذہن پر رب ذوالجلال کی تعظیم کا نقش مرتسم ہوتا ہے کہ مخلوق کی عظمت، خالق کی بڑائی پر دلالت کناں ہے۔

انسان اللہ تعالیٰ کے ان فرشتوں سے حیا کرتا ہے، جو ہمہ وقت اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور اللہ کی نافرمانی سے رک جاتا ہے۔

ایمان بالملائکہ، ایسے مومن کے لیے استقامت و شجاعت کا باعث ہے، جو حالت غربت میں ہے۔ وہ قلت ِانصار و اعوان کی بنا پر اپنے آپ کو مصائب میں گھرا ہوا محسوس نہیں کرتا، کیونکہ یہ امر ہمیشہ اس کی نگاہ میں رہتا ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ محافظ اس کے ساتھ ہیں۔

سیدنا ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا نَادَی جِبْرِیْلَ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحْبِبْہُ، فَیُحِبُّہٗ جِبْرِیْلُ، فَیُنَادِیْ جِبْرِیْلُ فِیْ أَھْلِ السَّمَائِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبَّ فُلَانًا فأحِبُّوْہُ، فَیُحِبُّہٗ أَھْلُ السَّمَائِ، ثُمَّ یُوْضَعُ لَہٗ الْقُبُوْلُ فِی الْاَرْضِ. (بخاری:2970)
’’اللہ رب العزت جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے، تو جبریل سے فرماتا ہے کہ فلاں سےمیں محبت کرتا ہوں، پس تو بھی اس سے محبت کر، تو جبریل اس سے محبت کرتے ہیں، پھر جبریل اہل آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ بلا شبہ فلاں شخص سے اللہ محبت فرماتا ہے، تو تم بھی اس سے محبت کرو۔پس آسمان میں بسنے والے اس سے محبت کرتے ہیں اور زمین کے باشندوں کے ہاں اسے مقبولیت عطا کردی جاتی ہے۔‘‘

پس ایک مومن پر لازم ہے کہ وہ اس شخص کے لیے محبت و ولایت کے جذبات رکھے، جسے اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اور اہل ایمان کی ولایت و محبت حاصل ہے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں سے بغض و عداوت اور براء ت کا اظہار کرے، جن سے اللہ رب العزت، ملائکہ اور اربابِ ایمان نفرت کرتے ہیں، اس لیے کہ یہ ایمان کی سب سے مضبوط و پختہ کڑی ہے!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آسمانی کتابیں


اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں پر جو کتابیں نازل کی ہیں، ہم ان سب پر اجمالی ایمان رکھتے ہیں اور جن کتابوں کا اس نے نام لیا ہے، مثلاً: تورات، انجیل، زبور، ان پر ہمارا تفصیلی ایمان ہے۔

ہمارا ایمان ہے کہ قرآن عظیم،اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ یہ حقیقی طور پر پرورد گار عالم کا کلام ہے، جسے لے کر روح الامین، محمد ﷺ پر اترے، تاکہ آپ ﷺ خالق کائنات کے رسولوں میں شامل ہو جائیں۔ قرآن حکیم تمام کتب ِ سماویہ کا محافظ و نگہبان ہے۔

قرآن شریف، اللہ عزوجل کی جانب سے نازل شدہ ہے۔ یہ مخلوق نہیں ہے اور نہ ہی مخلوق کا کوئی کلام اس کی برابری کر سکتا ہے۔ جو یہ کہتا ہے:
اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ (المدثر25:74)
’’یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔‘‘
وہ کفر کا مرتکب ہے اور اگر اس سے رجوع کر کے تائب نہیں ہوتا، تو اس پراللہ تعالیٰ کی یہ وعید صادق آئے گی:
سَاُصْلِيْہِ سَقَرَ (المدثر26:74)
’’عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا۔‘‘

ہم اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام سے اس طرح گفتگو کی، جس طرح گفتگو کی جاتی ہے۔

ہمارا ایمان ہے کہ رب کریم نے اپنی کتاب کو ہر قسم کے تبدل و تغیر سے محفوظ رکھا ہے۔
فرمان الٰہی ہے:
اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر9:15)
’’یہ ذکر ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘

ہم اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کے ذریعےانذار و تنبیہ کی ہے ،
چنانچہ فرمایا:
وَاُوْحِيَ اِلَيَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِہٖ وَمَنْۢ بَلَغَۭ (الانعام19:6)
’’یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے، تاکہ تمھیں اور جس جس کو یہ پہنچے سب کو متنبہ کر دوں۔‘‘

ہم اس امر پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہی وہ پختہ سہارا اور مضبوط رسی ہے، جسے تھامنے والا نجات سے بہرہ مند ہوتا ہے اور جو اس سے اعراض کرتا، اسے چھوڑتا اور پس پشت ڈالتا ہے، وہ راہِ ہلاکت پر گامزن ہو جاتا ہے۔ اس کے قدم راہ راست سے پھسل جاتے ہیں اور وہ کھلی گمراہی میں جا پڑتا ہے۔

ایمان بالکتب کے ثمرات و فوائد

کتب سماویہ پر ایمان کی بدولت دل میں کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا داعیہ کروٹ لیتا ہے۔ اس کے احکام و اوامر کی تعظیم قلب و ذہن میں گھر کرتی ہے اور اس پر عمل کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، نیز انسان اس کے ایک حصے کو دوسرے سے ٹکرانے کے درپے نہیں ہوتا۔

اسی کا اثر ہے کہ انسان پختہ کار اربابِ علم کے طریق کار پر چلتے ہوئے قرآن کی متشابہ آیات پر ایمان لاتا ہے اور انھیں محکم آیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انبیا ء و رسل


ہم اللہ رب العزت کے ان تمام نبیوں اور رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، جن کی خبراللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم ﷺ نے اپنی سنت کے ذریعہ دی ہے، خواہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے احوال بتائے ہیں یا نہیں۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان تفریق روا نہیں رکھتے۔
تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی اصل و اساس ایک ہی ہے،
جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل36:16)
’’اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول اس دعوت کے ساتھ بھیجا کہ اللہ ہی کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو۔‘‘

نیز فرمایا :
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ(الانبیاء25:21)
’’اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھی بھیجے، ان کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔‘‘

پیغمبروں کے ذمہ صراط مستقیم کی جانب رہنمائی کرنا ہے، رہا دلوں کو راہ ہدایت پر گامزن کرنا، تو یہ ان کے اختیار میں نہیں، کہ دل رحمن کی انگلیوں میں ہیں، وہ جیسے چاہتا ہے، انھیں پلٹتا ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہدایت دو قسموں پر ہے:

ہدایت دلالت:
ایک ہدایت یہ ہے کہ صراطِ مستقیم کی جانب رہنمائی کی جائے، یہ ابنیا ءو رسل علیہم السلام اور داعیان دین کے بس میں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ. (الشوریٰ52:42)
’’اور بے شک تم ایک سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کررہے ہو۔‘‘

ہدایت توفیق:
دوسری قسم، ہدایت توفیق و تسدیدہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ طالب ہدایت کو جادئہ حق پر چلنے کی توفیق عطا کی جائے۔ اس پراللہ کے سوا کسی کو قدرت حاصل نہیں ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّكَ لَا تَہْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاءُ (القصص56:28)
’’تم جن کو چاہو، ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے۔‘‘

نیز فرمایا:
لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ (البقرۃ272:2)
’’ان کو ہدایت دینا تمھارے ذمہ نہیں ہے…‘‘

ہدایت کی یہ قسم اللہ کریم کے خصوصی فضل اور عدل کا مظہر ہے اور وہ اسی شخص کو اس سے بہرہ مند کرتا ہے، جس سے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ حق کا طالب اور اسے قبول کرنے کا خواہش مند ہے۔
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَـنَہْدِيَنَّہُمْ سُـبُلَنَا (العنکبوت69:29)
’’اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں جھیل رہے ہیں، ہم ان پر اپنی راہیں ضرور کھولیں گے۔‘‘

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
وَمَنْ یَتحَرَّ الْخَیْرَ یُعْطَہ. (السلسلۃ الصحیحۃ:342)
’’جو شخص خیر کے لیے کوشش کرتا ہے، اسے خیر عطا کر دی جاتی ہے۔‘‘

رہی ہدایت کی پہلی قسم، تو یہ رب کریم کا عدل اور اس کی رحمت ہے کہ اس کی فیض رسانی تمام مخلوق کے لیے عام ہے۔

ہم انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات پر ایمان رکھتے، ان کے حقوق کی پاسداری کرتے اور ان کا ادب و احترام بجا لاتے ہیں۔ ہم کسی شخص کو ان پر فضلیت نہیں دیتے، خواہ وہ زمانے کا ولی ہو یا وقت کا امام!

بشریتِ انبیاء:
تمام تر عظمت و جلالت کے باوصف انبیائے کرام علیہم السلام بہ ہر آئینہ مخلوق ہیں اور جنس بشر سے تعلق رکھتے ہیں۔ خصائص ربوہیت و الوہیت میں ان کا کچھ حصہ نہیں ہے، بلکہ ان میں انسانوں ہی کی خصوصیات ہوتی ہیں، مثلاً گاہے وہ بیمار ہوتے ہیں، دنیائے فانی کو الوداع کہہ کر داربقا کی جانب کوچ کرتے ہیں، اور انھیں کھانے پینے کی بھی احتیاج ہوتی ہے۔
اللہ عزوجل نے اپنے پیغمبر محمد ﷺ کو حکم دیا ہے کہ:
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاءَ اللہُۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْـتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْءُاِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ(الاعراف188:7)
’’کہہ دو: میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع و نقصان پر کوئی اختیار نہیں رکھتا، مگر جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب جانتا ہوتا، تو خیر کا بڑا خزانہ جمع کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچ پاتا۔ میں تو بس ان لوگوں کے لیے ایک ہوشیار کرنے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں،جو ایمان لائیں۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسالت ِ محمدﷺ


20) ہم اس امر پر ایمان رکھتے اور اس کی شہادت دیتے ہیں کہ سیدنا محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ اللہ کے حبیب و خلیل اور جملہ انبیا ء و رسل علیہم السلام کے سردار ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نےرسول اللہ ﷺکو تمام جہانوں اور کل جن و انس کے لیے رحمت اور بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ. (الانبیاء 107:2)
’’ اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘

نیز فرمایا:
تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَا (الفرقان:1:25)
’’ نہایت متبر ک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو۔ ‘‘

نیز فرمایا:
اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ (ص87:38)
’’ یہ تو ایک نصیحت ہے تمام جہان والوں کے لیے۔ ‘‘

پس رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے لے کر قیامت تک کے جن و انس میں سے جس نےنبی رحمت محمد ﷺ کا تذکرہ سنا، اس کے لیے آپﷺ کے سوا کسی کی اتباع کی گنجائش نہیں ہے۔ جس نے جناب رسالتمآبﷺ کا ذکر سنا، لیکن آپ ﷺ پر ایمان لایا اور نہ آپﷺ کی پیروی کی، تو وہ دوزخی ہے۔

ختم نبوت:
20) رسول کریم ﷺ خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں، آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ (الاحزاب:40:33)
’’مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں۔‘‘

جس نے آپﷺ کے بعد یہ گمان کیا کہ وہ نبی ِمرسل ہے ، وہ انتہا درجے کا جھوٹا، شیخی خور اور کافر و مرتد ہے۔

21) ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ رسول معظم ﷺ نے پیامِ رسالت پہنچا دیا، امانت ادا کر دی اور اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کر دیا۔ آپ پر پروردگار عالم کی رحمتیں اور سلامتی ہو۔

اسوئہ حسنہ:
22) رسول اللہ ﷺ ہمارے قائد و پیشوا اور ہمارے آئیڈیل ہیں۔ اللہ تک پہنچانے کے لیے آپ ﷺ ہمارے رہنما ہیں اور دنیا و آخرت کی ہر بھلائی تک پہنچنے کے لیے ہمارے لیے دلیل ِ راہ ہیں۔نبی کریم ﷺ نے ہمارے سامنے ہر اس شے کی وضاحت فرما دی اور اس کو اپنانے کا حکم دیاہے، جو ہمیں اللہ اور جنت کے قریب کر سکتی ہے۔ ہر وہ چیز جو ہمیں اللہ تعالیٰ سے دور اور جہنم سے قریب کرنے کا باعث ہے، نبی اکرم ﷺ نے اسے بھی کھول کر بیان کر دیا اور ہمیں اس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی ہے۔

آپ ﷺ نے ہمیں ایسے روشن راستے پر چھوڑا، جس کی رات بھی دن کی طرح چمکتی دمکتی ہے۔ اس سے وہی منحرف ہوتا ہے، جو ہلاک ہونے والا ہے۔ جو شخص آپ ﷺ کے طریقہ اور سنت کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے، نجات پاتا ہے اور جو آپ ﷺکی مخالفت کرتا اور آپ ﷺکی سنت سے منہ پھیر لیتا ہے، وہ بالیقین ہلاکت و بربادی کے گڑھوں میں جا گرتا ہے۔
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًا (الاحزاب:21:33)
’’ درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘

نیز فرمایا :
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْۭوَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ(آل عمران 31:3)
’’ اے نبی ! لوگوں سے کہہ دیجیے اگر تم حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اطاعت رسول ﷺ


23) نبی مکرم ﷺکی اطاعت و اتباع ان تمام امور میں واجب ہے، جو آپ ﷺنے اپنے رب کی طرف سے پہنچائے اور جن کا حکم دیا۔ جس نے نبی رحمت ﷺکی اطاعت کی، اس نے اللہ کی فرمانبرداری کی اور جس نے آپ ﷺکی نافرمانی کی، وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔
اللہ رب العزت فرماتا ہے:
وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ. (آل عمران 132:3)
’’ اور اللہ اور رسول کا حکم مانو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ ‘‘

نیز فرمایا:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ (النساء 59:4)
’’ اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی۔ ‘‘

نیز فرمایا:
وَاَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (الانفال 8:1)
’’ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔‘‘

اور فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ (محمد33:47)
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو بربادنہ کرلو۔ ‘‘

24) رسولِ اکرم ﷺ کی اطاعت میں یہ امر بھی شامل ہے کہ اپنےتنازعات و مقدمات آپﷺ اور آپ ﷺ کی سنت کی طرف لے جائے جائیں۔ جو آپ ﷺکے فیصلے یا سنت کو رد کرتا ہے، وہ فیصلہ الٰہی کو رد کرتا ہے اور جو اللہ عزوجل کے فیصلے کو رد کرنے کا مرتکب ہو، وہ کافر ہو جاتا ہے۔
رب کریم کا فرمان ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا(النساء 65:4)
’’ اے محمدﷺ تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔‘‘

ارشاد فرمایا:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِۭذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا (النساء 59:4)
’’پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔‘‘

اور فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِيْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ يُصِيْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ(النور 63:24)
’’ رسول ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یاان پر درد ناک عذاب نہ آجائے۔‘‘

اربابِ تفسیر کے حسب تصریح اس مقام پر فتنے سے شرک و کفر مراد ہے۔

نیز ارشادِ ربانی ہے :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْۭوَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا (الاحزاب 36:33)
’’ کسی مومن مرد اور کسی مومنہ عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
عصمت پیغمبرﷺ


25) ہر شخص، خواہ کتنا ہی بلند مرتبہ ہو، غلطی بھی کرتا ہے اوردرست فیصلے تک بھی پہنچتاہے، اس کی بات کو قبول بھی کیاجاسکتا ہے اور رد بھی، اس سے یہ کہنا بھی درست ہے کہ تو نے غلطی کی یا صحیح بات کی۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی اس سے مستثنیٰ ہے، آپ ﷺ کے بارے میں محض حق و صواب اور عدل و انصاف ہی کا تصور کیا جا سکتا ہے، کیونکہ آپﷺ اپنی خواہش نفس سے بات ہی نہیں کرتے۔
فرمانِ الٰہی ہے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىۭ اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى (النجم53:3-4)
’’ وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا، یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘

نیز فرمایا:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللہَۭاِنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْـہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ كَجَہْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(الحجرات1-2:49)
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ نبی ﷺ کے ساتھ اونچی آوازسے بات کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘

نبی رحمت ﷺ کے فرمان کی بنا پر دوسروں کے اقوال رد کیے جائیں گے، لیکن دیگر لوگوں کے اقوال کی بنیاد پر آپ ﷺ کے ارشاد کو ر د نہیں کیا جا سکتا ، خواہ وہ کتنی ہی بلندی مرتبت اور علوشان کے حامل ہوں۔

محبت و تعظیم رسول ﷺ :
٭ نبی کریم ﷺ سے محبت رکھنا اور آپﷺ پر درود بھیجنا واجب ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کی توقیر و تعظیم بجا لانا بھی لازم ہے، لیکن اس باب میں غلو اور بے ادبی سےاجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ رسول معظم ﷺ نے ہمیں اس سے روکا ہے۔
آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
لَا تُطْروْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ؛ فَاِنَّمَا أَنَا عَبْدُہٗ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ. (صحیح بخاری:3445)
’’مجھے میری حد سے اس طرح نہ بڑھانا جیسے عیسائیوں نے (عیسیٰ) ابن مریم کو بڑھادیا۔ میں تو فقط اللہ کا بندہ ہوں۔ پس تم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو۔‘‘

ایک مرتبہ آپﷺ نے ایک لڑکی کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:
وَفِیْنَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِیْ غَدٍ
’’ اور ہم میں ایسے نبی ہیں، جو آئندہ ہونے والے معاملات کا علم رکھتے ہیں۔‘‘
تو آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَقُوْلِیْ ھَکَذَا، وَقُوْلِیْ مَا کُنْتِ تَقُوْلِیْنَ. (صحیح بخاری:4001)
’’ اس طرح نہ کہو، بلکہ جوپہلے کہہ رہی تھی، وہی کہو۔‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
توہین رسالت


٭ جو شخص نبی مکرم ﷺ سے بغض رکھے ، یا آپ ﷺ کے دین اور حکم و فیصلے سے نفرت کرے یا آپ ﷺکو گالی دے یا آپ ﷺ کا مذاق اڑائے یا آ پ ﷺ کی قدرو منزلت کی تنقیص کرے، تو وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اللہ عزوجل فرماتاہے:
قُلْ اَبِاللہِ وَاٰيٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ كُنْتُمْ تَسْتَہْزِءُوْنَ۶۵لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ(التوبۃ 65-66:9)
’’ ان سے کہو کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ ، اس کی آیات اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ تھی؟ اب عذر نہ تراشو تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔‘‘

حجیت ِ سنت


٭ رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل واجب و لازم ہے، خواہ وہ آحاد ہو یا متواتر، اور یہ اصول و فروع اور عقائدو احکام سب میں حجت ہے۔

رہی یہ تفریق کہ مسائل اعتقاد میں حدیث متواتر پر تو عمل ہوگا، لیکن حدیث آحاد پر نہیں، تو یہ دین میں نوایجاد شدہ امور میں سے ہے۔ یہ اربابِ کلام اور خواہش پرستوں کا طرزِ عمل ہے۔ مزید برآں یہ دلیل شرعی سے متصادم اور اس طریق عمل کے برخلاف ہے، جس پر ہمارے سلف صالحین پہلے تین زمانوں میں کاربند رہے ہیں۔ شرع میں ان قرونِ ثلاثہ کی خیرو فضیلت کی شہادت دی گئی ہے۔

ایمان بالرسل کے ثمرات و فوائد

پیغمبروں پر ایمان کی بہ دولت اس امر کی معرفت حاصل ہوتی ہے کہ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں، کس قدر عظیم ہیں، نتیجتاً پرورد گار کے لیے سپاس و تشکر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی نکھر کر نظر و بصر کے سامنے آتی ہے کہ سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے انسانوں کی طرف پیغمبر بھیج کر، انھیں اپنی رحمت سے نوازا، تاکہ وہ راہ راست کی جانب ان کی رہنمائی کریں اور انھیں ان اسباب و ذرائع سے روشناس کرائیں، جن کے ذریعہ وہ جنت میں داخل ہو سکیں اور دوزخ کے عذاب سے نجات پا سکیں۔

ایمان بالرسل کا ایک ثمرہ یہ ہے کہ قلب و ذہن میں فر ستاد گانِ الٰہی کی محبت کے نقوش مرتسم ہوتے ہیں۔ ان کی تعریف و ستایش اور ان پر درود و سلام بھیجنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔

انبیاے کرام علیہم السلام کی اقتدا اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا داعیہ کروٹ لیتا ہے اور دل میں یہ احساس پروان چڑھتا ہے کہ ان کی سیرت و سنت اور دعوت الی اللہ کے باب میں ان کے منہج کی پیروی کی جائے۔
 
Top